• 13 جولائی, 2025

اشاعت توحید میں مراکز احمدیت کا کردار

قسط 1

خدا تعالیٰ کےرسل اور انبیاء کادنیا میں بنیادی کام قیام توحیداورتبلیغ واشاعت دین ہی تھا۔ انہوں نے دنیا پریہ حقیقت آشکار کی کہ ایک ہی معبود حقیقی اللہ ہے، اس کے سواکوئی معبود نہیں۔ چنانچہ تمام انبیاء نے اپنی اقوام کو عبادت الہٰی اور شرک سے اجتناب کی نصیحت فرمائی جس کا قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ذکر ہے۔ صرف ’’اعْبُدُوا اللَّهَ،اعْبُدُوا رَبَّكُمْ‘‘ کا ذکرہی قرآن کریم میں 21مقامات پر ہے۔ حضرت نوحؑ، حضرت ہودؑ، حضرت صالحؑ اور حضرت شعیبؑ نے اپنی اپنی قوم کے لوگوں کو جن مشترک الفاظ میں توحید الہٰی کے قیام کی نصیحت فرمائی، ان کا قرآن کریم میں نو مقامات پر ذکر یوں موجودہے: ’’اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ‘‘ (الأَعراف 60)

اللہ کى عبادت کرو اس کے سوا تمہارا اور کوئى معبود نہىں۔

پس انبیاء و رسل کا نصب العین قیام و اشاعت توحیدہوتا ہے اور وہ اپنی پوری زندگی اسی کا پرچار کرتے ہیں۔ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت خاتم النبیین محمدمصطفیٰ ﷺ کا مقصد حیات بھی قیام توحید اور اشاعت اسلام تھا ۔قرآن کریم کی سورة الجمعۃ میں آپ ﷺ کی بعثت کی چاراہم اغراض کا ذکر ہے۔

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

(الجمعة 3)

وہى ہے جس نے اُمّى لوگوں مىں انہى مىں سے اىک عظىم رسول مبعوث کىا وہ اُن پر اس کى آىات کى تلاوت کرتا ہے اور انہىں پاک کرتا ہے اور انہىں کتاب کى اور حکمت کى تعلىم دىتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ ىقىناً کھلى کھلى گمراہى مىں تھے۔ اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سب سے پہلا کام يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ تھا یعنی پیغام الہٰی کو پہنچانا یعنی اشاعت توحیدواسلام۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ

’’نبی اور اس کے جانشین خلیفہ کا پہلا کام تبلیغ الحق اور دعوت الی الخیر ہوتی ہے۔ وہ سچائی کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ اور اپنی دعوت کو دلائل اور نشانات کے ذریعہ مضبوط کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ وہ تبلیغ کرتا ہے۔‘‘

(منصب خلافت،انوارالعلوم جلد 2 صفحہ26)

چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے توحید کو دین اسلام کا لب لباب قرار دےکر مکہ کی بابرکت بستی کواشاعت دین اسلام کا ابتدائی مرکز قرار دیا۔ جہاں تیرہ سال تک انتہائی نامساعد حالات میں آپؐ اور آپؐ کے جانثار صحابہ نے تبلیغ و اشاعت اسلام کا فریضہ نہایت تندہی سے سرانجام دیا۔ پھر تیرہ سالہ اس مکی دور میں تختہ ٔ مشق ظلم و ستم رہنے کے بعد الہٰی حکم کے تحت رسول اللہ ﷺ نے تین سو میل دور مدینہ میں مرکز اسلام کی بنیاد رکھی اور مرکز اسلام کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا نہ صرف اسلامی ترقیات کے دور کے آغاز کا باعث بنا بلکہ اشاعت توحید اور اشاعت اسلام کےلیے مضبوط مرکز بھی میسر آیا۔ چنانچہ ہمیں معلوم ہےکہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی کیسے اسلامی مرکز مدینہ سے اسلام کی کرنیں پورے عرب میں پھیل گئیں۔

لیکن خدا تعالیٰ کا اصول ہے کہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (العنْكبوت: 58) یعنی ہر جان موت کا مزا چکھنے والى ہے۔ تو انبیاء کو بھی بصورت بشر اس مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے اور ایک معینہ مدت تک پیغام الہٰی کو لوگوں تک پہنچا کر اپنے مالک حقیقی سے جاملنا ہوتا ہے ۔لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں کو پورا کرنے اور ان کی برکات کے زمانہ کو ممتد کرنے کے لیے نظام خلافت کو جاری فرمایا۔ جیسا کہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے فرمایا ہے کہ

’’خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کےلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد353-354)

پھرسورة النور کی آیت 56 میں مومنوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ ایمان کے ساتھ عمل صالح بجالائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان میں نظام خلافت جاری فرما دے گا۔پس رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہوا اور خلافت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی اور یوں خلافت اور مرکز اسلام لازم و ملزوم ہوگئے اور اس خلافت راشدہ کے تابع چہارسو اسلام کی اشاعت ہوئی اور پہلے سے بڑھ کر اسلام نے ترقی کی۔

سورة جمعہ کی آیت نمبر4 ’’وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ‘‘ کے مطابق دور آخرین میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت ثانیہ کا ظہور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ کے ذریعہ ہوا۔ اس دور میں ہر طرف گناہ اور بدیوں کا دور دورہ تھا۔ اسلام پر چہاراطراف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور بانیٔ اسلام کی ذات پر حملے ہورہے تھے ۔مسلمانوں میں سے کسی میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ ان کے مقابل پردفاع اسلام کےلیے کھڑا ہوتا۔ لیکن اسلام کے بطل جلیل، جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت مسیح و مہدی موعودؑ ان تمام اعتراضات اور حملوں کے سامنے سینہ سپر ہوئےاور اسلام کا غلبہ تمام ادیان باطلہ پر ثابت کر دکھایا اور احیائے اسلام کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس وقت کے علماء نے آپؑ کی تعریف و توصیف میں بہت کچھ کہا جو تاریخ کا حصہ ہے۔ اور یوں آپؑ نے الہٰی منشاء کے مطابق ایک پاک اور مخلص جماعت کی بنیاد رکھی ۔23 مارچ 1889ء کو بیعت لےکر ہندوستان کی ایک چھوٹی سی بستی میں مرکز احمدیت کی بنیاد رکھی جس سے حقیقی اسلام کی اشاعت ہونے لگی۔ چنانچہ اس مرکز اشاعت توحید سے ایک بار پھر اسلام ملک ہندوستان سے نکل کر مشرق و مغرب تک پھیل گیا۔ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے اپنی جماعت کو اشاعت اسلام کی طرف خاص توجہ دلائی کیونکہ آپؑ کی بعثت کا مقصد ہی مختلف اقوام کو دین واحد پر جمع کرنا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں۔

’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ306-307)

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نےمرکز احمدیت قادیان سے اشاعت اسلام کے سلسلہ میں جو خدمات کیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آپؑ نے 80 سے زائد کتب، سینکڑوں اشتہارات و رسائل، لیکچرز، خطابات و تقاریر کے ذریعہ مرکز احمدیت سے اشاعت اسلام کی۔ پھر آپؑ کی وفات کے بعد آپؑ کے خلفاء نے اس بابرکت سلسلہ کو آگے بڑھایا اور اشاعت توحید میں جماعت احمدیہ کاہر قدم ترقی کی طرف ہی بڑھااور مرکز احمدیت کو خلافت کی برکت سے تقویت عطا ہوئی۔

خلافت اولیٰ میں مرکز احمدیت قادیان سےاشاعت اسلام(1908ء سے1914ء)

27 مئی 1908ء کو مرکز احمدیت قادیان میں خلافت حضرت مسیح موعودؑ کا قیام عمل میں آیا اور یہ عجب حسن اتفاق ہے کہ خلافت راشدہ کا قیام بھی 27 مئی 632ء کو ہوا اور یوں قادیان کو مرکز خلافت بننے کابھی اعزا زملا۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نےمرکز احمدیت و مرکز خلافت سے اشاعت اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔

حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں تبلیغ اسلام کے لیے باقاعدہ کوئی واعظ انجمن کی طرف سے مقرر نہ تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اس امر کے لیے مختلف واعظین کا تقرر فرمایا جن میں شیخ غلام احمد صاحبؓ نومسلم، حضرت مولوی محمد علی صاحبؓ سیالکوٹی، حضرت غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی اور حضرت غلام رسول صاحبؓ راجیکی وغیرہ شامل تھے۔ اس کے علاوہ مختلف جگہوں پر لیکچرز کے لیے آپؓ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ اور دیگر بزرگان سلسلہ کو بھجوایا کرتے تھے۔

آپؓ نے تحریک فرمائی کہ خوشنویس حضرات مرکز میں آکر رہیں تا بوقت ضرورت کام آسکیں ۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعض تالیفات جیسے مسیح ہندوستان میں، نجم الہدیٰ اور براہین احمدیہ حصہ پنجم وغیرہ آپؓ کی زیرنگرانی اور ذاتی توجہ سے شائع ہوئیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے یکم مارچ 1909ء کو مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی تا دین حق کی اشاعت کے لیے مبلغین تیار ہوں۔ پھر جب بھیرہ میں مسجد کا تنازعہ ہوا توآپ نے احمدیوں اور غیراحمدیوں میں فتنہ و فساد کو رفع کرنے کی خاطر اور اشاعت اسلام کے لیے اپنی سہ منزلہ کوٹھی ہبہ کرکے احمدیوں کے لیے مسجد نور بھیرہ کی بنیاد رکھی۔

دہلی میں آریہ سماج کے اسلام پر حملوں کے دفاع کے لیے جماعت احمدیہ دہلی کے حضرت میر قاسم علی صاحب نے اپنی ملازمت چھوڑ کر زندگی وقف کرکے ایک انجمن دیانند مت کھنڈن سبھا کے نام سےقائم کی کیونکہ یہ انجمن اشاعت اسلام اور اس کے دفاع کی غرض سے قائم کی گئی تھی اس لیے اس انجمن کے لیےآپؓ نے اپنی جیب سے ایک سو روپیہ ادا کیا۔ اسی طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لیے ایک ہزار روپیہ کا عطیہ بھی بھجوایا۔

خلافت اولیٰ میں اشاعت اسلام کی غرض سے مختلف اخبارات و رسائل جاری ہوئے جن کے ذریعہ مرکز احمدیت سے اسلام کا پیغام مختلف ممالک تک پہنچا۔ چنانچہ اکتوبر 1909ء میں اخبار نور، 1910ء میں اخبار الحق اور 18جون 1913ء کو اخبار الفضل جاری ہوئے۔ اس کے علاوہ جنوری 1911ء میں رسالہ احمدی اور ستمبر1912ء میں رسالہ ’’احمدی خاتون‘‘’ شائع ہونا شروع ہوئے۔ 1913ء میں عربی ممالک میں اشاعت احمدیت کے لیے ’’بدر‘‘ میں مصالح العرب کے نام سے ایک ہفتہ وار عربی ضمیمہ شائع ہوا۔ مرکز احمدیت قادیان سے ہندی، انگریزی، گورمکھی، اردو، پشتو اور فارسی زبانوں میں لٹریچر شائع ہوا اور خلافت احمدیہ، اظہار حقیقت، البشریٰ جلد اول و دوم، آئینہ صداقت، احمدیہ پاکٹ بک، کشف الحقائق وغیرہ 40 کے قریب کتب شائع ہوئیں۔ قادیان کی پہلی لائبریری بھی آپؓ ہی کے دورِ خلافت میں قائم ہوئی۔

خلافت اولیٰ میں مرکز احمدیت میں اشاعت اسلام کے لیے مختلف انجمنوں کا قیام ہوا جن میں انجمن ارشاد، انجمن مبلغین وغیرہ شامل ہیں۔ انجمن ارشاد کا قیام 1909ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود ؓ نے فرمایا جس کا مقصد دشمنان اسلام کے اعتراضات کا رد تھا۔ سکھوں اور ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کے لیے مرکز احمدیت قادیان میں ’’سادہ سنگت‘‘ انجمن قائم ہوئی جس کے ذریعہ ہزاروں پمفلٹس شائع ہوئے۔ 27 مارچ 1910ء کو راجپوتوں میں تبلیغ کی خاطر ’’انجمن مسلمان راجپوتان ہند‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔1911ء میں خلافت اولیٰ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک رؤیا کی بنیاد پر ’’انجمن انصار اللہ‘‘ قائم فرمائی۔ جولائی 1913ء تک اس کےذریعہ دوتین سو آدمی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے پھر اسی انجمن کے تحت پہلے مبلغ انگلستان چوہدری فتح محمد سیال کو اپنے خرچ پرخواجہ کمال الدین کی مدد کے لئے انگلستان بھجوایا گیا۔

1912ء میں قادیان کے نوجوانوں نےاشاعت اسلام کی غرض سے ’’انجمن مبلغین‘‘ جس کادوسرا نام ’’یادگار احمد‘‘’ بھی تھا، بنائی اور حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اس میں شمولیت کی تحریک فرمائی۔

خلافت اولیٰ میں پورے ہندوستان میں اشاعت اسلام کی خاطر مباحثات و مناظروں میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے حکم پر مرکز احمدیت قادیان سے علماء سلسلہ تشریف لے جاتے اور احمدیت حقیقی اسلام کی حقانیت ثابت کردکھاتے۔ جیسے مرکز احمدیت قادیان کے نزدیک ایک گاؤں کھارا میں 1910ء میں مباحثہ ہوا جس میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے حضرت حافظ روشن علی ؓ، حضرت سید سرور شاہؓ اور حضرت سید عبد الحی ؓ کو بھجوایا۔ اسی طرح مباحثہ رامپور، مباحثہ منصوری، مباحثہ مانگٹ اونچا، مباحثہ مونگھیر، مباحثہ مدرسہ چٹھہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان مباحثات کے نتیجہ میں کثرت سے لوگ احمدیت میں شامل ہوئے۔چنانچہ ستمبر1913ء میں ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں اٹھوال کے تمام احباب مباحثہ ’’مسئلہ حیات مسیح‘‘ کے نتیجہ میں احمدیت کی آغوش میں آئے۔

پھر خلافت اولیٰ میں اشاعت اسلام کا ایک اور ذریعہ لیکچرز تھے۔ 1909ء کے آخر میں فورمین کالج میں مسیحی لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اسلامی لیکچروں کا سلسلہ لاہور میں شروع کروایا۔ جس میں مرکز احمدیت سے مقررین بھجوائے گئے۔ اسی طرح جلسہ میرٹھ میں لیکچر کےلیے علماء کا ایک وفد قادیان سے گیا۔ ریاست میسور کے شہر بنگلور میں جماعت اسلامیہ کے جلسہ میں بھی مرکز احمدیت سےحضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓوغیرہ نے شرکت کی۔

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ اشاعت اسلام میں اس قدر دلچسپی رکھتےتھے کہ کان پور میں اشاعت و حفاظت اسلام کی غرض سے ایک نیا مدرسہ الہیات قائم ہوا تو آپ نے مدرسہ کے سیکرٹری کو نہ صرف مفید مشورے دئیے بلکہ کچھ رقم بھی اشاعت اسلام کے لیے بھجوائی۔

جنوری 1910ء میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے مرکز احمدیت سے مختلف ممالک میں وفد بھجوانے کی تجویز فرمائی اور سنگاپور اور سیلون میں مبلغین بھجوانے چاہے۔ اس خواہش کی تکمیل تو خلافت ثانیہ میں ہوئی لیکن یوپی میں مدرسہ الہیات کانپور اور انجمن ’’ہدایت الاسلام‘‘ اٹاوہ کی طرف سے جلسے میں شرکت کی دعوت پر مرکز احمدیت سے حضرت سید سرور شاہ صاحب، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی صدر الدین صاحب پر مشتمل ایک وفد روانہ فرمایا جس نے یوپی میں کامیاب جلسے کرنے کے بعد لکھنو میں مولانا شبلی نعمانی سے ملاقات بھی کی۔

مرکز احمدیت قادیان جوفی زمانہ حقیقی مرکز اسلام رہا،وہاں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نےحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اور شیخ محمد یوسف صاحبؓ کواشاعت اسلام کی خاطر سنسکرت پڑھانے کے لیے ایک پنڈت مقرر فرما کر اس کے اخراجات کا انتظام خود فرمایا۔ غرضیکہ اشاعت اسلام کا کوئی بھی موقع آپ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ آپ نے ہندوستان کے طول و عرض میں تبلیغی وفود بھجوائے۔ علماء لمبے لمبے دورے کرتے اور مختلف مقامات پر متعدد انجمنیں قائم کرتے۔ جس کے نتیجہ میں کثیر تعداد میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی اشاعت ہوتی اور کثرت سے لوگ احمدی ہوتے۔ خلافت اولیٰ میں 78 کے قریب نئی مضبوط جماعتیں قائم ہوئیں۔ انہی میں سے حضرت مولوی عبدالحی صاحب فرنگی محل کے مشہور شاگرد حضرت مولوی سید عبد الواحد صاحب نے احمدیت قبول کی اور ان کی تبلیغ سے 1921ء تک ڈیڑھ ہزار سے بھی زیادہ احمدی ہوئے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جنوری 1914ء میں ہندوستان بھر میں تبلیغ و اشاعت اسلام کے لیے ایک سکیم مرکز احمدیت میں حضرت خلیفة المسیحؓ کی منظوری سے پیش کی۔ علمائے سلسلہ نے مرکز احمدیت کی اس سکیم پر لبیک کہا اور اس تبلیغی سکیم کی تکمیل کے لیے حضرت صاحبزادہ صاحب ؓنے دعوت الی الخیر فنڈ بھی کھولا۔

اس کے علاوہ خلافت اولیٰ میں مرکز احمدیت قادیان میں محلہ دارالعلوم کی بنیاد رکھی گئی۔پھر 5 مارچ 1909ء کو بعد نماز فجر حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نےمسجد نور کی بنیاد رکھی۔بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی وسیع،شاندار عمارت کا سنگ بنیاد بھی آپؓ نے رکھا۔25 جولائی 1912ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی نئی وسیع عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔

1910ء کی پہلی سہ ماہی میں مسجد اقصیٰ کی توسیع اوّل ہوئی جس میں ایک بڑا کمرہ اور ایک لمبا برآمدہ تیار ہوا۔ اور منارۃ المسیح کے ساتھ مستورات کی نماز کے لیےایک چبوترہ بھی بنادیا گیا۔دورِ خلافتِ اولیٰ میں قادیان کے علاوہ لاہور،وزیر آباد،ڈیرہ غازیخاں،جموں،ہنوڑ وغیرہ میں مساجدتعمیر ہوئیں جو اعلائے کلمة اللہ اور اشاعت توحید و اسلام کا مرکز ثابت ہوئیں۔غرضیکہ خلافت اولیٰ میں مرکز احمدیت قادیان سے اشاعت اسلام کی گرانقدر مساعی ہوئیں جس کے نتیجہ میں احمدیت کا پیغام ہندوستان سے نکل کر مختلف ممالک تک پہنچ گیا۔

خلافت ثانیہ میںٍ مرکز احمدیت قادیان سے اشاعت اسلام (1914ء سے1947ء)

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی وفات کے بعد 14 مارچ1914ء کو حضرت مصلح موعودؓ خلیفہ ہوئے تو مرکز قادیان سےاشاعت اسلام میں اس قدر ترقی ہوئی کہ دنیا حیران رہ گئی۔آپؓ کے سنہری دور میں دنیا کے کونے کونے میں احمدیت کا پیغام پہنچ گیا۔اس دوران پہلے جنگ عظیم اول اور دوم کی خوفناک حالتیں بھی آئیں جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا لیکن مرکز احمدیت سے اشاعت توحید اور تبلیغ اسلام کی مساعی میں کوئی کمی نہ آئی۔دنیا کا کوئی ایسا علاقہ نہ تھا جہاں ابراہیم ثانیؓ کے پرندے محو پرواز نہ ہوئے ہوں۔یورپ و امریکہ تک مبلغین کا ایک جال بچھ گیا۔

مرکز احمدیت کوآپؓ کی خداداد بصیرت سے مزید استحکام نصیب ہوا۔اس کے بالمقابل جنہوں نے خلافت ثانیہ کی بیعت نہ کی وہ لامرکزیت کا شکار ہوگئے۔ چنانچہ منکرین خلافت کے ایک سابق صدر نے کہا کہ

’’لاہور میں کام شروع کیے ہوئے ہمیں 37 سال گزر چکے ہیں اور ہم اس چار دیواری سے باہر نہیں نکلے۔۔۔ بحثیں ہوتی ہیں کہ ہماری ترقی میں کیا روک ہے بعض کہتے ہیں جماعت قادیان نے دعویٰ نبوت کو حضرت امام زمان کی طرف منسوب کرکے اور دوسرے تمام مسلمانوں کو کافر کہہ کر ایک بہت بڑی روک پیدا کردی ہے لیکن ان اعتقادات کے باوجود ان کی اپنی ترقی تو بدستور ہورہی ہے۔۔۔میرے خیال میں ہماری ترقی کے رکنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مرکز دلکش نہیں۔۔۔بہت سے نوجوان ہمارے سامنے ہیں جن کے باپ دادا سلسلہ پر عاشق تھے لیکن ان نوجوانوں میں وہ روح آج مفقود ہے۔‘‘

(تقریر الشیخ میاں محمد صاحب مطبوعہ پیغام صلح 6 فروری 1952ء صفحہ7 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ128)

پس قادیان سے خلافت کا یہ قافلہ اپنی ترقی کی شاہراہوں پر پوری آب و تاب کے ساتھ گامزن ہوا اور مرکز احمدیت سے اشاعت اسلام کا سنہری دور شروع ہوا۔

17 مارچ 1914ء کو آپؓ نے درس القرآن کا آغاز فرمایا۔12اپریل 1914ء کو آپؓ کے ارشاد پر تبلیغ و اشاعت اسلام کے معاملہ پر غور کرنے کے لیے ملک بھر کے نمائندوں کی شوریٰ بلائی گئی جس میں ڈیڑھ سو سے زائدنمائندگان نے شرکت کی اوراس شوریٰ میں اشاعت اسلام کے سلسلہ میں اہم امور طے پائے۔حضرت مصلح موعودؓ نے شوریٰ میں منصب خلافت کے موضوع پر خطاب فرماتے ہوئے بیان فرمایا کہ

’’پہلا فرض خلیفہ کا تبلیغ ہے جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے اور تبلیغ سے ایسا انس رہا ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا۔میں چھوٹی ہی عمر میں بھی ایسی دعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو۔۔۔۔پھر اتنا ہو اتنا ہو کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ ہوں۔۔۔غرض اسی جوش اور خواہش کی بناء پر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ میرے ہاتھ سے تبلیغ اسلام کا کام ہو اور میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے میری ان دعاؤں کے جواب میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں۔۔اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہوگی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو گزرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے کیونکہ آپ لوگ جو کام کریں گے وہ میرا ہی کام ہوگا۔‘‘

(منصب خلافت، انوارالعلوم جلد2 صفحہ35-36)

پھر آپ نے فرمایا کہ
’’میں چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ ہوں جو ہر ایک زبان کے سیکھنے والے اور پھر جاننے والے ہوں۔ تاکہ ہم ہر ایک زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کرسکیں اور اس کے متعلق میرے بڑے بڑے ارادے اور تجاویز ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے زندگی دی اور توفیق دی اور پھر اپنے فضل سے اسباب عطا کئے اور ان اسباب سے کام لینے کی توفیق ملی تو اپنے وقت پر ظاہر ہو جاویں گے۔ غرض میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میں تبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں ۔‘‘

(منصب خلافت، انوارالعلوم جلد2 صفحہ37)

شوریٰ میں طے ہونیوالے امورکی تکمیل کے لیے حضور انورؓ نے ایک رؤیا کی بناء پر ’’انجمن ترقی اسلام‘‘ کی بنیاد رکھی۔یہ انجمن اسم بامسمی ثابت ہوئی اوراللہ کے فضل سے اسلام کی ترقی اشاعت کا نہایت موثر ذریعہ ثابت ہوئی ۔اس بابرکت ادارہ کے ذریعہ ایک لمبا عرصہ دنیا میں تبلیغ و اشاعت اسلام ہوتی رہی یہاں تک کہ پہلے صدر انجمن احمدیہ اور پھر 1945ء میں تحریک جدید نے بین الاقوامی سطح پر تبلیغ کا یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

بیرون ممالک میں اشاعت اسلام

خلافت ثانیہ میں مرکز احمدیت سے اشاعت اسلام کا دائرہ مزیدوسیع ہوا اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام ہندوستان سے بیرون ممالک میں کثرت سے پہنچانے کا انتظام ہوا۔چنانچہ مرکز احمدیت سے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب جولائی 1913ء میں بیرونی مشن کی بنیاد رکھ چکے تھے لیکن اس کا مستقل قیام اپریل 1914ء میں ہوا۔جب ووکنگ سے لندن منتقل ہوئے اور کرائے کے مکان میں تبلیغ اسلام کا مرکز بنا یا اور ایک شخص نے اسلام قبول کیا۔پھر حضرت قاضی عبد اللہ صاحب،حضرت عبد الرحیم نیر صاحب وغیرہ بھی انگلستان میں اشاعت توحید و اسلام مٍصروف رہے۔لندن کے بعد پھر1920ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب امریکہ تشریف لے گئے۔1920ء میں مولوی مبارک علی صاحب کے لندن تشریف لانے پرحضرت عبد الرحیم نیر صاحب 1921ء میں نائیجیریا چلے گئے۔

احمدیہ دارالتبلیغ ماریشس کے قیام کے لیے 20فروری 1915ء کو صوفی غلام محمد صاحب قادیان سے کولمبو14 مارچ 1915ء کو پہنچے اور وہاں تین ماہ قیام کرکے جماعت کی بنیاد رکھ کر 15جون 1915ء کو ماریشس پہنچے اور وہاں دارالتبلیغ قائم کیا۔اسی طرح نائیجریا،سیرالیون، لائبیریا،سیلون میں دارالتبلیغ قائم ہوئے۔

1921ء میں غانا، نائیجریا میں دارالتبلیغ قائم ہوا اور 1922ء میں شیخ محمود احمد عرفانی کے ذریعہ بلاد عربیہ کا پہلا دارالتبلیغ مصر قائم ہوا۔19 اگست 1923ء بالشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ کا آغاز ہوا۔26نومبر 1923ء کو ملک غلام فرید صاحب کو مرکز احمدیت قادیان سے جرمنی روانہ فرمایا اورمسجد برلن کی تحریک کی گئی۔1925ء میں شام میں نیا دارالتبلیغ قائم ہوااوراسی سال ہی سماٹرا و جاوا میں بھی دارالتبلیغ قائم ہوئے۔ 12جولائی 1924ء کو شہزادہ عبدا لمجیدصاحب کو ایران میں احمدیہ مرکز قائم کرنے کے لیے بھجوایا گیا۔ان کے ساتھ مولوی ظہور حسین صاحب کو بخارا میں احمدیت پہنچانے کا حکم دیا۔ 16اکتوبر 1924ء کو مشہد ایران میں نیا دارالتبلیغ قائم ہوا۔

1936ء میں دارالتبلیغ ہنگری،پولینڈ،چیکوسلوواکیہ ،ارجنٹائن قائم ہوئے۔اسی طرح برما ،سپین و اٹلی،البانیہ و یوگوسلاویہ،سیر الیون ومشرقی افریقہ میں بھی مشن ہاؤسز کاقیام خلافت ثانیہ میں ہوا۔ یکم اپریل 1932ء میں سیلون ،4 جون 1935ءکو جاپان، 26مئی 1935ء کو ہانگ کانگ، مئی 1942ء میں فرانس، 1946ء میں صقلیہ سسلی اورسوئیٹزرلینڈ 1947ء میں ہالینڈ میں احمدیہ مسلم مشنز کے قیام سےاشاعت اسلام کا آغاز ہوا۔

مرکز احمدیت قادیان اور مضافات میں اشاعت اسلام

مرکز احمدیت قادیان میں آنیوالے مہمانوں کو حقیقت احمدیت اور اشاعت اسلام سے روشناس کرانے کے لیے کوئی مستقل واعظ مقرر نہ تھا۔چنانچہ یکم نومبر 1932ء کو واعظ مقامی کی اسامی منظور ہونے کے بعد حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری قادیان کے پہلے واعظ مقامی مقرر ہوئے۔

1938ء سے قادیان اور مضافات میں تبلیغ پر خاص توجہ ہوئی۔ پہلا تبلیغی مرکز سٹھیالی، دوسرا کلانور اور تیسرا چودھریوالہ میں قائم کیا گیا۔اس کے بعد جگہ جگہ مراکز قائم کیے گئے۔اس کار خیر میں دیہاتی مبلغین کے علاوہ جامعہ اور تعلیم الاسلام سکول کے اساتذہ اور طلباء اور دیگر احمدیوں نے شرکت کی۔

1940ء میں مجلس انصار اللہ کا قیام ہوااورقادیان کو آٹھ حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔تبلیغی اغراض کے لیےدو حلقوں کی دکانیں جمعرات سے جمعہ کی نماز تک بندہوتیں اور وہ احباب اشاعت اسلام کے لیے مختلف علاقوں میں جاتے اور ایک رات قیام کے بعد جمعہ کی نماز قادیان میں ادا کرتے۔ان مساعی کے نتیجہ میں 1940ء کے جلسہ میں نئے بیعت کرنے والوں کی تعداد 386 ہوگئی۔

ٹریکٹ، اشتہارات، اخبارات و رسائل کے ذریعہ اشاعت اسلام

مرکز احمدیت سے اشاعت اسلام کے لیے ایک خصوصی کاوش اشتہارات اور ٹریکٹس کی اشاعت تھی۔ جولائی 1914ء میں اسلام کی حقانیت کے متعلق اہل بنگال کے لیے بنگالی ٹریکٹ کلکتہ سے شائع ہوا۔جس سے عوام الناس میں سلسلہ احمدیہ کے حالات جاننے کا شوق پیدا ہوا۔1915ء میں سندھی ٹریکٹ ’’ایک عظیم الشان بشارت‘‘ شائع ہوا۔ بلاد اسلامیہ میں اشاعت اسلام کے لیے ’’الدین الحی‘‘ کے نام سے عربی زبان میں ٹریکٹ شائع ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓنے اخبارات کی توسیع کی طرف بھی خاص توجہ دلائی ۔جس کے نتیجہ میں مرکز احمدیت سے 17 اکتوبر 1915ء کوپہلا اخبار ’’فاروق‘‘ جاری ہوا۔ جون 1916ء میں ’’اخبار صادق‘‘’ اور دسمبر 1916ء میں صادق لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ اسی طرح ’’احمدیہ گزٹ‘‘ اور دسمبر 1926ء میں انگریزی اخبار ‘‘سن رائز‘‘ جاری ہوئے۔ 6 جون 1935ء کو لنڈن سے ‘‘مسلم ٹائمز’’ عبدالرحیم درد صاحب کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔ اسی طرح لنڈن سے ’’الاسلام انگریزی‘‘ اور اخبار ’’البشریٰ‘‘ (حیدر آباد سندھ) اور کشمیر کے لیے اخبار ’’اصلاح‘‘’ جاری ہوئے۔ فلسطین میں ’’البشارة الاسلامیة‘‘ چھپنا شروع ہوا۔ 1930ء میں رسالہ جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے میگزین کا اجراء ہوا۔ یوں خلافت ثانیہ میں اشاعت اسلام کے لیے مختلف ممالک سے مختلف زبانوں میں 122 اخبارات و رسائل جاری ہوئے۔

تبلیغی خطوط

حضرت مصلح موعودؓ نےمرکز احمدیت سے خط و کتابت کے ذریعہ بھی اشاعت اسلام کا کام سرانجام دیا۔ کئی والیان ریاست کو تبلیغی خطوط لکھے اور ان کے لئے کتب تصنیف فرمائیں۔چنانچہ والیہ بھوپال کو 14 ستمبر1914ء کو خط لکھا جس میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی۔پھر ایک اورفرمانروائے ریاست اور ریاست رامپورکوتبلیغی خط لکھا۔نظام حیدر آباد دکن کو تبلیغ کی خاطر جون 1914ء کوتحفة الملوک تصنیف فرمائی ۔اس کتاب کے پڑھنے سے سیٹھ عبد اللہ الہ دین کوقبول احمدیت کی سعادت ملی۔1924ء میں امیر امان اللہ خان بادشاہ افغانستان و ممالک محروسہ پر اتمام حجت کے لیے دعوة الامیر نامی ایک کتاب شائع فرمائی جس کا فارسی ترجمہ حکیم مولانا عبید اللہ بسمل صاحب نے کیا۔امیر امان اللہ کو تو اس کاکوئی فائدہ نہ ہوا لیکن اس ذریعہ سےخان فقیر محمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔

دسمبر1921ءمیں شہزادہ ویلز جو بعد میں ایڈورڈ ہشتم بنے ہندوستان کے دورہ پر آئے تو حضور انورنے تحفہ شہزادہ ویلز کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی۔ جس میں آپ نے شہزادہ کواسلام اور احمدیت کا پیغام دیا۔یہ تحفہ27فروری 1922ء کو لاہور میں شہزادہ کی خدمت میں پیش کیاگیا۔1931ء میں لارڈ ارون کی ہندوستان سے روانگی کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک کتاب”تحفہ لارڈارون’’کے نام سےپانچ روز میں تصنیف فرمائی جو 8اپریل1931ء کو وائسرائے ہند لارڈارون کو بطور تحفہ پیش کی۔

تبلیغی کلاسز

حضرت مصلح موعودؓ نے ملک بھر میں تبلیغ و اشاعت اسلام میں تیزی لانےکے لیےتبلیغی کلاسوں کا اجراء فرمایا اور مبلغین کی اعلیٰ کلاسز کے لیے لیکچروں کا سلسلہ شروع فرمایا۔چنانچہ 21 جون 1920ء مبلغین کلاس کا آغاز ہوا۔

وقف زندگی کی تحریکات

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نےسلسلہ کی تبلیغی سرگرمیوں کے پیش نظر اور اشاعت اسلام کے لیے 7 دسمبر 1917ء کو تحریک وقف زندگی کا اعلان فرمایا جس کے لیے فوراً 63 نوجوانوں نے اپنےنام پیش کیے۔ پھر آپؓ نےتبلیغ کے لیے یک ماہی وقف کی تحریک کی جس کےلیے1300 اصحاب نے لبیک کہا۔29 جنوری 1943ء کو مبلغین کی ضرورت کے پیش نظر دیہاتی مبلغین کی تحریک کی۔24 مارچ 1944ء کو وقف زندگی کی وسیع تحریک فرمائی۔جس کے نتیجہ میں بعض پڑھے لکھے نوجوانوں نےسہ سالہ وقف کے لیے خود کوپیش کیا۔8 اکتوبر 1932ء کو پہلا یوم تبلیغ منایا گیا۔

تحریک جدید اور وقف جدید

1934ء میں جماعت احمدیہ کی ترقی دیکھ کرحاسدین نےمخالفت کا طوفان برپا کردیا ۔یہاں تک کہ احرار نے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعویٰ کیا لیکن ان کا دعویٰ ایک خواب ہی بن کر رہ گیا۔جس کے مقابل پر خلافت ثانیہ میں جاری ہونیوالی بابرکت تحریک “تحریک جدید’’ کی برکت سے پوری دنیا میں اشاعت اسلام کے لیےمبلغین پھیل گئے۔ تحریک جدید کے ذریعہ اشاعت اسلام میں نمایاں ترقی ہوئی اور تبلیغ کے مختلف ذرائع سے احمدیت کا پیغام لوگوں تک پہنچا۔چنانچہ انفرادی ملاقاتوں، جلسوں، مقامی اخبارات میں مضامین کی اشاعت، تقسیم کتب، تبلیغ بذریعہ خطوط، بلند پایہ شخصیات کی دعوتوں،مناظرات،جلسہ ہائے سیرت النبی،ریڈیو سے تقاریر، تبلیغی مجالس کےقیام، یوم التبلیغ، غیر مسلموں کی مذہبی کانفرنسوں میں شمولیت وغیرہ سے اشاعت اسلام میں نمایاں کام ہوا۔

تحریک جدید کے نتیجہ میں ٹریکٹوں، کتابوں کی اشاعت،پریس کے ذریعہ اشاعت احمدیت،نئی درسگاہوں کا قیام، ملک میں تبلیغی سروے، مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا۔تحریک جدید کی طرف سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام، دی ٹروتھ اباؤٹ دی سپلٹ، انقلاب حقیقی، تفسیرکبیر، سیر روحانی، نظام نو وغیرہ شائع ہوئیں۔

حضور نے دنیا کی مشہور زبانوں میں قرآن کےتراجم کروائے، انگریزی تفسیر القرآن کاکام قادیان میں جاری تھا۔اس کے علاوہ بارہ کتابوں کا سیٹ دنیا کی 8 مشہور زبانوں میں ترجمہ کروایا۔اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہار شائع کروائے۔ یکم فروری 1945ء کو 11 واقفین کو بیرون ملک بھجوانے اور نو واقفین کو تفسیر،حدیث،فقہ اور فلسفہ و منطق کی اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے منتخب فرمایا۔اس کے علاوہ احمدی ڈسپنسریاں،مدارس،مساجدقائم ہوئیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے 1957ء میں وقف جدیدکی بنیاد رکھی جس کے تحت تمام ہندوستان کی جماعتوں میں اشاعت اسلام کےلیےمعلمین کا جال بچھ گیا۔

قرآن کریم اور کتب سلسلہ کی دیگر زبانوں میں اشاعت

حضرت مصلح موعودؓ نےدنیا کے مختلف ممالک میں مختلف اقوام میں اشاعت اسلام کےلیے قرآن کریم کے تراجم کی ضرورت محسوس کی اور مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کرنے کی تحریک فرمائی چنانچہ انگریزی، ڈچ، جرمنی، فرانسیسی، اطالوی، اسپرنٹو، روسی، پرتگیزی، سواحیلی زبان وغیرہ میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوئے ۔بہت سی اہم کتب کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوا۔

مساجد کی تعمیر

خلافت ثانیہ میں اشاعت اسلام کےلیے مرکز احمدیت قادیان سے جو ایک نمایاں کام ہوا وہ مساجد کی تعمیر ہے جن کے ذریعہ اشاعت اسلام کا کام بخوبی ہوسکتاہے۔ چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر9 ستمبر 1920ء کو مسجد لندن کے لیے زمین کی خریداری ہوئی جس پر خوشی کا اظہار فرمایا اور تقریب بھی ہوئی۔

1925ء میں احمدیہ مسجد کی تعمیرہوئی۔24 مارچ 1936ء کو مسجد محلہ ریتی چھلہ کا افتتاح ہوا۔1940ء میں سرینگر میں احمدیہ مسجد کی بنیادرکھی گئی۔اسی طرح حافظ آباد،گکھڑ،چنیوٹ اور کوئٹہ میں مساجد کی تعمیرہوئی۔قادیان میں مسجد مبارک کی توسیع ہوئی اور اس موقع پرغلبہ اسلام کے لیے 40 روزہ دعاؤں کی تحریک حضرت خلیفة المسیح نے فرمائی۔7 اپریل 1934ء کو مسجد فضل لائلپور کا افتتاح ہوا۔ اسی طرح متعدد مساجد کی خلافت ثانیہ میں تعمیر ہوئی۔

دیگر مذاہب پر تحقیق کا انتظام

اشاعت اسلام کےلیےحضرت مصلح موعودؓ نے بعض علماء کودیگر مذاہب پر تحقیق کے لئے ارشاد فرمایا۔چنانچہ مہاشہ ملک فضل حسین صاحب ہندوازم کےلیے، چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی سکھ ازم کےلیے، شیخ فضل الرحمن صاحب کو عیسائیت پر تحقیق کے لیے مقرر کیا گیا۔ چنانچہ ان علماء نے بعد تحقیق اس میدان میں اشاعت اسلام میں نمایاں خدمات کیں۔

تبلیغی وفود و دورہ جات،خطبات اورمباحثات و مناظرات

خلافت ثانیہ میں مرکز احمدیت قادیان سےاشاعت اسلام کے لیےعلماء اورمبلغین کے وفود بھجوائے جاتے تھے۔ چنانچہ3 اگست 1917ء کو ممبئی میں وفدبھجوایا جنہوں نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو تبلیغ کی اور اشتہارات، لیکچرز، دروس، ٹریکٹس کے ذریعہ تبلیغ کی۔ 26نومبر 1932ء کو مولوی ارجمند خان صاحب کی قیادت میں 29 افراد پر مشتمل جامعہ احمدیہ کا وفد قادیان سے روانہ ہواجس نے جالندھر، پھلور، لدھیانہ، انبالہ، دہلی، علی گڑھ اور میرٹھ سے ہوتے ہوئے دیوبند اور سہارنپور تک لمبا سفر طے کیا۔کھیلوں کے میچ بھی کیے اورتبلیغی لیکچرز بھی دئیے۔ اسی طرح مرکز احمدیت سےشمالی و وسطی ہند میں تبلیغی وفودبھجوائےگئے۔

حضور انورؓ نے اشاعت اسلام کی غرض سے نہ صرف خود دورہ جات فرمائے بلکہ ناظروں کو بھی دوروں کی ہدایت فرمائی۔چنانچہ حضور انور نےحیدرآباد دکن و دہلی کا سفر فرمایا۔لاہور اور امرتسرسیالکوٹ میں 13 فروری سے 23 فروری 1920ء تک سفرکرکے وہاں لیکچرزدئیے۔حضور انور کے پر معارف خطابات بھی اشاعت اسلام کا ذریعہ بنے۔

خلافت ثانیہ میں کوئی سال ایسا نہ تھا جس میں کوئی مباحثہ نہ ہوا۔مباحثہ ڈیرہ غازیخان،مباحثہ گوجرانوالہ،مباحثہ چٹاگانگ،سڑوعہ،مباحثہ امرتسر،سرگودھا، شنگر،اجنالہ،لکھنو۔مباحثہ مجوکہ وغیرہ ان میں سے چند ایک ہیں۔

(جاری ہے)

(باسل احمد بشارت)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جون 2020

اگلا پڑھیں

02 جون 2020ء Covid-19 Update