• 20 اپریل, 2024

عفو بے محل نہ ہو

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے، لیکن اگر کوئی عفو کرے، مگر وہ عفو بے محل نہ ہو، بلکہ اس عفو سے اصلاح مقصود ہو تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ مثلاً اگر چور کو چھوڑ دیا جاوے تو وہ دلیر ہوکر ڈاکہ زنی کرے گا۔ اس کو سزا ہی دینی چاہیے۔ لیکن اگر دو نوکر ہوں اور ایک ان میں سے ایسا ہوکہ ذرا سی چشم نمائی ہی اس کو شرمندہ کر دیتی اور اس کی اصلاح کا موجب ہوتی ہے تو اس کو سخت سزا مناسب نہیں، مگر دوسرا عمداً شرارت کرتا ہے، اس کو عفو کریں تو بگڑتا ہے، اس کو سزا ہی دی جاوے۔ تو بتاؤ مناسب حکم وہ ہے جو قرآن مجید نے دیا ہے یا وہ جو انجیل پیش کرتی ہے؟ قانون قدرت کیا چاہتا ہے؟ وہ تقسیم اور رؤیت محل چاہتا ہے۔ یہ تعلیم کہ عفو سے اصلاح مدنظر ہو، ایسی تعلیم ہے جس کی نظیر نہیں اور اسی پر آخر متمدن انسان کو چلنا پڑتا ہے اور یہی تعلیم ہے جس پر عمل کرنے سے انسان میں قوت اجتہاد اور تدّبر اور فراست بڑھتی ہے۔ گویا یوں کہا گیا ہے کہ ہرطرح کی شہادت سے دیکھو اور فراست سے غور کرو۔ اگر عفو سے فائدہ ہوتو معاف کرو، لیکن اگر خبیث اور شریر ہے تو پھر جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا عمل کرو۔ اسی طرح پر اسلام کی دوسری پاک تعلیمات ہیں جو ہر زمانہ میں روزِ روشن کی طرح ظاہر ہیں۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد ہفتم صفحہ134-135 مطبوعہ 2015ء)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جون 2022