• 5 مئی, 2024

حضرت میاں احمد جان درزیؓ

حضرت میاں احمد جان درزیؓ
صحابی حضرت مسیح موعودؑ

حضرت میاں احمد جان درزی رضی اللہ عنہ ولد محمد خلیل صاحب قوم کشمیری پشاور کے رہنے والے تھے۔ حضرت قاضی محمد یوسف رضی اللہ عنہ ’’تاریخ احمدیت صوبہ سرحد‘‘ میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آپ مذہباً اہل حدیث تھے۔ درزیوں کا کام کرتے تھے۔ حضرت مولانا غلام حسن خان صاحب رضی اللہ عنہ کی احمدیت کی وجہ سے آپ کو بھی احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور 1894ء سے قبل داخلِ احمدیت ہوچکے تھے۔ اہل حدیث نے آپ کی بڑی مخالفت کی …. آپ مسجد احمدیہ پشاور کی تعمیر کے بعد سالہا سال دروازہ کے قریب دوکان میں درزی کا کام کرتے تھے اور ہماری مسجد کے امام الصلوٰۃ بھی رہے اور تبلیغ احمدیت اور تردید پیغامیت بڑے اخلاص اور جوش سے کرتے رہے۔ آپ نے حضرت احمد علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی پھر حضرت نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں سلسلہ احمدیہ کے سرگرم ممبر رہے۔ خلافت ثانیہ کے قیام پر آپ دونوں فریق سے الگ رہے اور پھر خاکسار کی تحریک سے خلافت ثانیہ سے تجدید بیعت کی اور بڑا اخلاص دکھایا….‘‘

(تاریخ احمدیت صوبہ سرحد صفحہ64-65 مصنفہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ)

خلافت ثانیہ میں بیعت خلافت کی درخواست کرتے ہوئے آپ نے لکھا:

’’سیدی حضرت خلیفۃ المسیحؑ
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ عاجز نے قریباً 94ء (1894ء۔ ناقل) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی تھی اور پھر آنحضرت کی وفات پر حضرت نور الدین اعظم خلیفۃ المسیح اول سے بھی بیعت کی تھی مگر جب حضرت خلیفۃ المسیح اول کی وفات ہوئی تو اختلاف واقع ہونے پر خاکسار عملی رنگ میں دونوں فریق سے الگ رہا مگر مسجد احمدیہ پشاور کے تعمیر ہونے پر جب مسجد میں باقاعدہ نماز پڑھنے آنے جانے لگا تو فریقین کے خیالات کے معلوم کرنے اور موازنہ کرنے کا موقعہ ملا اور یہ معلوم کر کے کہ جناب مولوی محمد علی اور ان کے دوست حضرت مسیح موعود کی نبوت اور رسالت سے ہی منکر ہوگئے اور ان کا ماننا نہ ماننا یکساں جانتے ہیں اور غیر احمدیوں اور احمدیوں میں جو خصوصیات حضرت صاحب نے مقرر کیے تھے، سراسر دور کر دیے ہیں تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی یعنی آپ حضرت محمد رسول اللہ کو شارع رسول اور قرآن شریف کو شریعت اور حضرت مسیح موعود کو متبع اور مطیع نبی اور رسول ماننے میں اور احمدیوں کو غیر احمدیوں سے امتیاز اور خصوصیت دربارہ نماز جنازہ وغیرہ قائم رکھنے میں حق پر ہیں۔

پس میں نے اپنا سابقہ عقیدہ حضرت مسیح موعود کے زمانے کا اور حضرت خلیفہ اول کے زمانے کا آپ کے موجودہ عقیدہ کے مطابق پایا اور اس بات کو ضروری جان کے کہ کوئی جماعت بغیر امام کے اور بغیر مرکز کے نہیں ہوسکتی اور خدا کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے، جماعت سے الگ ہونا پسند نہ کیا اور جماعت میں منسلک ہونے کے واسطے میں آپ کے ہاتھ پر تجدید بیعت کرتا ہوں۔ حضور دعا کریں کہ خدا تعالیٰ گذشتہ کوتاہیاں معاف فرمائے اور آئندہ مجھے اور میری اولاد کو مخلص احمدی بننے کی توفیق دے اور رزق حلال کے کمانے میں ہمت اور برکت دے۔ والسلام خاکسار احمد جان درزی۔ مسجد احمدیہ پشاور‘‘

(الفضل 15مئی 1922ء صفحہ2 کالم3)

آپ بفضلہ تعالیٰ 3/1 حصہ کے موصی (وصیت نمبر 2932) تھے، مورخہ 19؍اکتوبر 1928ء کو قریبًا 56 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔

(نوٹ: پشاور کے ہی حضرت میاں احمد جان درزی رضی اللہ عنہ نامی ایک اور صحابی بھی تھے جنہوں نے 1909ء میں وفات پائی۔ ان کے ایک بیٹے حضرت حافظ عبدالرحمٰن صاحب (ولادت:1899ء وفات:15؍دسمبر 1974ء) درویشان قادیان میں سے تھے۔)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جون 2022