• 25 اپریل, 2024

تعارف سورۂ رعد (تیرہویں سورہ)

(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 44 آیات ہیں)
اردو ترجمہ ازترجمہ قرآن انگریزی (حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ) ایڈیشن 2003ء
(مترجم: وقار احمد بھٹی)

وقت ِنزول اورسیاق و سباق

جمہور علماء کی رائے اس بات کے حق میں ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ اس سورۃ کا مضمون بھی اس (رائے) کی تائید کرتا ہے۔ اگرچہ چند آیات مدینہ میں نازل ہوئیں جن میں آیت نمبر 44 (عطا کے مطابق)، آیت نمبر 32 (قتادۃ کے مطابق) اور آیت نمبر 13 تا 15 (دیگر مفسرین کے مطابق) شامل ہیں۔ دسویں سورۃ(یونس) میں یہ بتایا گیا تھا کہ جب بھی دنیا میں کوئی نبی مبعوث ہوتا ہےتولوگوں کے لئے اس نبی پر ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا خواہ وہ الٰہی سزا کی وجہ سے ہو یا بسا اوقات خدا کے رحم کے نتیجہ میں اگر وہ رحم کے لائق ہوں۔ پھر گیارہویں سورۃ (ھود) میں الٰہی سزا کا ذکر ہے اور مثالوں سے وضاحت کی گئی ہےاور بارہویں سورۃ (یوسف)میں خدا کے رحم کا بیان ہوا ہے۔ اس سورۃ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح آنحضرت ﷺ کی فتح و کامرانی کی پیشگوئیاں اور وعدے جو گذشتہ سورتوں میں کئے جا چکے ہیںوہ پورے ہوں گےاور کس طرح اسلام دیگر مذاہب پر غالب آجائے گا۔

مضامین کا خلاصہ

اس سورۃ کی ابتداء اس خیال سے کی گئی ہے کہ خدائی کام نہایت غیر معمولی طریق پر ہوتے ہیں۔ ایسے ذرائع جن سے خدا کے رسول اور نبی غالب آتے ہیں وہ نتائج واضح ہونے تک عوام الناس کی آنکھوں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور حتمی نتائج ظاہر ہونے تک (یہ ذرائع) بھی واضح ہوجاتے ہیں۔ یہ سورۃ آگے چل کر قانون فطرت پر روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح مختلف قسم کے پھل اور سبزیاں جن کو بر وقت پانی میسر آجاتا ہے، زمین سے اگتے ہیں۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ جو مکہ کے بدوؤں میں پیدا ہوئے اور اسی ماحول میں بڑے ہوکر وقت کی ضرورت کے عین مطابق اللہ کے عظیم نبی کے طور پر مبعوث ہوئے۔ کفار کو مزید یہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو انکی موجودہ کمزوری کی حالت اور ذرائع کی قلت پر نہیں پَرکھنا چاہیےنہ ہی انہیں آپ ﷺ سے کئے گئے حتمی کامیابی کے وعدوں پر تعجب کرنا چاہیے۔

آپ ﷺ کی موعود کامیابی پر ہرگز تعجب نہیں کرنا چاہیےبلکہ اگر آپ ﷺ شدید تشنگی کے وقت نہ آتے تو یہ باعثِ تعجب ہوتا۔ آپ ﷺ کا کامیاب ہونالازم ہے اور آپؐ کے دشمنوں کے مقدر میں ناکامی ہے۔ اسلام کا مقصد ضرور کامیاب ہوگا اور کفار کے سرغنوں کے بچے بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔ خدا کفار سے اپنی مدد دور کردے گا اور انکی طاقت اور حشمت جاتی رہے گی۔ قدرت کے جملہ قوانین اور اجزاء یقیناً قادر خدا کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ آنحضرت ﷺ کے مقصد کی بالادستی کے لئے ان سب کو آپ کا مطیع کردے گا۔ مشرکوں کے معبودانِ باطلہ اس نئے عقیدہ (دین اسلام) کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے کی ہرگز طاقت نہ رکھیں گے۔ اس سورۃ میں مزید یہ مضمون بڑی شد و مد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کی قوتِ قدسی ایسی ہے کہ آپؐ تن تنہا اپنے دشمنوں پر غالب آسکتے ہیں جیساکہ ایک بینا آدمی کئی اندھوں کے مقابلہ میں غالب آسکتا ہے۔

شرک، توحید کے عقیدہ کے سامنے شرک نہیں ٹھہر سکتااورنہ ہی معبودان باطلہ کا پرستار سچے خدا کے مخلص لوگوں کےسامنے ٹھہر سکتا ہے۔ حق کے دشمن پانی کے اوپر سے جھاگ کی مانند بیٹھ جائیں گے۔ کم عقل لوگ صرف جھاگ دیکھتے ہیں اور اس کے نیچے صاف پانی تک ان کی نظریں نہیں پہنچتیں۔ یہ جھاگ تو بیٹھ جاتی ہے مگر صاف پانی اور سونا باقی رہ جاتا ہے۔ اسی طرح مشرک لوگوں کے سطحی اور بودے عقائد کا تباہ ہونا مقدر ہے جبکہ اعلیٰ قرآنی تعلیمات ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں کیونکہ یہ انسانی فطرت سے گہری مطابقت رکھتی ہیں۔ لہٰذا یہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیں گی اوروہ آہستہ آہستہ اس بات کو تسلیم کر لیں گے کہ سچائی کس فریق کے ساتھ ہے خاص طور پر جب وہ مومنوں کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا کفار کے ساتھ موازنہ کریں گے۔

بڑے بڑے نشانات دکھائے جائیں گے اور عظیم معجزے قرآن اور لوگوں کے دلوں کے ذریعہ عیاں ہوں گے اور روئے زمین پر موجود مضبوط ترین قلعے منہدم کر دئے جائیں گے۔ ان نشانوں میں سے ایک یہ بھی ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کی قوم آپؐ کو مکہ سے نکال دے گی اور آپؐ کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی۔ مگر اسلام، فتح مکہ کی صورت میں فاتحانہ شان اختیار کرے گا اور یوں کفار کا مرکز آپ ﷺ کے فاتحانہ بازؤوں میں آگرے گا۔ عرب سے ہمیشہ کے لئے بت پرستی کا خاتمہ ہو جائے گا اور اسلام یہاں پوری طرح سے نافذ ہو جائے گا۔ دنیا یہ سب نشان دیکھے گی جس میں کسی انسانی کاوش کا عمل دخل نہ ہوگابلکہ یہ سب قادر خدا کے ہاتھوں سے ہی رونما ہوگا۔ اس سورۃ میں کئی پیشگوئیاں کفار کے سرغنوں کی شکست اور ہلاکت کے بارہ میں کی گئی ہیں اور اسلام کے روشن مستقبل کی خوشخبری دی گئی ہے۔

سورۃ کا عنوان

متذکرہ بالا سطور میں اس سورۃ کا مضمون بیان کیا گیا ہے اور یہ اسی مضمون کی مطابقت ہے کہ اس سورۃ کا نام الرعد یعنی کڑک رکھا گیا ہے۔ بارش اپنے ساتھ بجلی اور کڑک لاتی ہے اور آسمانی بارش (قرآنی وحی) کے لئے بھی نہایت ضروری ہےکہ وہ کڑک اور چمک سے خالی نہ ہو۔ اسلام بھی اپنے ساتھ گرج چمک لایاہے۔ وہ لوگ جو اسلام کے خلاف تلوار لے کر نکلیں گے انہیں تلوار سے ہی ہلاک کیا جائے گا اور جو اس کے مطیع اور فرمانبردار بنیں گے وہ طاقت اور عظمت کے تخت پر بیٹھیں گے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 2 جولائی 2020ء