• 26 اپریل, 2024

قیادت تعلیم کے تحت تعلیمی امتحانات کی اہمیت

قیادت تعلیم مجلس انصار اللہ کینیڈا اپنےانصار بھائیوں کے دینی مطالعہ اور دینی علم بڑھانے کی خاطر ہر سال تعلیمی نصاب مقرر کر تی ہے۔ یہ نصاب قرآن مجید کے معین کردہ حصے،احادیث مبارکہ، کتب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خطبات امام پر مشتمل ہوتا ہے۔ دوران سال چار سہ ماہی پر مشتمل آن لائن تعلیمی امتحانات بھی منعقد کئے جاتے ہیں ۔جو انصار بھائی آن لائن امتحان نہیں دینا چاہتے انکے لیے تحریری پر چے حل کرنےکی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے۔ مگر جائزہ لینے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قیادت تعلیم کی مسلسل یاد دہانی اور توجہ دلانے کے باوجود انصار بھائیوں کی تعلیمی امتحانات کی طرف توجہ بہت کم نظر آتی ہے ۔آج اس امر کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ اس مضمون کے ذریعے اراکین مجلس انصار اللہ کی توجہ قرآنی تعلیمات، ارشادات حضرت مسیح موعود ؑ، اور خلفائے کرام کی روشنی میں ان تعلیمی امتحانات کی طرف مبذول کروائی جائے ۔

انسانی ترقی کا راز قلم میں ہے

’’ن۔ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں ۔‘‘

(القلم: آیت2)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سورۃ القلم کے ابتدائی تعارف میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ سورت لفظ ’’ن‘‘ سے شروع ہوتی ہے جس کا ایک معنی دوات کا ہے۔ اور قلم سے لکھنے والے تمام اس کے محتاج رہتے ہیں۔ اور انسان کی تمام ترقیات کا دور قلم کی بادشاہی سے شروع ہوتا ہے۔ اگر انسانی ترقی میں سے تحریر کو نکال دیا جائے تو انسان جہالتوں کی طرف لوٹ جائے اور پھر کبھی اسے علمی ترقی نصیب نہیں ہو سکتی۔‘‘

(قرآن کریم اردو ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ1060)

پھر ایک اور جگہ قرآنی ارشاد کے مطابق انسانی ترقی کا راز قلم میں رکھ دیا گیا ہے:

’’پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ۔‘‘

(العلق: آیت2)

’’جس نے قلم کے ذریعے سکھایا ۔‘‘

(العلق: آیت5)

پھر ہمیں اپنی علمی ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ہے :

’’اور یہ کہا کر کہ اے میرے رب مجھے علم میں بڑھا دے۔‘‘

(طُہ:آیت115)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیش گوئی

قیادت تعلیم کا بنیادی مقصد اراکین مجلس کو علم و معرفت کے حصول کی ترغیب دلانا اور دینی تعلیم کے حصول کیلئے کوشاں رکھنا اور ان کی علمی معیار کی ترقی کا جائزہ لیتے رہنا ہے ۔اس ضمن میں انصار بھائیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل پیش گوئی کو ضرور سامنے رکھنا چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’خُدا تعالیٰ نے مجھے باربار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رْو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمے سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھےگا اور پھْولے گایہاں تک کے زمین پر محیط ہو جاوے گا۔‘‘

(’’تجلیات الٰہیہ‘‘ روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 409)

مرکزی تعلیمی امتحانات

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش مبارکہ یہ تھی کہ افراد جماعت دینی علوم میں مہارت حاصل کریں اور پھر ان کے امتحانات بھی ہوں تاکہ ان کے علمی معیار کا اندازہ لگایا جاتا رہے ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ ہماری اس جماعت میں کم از کم ایک سو آدمی ایسا اہل فضل اور اہلِ کمال ہو کہ اس سلسلہ اور اس دعویٰ کے متعلق جو نشان اور دلائل اور براہین قوّیہ اقطعیہ خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں ان سب کا اس کو علم ہو ۔پس ان تمام امور کے لئے یہ قرار پایا ہے کہ اپنی جماعت کے تمام لائق اوراہلِ علم اور زیرک اور دانشمند لوگوں کو اس طرف توجہ دی جائے کہ وہ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۱ء تک کتابوں کو دیکھ کر اس امتحان کے لئے تیار ہو جائیں ۔تعطیلوں پرقادیان پہنچ کر امور متذکرہ بالا میں تحریری امتحان دیں۔‘‘

(فرمودہ 9ستمبر 1901ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 429-430)

اسی تناظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’دسمبر کے آخر میں جو احباب کے واسطے امتحان تجویز ہوا ہے اس کو لوگ معمولی بات خیال نہ کریں اور کوئی اسےمعمولی عْذر سے نہ ٹال دے۔ یہ ایک بڑی عظیم الشان بات ہے اور چاہیئے کہ لوگ اس کے واسطے خاص طور پر اس کی تیاری میں لگ جاویں۔‘‘

(ذکرِ حبیب صفحہ 28)

پھر حضور ؑ جماعت کو تفقہ فی الدین کی جانب توجہ دلا تے ہوئے فرماتے ہیں ’’ہماری جماعت کو علم دین میں تفقّہ پیدا کرنا چاہیے ۔۔ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ آیاتِ قرآنی و احادیث نبوی اور ہمارے کلام میں تدّبر کریں،قرآنی معارف و حقائق سے آگاہ ہو ں۔اگر کوئی مخالف ان پر اعتراض کر ےتو وہ اسے کافی جواب دے سکیں ۔ایک دفعہ جو امتحان لینے کی تجویز کی گئی تھی،بہت ضروری تھی ۔اس کا ضرور بندوبست ہونا چاہئے ۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ212-211)

دینی تعلیم سیکھنے کے بارے میں حضرت مصلح موعود ؓ کا ایک ارشاد

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں :
’’ان تینوں مجالس کو کوشش کر نی چاہئے کہ ایمان بالغیب ایک میخ کی طرح ہر احمدی کے دل میں اس طرح گڑ جائے کہ اس کا ہر خیال،ہر قول اور ہر عمل اس کے تابع ہو اور یہ ایمان قرآن کریم کے علم کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا ۔جو لوگ فلسفیوں کی جھوٹی اور پُر فریب باتوں سے متاثر ہوں اور قرآن کریم کا علم حاصل کرنے سے غافل رہیں وہ ہر گز کوئی کام نہیں کر سکتے ۔پس مجالس انصار اللہ،خدام الاحمدیہ اور لجنہ کا یہ فرض ہے اور ان کی یہ پالیسی ہونی چاہئے کہ وہ یہ باتیں قوم کے اندر پیدا کر یں اور ہر ممکن ذریعہ سے اس کے لئے کوشش کرتے رہیں ۔لیکچروں کے ذریعہ، اسباق کے ذریعہ اور بار بار امتحان لےکران باتوں کو دلوں میں راسخ کیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو بار بار پڑھا جائے۔‘‘

(بحوالہ تقریرجلسہ سالانہ 27دسمبر1941ءسبیل الرشاد حصہ اوّل صفحہ58-59)

انصار کو بنیادی مسائل کے علم کی طرف توجہ دینی چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:
’’لیکن جو میرے مخاطب ہیں اطفال اور نوجوان، خدام الاحمدیہ کی عمر کے یا بچے جن کو میں کہو ں گا یا نوجوان ہیں جنہیں کہوں گا وہ دو قسم کے ہیں اور ایک تو وہ ہے جو احمدی گھر میں بچہ پیدا ہوا پھر وہ اپنی عمر سے گذرتا ہوا ایک طفل جو ہمارا نظام ہے اطفال کا اس کی عمر کو پہنچا۔ پھر اس سے نکلا ۔پھر وہ خدام الاحمدیہ کی عمر کو پہنچا ۔پھر اس سے نکلا ۔پھر وہ انصار اللہ کی عمر کو پہنچا ۔انصار میں سے بھی ہیں بہت سے جن کو ان باتوں کا علم نہیں۔‘‘

(بحوالہ سبیل الرشاد حصہ دوم صفحہ 357-356 خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 59)

ہر ناصر اپنی ذات میں مربی بن کر اپنی دینی علم کی کمزوری کا جائزہ لے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :
’’بہت سے ایسے احمدی میرے علم میں ہیں جنہوں نے خود اپنی تربیت کی ہے اس لئے کہ ان کا دل پہلے تڑپا تھا ۔ان کے دل نے اس بات کو محسوس کیا تھا کہ جو مقام اور مرتبہ مجھے حاصل ہوا ہے اس کے مطابق مجھے علم نہیں ہے اور اس لحاظ سے میں پیچھے رہ گیا ہوں ۔چنانچہ اس وجہ سے ان کے دلوں میں شوق پیدا ہوئے انہوں نے ازخود محنتیں کیں، خود پڑھنا شروع کیا، اپنی کمزوریوں کو دور کیا، اگر دلائل میں کمزور تھے تو دلائل کی طرف توجہ کی ۔غرضیکہ مربی دل میں پہلے پیدا ہوتا ہے تب انسان حقیقت میں علمی اور دینی تربیت حاصل کرتا ہے۔‘‘

(266 بحوالہ سبیل الرشاد حصہ سوم صفحہ370-367 صفحہ 11)

مطالعہ کتب اورامتحانات کے بارے میں قیادت تعلیم کو ہدایات

مورخہ 5جولائی 2005ء بروز منگل حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے اراکین نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ کینیڈا کے ساتھ میٹنگ کے دوران قائد تعلیم کو ہدایت فرمائی کہ ’’مطالعہ کتب میں اور امتحانات میں مجلس عاملہ کو بھی شامل کر یں اور ان سے رپورٹ لیتے رہا کریں کہ کتنے صفحات کا مطالعہ کیا ہے ۔مقصد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے خزانے میں سے حصہ لیتے رہیں‘‘۔

(بحوالہ سبیل الرشادحصہ چہارم الفضل انٹرنیشنل19اگست2005ءصفحہ93)

3ستمبر 2005ء کو اراکین مجلس عاملہ انصار اللہ جرمنی کی میٹنگ کے دوران قائد تعلیم کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نےفرمایا کہ ’’عاملہ ممبران کا بھی جائزہ لیں کہ کتنوں نے یہ کتاب پڑھی ہے ۔مرکزی طور پر سارے ملک کے انصار سے امتحان لیں ۔فرمایا: کسی کتاب کے چند صفحے دے دیں۔ بے شک کتاب دیکھ کر حل کردیں ۔یہ کام کرلیں بہت بڑا کام ہے۔‘‘

(بحوالہ سبیل الرشاد حصہ چہارم صفحہ 98)

حرف آخر

مذکورہ بالا ارشادات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شعبہ تعلیم مجلس انصار اللہ کے تحت تعلیمی امتحانات کا اجراء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی ہدایت کی تعمیل میں کیا گیا ہے ۔اس لئے انصار بھائیو ں سے عا جزانہ درخواست ہے کہ ان امتحانات کی طرف اس نیت کے ساتھ سنجیدگی سے لوٹیں کے یہ ہماری طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی خواہش کو پورا کرنے کی ایک حقیر سی کوشش ہے ۔اگر اراکین مجلس کے دینی علم میں اضافہ ہوگا تو ہم اپنی اولاد کی بھی بہتر رنگ میں امور دینیہ میں رہنمائی اور تربیت کرسکتے ہیں جو ہماری ذمہ داریوں کا ایک اہم حصہ ہے ۔

(خالد محمود شرما۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 2 جولائی 2020ء