• 8 مئی, 2024

مزدوروں، یتیموں اور کمزوروں کے حقوق

مزدوروں، یتیموں اور کمزوروں کے حقوق
اور پرورش کے بارے میں اللہ کے احکام

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

مزدوروں اور یتیموں کے حق اور پرورش کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں، اُن کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اگر کوئی ایسا تم میں مالدار ہو جو صحیح العقل نہ ہو مثلاً یتیم یا نابالغ ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ اپنی حماقت سے اپنے مال کو ضائع کر دے گا تو تم (بطور کورٹ آف وارڈس کے) وہ تمام مال اُس کا متکفل کے طور پر اپنے قبضہ میں لے لو اور وہ تمام مال جس پر سلسلہ تجارت اور معیشت کا چلتا ہے ان بیوقوفوں کے حوالے مت کرو اور اس مال میں سے بقدر ضرورت اُن کے کھانے اور پہننے کے لئے دے دیا کرو اور اُن کو اچھی باتیں قولِ معروف کی کہتے رہو۔ یعنی ایسی باتیں جن سے اُن کی عقل اور تمیز بڑھے اور ایک طور سے اُن کے مناسب حال اُن کی تربیت ہو جائے اور جاہل اور ناتجربہ کار نہ رہیں۔ اگر وہ تاجر کے بیٹے ہیں تو تجارت کے طریقے اُن کو سکھلاؤ اور اگر کوئی اَور پیشہ رکھتے ہوں تو اس پیشہ کے مناسبِ حال اُن کو پختہ کردو۔ غرض ساتھ ساتھ اُن کو تعلیم دیتے جاؤ اور اپنی تعلیم کا وقتاً فوقتاً امتحان بھی کرتے جاؤ کہ جو کچھ تم نے سکھلایا انہوں نے سمجھا بھی ہے یا نہیں۔ پھر جب نکاح کے لائق ہو جائیں یعنی عمر قریباً اٹھارہ برس تک پہنچ جائے اور تم دیکھو کہ اُن میں اپنے مال کے انتظام کی عقل پیدا ہو گئی ہے تو اُن کا مال اُن کے حوالہ کرو اور فضول خرچی کے طور پر اُن کا مال خرچ نہ کرو اور نہ اس خوف سے جلدی کر کے کہ اگر یہ بڑے ہو جائیں گے تو اپنا مال لے لیں گے، ان کے مال کا نقصان کرو۔ جو شخص دولتمند ہو اُس کو نہیں چاہئے کہ اُن کے مال میں سے کچھ حق الخدمت لیوے۔ لیکن ایک محتاج بطور معروف لے سکتا ہے‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ346-347)

فرمایا کہ: ’’عرب میں مالی محافظوں کے لئے یہ طریق معروف تھا کہ اگر یتیموں کے کارپرداز اُن کے مال میں سے لینا چاہتے تو حتی الوسع یہ قاعدہ جاری رکھتے کہ جو کچھ یتیم کے مال کو تجارت سے فائدہ ہوتا اُس میں سے آپ بھی لیتے۔ رأس المال کو تباہ نہ کرتے۔ سو اسی عادت کی طرف اشارہ ہے کہ تم بھی ایسا کرو۔ اور پھر فرمایا کہ جب تم یتیموں کو مال واپس کرنے لگو تو گواہوں کے رُوبرو اُن کو اُن کا مال دو اور جو شخص فوت ہونے لگے اور بچے اُس کے ضعیف اور صغیر السِنّ ہوں تو اُس کو نہیں چاہئے کہ کوئی ایسی وصیت کرے کہ جس میں بچوں کی حق تلفی ہو۔ جو لوگ ایسے طور سے یتیم کا مال کھاتے ہیں جس سے یتیم پر ظلم ہو جائے تو وہ مال نہیں بلکہ آگ کھاتے ہیں اور آخر جلانے والی آگ میں ڈالے جائیں گے‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ346-347)

فرمایا: ’’اب دیکھو خدا تعالیٰ نے دیانت اور امانت کے کس قدر پہلو بتلائے۔ سو حقیقی دیانت اور امانت وہی ہے جو ان تمام پہلوؤں کے لحاظ سے ہو اور اگر پوری عقل مندی کو دخل دے کر امانتداری میں تمام پہلوؤں کا لحاظ نہ ہو تو ایسی دیانت اور امانت کئی طور سے چھپی ہوئی خیانتیں اپنے ہمراہ رکھے گی‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ346-347)

اگر امانتداری میں تمام پہلوؤں کا لحاظ نہیں رکھا گیا تو پھر اس میں چھپی ہوئی خیانت بھی آ جائے گی۔ پس بہت محتاط ہو کر یہ حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ جب تقویٰ کے بارے میں بار بار تلقین فرماتا ہے تو اس لئے کہ اپنے جائزے لو اور دیکھو کہ کمزوروں کے حق ادا ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے۔ امانت اور دیانت کے معیاروں کو پرکھتے رہو۔ یہ نہ ہو کہ ان کے نیچے چھپی ہوئی خیانتیں ہوں جو آگ کے گولے پیٹ میں بھرنے کا باعث بن جائیں۔ پھر خدا تعالیٰ یہ حکم فرماتا ہے کہ وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ (الانعام: 153) اور انصاف کے ساتھ ماپ اور تول پورے پورے دو۔ یہاں اب عمومی طور پر اپنے کاروباروں کو انصاف اور ایمانداری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرنے کا حکم ہے۔ پہلے یتیموں اور کمزوروں کا حق قائم کیا اور ایمانداری سے اُن کا حق ادا کرنے کا حکم دیا تو اب آپس کے کاروباروں کو صفائی اور ایمانداری سے بجا لانے کا حکم ہے۔ کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر دوسرا فریق لا علم ہے تب بھی دھوکہ نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم کوئی جِنس بیچ رہے ہو تو اگر جنس میں کسی قسم کی کمی ہے تو اُس کو سامنے رکھو تاکہ خریدار کو پتہ ہو کہ جو مال میں خرید رہا ہوں، اُس میں یہ نقص ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب من باع عیبا فلیبینہ حدیث 2246)

(خطبہ جمعہ 2؍اگست 2013ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

جامعة المبشرین سیرالیون کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جولائی 2022