• 26 اپریل, 2024

اپنے اندر زُہد پیدا کرو کیونکہ یہ پیدا کرو گے تو تقویٰ کی حقیقی روح کی بھی پہچان ہو گی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اب اگر دیکھا جائے تو دنیا میں جو خدا تعالیٰ نے چیزیں پیدا کی ہیں ان سے انسان مکمل طور پر قطع تعلق تو نہیں کر سکتا۔ تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس طرح روک لو کہ دنیا سے کٹ جاؤ۔ زُہد یہ ہے کہ دنیا کی ان چیزوں کی جو ناجائز خواہشات ہیں، اُن سے اپنے آپ کو روک لو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی تحدیث کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ ان سے فائدہ نہ اُٹھانا بھی خدا تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ نے یہ عہد کیا کہ ہم روزے ہی رکھتے رہیں گے۔ روزانہ روزے رکھیں گے۔ شادی نہیں کریں گے۔ عورت کے قریب نہیں جائیں گے۔ ساری ساری رات نمازیں ہی پڑھتے رہیں گے۔ جب آپ کے علم میں یہ بات آئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں روزے بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، نمازیں بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ دوسرے دنیاوی کام اور گھر کے کام کاج بھی کر لیتا ہوں۔ عورتوں سے نکاح بھی کیا ہے۔ پس جو شخص مجھ سے منہ موڑے گا، وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔ فرمایا کہ یاد رکھو کہ میں تم لوگوں کی نسبت خدا تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہوں اور اپنی خواہشات کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے تابع رکھتا ہوں۔

(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح حدیث نمبر5063)

پس اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی زُہد یہ ہے کہ صرف دنیاوی خواہشات اور ان کی تسکین مطمح نظر نہ ہو بلکہ جو اُن میں سے بہترین ہے وہ لو اور اعتدال کے اندر رہتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے ان دنیاوی چیزوں سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو یہ زُہد ہے۔ اگر یہاں آ کر ان مغربی ممالک کی آزادی کی وجہ سے یہاں کی ہر چیز میں خواہشات کی تسکین کا لالچ تمہیں اپنی طرف کھینچ رہا ہے تو پھر تمہارا جلسوں پر آنا بے فائدہ ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنا بھی بے فائدہ ہے۔ پس فرمایا اپنے اندر زُہد پیدا کرو کیونکہ یہ پیدا کرو گے تو تقویٰ کی حقیقی روح کی بھی پہچان ہو گی۔ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ یہی ہے کہ ہر وقت یہ خوف دل میں رکھنا کہ میرے سے کوئی ایسا کام سرزدنہ ہو جائے جس سے خدا تعالیٰ مجھ سے ناراض ہو جائے۔ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف سزا کے ڈر سے نہ ہو بلکہ اس طرح ہو جس طرح ایک بہت قریبی دوست کی یا قریبی عزیز کی ناراضگی کا خوف ہوتا ہے۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر حاوی ہو جائے اور ایسی محبت کی حالت بھی اُس وقت طاری ہو سکتی ہے جب خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق ہو اور اس کا عرفان ہو۔ جب محور خدا تعالیٰ کی ذات ہو۔ پس یہ وہ معیار ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس معیارِ تقویٰ کو ہم میں پیدا کرنے کے لئے بارہا مختلف رنگ میں ہمیں نصائح فرمائی ہیں۔ آپ اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں کہ
’’اپنی جماعت کی خیرخواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل: 129)۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ7 ایڈیشن 2003ء)

پس جب جماعت کے افراد کو بار بار اس بات کی نصیحت کی جاتی ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ زمانے کے مامور کی بیعت میں آکر جب ہم یہ دعویٰ اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جن سے اس بیعت کی وجہ سے خدا راضی ہوا ہے یا ہم نے اس لئے بیعت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کریں۔ اگر اس پر عمل نہیں تو یہ دعویٰ محض دعویٰ ہو گا۔ اگر ہمارے قدم تقویٰ کی طرف نہیں بڑھ رہے تو یہ صرف دعویٰ ہے۔

یہ آیت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے یہ تقویٰ کی وضاحت بھی کرتی ہے کہ تقویٰ اُن لوگوں کا ہے جو محسنوں میں سے ہیں اور محسن کے معنی ہیں کہ جو دوسروں سے اچھائی کا سلوک کرتے ہیں۔ جو اُن کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے ہیں۔ جو علم رکھنے والے ہیں اور یہ علم اُنہیں تقویٰ کی راہوں پر چلانے والا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کی بھی خوبصورتی دیکھیں۔ پہلے زُہد کی طرف توجہ دلائی کہ اپنی خواہشات کو خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع کرو۔ پھر تقویٰ اختیار کرنے کا فرماتے ہوئے اللہ کے کلام سے وہ مثال پیش فرمائی جس میں یہ تلقین ہے کہ اپنے جذبات کو دوسروں کے جذبات کے لئے قربان کر کے اُنہیں فیض پہنچاؤ۔ تو متقی بن کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والے بن جاؤ گے۔

(خطبہ جمعہ 28؍جون 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ ربوہ کی پیاری یادیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اگست 2022