• 16 مئی, 2024

شہداء خواتین کی تاریخ

خدا تعالیٰ نے عورت کا خمیر محبت اور قربانی سے گوندھا ہے۔ وہ جس سے محبت کرتی ہے اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتی ہے۔ اسلامی تاریخ ایسی عظیم خواتین سے بھری پڑی ہے جنہوں نے توحید کا پرچم بلند رکھنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ راہ حق میں انہوں نے نہ اپنے نفس کی پروا کی نہ اپنے قریبی رشتوں کی، اپنے جذبات و احساسات سب قربان کیے لیکن ان کے پایہ استقلال میں رتی برابر بھی لغزش نہ آئی۔ عورت کے لیے اپنی جان سے بھی عزیز تر اپنی اولاد اور اپنے دیگر اقرباء ہوتے ہیں جو عورت اپنی اولاد جیسی عزیز ترین شئے خدا کی راہ میں قربان کر سکتی ہے اسے اپنی جان کی کیا پروا ہو گی۔ بلکہ بقول شاعر

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

احمدی عورت بھی عہد بیعت باندھ کر جب عہد نامہ لجنہ اماء اللہ دہراتی ہے کہ اپنی جان، مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لیے ہر دم تیار رہے گی تو کب ایسا ہوا کہ ان قربانیوں کو دینے کا وقت آیا اور اس نے قدم آگے نہ بڑھائے ہوں۔ اس نے نہ اپنی جان گنوانے سے دریغ کیا نہ اپنی اولاد کی قربانی دینے سے اور مال اور وقت کا تو کچھ شمار نہیں۔ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بے شمار احمدی خواتین نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور امر ہو گئیں۔ اس مضمون کے ذریعے ایسی ہی جانثار خواتین کا ذکر خیر کیا جا رہا ہے۔ خدا تعالیٰ شہداء کا مقام و مرتبہ کتاب رحمان میں کچھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ

وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّلٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ

(البقرہ: 155)

اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مُردے نہ کہو بلکہ (وہ تو) زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام شہید کی خوبی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوّت ایمانی اور قوّت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ516)

خلافت ثانیہ کے دور میں جب انڈیا سے پاکستان ہجرت کرنے کا وقت تھا اس وقت بہت سی جانثار خواتین اپنے اہل خانہ کے ساتھ جماعتی احکامات کے تحت اپنے گھروں تک محدود رہیں اور جام شہادت نوش کیا ان سب کا ذکر خیرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبات میں فرمایا سب سے پہلے اہلیہ حاجی میران بخش تھیں جن کو 13اور 14 اگست 1940ء کی درمیانی شب انبالہ شہر میں ان کے مکان پر حملہ کر کے شہید کیا گیا۔ ان کی دس ماہ کی بچی ان کی گود میں تھی جو ماں کے نیچے دبی ماں کا دودھ چوسنے کی کوشش کرتی رہی لیکن وہ دودھ تو خشک ہو چکا تھا۔

(ماخوذا زخطبات طاہر بابت شہداء صفحہ49-50)

پھر اسی طرح عالم بی بی، چراغ بی بی، جان بی بی آف کھارا نذر قادیان کو بھی سکھ جتھے نے ان کے دیگر اہل خانہ کے ساتھ شہید کر دیا۔

(ماخوذا زخطبات طاہر بابت شہداء صفحہ71)

گلاب بی بی آف سیکھواں یہ بھی قادیان کے قریب رہتی تھیں اور سکھوں کی خون ریزی کے نتیجے میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ شہید ہو گئیں۔

(ماخوذا زخطبات طاہر بابت شہداء صفحہ74)

سری گوبند پورہ کی زہرہ بی بی اور ان کی چار سالہ بیٹی جسے سکھ جتھے نے ان کے گھر پر حملہ کر کے ان کے شوہر اور بیٹے کے ساتھ شہید کر دیا۔

(ماخوذا زخطبات طاہر بابت شہداء صفحہ66-67)

انڈو نیشیا کی دو خواتین محترمہ اڈوٹ صاحبہ اور محترمہ اونیہ صاحبہ جماعت چیا نڈرم بھی جان کی قربانی پیش کرنے والی لجنات میں شامل ہیں۔ جنہیں 3 مارچ 1953ء کو گھر سے باہر بلا کر فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔

(خطبات طاہر بابت شہداء صفحہ54)

ایسی ہی ایک بہادر خاتون کا ذکر جن کا نام رشیدہ بیگم آف سانگلہ ہل تھا۔ ان کے شوہر قاری عاشق حسین صاحب کو خدا تعالیٰ نے احمدیت کی دولت سے مالا مال کر دیا تو آپ کا رحجان بھی اس طرف ہو گیا۔ 1972ء میں ربوہ کے جلسہ سالانہ میں شرکت کے بعد احمدیت کو غور سے دیکھنے کے بعد اسے صدق دل سے قبول کر لیا۔ لیکن اہل خانہ کی طرف سے واپسی کا بہت دباؤ اور اصرار تھا لیکن آپ نے تمام مخالفتوں کا مقابلہ کیا۔ آپ نہایت عبادت گزار اور سچے خواب دیکھنے والی گونا گوں خوبیوں کی مالک تھیں۔

3 رمضان المبارک 1978ء کورات قاری صاحب کے دیر تک جاگنے کی وجہ دریافت کرنے پر کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جس لڑکے کو تو نے خود پالا ہے وہی تیرا قاتل ہے۔ وہ لڑکا قاری صاحب کا بھتیجا تھا جس کی نو ماہ کی عمر سے لے کر بیس سال تک آپ نے اسے پالا تھا۔ وہ لڑکا منکرین احمدیت کی باتوں میں آکر اپنی ہی مربیہ ماں کی جان کے درپے ہو گیا۔ اور اگلے دن جب قاری صاحب گھر سے باہر تھے تو اچانک سے آپ کا بھتیجا گھر میں گھس کر پہلے بچوں پر جھپٹا آپ بچوں کو بچانے کے لیے لپکیں تو وہ ظالم آپ کی چھاتی پر بیٹھ گیا اور چاقو کے وار کرتا رہا آپ بے بسی کے عالم میں اسے روکتی رہیں اور پوچھا کہ ہمیں کیوں مار رہے ہو تو اس نے کہا کہ کیوں کہ تم کافر ہو گئی ہو۔ ان کے بچوں میں سے ایک بچی پر بھی حملہ کر کے اسے زخمی کیا لیکن وہ بچی تو بچ گئی مگر رشیدہ صاحبہ نے جام شہادت نوش فرما لیا۔ یہ تمام واقعہ تفصیلاً (خطبات طاہر بابت شہداء صفحہ نمبر 168-170) پر درج ہے۔ خاکسار نے مختصراً اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ پھر ایک اور دین کے لیے جان وار دینے والی خاتون جن کو 9جون 1982ء کو عید کے روز شہید کیا گیا۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 20؍جون 1986ءکو خطبہ جمعہ اس شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہ شہادت …ایک نئے باب کا اضافہ کر رہی ہے، ایک نیا سنگِ میل رکھ رہی ہے اس دور کی قربانیوں میں کیونکہ خواتین میں سے یہ پہلی ہیں جنہیں اس دور میں اللہ کی خاطر جان دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کا نام رخسانہ تھا۔ ان کے خاوند طارق تو احمدی تھے لیکن ان کے بھائی بشارت احمدی نہیں۔ …بشارت علماء کی بد کلامی کے نتیجہ میں دن بدن زیادہ بدگو ہوتا چلا گیا اور اخلاقی جرأت کا یہ حال تھا کہ بھائی کے سامنے تو زبان نہیں کھول سکتا تھا لیکن اپنی مظلومہ بھابھی کے سامنے دل کھول کر دل کا غبار نکالتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو گالیاں دیتا تھااور ہر قسم کی بد کلامی سے کام لیتا تھا اور مردانگی کا عالم یہ ہے کہ بھائی کوتو عبادت سے نہیں روک سکتا تھا لیکن اس مظلوم عورت کو قتل کی دھمکیاں دیتا تھا کہ اگر تم احمدی مسجد میں جا کرنمازیں پڑھو گی تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔ …… عید کے روز کا واقعہ ہے کہ طارق اور ان کی بیگم رخسانہ جب عید کی نماز پڑھ کر واپس آئے۔ طارق جب غسل خانے گئے تو پیچھے بچی کو اکیلا پاکر اس نے پھر نہایت بد کلامی سے کام لیا اور کہا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ تم نے احمدیوں کی مسجد میں نماز پڑھنے نہیں جانا۔ اس نے کہا تم کون ہوتے ہو مجھے منع کرنے والے۔ عبادت کا معاملہ ہے۔ …چنانچہ اس پر اس نے پستول نکال کر وہیں فائرکیےدو گولیاں تو سینہ چھید کر نکل گئیں اور ایک ٹانگ پر لگی۔ بہرحال تھوڑی دیر کے اندر ہی بچی نے دم توڑ دیا۔

… احمدی مستورات قربانیوں میں ہر گز اپنے مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ شہادت میں وہ بیویاں جو بیوگی کی زندگی بسر کرنے کے لئے پیچھے رہ جاتی ہیں اُن کے متعلق یہ گمان کرنا کہ ان کے خاوند ثواب پاگئے اور وہ محروم رہ گئیں، وہ آگے نکل گئے اور یہ پیچھے رہ گئیں یہ بالکل غلط خیا ل ہے۔ مردوں کی شہادت کی عظمت کے اندر ان کی بیواؤں کی قربانیوں کی عظمت داخل ہوتی ہے۔ ان ماؤں کو آپ کیسے بھلا سکتے ہیں جن کے بچے شہید ہوئے اور اللہ کی رضا کی خاطروہ راضی رہیں اوربڑے حوصلے اور صبر کے نمونے دکھائے۔ ان بہنوں کو آپ کیسے فراموش کر سکتے ہیں جن کے ویرہاتھ سےجاتے رہے۔ بہت ہی پیار سے ان کو دیکھا کرتی تھیں، بڑی محبت سے ان کا استقبال کیا کرتی تھیں اور جانتی ہیں کہ اب کوئی گھر میں واپس نہیں آئے گا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ خواتین، یہ بوڑھیاں، یہ بچیاں، یہ جوان عورتیں یہ ساری قربانیوں سے محروم ہیں اور صرف شہید ہونے والےقربانیوں میں آگےنکل گئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍جون 1986ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد5 صفحہ436-440)

محترمہ اپنے ناحق بہائے خون سے یہ پیغام دے کر گئیں کہ

اپنی جان بھی اگر پیش کرنی پڑے
اس کی خدمت میں یہ بھی ہے کم دوستو
اپنی تاریخ کے اس اہم باب کو
خونِ دل سے کریں گے رقم دوستو

پھر ایک اور شہادت عزیزہ نبیلہ شہید کی جو مکرم مشتاق احمد صاحب کے گھر چک سکندر میں پیدا ہوئیں اور 16 جولائی 1989ء کو دس سال کی عمر میں جام شہادت نوش کر کے اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئیں۔

(ماخوذا ز خطبات طاہر بابت شہداء صفحہ198)

اسی طرح ایک اور بہادر خاتون مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ عمر سلیم بٹ صاحب فدائی احمدی اور دعوت الی اللہ کی شوقین تھیں آپ کی کوششوں سے دو بہن بھائی احمدی ہوئے جن کو سخت مخالفت کا سامنا تھا آپ ان کو تسلی دینے ان کے گاؤں جاتی رہتی تھیں۔ آخری بار 1مئی 1999ء کو جب ان سے ملاقات کرنے اور ان کے والد کو زیارت مرکز کے لیے قائل کرنے گئیں تو انہی بہن بھائی کے سوتیلے بھائی نے جو اپنے گھر احمدیت پھیلانے کا ذمہ دار ان کو سمجھتا تھا اس نے چھریوں کے وار کر کے آپ کو شدید زخمی کر دیا۔ 9 مئی 1999ء کو آپ ان زخموں سے جانبر نہ ہوتے ہوئے اپنے مولا سے جا ملیں۔

(خطبات طاہر بابت شہداء صفحہ229-230)

خوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر! رائیگاں کب گیا تھا کہ اَب جائے گا
ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے، پھول پھل لائے گی، پھول پھل جائے گی

(کلام طاہر)

مکرمہ شریفہ شوکت اور ان کے شوہر مکرم عبدالرحیم مجاہدکو مورخہ 8 اور 9 مئی 2001ء کی درمیانی رات کو نہایت ظالمانہ طور پر شہید کیا گیا۔ دونوں صحن میں سوئے ہوئے تھے انہیں وہاں سے اٹھا کر باتھ روم اور ملحقہ اسٹور میں لے جاکر تشدد سے ہلاک کیا گیا۔

(ماخوذا زخطبات طاہر بابت شہداء صفحہ245)

پھر خلافت خامسہ میں بھی ایک نہایت افسوسناک واقعہ ہوا جس میں ایک جواں سال ڈاکٹر کو بڑی بے رحمی سے شہید کر دیا گیا۔

خطبہ جمعہ 20 مارچ 2009ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس دردناک شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
گزشتہ دنوں پھر انتہائی ظالمانہ طور پر ایک نوجوان جوڑے میاں بیوی کو ملتان میں شہید کر دیا گیا اور ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے زمانہ کے امام کو مانا۔ دونوں ڈاکٹر تھے اور بڑے ہر دلعزیز ڈاکٹر تھے۔ ایک کا نام ڈاکٹر شیراز ہے ان کی 37سال عمر تھی اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر نورین شیراز 28 سال کی تھیں۔ میراخیال ہے کہ شاید یہ شہداء میں عورتوں میں سب سے کم عمر شہید ہیں۔

(خطبہ جمعہ 20 مارچ 2009ء)

پس یہ ایک مختصر ذکر تھا ان خواتین کا جنہوں نے اپنی جان جیسی بیش قیمت متاع بھی اپنے دین کی خاطر گنوا دی۔ لیکن جاتے جاتے ہمیں یہ پیغام دے گئیں کہ اے خدا کی لونڈیو! تم خدا کے مسیح کے وجود کی سر سبز شاخیں اسی صورت میں بن سکتی ہو جب تم اپنی جان،مال، وقت اور اولاد کو اپنے اور اپنے محبوب حقیقی کے درمیان نہ آنے دو۔ جب اللہ تعالیٰ اور اللہ کے دین کی بات آجائے تو ہر چیز اس کی راہ میں قربان کر دو وہ خدا بڑا حیا والا ہے وہ تمہارے اجر کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا بلکہ اسے بڑھا چڑھا کر تمہیں لوٹائے گا۔ تم تو خوش قسمت تصور ہو گی اگر تمہارا خون اس شجر سایہ دار کی آبیاری کے کام آ جائے کہ اور ان ثمر آور وجودوں سے اس خون کی مہک بھی آئے گی۔ آئندہ آنے والی نسلیں تمہارا نام ہمیشہ محبت کے ساتھ لیں گی اور تمہارا شمار وفا داروں میں ہو گا۔ تمہاری جان کی قربانی جماعت کی ترقی کے نئے راستے کھولنے والی ہو گی۔ موت تو بہرالحال سو سال بھی جی لو تو آجانی ہے لیکن ایسی موت جس کے بعد حیات جاوداں مل جائے اس سے اچھی بھلا کیا چیز ہو سکتی ہے۔

شہید کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ

1۔ یہ کہ اسے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے وقت ہی بخش دیا جائے گا۔
2۔ وہ جنت میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لے گا۔
3۔ اسے قبر کے عذاب سے پناہ دی جائے گی۔
4۔ وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔
5۔ اس کے سر پر ایسا وقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔
6۔ اور اسے اپنے 70 اقارب کی شفاعت کا حق دیا جائے گا۔

(سنن ترمذی کتاب فضائل الجہاد باب فی ثواب الشہید)

پس ایسی خوبیوں والی موت پانے کو کس کا جی نہیں چاہےگا۔ ان خواتین کے واقعات پڑھ کر ہم سب میں بھی وہی جوش،وہی جذبہ بیدار ہونا چاہیے کہ اس عشق و وفا کے کھیت کے لہلانے کے واسطے اپنی جان کی بھی پروا نہ کریں کیونکہ

یہ عشق ووفا کے کھیت کبھی خوں سینچے بغیر نہ پنپیں گے
اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو

(کلام محمود)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اس نصیحت کو ہمیشہ مدنظر رکھیں آپ فرماتے ہیں:
’’ان واقعات کو زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے ہماری ذمہ داری ہے۔ اور یہ قرض ہے ان شہیدوں اور ان خدا کی راہ میں تکلیفیں اُٹھانے والوں کا ہم پر۔ لیکن اگر ہم اس قرض کو ادا کریں گے اور جیسا کہ میں نے آپ سے بیان کیا ہے خدا کی محبت میں سر شار ہو کر اس جذبہ قر بانی کو اپنا لیں گے تو آئندہ نسلوں پر ہم احسان کرنے والے ہو ں گے ہم ایک ایسی قوم بن جائیں گے جو شہیدوں کی طرح ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ اللہ ہمیں ابد الآباد تک زندہ رکھے۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ406)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کی سی سیرت رکھنے والی خواتین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

(صدف علیم صدیقی۔ ریجائنا کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ ربوہ کی پیاری یادیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اگست 2022