• 6 مئی, 2024

ربط ہے جان ِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 35)

ربط ہے جان ِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
والدین کے احترام کی تلقین اور عمل
قسط 35

والدین کے احترام اور احسان کے سلوک کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ بہت احسان کرو‘‘۔ (النساء: 37) ’’اور تیرے ربّ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔

اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پَرجُھکا دے اور کہہ کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔‘‘

(بنی اسرائیل: 24-25)

والدین کی اطاعت کے بارے میں آنحضرتﷺ نے بہت تاکید فرمائی:
’’خدا کی رضا والد کی رضا میں مضمر ہے اور خدا کی ناراضگی میں پوشیدہ والد کی ناراضگی ہے۔‘‘

(شعب الایمان للبیہقی)

’’اللہ تعالیٰ سب گناہ معاف کردیتا ہے سوائے والدین کی نافرمانی کے۔ وہ اس فعل کے مرتکب کو مرنے سے پہلے زندگی میں ہی سزا دیتا ہے‘‘

(مشکوۃ کتاب الادب باب البر والصلہ)

’’من ادرک احد والدیہ ثم لم یغفرلہ فابعدہ اللّٰہ عزوجل‘‘

(ابن کثیر جلد6 صفحہ61)

یعنی جس شخص کو اپنے والدین میں سے کسی کی خدمت کا موقع ملے اور پھر بھی اس کے گناہ نہ معاف کئے جائیں تو خدا اس پر لعنت کرے مطلب یہ کہ نیکی کا ایسا اعلیٰ موقعہ ملنے پر بھی اگر وہ خدا کا فضل حا صل نہیں کرسکا تو جنت تک پہنچے کے لئے ایسے شخص کے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ321)

’’والد جنت میں داخلے کا بہترین دروازہ ہے، چاہے تم اس دروازے کو اکھاڑ دو یا اس کی حفاظت کرو۔‘‘

(سنن ابن ماجہ، کتاب الادب رقم الحدیث 543)

’’جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کا رزق بڑھا دیا جائے تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔‘‘

(الجامع لشعب الایمان جلد10 صفحہ264-265 باب بر الوالدین
حدیث 7471 مکتبۃ الرشدناشرون الریاض 2004ء)

اللہ بزرگ وبرتر ارشاد فرماتاہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمان ہوں میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتاکے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو جدا کردوں گا‘‘

(ابو داوٴد، مشکوٰة: 420)

عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضورؐ کی خدمت میں عرض کی کہ میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں۔ فرمایا: کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں زندہ ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب الجہاد باذن الابوین حدیث 3004)

نبی اکرمﷺ کے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے کہا کہ: اے اللہ کے رسولؐ! مَیں نے اپنی ماں کو یمن سے اپنی پیٹھ کر اٹھا کرحج کرایا ہے، اسے اپنی پیٹھ پر لئے ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، اسے لئے ہوئے عرفات گیا، پھر اسی حالت میں اسے لئے ہوئے مزدلفہ آیا اور منیٰ میں کنکریاں ماریں۔ و ہ نہایت بوڑھی ہے ذرابھی حرکت نہیں کر سکتی۔ مَیں نے یہ سارے کام اُسے اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے سرانجام دئے ہیں تو کیا مَیں نے اس کاحق ادا کر دیاہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، اس کا حق ادا نہیں ہوا‘‘۔ اس آدمی نے پوچھا: ’’کیوں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اس لئے کہ اس نے تمہارے بچپن میں تمہارے لئے ساری مصیبتیں اس تمنا کے ساتھ جھیلی ہیں کہ تم زندہ رہومگرتم نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا وہ اس حال میں کیا کہ تم اس کے مرنے کی تمنا رکھتے ہو۔ تمہیں پتہ ہے کہ وہ چند دن کی مہمان ہے۔

(الوعی، العدد 58، السنۃ الخامسۃ)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، مٹی میں ملے اس کی ناک۔ مٹی میں ملے اس کی ناک (یہ الفاظ آپؐ نے تین دفعہ دہرائے) لوگوں نے عرض کیا کہ حضور کون؟ آپؐ نے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا۔

(مسلم کتاب البر والصلۃ باب رغم انف من ادرک ابویہ)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے؟ آپؐ نے فرمایا:تیری ماں۔ پھر اس نے پوچھا پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے چوتھی بار پوچھا اس کے بعد کون؟ آپؐ نے فرمایا ماں کے بعد تیرا باپ تیرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے۔ پھر درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار۔

(بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبۃ)

حضرت ابواسید الساعدیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی مسلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کےلئے کر سکوں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں کیوں نہیں۔ تم ان کے لئے دعائیں کرو‘ ان کیلئے بخشش طلب کرو۔ انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔ (ابوداؤد، کتاب الادب) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے، صحابۂ کرام نے پوچھا ’’یا رسول اللہؐ! اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟ آپ نے فرمایا! ہاں، اگرچہ وہ سو بار دیکھے، اللہ تعالیٰ بڑا پاک اور بہت بڑا ہے۔

(مشکوۃ شریف صفحہ421)

’’جس نے اپنے ماں اور باپ دونوں کی اطاعت کرتے ہوئے دن کا آغاز کیا اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اگر ایک کی اطاعت کی ہو تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے۔ اور جس نے ماں باپ دونوں کی نافرمانی کرتے ہوئے صبح کی اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھل چکے ہوتے ہیں اور اگر ایک کی نافرمانی کی ہو تو ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ کسی نے پوچھا اگر ماں باپ ظالم ہوں تو کیا پھر بھی ایسا ہوگا فرمایا اگرچہ وہ ظالم ہوں اگرچہ وہ ظالم ہوں اگرچہ وہ ظالم ہوں۔‘‘

(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الآداب)

آنحضورؐ کا والدین کا احترام

آنحضورﷺ کے والد محترم حضرت عبداللہ آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پاگئے تھے اور آپﷺ چھ سال کے تھے جب آپؐ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ بھی رحلت فرما گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب فرماکے والدین کے احترام کے بارے میں جواحکامات دئے دراصل ساری امت کے لئے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں:

’’فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡہَرۡہُمَا وَقُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا‘‘

یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں ان سے نہ کر کہ جن میں ان کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو۔ اس آیت کے مخاطب تو آنحضرتﷺ ہیں لیکن دراصل مرجع کلام امت کی طر ف ہے کیونکہ آنحضرتﷺ کے والداور والدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہوچکے تھے۔ اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند یہ سمجھ سکتاہے کہ جبکہ آنحضرتﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیاہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہئے۔ اور اسی کی طر ف ہی دوسری آیت اشارہ کرتی ہے۔

’’وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا‘ یعنی تیرے رب نے چاہا کہ تو فقط اسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر …… اگر خدا جائز رکھتا کہ اس کے ساتھ کسی اور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو۔ کیونکہ وہ بھی مجازی رب ہیں۔ اور ہر ایک شخص طبعاً یہاں تک کہ چرند بھی اپنی اولاد کو ان کی خوردسالی میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ پس خدا کی ربوبیت کے بعد ان کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی صفحہ204-205)

حضورﷺ کووالدین کی خدمت کا موقع تو نہیں ملا مگر آپؐ انہیں بہت محبت سے یاد فرماتے تھے ان کے لئے دعائیں کرتے تھے۔ والدین سے محرومی کی پیاس کو آپؐ نے رضاعی والدین کی خدمت کر کے بجھایا۔ اور خوب ہی احترام کیا۔ ایک دفعہ آپؐ کی رضاعی والدہ حلیمہ مکہ آئیں اور حضور سے مل کر قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا۔ حضورﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا۔

(طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ113 مطبوعہ بیروت1960)

حضرت ابو طفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو مقام جِعْرَانہ میں دیکھا۔ آپؐ گوشت تقسیم فرما رہے تھے۔ اس دوران ایک عورت آئی تو حضورؐ نے اس کے لئے اپنی چادر بچھادی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے جس کی حضورؐ اس قدر عزت افزائی فرما رہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ آنحضورﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔ (ابو داؤد۔ کتاب الادب۔ باب فی بر الوالدین)

ایک بار حضورؐ تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے۔ حضورؐ نے ان کے لئے چادرکا ایک پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپؐ نے دوسرا پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپؐ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔

(سنن ابوداؤد کتاب الادب باب برالوالدین)

جنگ حنین میں بنوہوازن کے قریباً چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ ان میں حضرت حلیمہ کے قبیلہ والے اور ان کے رشتہ دار بھی تھے جووفد کی شکل میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کی رضاعت کا حوالہ دے کرآزادی کی درخواست کی۔ (یعنی یہ حوالہ دیا کہ حضرت حلیمہ اس قبیلے کی ہیں، ان کا دودھ آنحضرتﷺ نے پیا ہواہے)۔ آنحضرتﷺ نے انصاراورمہاجرین سے مشورہ کے بعد سب کو رہا کردیا۔

(طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ114-115 بیروت1960)

حضرت حلیمہ سعدیہ سے پہلے حضورﷺ کو ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے دودھ پلایا تھا۔ حضورﷺ اور حضرت خدیجہؓ اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔۔ ۔ حضورﷺ ہجرت کے بعد بھی اس کے حالات سے خبر رکھتے تھے اور کپڑوں وغیرہ سے مدد فرماتے رہتے تھے۔

(طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ109 بیروت1960)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے
والدین کی تکریم کے متعلق ارشادات

قرآن پاک کی تعلیم، آنحضرتﷺ کے ارشادات اور عملی نمونے کے اتباع میں آپؐ کے شاگرد ‘ظل اور عکس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام والدین کے احترام خدمت اور اطاعت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لاپروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ19)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ارشاد ہے:
’’پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی یہ ہے کہ والدہ کی عزت کرے۔ اویس قرنیؓ کے لئے بسا اوقات رسول اللہﷺ یمن کی طرف منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔ آپؐ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا۔ بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خداﷺ موجود ہیں، مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے۔ صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی۔ یا اویسؓ کو یا مسیحؑ کو۔ یہ ایک عجیب بات ہے، جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمرؓ ان سے ملنے کو گئے، تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں۔ ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی۔ ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے لئے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قومیں چوہڑے چمار بھی کم لیتے ہونگے۔ ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول اللہﷺ کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے۔ اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کرکے اس کو ماننا نہیں چاہتا، تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونے سے دوسروں کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے۔میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ مادر پدر آزاد کبھی خیرو برکت کا منہ نہ دیکھیں گے۔ پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں خدا رسول کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیار ہو جاؤ۔ بہتری اسی میں ہے، ورنہ اختیار ہے۔ ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر195-196)

حضرت اویس قرنیؓ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب تک والدہ زندہ رہیں ان کی تنہائی کے خیال سے حضرت اویس قرنی نے حج نہیں کیا اور ان کی وفات کے بعد حج کا فریضہ ادا کیا۔

(صحيح مسلم كتاب فضائل الصحابة إن رجلا يأتيكم من اليمن يقال له أويس)

شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی کے والد صاحب احمدیت کےسخت مخالف تھے حضرت مسیح موعودؑ ان کے حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ:
’’ان کے حق میں دعا کیاکرو ہر طرح اور حتی الوسع والدین کی دلجوئی کرنی چاہئے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھلا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو۔ اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کرسکتے سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا ہے شاید خداتعالیٰ تمہارے ذریعہ ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے۔ اسلام والدین کی خدمت سے نہیں روکتا۔ دنیوی امور جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ دل و جاں سے ان کی خدمت بجا لاؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 294)

پھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی والدہ کے بارہ میں ہے کہ وہ قادیان آئی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنی والدہ کی پیری اور ضعف کا اور ان کی خدمت کا جو وہ کرتے ہیں ذکر کیا یعنی بڑھاپے اور کمزور ی کا تو حضرتؑ نے فرمایا:
’’والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں۔ ایک وہ جس نے رمضان پایااور رمضان گزر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایااور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔ والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم و غم والدین اٹھاتے ہیں۔ جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے، کیونکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دکھ اٹھاتی ہے۔ کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو۔ چیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو، ماں اس کو چھوڑنہیں سکتی‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 289-290)

آپؑ نے ایک شخص کو نصیحت فرمائی کہ:
’’خدا تعالیٰ نے انسان پر دو ذمہ داریاں مقرر کی ہیں۔ ایک حقوق اللہ اور ایک حقوق العباد۔ پھر اس کے دو حصے کئے یعنی اول تو ماں باپ کی اطاعت اور فرماں برداری اور پھر دوسری مخلوق الٰہی کی بہبودی کا خیال۔ اور اسی طرح ایک عورت پر اپنے ماں باپ اور خاوند اور ساس سسر کی خدمت اور اطاعت۔ پس کیا بدقسمت ہے جو ان لوگوں کی خدمت نہ کرکے حقوق ِ عباد اور حقوق اللہ دونو ں کی بجا آوری سے منہ موڑتی ہے‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ نمبر180 ایڈیشن 1988ء)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا والدین کا احترام

آنحضورﷺ تو اپنے حقیقی والدین کی خدمت نہ کرسکے تاہم آپ کی تعلیمات پر آپؐ کے ظل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نےعمل کرکے دکھایا۔

شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے
احمد کو محمد سے تم کیسے جدا سمجھے

اللہ تبارک تعالیٰ نے نبی کا راستہ اس کے والدین کے راستے سے جدا بنایا ہوتا ہےاس کے باوجود والدین کی اطاعت اور احترام کی عظیم الشان مثالیں قائم فرمائیں۔ آپؑ کے والد صاحب کا نام حضرت مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان اور والدہ محترمہ کا نام حضرت چراغ بی بی تھا۔

حضرت اقدس علیہ السلام 13؍فروری 1835ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صاحب بڑے جاگیر دار تھے۔ لیکن ملکی حالات کے زیر اثر ان کی جائیداد ضبط ہوگئی اور باوجود ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کے وہ اپنی جاگیر واپس نہ لے سکے جس کا صدمہ اُن کے دل پر آخری دم تک رہا۔ تاہم حضرت اقدسؑ کی پیدائش سے چند ماہ پہلے پانچ گاؤں واپس مل گئے تھے جس سے کشائش آگئی۔ آپؑ کی والدہ ماجدہ اکثر فرمایا کرتی تھیں، کہ ہمارے خاندان کے مصیبت کے دن تیری ولادت کے ساتھ پھر گئے اور فراخی میسر آگئی۔ اور اسی لئے وہ آپؑ کی پیدائش کو نہایت مبارک سمجھتی تھیں۔

(تاریخِ احمدیت جلد اول صفحہ50)

آپؑ کے والد صاحب ایک عالم اور علم سے محبت رکھنے والے انسان تھے۔ اپنے بچوں کے لئے بہترین اساتذہ کا انتخاب کیا اور بھاری معاوضہ دے کر قادیان بلایا کہ وہ یہاں رہ کر ان کو تعلیم دے سکیں۔ حضرت اقدس کو فطری طور پر علم سے لگاؤ تھا اللہ تبارک تعالیٰ آپؑ کو بڑے منصب کے لئے تیار کررہا تھا۔ کتب بینی خاص طور پر مذہبی کتب پڑھنا آپؑ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔

آپؑ کے والد صاحب کہتے تھے کہ ’’غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے۔ اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں۔ جب مَیں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر75)

آپؑ خود بیان فرماتے ہیں: ’’ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے باربار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ181حاشیہ)

آپؐ کے والد صاحب بیٹے کی محبت میں چاہتے تھے کہ کچھ کھانے کمانے کی بھی فکر کریں، کہیں نوکری کرلیں۔ ایک ایسے ہی پیغام پر آپؑ نے بصد ادب جواب دیا: ’’حضرت والد صاحب سے عرض کر دوکہ میں ان کی محبت اور شفقت کا ممنون ہوں مگر، میری نوکری کی فکرنہ کریں میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہوچکا ہوں۔‘‘

(سیرت طیبہ ازحضرت مرزا بشیر احمد ایم اے)

والد صاحب کا پے بہ پے ناکامیوں اور خساروں سے دنیا سے دل اٹھ گیا تھا۔ مگر اپنے بیٹے کے دینداری کے مشاغل دیکھ کر فکر ہوتا کہ یہ کیسے گزارا کرے گا پھر ملازمت کی کوئی تجویز پیش کی تو آپؑ نے عرض کی: ’’ابا! بھلا بتلاؤ تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مالک الملک احکم الحاکمین کا ملازم ہو اور اپنے ربّ العالمین کا فرمانبردار ہو اس کو کسی کی ملازمت کی کیا پرواہ ہے۔ ویسے میں آپ کے حکم سے بھی باہر نہیں۔‘‘

والدصاحب یہ جواب سن کر خاموش ہوجاتے اور فرماتے اچھا بیٹا جاؤ، اپنا خلوت خانہ سنبھالو۔۔۔ کہتے کہ یہ میرا بیٹا مُلاّ ہی رہے گا۔ میں اس کے واسطے کوئی مسجد ہی تلاش کردوں جو دس، بیس من دانے ہی کمالیتا۔ مگر میں کیا کروں، یہ تو ملا گری کے بھی کام کا نہیں۔ ہمارے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا۔ ہے تو یہ نیک صالح مگر اب زمانہ ایسوں کا نہیں۔ چالاک آدمیوں کا ہے۔ پھر آب دیدہ ہوکر کہتے کہ جو حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے۔ یہ شخص زمینی نہیں آسمانی ہے۔ یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے۔‘‘

(تذکرۃ المہدی حصہ اوّل ودوم صفحہ 300-302)

بالآخر والد صاحب کی اطاعت میں اپنا خلوت خانہ جو دراصل کتب خانہ تھا چھوڑ کر مقدمات وغیرہ کی پیروی کرنی پڑی مگر کس دل کے ساتھ فرماتے ہیں:
’’والد صاحب اپنے بعض آباؤاجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کررہے تھے انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگا یا اورایک زمانہ درازتک میں ان کاموں میں مشغول رہا مجھے افسوس ہے کہ بہت ساوقت عزیز میراان بے ہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امورکی نگرانی میں مجھے لگادیا۔میں اس طبیعت اورفطرت کا آدمی نہیں تھا …تاہم میں خیال کرتاہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محوکردیا تھا اوران کے لئے دعامیں بھی مشغول رہتاتھا اوروہ مجھے دلی یقین سے برّ بالوالدین جانتے تھے۔ اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف۔ صحیح اور سچی بات یہی ہے۔ ہم تو اپنی عمر ضائع کررہے ہیں۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ182-184حاشیہ)

ان مقدمات کے سلسلے میں آپؑ کو قادیان سے بٹالہ، گورداسپور، ڈلہوزی، امرت سراور لاہور کے دشوارسفر کرنے پڑتے کاغذات کی نقول وغیرہ کروانا وقت طلب اور ہمت کا کام تھا۔ آپؑ اپنے ساتھیوں سے کہتے ’’مجھ کو مقدمہ کی تاریخ پر جانا ہے میں والد صاحب کے حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتا دعا کرو کہ اس مقدمہ میں حق حق ہوجائے اور مجھے مخلصی ملے میں نہیں کہتا کہ میرے حق میں ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ حق کیا ہے پس جو اس کے علم میں حق ہے اس کی تائید اور فتح ہو‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ71-72)

’’عین پیشی کے وقت بھی آپؐ نماز کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کو اولیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ میں کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا۔ عدالت میں اور مقدمہ ہوتے رہے۔ میں باہر ایک درخت کے نیچے انتظار کرتا رہا۔ چونکہ نماز کا وقت ہو گیا تھا اس لئے میں نے وہیں نماز پڑھنا شروع کر دی۔ مگر نماز کے دوران میں ہی عدالت سے مجھے آوازیں پڑھنی شروع ہوگئیں مگر میں نماز پڑھتا رہا۔ جب میں نماز سے فارغ ہو اتو میں نے دیکھا کہ میرے پاس عدالت کا بہرہ کھڑا ہے۔ سلام پھیرتے ہی اس نے مجھے کہا مرزا صاحب مبارک ہو آپ مقدمہ جیت گئے ہیں۔‘‘

(سیر ت المہدی جلد اوّل حصہ اوّل صفحہ نمبر14 روایت نمبر17)

ایک ہندومدرس پنڈت دیوی رام کاتفصیلی چشم دیدبیان سیرت المہدی میں درج ہے:
’’اگر کسی کی تاریخ مقدمہ پر جانا ہوتا تھا تو آپ کے والد صاحب آپ کو مختارنامہ دے دیا کرتے تھے اور مرزا صاحب بہ تعمیل تابعداری فوراً بخوشی چلے جاتے تھے۔ مرزا صاحب اپنے والد صاحب کے کامل فرمانبردار تھے مقدمہ پر لاچاری امرمیں جاتے تھے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر759)

آپؑ کی عمر مبارک پچیس تیس برس تھی جب والد صاحب درخت کاٹنے پر تنازعہ ہوگیا۔ آپؑ کو مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور جانا پڑا۔ مجسٹریٹ کے سامنے آپؑ نے جو حق بات تھی کہہ دی۔ فیصلہ خلاف ہوگیا والد صاحب ناخوش ہوئے مگر آپؑ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔

1864ء میں سیالکوٹ میں ملازمت کا انتظام کیا۔ چار سال کی اس ملازمت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے ساتھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی۔آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا۔ اس لئے ان کے حکم سے جو عین میری منشاء کے موافق تھا۔ میں نے استعفاء دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا اورپھر والد صاحب کی خدمت میں حاضرہو گیا۔۔۔ بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے ساتھ میں نے بسر کئے۔

من بہر جمعیتے نالاں شدم
جفت خوشحالاں وبدحالاں شدم
ہر کسے ازظن خود شدیار من
وز درون من بخست اسرار من

حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھر حاضر ہوا تو بدستور انہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گیا مگر اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا۔اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا۔‘‘

…میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے۔ انہوں نے پیرویٔ مقدمات میں ستر ہزار کے قریب روپیہ خرچ کیا تھا جس کا انجام آخر کار ناکامی تھی‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ184-187حاشیہ)

قریباً چار سال سیالکوٹ میں ملازم رہنے کے بعد واپس آئے تو اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت اُن کے زمینداری کے مقدمات کی پیروی میں لگ گئے لیکن آپ کا دل اس کام پر نہ لگتا تھا۔ چونکہ آپ اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار تھے اِس لیے والد صاحب کا حکم تو نہ ٹالتے تھے لیکن اس کام میں آپ کا دل ہرگز نہ لگتا تھا۔ چنانچہ اُن دنوں کے آپ کو دیکھنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات کسی مقدمہ میں ہار کر آتے تو آپ کے چہرہ پر بشاشت کے آثار ہوتے تھے اور لوگ سمجھتے کہ شاید فتح ہوگئی ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا کہ ہار گئے ہیں۔ جب وجہ دریافت کی جاتی تو فرماتے کہ ہم نے جو کچھ کرنا تھا کر دیا، منشائے الٰہی یہی تھا اور اس مقدمہ کے ختم ہونے سے فراغت تو ہوگئی ہے۔ یادِ الٰہی میں مصروف رہنے کا موقعہ ملے گا۔

چونکہ حضرت اقدسؑ ایک عبادت گزار فرزند تھے اس لئے آپ کے والد بزرگوار کو آپ سے محبت بھی ایک عجیب طرز کی تھی۔ ایک طرف نوکری پہ زبردستی لگواتے اور پھر اپنے اس صاحبزادے کی دوری اورفراق بھی قابل برداشت نہ تھا۔ حضرت اقدس علیہ السلام والد ماجد کے پرزوراصرار پر اطاعت وفرمانبرداری کے جذبہ کے تحت 1860ء کے لگ بھگ سیالکوٹ میں ملازم ہوئے تو تھوڑے ہی عرصہ،یعنی چند سال کے بعد والد صاحب نے انہیں واپس بلالیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپؑ کی والدہ صاحبہ سخت بیمار تھیں حضرت پیغام سنتے ہی فوراً سیالکوٹ سے روانہ ہوگئے۔لیکن جب قادیان پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی مشفق ومہربان اور جان سے پیاری والدہ آپ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوچکی ہیں۔ گھر میں پیشانی پر بوسہ دینے والی کھلی بانہوں سے استقبال کرنے والی ہر سردو گرم میں سائباں سایہ سینہ سپر ماں 18 اپریل 1867ء کو اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ آپؑ کو بہت صدمہ ہوا کیونکہ وہ آپؑ کی مزاج دان تھیں اور نیکی کے رجحان کی قدردان تھیں۔ ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے آپؑ کو کپڑوں کے چار جوڑےسیالکوٹ بھجوائے تھے۔

(تاریخ احمدیت صفحہ83)

آپؑ جب بھی اپنی والدہ کا ذکر فرماتے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔

ایک چشم دید واقعہ حضرت عرفانی صاحبؓ نے یوں بیان فرمایاہے کہ ’’ان دعاوٴں کا تو ہمیں پتہ نہیں جو آپ اپنے والدین کے لئے کرتے ہوں گے مگر والدہ صاحبہ کی محبت کا ایک واقعہ اور جوش دعا کا ایک موقعہ میری اپنی نظر سے گزرا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ سیر کے لئے اس قبرستان کی طرف نکل گئے جو آپ کے خاندان کا پرانا قبرستان موسوم بہ شاہ عبدالله غازی مشہور ہے راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ والدہ صاحبہ کی قبر پر آئے اور بہت دیر تک آپ نے اپنی جماعت کو لے کر جو اس وقت ساتھ تھی دعا کی۔ اور کبھی حضرت مائی صاحبہ کا ذکر نہ کرتے کہ آپ چشم پُر آب نہ ہوجاتے۔

حضرت صاحب کا عام معمول اس طرف سیر کو جانے کا نہ تھا مگر اس روز خصوصیت سے آپؑ کا ادھر جانا اور راستہ سے کترا کر قبرستان میں آ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا کسی اندرونی آسمانی تحریک کے بدوں نہیں ہو سکتا۔‘‘

(حیات احمدؑ جلدا ول صفحہ221)

حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحبؓ نے حضورؑ کی اپنی والدہ سے محبت کا ذکر یوں فرمایا ہے:
خاکسار راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب بھی حضرت مسیح موعودؑ اپنی والدہ کا ذکر فرماتے تھے یا آپ کے سامنے کوئی دوسرا شخص آپ کی والدہ کا ذکر کرتا تھا تو ہر ایسے موقعہ پر جذبات کے ہجوم سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور آواز میں بھی رقت کے آثار ظاہر ہونے لگتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت آپ کا دل جذبات کے تلاطم میں گھرا ہوا ہے اور آپ اسے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کی والدہ صاحبہ کا نام چراغ بی بی تھا اور وہ ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں اور سنا گیا ہے کہ آپ کی والدہ کو بھی آپ سے بہت محبت تھی اور سب گھر والے آپ کو ماں کا محبوب بیٹا سمجھتے تھے۔

(سلسلہ احمدیہ جلد اول)

آپؑ کے والد صاحب کی طرف سے ایک دفعہ پھر ریاست کپور تھلہ کے محکمہ تعلیم کا افسر بنانے کی تجویز ہوئی لیکن آپ نے نامنظور کر دیا اور اپنے والد صاحب کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کو ترجیح دی۔

حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ قادیان سے دوکوس دورواقع گاؤں کے ایک ضعیف العمر نمبردار ہندو جاٹ اور میاں جان محمد اور گلاب نجاریہ اور دوسرے بہت سے لوگوں کا متفقہ بیان ہے کہ
مرزا غلام احمد اپنے بچپن کے زمانہ سے اب تک جو چالیس سال سے زیادہ ہوں گے نیک بخت اور صالح تھے اکثرگوشہ نشین رہتے تھے۔ سوائے یاد الہی اور کتب بینی کے آپ کو کسی سے کوئی کام نہ تھا۔۔۔ اپنے والدین کے دنیاوی معاملات وامورمیں فرمانبردار اوران کے ادب اور احترام میں فرو گذاشت نہیں کرتے تھے۔ 1876ء میں آپ کے والد صاحب مختصر بیماری کے بعد و فات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

والدین کے لئے دعا

رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا

(بنی اسرائیل: 25)

کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔

رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنۡ دَخَلَ بَیۡتِیَ مُؤۡمِنًا وَّلِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا تَبَارًا ﴿۲۹﴾

(نوح: 29)

اے میرے ربّ! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور اسے بھی جو بحیثیت مومن میرے گھر میں داخل ہوا اور سب مومن مردوں اور سب مومن عورتوں کو۔ اور تو ظالموں کو ہلاکت کے سوا کسی چیز میں نہ بڑھانا۔

رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰٮہُ وَاَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ

(النمل: 20)

اے میرے ربّ! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند ہوں۔ اور تُو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر۔

آمین اللّٰھم آمین۔

(امتہ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

اعلان رخصتانہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 ستمبر 2022