• 6 مئی, 2024

بنیادی مسائل کے جوابات

سوال:۔ ایک عرب دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں فقہ حنفی کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد پیش کر کےاپنے بارہ میں لکھا ہے کہ میں فقہ حنفی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیونکہ میں بھی قیاس کے خلاف ہوں۔ نیز دریافت کیا کہ کیا میں فقہ ظاہریہ پر عمل کر سکتا ہوں، کیونکہ فقہ ظاہریہ نے قرآن و حدیث کی نصوص کے ظاہر پر عمل کرنے کے بارہ میں بہت زبردست نظریہ پیش کیا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 21 دسمبر 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں:۔

جواب:۔ آپ نے اپنے خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس ارشاد کا ذکر کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےاس میں اُس زمانہ کے دو فریقوں کے قرآن و حدیث کے بارہ میں افراط و تفریط پر مشتمل نظریات کا ردّ فرما کر قرآن وحدیث کا حقیقی مقام بیان کرتے ہوئے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ حدیث خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی ہو جب تک وہ قرآن کریم اور سنت سے متصادم نہ ہو اسے انسانی فقہ پر ترجیح دی جائے گی۔اور فقہ کی بنیاد قرآن کریم، سنت رسولﷺ اور حدیث نبویﷺ پر ہونی چاہئے۔ لیکن اگر کسی مسئلہ کا حل ان تینوں سے نہ مل سکے توپھر فقہ حنفی کے مطابق عمل کر لیا جائے۔ اور اگر زمانی تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی سے بھی کوئی صحیح راہنمائی نہ ملے تو ایسی صورت میں احمدی علماء اس مسئلہ کے بارہ میں اجتہاد کر یں۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں۔ اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اورنہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔‘‘

(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد19 صفحہ212)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان نصائح پر پوری طرح کاربند ہے اور جب بھی کسی مسئلہ میں اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہےتو جماعت کے علماء خلافت احمدیہ کے زیر سایہ اس مسئلہ پر غور و خوض کر کے اجتہاد کے طریق کو اختیار کرتے ہیں۔

کسی احمدی کا قیاس کو ناپسند کرنا اوراس بناء پر فقہ حنفی کو بُرا خیال کرنا درست نہیں۔ اہل علم اور مجتہدین کاجائز حدود میں رہ کر قرآن و سنت اور حدیث سے استنباط کر کے قیاس کے طریق کو اپنانا منع نہیں کیونکہ قرآن کریم اور آنحضورﷺ کے ارشادات میں قیاس کے حق میں کئی دلائل موجود ہیں۔ نیز خلفائے راشدین نے بھی اپنے عہد مبارک میں قیاس سے کام لیا اور کئی نئے پیش آمدہ مسائل کو آنحضورﷺ کے زمانہ کے کسی مسئلہ پر قیاس کر کے حل فرمایا۔

اسی طرح قیاس کے حوالہ سے جن لوگوں نے حضرت امام ابو حنیفہؒ کو اہل الرائے کہہ کر طعن کی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے پسند نہیں فرمایا۔ چنانچہ ایک موقعہ پر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی اسی قسم کی غلطی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں مخاطب کر کے حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے حضرت مولوی صاحب آپ ناراض نہ ہوں آپ صاحبوں کو امام بزرگ ابوحنیفہ ؒ سے اگر ایک ذرہ بھی حسن ظن ہوتا تو آپ اس قدر سُبکی اور استخفاف کے الفاظ استعمال نہ کرتے آپ کو امام صاحب کی شان معلوم نہیں وہ ایک بحراعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اسکا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابوحنیفہؒ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں یدطولیٰ تھا خداتعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے انہوں نے مکتوب صفحہ307 میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنیوالے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے۔‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ101)

جہاں تک فقہ ظاہریہ کا تعلق ہے تواس بارہ میں اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم اور حدیث نبویﷺ میں بیان کئی احکامات ایسے ہیں کہ اگر ان کے صرف ظاہری الفاظ کو اپنایا جائے تو اس حکم کی روح اور حکمت کوانسان پا ہی نہیں سکتا۔ پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اسی طریق کو اختیار کرے جس کی نشاندہی آنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق مبعوث ہونے والے آپ کے غلام صادق اور اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی پا کر فرمائی ہے اور جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں اوپر کر دیا گیا ہے۔

سوال:۔ ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ازہر یونیورسٹی کی ایک عہدیدار خاتون کے فتویٰ کہ ’’قرآن کریم میں کوئی ایسی نص نہیں جو مسلمان لڑکی کو غیر مسلم کے ساتھ شادی سے منع کرتی ہو۔‘‘ کے بارہ میں راہنمائی چاہی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 21 دسمبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:

جواب:۔ اسلامی تعلیمات کی بنیاد قرآن کریم کے علاوہ بانی اسلام حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی سنت اور قرآن و سنت سے موافقت رکھنے والی احادیث نبویہﷺ پر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن کریم میں بیان احکامات کی پیروی کا مسلمانوں کو حکم دیا وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۲﴾ قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۳﴾ (آل عمران: 32-33) یعنی (اے محمدؐ!) تو کہہ کہ (اے لوگو!) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو (اس صورت میں) وہ (بھی) تم سے محبت کرے گا اور تمہارے قصور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔تو کہہ (کہ) تم اللہ اور اس رسول کی اطاعت کرو (اس پر) اگر وہ منہ پھیر لیں تو (یاد رکھو کہ) اللہ کافروں سے ہر گز محبت نہیں کرتا۔

اسی طرح فرمایا وَمَاۤ اٰتٰٮکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَمَا نَہٰٮکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (الحشر: 8) کہ یہ رسول جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ کا عذاب یقیناً بہت سخت ہوتا ہے۔

ان بنیادی اصولوں کو جاننے کے بعدجب ہم مسلمان عورت کی کسی غیر مسلم مرد سے شادی کے معاملہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک مسلمان عورت کی ہر مشرک، ہر کافر اور ہر اہل کتاب مرد سے شادی کی ممانعت کا واضح حکم قرآن کریم میں ملتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ آیت 222 میں حکم دیتا ہے کہ مشرکوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں اپنی عورتیں نہ بیاہو۔اور سورۃ المائدہ کی آیت 6میں جہاں مسلمانوں کیلئے اہل کتاب کا اور اہل کتاب کیلئے مسلمانوں کا کھانا جائز قرار دیا وہاں مسلمان مردوں کو اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی تو اجازت دی لیکن مسلمان عورتوں کے اہل کتاب مردوں سے نکاح کا ذکر نہ فرما کر اس امر کی ممانعت کو قائم فرمایا۔ اور سورۃ الممتحنہ کی آیت 11 میں ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں کو کفار کی طرف نہ لوٹانے اور ان عورتوں کو کفار کیلئے اور کفار کو ان مسلمان عورتوں کیلئے جائز نہ ہونے کی ہدایت فرما کر کفار سے بھی مسلمان عورتوں کو بیاہنے کی ممانعت فرما دی۔

ان قرآنی احکامات کے علاوہ آنحضورﷺ کی سنت اور آپ کے ارشادات سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ حضورﷺ نے اپنی کسی عزیزہ کو کسی غیر مسلم سے بیاہا ہو۔یا ان قرآنی احکامات کے نزول کے بعد صحابہ رسولﷺ نے خود یا حضورﷺ کے ارشاد پر اپنی کسی بچی کو کسی غیر مسلم سے بیاہا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس حضورﷺ نے صحابہ کو عام نصیحت فرمائی کہ جب تمہارے زیر کفالت کسی مسلمان خاتون کا رشتہ کوئی ایسا شخص طلب کرے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس خاتون کو اس سے بیاہ دو، خواہ اس شخص میں کوئی نقص ہو۔ حضورﷺ نے (دین اور اخلاق والے) اس فقرہ کو تین دفعہ دہرایا۔

(سنن ترمذی کتاب النکاح)

اس زمانہ کے حکم و عدل اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں اسی اسلامی تعلیم کے عین مطابق اپنے متبعین کو نصیحت فرمائی کہ ’’غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی تونکاح جائز ہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اورانسان ہدایت پاتا ہے۔ اپنی لڑکی کسی غیر احمد ی کو نہ دینی چاہیئے۔اگر ملے تولے بیشک لو۔ لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ525 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

حضور علیہ السلام نے سورۃ المائدہ میں بیان نص قرآنی کے تحت ہی غیر احمدی مرد کو اپنی لڑکی دینا گناہ قرار دیا ہے کیونکہ اس آیت میں مسلمان مردوں کیلئے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کے جواز کا تو ذکر کیا گیا ہے لیکن مسلمان عورتوں کو اہل کتاب مردوں سے بیاہنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

سوال:۔ ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ قرآن کریم کے 30 پارے ہونے میں کیا خدائی حکمت ہو سکتی ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 جنوری 2021ء میں اس سوال کادرج ذیل جواب ارشاد فرمایا:

جواب:۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو آیات اور سورتوں کی شکل میں نازل فرمایا اور آنحضورﷺ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے عطاء ہونے والی راہنمائی سے اس کی موجودہ ترتیب کو قائم فرمایا۔ جہاں تک قرآن کریم کو منازل، پاروں اور رکوعات میں تقسیم کرنے کا معاملہ ہے تو یہ بعد میں لوگوں نے قرآن کریم کو پڑھنے کی سہولت کے پیش نظر مختلف وقتوں میں ایسا کیا۔اسی لئے قرآن کریم کے قدیم نسخہ جات میں ایسی کوئی تقسیم موجود نہیں ہے۔

احادیث میں آتا ہے کہ بعض ایسے صحابہ جو اپنی گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے صرف نفلی عبادات میں ہی مشغول رہتے تھے، ان کے بارہ میں اطلاع ملنے پر حضورﷺ نے انہیں جو نصائح فرمائیں ان میں سارے قرآن کریم کی تلاوت کیلئے بھی حضورﷺ نے دنوں کی حد بندی فرمائی تھی۔

چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کے بارہ میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے انہیں فرمایا کہ پورے مہینہ میں قرآن مجید ختم کیا کرو۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ !میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپؐ نے فرمایا بیس دنوں میں پڑھ لیا کرو۔ انہوں عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپؐ نے فرمایا کہ دس دنوں میں ختم کر لیا کرو۔ انہوں نے عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپؐ نے فرمایا پھر سات دنوں میں مکمل کر لیا کرو اور اس سے زیادہ اپنے آپ کو مشقت میں مت ڈالو کیونکہ تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام)

بعض کا خیال ہے کہ حضورﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں بعد میں لوگوں نے اپنی سہولت کیلئے قرآن کریم کو تیس پاروں اور سات منازل میں تقسیم کیا تا کہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ میں اور کم سے کم سات دنوں میں قرآن کریم کی تلاوت مکمل کرنے والے کیلئے آسانی پیدا ہو سکے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کیلئے طلباء اور اساتذہ کی سہولت کیلئے قرون وسطی میں قرٓان کریم کو منازل اور پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ اور یہ تقسیم کسی مضمون کے اعتبار سے نہیں بلکہ قرآن کریم کے حجم کے لحاظ کی گئی ہے۔

قرآن کریم کی رکوعات میں تقسیم کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ کام حجاج بن یوسف کے زمانہ میں ہوا اور بعض روایات کے مطابق یہ تقسیم حضرت عثمانؓ نے فرمائی تھی۔ نیز یہ کہ نمازوں کی رکعات میں ایک خاص حصۂ قرآن کی تلاوت کی سہولت پیدا کرنے کیلئے رکوعات کی یہ تقسیم کی گئی۔

بہرحال جو بھی ہو، یہ امر متحقق ہے کہ قرآن کریم کی یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے اور نہ ہی حضورﷺ کی بیان فرمودہ ہے، بلکہ بعد کے زمانوں کی تقسیم ہے، اسی لئے عرب اور غیر عرب دنیا کے مختلف علاقوں میں شائع ہونے والے قرآن کریم کے نسخہ جات میں بعض پاروں کی تقسیم میں فرق بھی پایا جاتا ہے۔ البتہ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس تقسیم سے نہ تو قرآن کریم کے مطالب سمجھنے میں کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت پر کوئی حرف آتا ہے۔

سوال:۔ ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں سورۃ الحاقہ کی ایک آیت کے لفظ ’’اُذُنٌ‘‘ کے بارہ میں تحریر کر کے کہ اس سے مراد ریکارڈنگ مشین ہے کیونکہ کان تو کسی بات کو محفوظ نہیں رکھتے بلکہ دل و دماغ محفوظ رکھتے ہیں، راہنمائی چاہی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 10 جنوری 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل راہنمائی فرمائی:

جواب:۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر میں سورۃ الحاقہ کی اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے ’’تا کہ اس (واقعہ) کو تمہارے لئے ایک نشان قرار دیں اور سننے والے کان سنیں (اور دل اسے یاد رکھیں)‘‘

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس تشریحی ترجمہ میں اس بات کو واضح فرما دیا ہے کہ کانوں کا کام صرف سننا ہےیاد رکھنے کا کام یا دل کرتا ہے یا دماغ کرتا ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ایک جگہ حضورؓ کان اور آنکھ کے فنکشن کی وضاحت میں ایک نہایت لطیف نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’جب ہم کوئی آواز سنتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ یہ آواز باہر سے ہو کر آئی ہے۔ کیونکہ کان کا پردوہ قدرتی طور پر اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہوا کا زور کان کے پردہ پر پڑتا ہے تو اس سے ایک حرکت پیدا ہوتی ہے۔ ارتعاش کی لہریں یعنی وائی بریشنز (VIBRATIONS) پیدا ہوتی ہیں اور یہی وائی بریشنز دماغ میں جاتی ہیں اور دماغ ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے۔ یہی وائی بریشن ہیں جو ریڈیو کے والوز میں پڑتی ہیں اور ریڈیو ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے۔ انسانی بناوٹ میں ریڈیو کان ہے اور اعصاب دماغی والوز ہیں۔ ان کے ذریعہ جو حرکات دماغ میں منتقل ہوتی ہیں وہ وہاں سے آواز بن کر سنائی دیتی ہیں۔۔۔اور جو کچھ تم دیکھتے ہو وہ بھی حرکات ہیں، جن کو آنکھیں شکل میں تبدیل کر ڈالتی ہیں۔ جو چیز تمہارے سامنے گڑی ہوتی ہے وہ تصویر نہیں ہوتی بلکہ وہ فیچرز (FEATURES) یعنی نقش ہوتے ہیں جو آنکھوں کے ذریعہ دماغ میں جاتے ہیں اور وہ انہیں تصویر میں بدل ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل ریڈیو سیٹ کے ذریعہ تصویریں بھی باہر جانے لگ پڑی ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 403)

پس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اس لطیف تفسیر کی روشنی میں میرے نزدیک سورۃ الحاقہ کی مذکورہ بالا آیت میں ایک قابل ذکر نشان کے یاد رکھنے کو کان کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا ہے کہ کان کے ذریعہ ہی آواز دل و دماغ تک پہنچ کر محفوظ ہوتی ہے۔ باقی اس آیت قرآنی میں لفظ کان سے ریکارڈنگ مشین مراد لینا آپ کی ایک ذوقی تشریح ہے، جو اگر قرآن و سنت اور احادیث کے خلاف نہیں تو اس تشریح میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

سوال:۔ ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اگر گھر میں مردوں کے ہوتے ہوئے صرف عورت اس قابل ہو کہ نماز پڑھا سکے تو کیا وہ نماز پڑھا سکتی ہے۔ اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 16 جنوری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:

جواب:۔ اسلامی تعلیم کی یہ خوبی ہے کہ اس میں مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض ان کے طبائع کے مطابق الگ الگ مقرر کئے گئے ہیں۔چنانچہ نماز باجماعت بھی صرف مردوں پر فرض کی گئی اور عورتوں کو اس سے رخصت دی گئی اور عورتوں کا باجماعت نماز ادا کرنا محض نفلی حیثیت قرار دیا گیا ہے۔اس لئے مردوں کی موجودگی میں کوئی عورت نماز باجماعت میں ان کی امام نہیں بن سکتی۔

آنحضورﷺ اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے کبھی کسی عورت کو مردوں کی امامت کا منصب تفویض نہیں فرمایا۔

اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جب بعض اوقات کسی علالت کی وجہ سے گھر پر نماز ادا فرماتے تو نماز کی امامت خود کراتے اورحضور علیہ السلام کو چونکہ کھڑے ہونے سےچکر آ جایا کرتا تھا اس لئے حضرت اماں جان کو پیچھے کھڑا کرنے کی بجائے مجبوراً اپنے ساتھ کھڑا کر لیتےتھے۔

پس اگر کسی جگہ پرمرد اور عورتیں دونوں ہوں تو نماز کا امام مرد ہی ہوگا کیونکہ جو مرد نماز پڑھنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کی اپنی نماز صحیح ہو جا تی ہے تو اس کی امامت میں دوسروں کی نماز بھی صحیح ہو گی۔

(مرتبہ: ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

اعلان رخصتانہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 ستمبر 2022