• 19 مئی, 2024

؎گالیاں سن کر دعا دو پاکے دکھ آرام دو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر حضرت غلام محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لاہور کے سفر کا حال بیان کرتے ہیں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لاہور میں تشریف لائے تھے تو ان دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لیکچر ہو رہا تھا۔ لیکچر لاہور ہوتا تھا۔ اشتہارات چسپاں کئے جاتے تھے۔ چوہدری اللہ دتّا صاحب مرحوم جو نمبردار تھے موضع میانوالی خانہ والی تحصیل نارووال کے، وہ لئی کی دیگچی سر پر اُٹھائے ہوئے شہر میں ہر جگہ اشتہار چسپاں کرتے تھے اور اس کو دیکھ کر مخالفین نے اُن کو کئی دفعہ مارا پیٹا، زدوکوب کیا۔ چوہدری صاحب مرحوم اشتہار چسپاں کرتے تھے۔ مخالفین اُس کو پھاڑ دیتے تھے۔ گالیاں نکالتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اُن دنوں کا واقعہ ہے۔ جن مکانات میں حضور علیہ السلام قیام فرما تھے اس کے پاس گول سڑک پر درخت لگے ہوتے تھے ٹاہلیوں کے، شیشم کے۔ ایک مولوی مخالف جسے مولوی ٹاہلی کے نام سے پکارتے تھے، صرف پاجامہ ہی اُس نے پہنا ہوا تھا، نہ گلے میں اور نہ سر پر کوئی کپڑا ہوتا تھا۔ بدحواس گالیاں دیتا رہتا تھا اور درختوں پر چڑھ کر یہ بیہودہ بکواس کرتا رہتا تھا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد3صفحہ171روایات غلام محمد صاحب)

پھر حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی کی روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مَیں قادیان پہنچا۔ وہاں پہنچ کر اپنے مقدمات کا ذکر کیا کہ مخالفین نے جھوٹے مقدمات کر کے اور جھوٹیاں قسمیں کھا کھا کر میرا مکان چھین لیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب! لوگ لڑکوں کی شادی اور ختنہ پر مکان برباد کر دیتے ہیں۔ آپ کا مکان اگر خدا کے لئے گیا ہے تو جانے دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس سے بہتر دے دے گا۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کی قسم! یہ پاک الفاظ سنتے ہی میرے دل سے وہ خیال ہی جاتا رہا بلکہ میرے دل میں وہ زلیخا کا شعر یاد آیا

؎جمادے چند دادم جان خریدم
بحمدا للہ عجب ارزاں خریدم

یہ مشہور ہے کہ زلیخا نے مصر کے خزانے دے کر یوسف علیہ السلام کو خریدا تھا۔ اُس وقت کہا تھا کہ چند پتھر دئیے ہیں اور جان خرید لی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ بہت ہی سستا سودا خریدا ہے۔ کہتے ہیں مَیں بھی اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس مقدس بستی قادیان میں جگہ دی اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہیں آ گئے اور مکان اُس سے کئی درجہ بہتر دیا۔ بیوی بھی دی اور اولاد بھی دی۔ کہتے ہیں اسی ضمن میں ایک اور بات بھی یاد آئی ہے۔ لکھ دیتا ہوں کہ شاید کوئی سعیدالفطرت فائدہ اُٹھائے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک دن مسجد مبارک میں خواجہ کمال الدین صاحب نے کہا کہ مدرسہ احمدیہ میں جو لوگ پڑھتے ہیں وہ مُلّاں بنیں گے، وہ کیا کرسکتے ہیں۔ تبلیغ کرنا ہمارا کام ہے۔ مدرسہ احمدیہ اُٹھا دینا چاہئے، ختم کر دینا چاہئے۔ اُس وقت حضرت محمود اولوالعزم (یعنی حضرت مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیٹھے تھے) وہ کھڑے ہو گئے اور اپنی اس اولوالعزمی کا اظہار فرمایا اس سکول کو یعنی مدرسہ احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قائم فرمایا ہے یہ جاری رہے گا اور ان شاء اللہ اس میں علماء پیدا ہوں گے اور تبلیغِ حق کریں گے۔ یہ سنتے ہی خواجہ صاحب تو مبہوت ہو گئے اور میں اُس وقت یہ خیال کرتا تھا کہ خواجہ صاحب کو یقین ہو گیا ہے کہ ہم اپنے مطلب میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور دیکھنے والے اب جانتے ہیں کہ اسی سکول کے تعلیم یافتہ فضلاء دنیا میں تبلیغِ احمدیت کر رہے ہیں۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4 صفحہ132-133روایات حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی)

حضرت شیخ عبدالوہاب صاحبؓ نومسلم کے بارے میں حبیب احمد صاحب تحریر کرتے ہیں۔ حضرت شیخ صاحب دینی معاملے میں بڑے غیور واقع ہوئے ہیں۔ وہ اَلسِّنُّ بِالسِّنِّ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقابلہ کی خاص سپرٹ (spirit) خدا تعالیٰ نے اُن میں رکھ دی ہے۔ مخالفین کے مقابلہ پر سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور بڑی دلیری سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ہاں جب کوئی گالیاں دینے لگ جاتا ہے تو خاموش ہو جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں۔

؎گالیاں سن کر دعا دو پاکے دکھ آرام دو

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد7 صفحہ266 روایات حضرت شیخ عبد الوہاب صاحبؓ نو مسلم)

حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ ہماری بیعت لے کر اندر تشریف لے گئے جب وہ بیعت کرنے آئے تھے۔ ہم پہلی مرتبہ قادیان صرف ایک ہی دن ٹھہرے کیونکہ برادرم منشی عبدالغفور صاحب کی وجہ سے جلدی آنا پڑا کیونکہ وہ ڈرتے ڈرتے ہی گئے تھے کہ لوگوں کو پتہ نہ لگ جائے اُن کے گاؤں میں کہ قادیان گئے ہیں۔ کہتے ہیں لیکن بفضلِ خدا مجھے کسی کا ڈر نہ تھا۔ چاہے کتنے دن اور رہ کر آتا۔ اب جبکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی ملاقات کا وقت یاد آتا ہے تو بے حد رنج و افسوس ہوتا ہے کہ میں کیوں جلدی چلا آیا… جب لوگوں کو میرے احمدی ہونے کا پورا یقین ہو گیا تو مجھے بھی تکلیفیں پہنچنے لگیں اور میرا پانی بند کر دیا گیا اور دوکانداروں سے لین دین بند کر دیا گیا اور بھنگی کو بھی منع کر دیا گیا یہاں تک کہ ہمیں دو دو تین تین دن کے فاقے ہونے لگے لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مجھے اُس نے ثابت قدم رکھا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر11 صفحہ362۔ روایات میاں محمد ظہورالدین صاحب ڈولیؓ)

(خطبہ جمعہ 13؍ اپریل 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اکتوبر 2021