• 14 مئی, 2025

مہدی اہل قلم میں سے ہوگا

مہدی اہل قلم میں سے ہوگا
ہم میں سے ہر ایک کو اپنی قلموں کو حرکت دینی ہوگی

دُنیا بھر سے قارئین روزنامہ الفضل آن لائن، مختلف عناوین پر بہت دلچسپ اقتباس یا مواد بھجوا کر اداریہ لکھنے کی تجویز یا مشورہ دیتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں محترمہ امۃ الباری ناصر نے امریکہ سے اردو کے معروف اور صاحبِ طرز ادیب خواجہ حسن نظامی کا ایک اقتباس بھجوایا جس میں وہ لکھتے ہیں:
’’میں سات برس کا تھا۔ دیکھا طاق میں چوڑیاں رکھی ہیں۔ مَیں نے چند چوڑیاں اُ تار کر ہاتھوں میں پہن لیں۔ والدہ نے دیکھا تو خفا ہوئیں، دوڑیں اور فرمایا۔ اُتارچوڑیاں۔ نہیں تو امام مہدی کے ساتھ جہاد کرنے میں تلوار نہیں اُٹھ سکے گی۔ میں نے فوراً چوڑیاں اُ تار ڈالیں۔ اور ماں سے پوچھا۔

امام مہدی کون ہیں؟
اور جہاد کیا ہے؟

فر مایا:۔ آخر زمانہ میں امام مہدیؑ ظاہر ہوں گے اور مسلمانوں کے دشمنوں سے لڑیں گے۔ اس وقت ہر مسلمان ان کے ساتھ ہو کر تلوار اُ ٹھا کر جہاد کرے گا۔ جہاد دین کی لڑائی کو کہتے ہیں۔

اس واقعہ کے بعد مجھ کو چوڑیوں سے اس قدر عداوت ہو گئی کہ جس کی چوڑیاں دیکھتاان کو توڑنے کو دوڑتا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ چوڑیاں بہت بُری چیز ہوتی ہیں۔ اور ان کے سبب سے آدمی امام مہدی کے ساتھ جہاد نہیں کر سکتا۔ امام مہدی سے تعلق بھی اسی عمر سے پیدا ہوا۔ جب اور قسم کا تعلق تھا۔ اب اس کی اور کیفیت ہے مگر تعلق جب بھی تھا اب بھی ہے۔

(آپ بیتی از خواجہ حسن نظامی صفحہ41)

سابقہ کتب میں مسیح اور مہدی علیہ السلام کے ذکر کے ساتھ تلوار کا ذکر عام ملتا ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہودؑ نے اس سے قلم کی تلوار مراد لی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ’’سلطان القلم‘‘ کے لقب سے نوازا اور حضور علیہ السلام خود لوہے کی قلم لکھنے کے لئے استعمال فرماتے تھے۔ جس پر خاکسار کا ایک کالم روز نامہ الفضل کی زینت بن چکا ہے۔ ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی صفات بیان کرتےہوئے ’’اُولِی الْاَیْدِیْ‘‘ یعنی ہاتھوں والے لکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں ہاتھوں سے کام لینے والوں کو قلم سے کام لینے والے قرار دیا ہے۔ یہ اس سلسلہ میں خاکسار کی تیسری بلکہ چوتھی تحریر ہے تا قارئین الفضل حضرت سلطان القلم ؑ کا سپاہی بن کر اسلام اور احمدیت کے دفاع اور احمدیوں کی تعلیم و تربیت میں تحریرات لکھ سکیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک تحریر میں ایک انگریز کے مضمون کا ذکر فر مایا ہے جس میں اس انگریز نے لکھا ہے :
’’مَیں اس مہدی کے متعلق اپنی ذاتی رائے یہ رکھتا ہوں کہ وہ اہل قلم میں سے ہوگا اور اسی زبردست آلہ کے ذریعہ سے اقوام عالم کے دلوں میں تخم یگانگت بو سکے گا‘‘

(پیسہ اخبار 22 مئی 1908ء از ملفوظات جلد دہم صفحہ445)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے:
’’دیکھو مہدی کے بارے میں آ نحضرت ﷺ نے خود فر مایا ہے کہ۔ یَضَعُ الْحَرْبَ وہ جنگ کا خاتمہ کر دے گا۔اور وہ جنگ ایک علمی جنگ ہوگی۔ قلم تلوار کا کام کرے گا اور اسرارِ روحانی، برکات ِسماوی اور نشاناتِ اقتداری سے دنیا کو فتح کیا جاوے گا اور تازہ بتازہ غیبی پیشگوئیوں اور تائیدات خدائی سے سچے مذہب کو ممتاز کر کے دکھایا جاوے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد دہم صفحہ311)

ایک اور جگہ آپؑ اسی مضمون کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’’اس (مہدی و مسیح۔ ناقل) کے متعلق کہیں نہیں لکھا کہ وہ لڑائیاں کرے گا بلکہ بخاری میں جو اَصَحُّ الْکِتَابِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ ہے صاف لکھا ہے یَضَعُ الْحَرْبَ یعنی اس کے وقت میں مذہبی لڑائیاں نہ ہوں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب حرب کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے مخالف ہمارے ساتھ جنگ نہیں کرتے۔ وہ تو قلم کے ساتھ اعتراض کرتے ہیں۔ پس یہ کیسی کمزوری ہوتی کہ قلم کا جواب قلم سے نہ دیا جاتا بلکہ اس کے لئے ہتھیار استعمال ہوتے۔ ایسی صورت میں جبکہ قلم کے حملے ہورہے ہیں ہمارا یہی فرض ہے کہ قلم کے ساتھ اُن کو روکیں۔‘‘

(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ113۔112)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 3 ستمبر 1901ء کو ایک رؤیا دیکھی کہ اللہ تعالیٰ کا در بار ہے اور ایک مجمع ہے اور اس میں تلواروں کا ذکر ہو رہا ہے تو میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ سب سے بہتر اور تیز تر وہ تلوار ہے جو تیری تلوار میرے پاس ہے … تلوار سے مراد یہی حربہ ہے جو کہ ہم اس وقت اپنے مخالفوں پر چلا رہے ہیں جو آ سمانی حربہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ277)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اقتداء میں بہت سے اَجل صحابہؓ قلم سے کام لیتے رہے۔ آپ ؑ حضرت مولوی عبد الکریمؓ کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اسلام پر جو اندرونی بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے دفاع میں (آپ نے۔ ناقل) عمر بسر کر دی باوجود اس قدر بیماری اور ضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی۔ ان کے متعلق ایک خاص الہام بھی تھا۔ مسلمانوں کا لیڈر‘‘

(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ365)

ایک اور جگہ پر آپؓ کی تحریرات اور آپ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’مولوی عبد الکریم کی قلم ہمیشہ چلتی رہتی تھی۔ مولوی بر ہان الدین فوت ہوگئے اب قائمقام کوئی نہیں۔ جو عمر رسیدہ ہیں ان کو بھی فوت شدہ سمجھیے‘‘۔

(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ283)

درج بالا ارشاد کی روشنی میں ہمیں قلم ہاتھ میں لے کر اپنی راہیں متعین کر لینی چاہئیں اور اپنے علم و ادب میں ترقی کرکے،اس کے لئے تن من دھن اور سب کچھ لگا دینا چاہئے کہ یہی وقت کا تقاضا بلکہ وقت کی آواز ہے۔ ہمارے قارئین میں سے وہ احباب و خواتین جو اپنے جذبات اور علم و عمل کے رموز کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کا ذرا سا بھی شوق، قوت اور ملکہ رکھتے ہیں، انہیں چاہئے کہ جماعتی علم کلام کے تحت رہتے ہوئے ایک نئے انداز کی طرز تحریر ایجاد کریں، جو عبارت کی سادگی اور جذبات کی فراوانی کا مظہر ہو۔ایسی تحریرات لکھ کر ہمیں بھیجیں جو مقبول عام کا درجہ حاصل کریں، تو وہ حضرت سلطان القلمؑ کے سپاہی بننے کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔

بہت سے قلمکار اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ عمر رسیدہ بھی فوت شدہ ہی ہیں۔ ان کی جگہ لینے کے لئے نوجوان قلمکاروں کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی قلموں کو حرکت دینی ہوگی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ قلم اور دوسروں سے جلن ہمیں اپنی قسمت لکھنے نہیں دیتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ بیمار ہوگئے، جب صحت ہوئی تو قلم میں قوت آ گئی۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’اول تو بوجہ علالت کے فارغ نشینی رہی۔ اب خد ا تعالیٰ نے کچھ صحت عطا فر مائی ہے تو قلم میں بھی قوت آ گئی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ صحت رکھے تو فارغ نشینی اچھی نہیں ہے۔ بندہ اگر خدمت ہی کرتا رہے تو خوب ہے‘‘

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ319)

اس ضمن میں 335عناوین پرمشتمل ایک فہرست11 ستمبر 2021ء کے شمارہ کی زینت بنی ہے۔ جن پرقلم آزمائی کی جاسکتی ہے۔ کان اللّٰہ معکم وایدکم

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اکتوبر 2021