• 23 جولائی, 2025

نئی نسل کی تعلیم وتربیت

نئی نسل کی تعلیم وتربیت
خلفائےاحمدیت کے ارشادات کی روشنی میں

؎حسیں دل رُبا ہیں خلافت کی باتیں
خدا کی عطا ہیں خلافت کی باتیں
یہ تشنہ لبوں کے لئے زندگی ہیں
بہت جاں فزا ہیں خلافت کی باتیں
چلاتی ہیں ہم کو یہ راہ ہدیٰ پر
سبھی راہنما ہیں خلافت کی باتیں

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۲﴾

(الاحزاب: 72)

’’یعنی اور جوشخص اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرے وہ بڑی کامیابی حاصل کرتا ہے۔‘‘

اور حدیث میں آتا ہے آپﷺ فرماتے ہیں:
’’میں جس کام سے تمہیں منع کروں اس سے باز رہو اور جس کا م کا حکم دوں اسکو بجالاؤ جہاں تک تم سے ہوسکے۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے کثرت سے سوال کرنے پر اور ان سے اختلاف کرنے پر ہلاک ہوگئے۔‘‘

(صحیح مسلم، کتاب الفضائل باب کراھۃ الکثار السؤال)

نیز آپﷺ فرماتے ہیں:

اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ

(ترمذی،کتاب الایمان کتاب الخذ بالسنۃ)

یعنی حصول تقوی ٰکے دو بڑے زینے کان کھول کر ہدایت کا سننا اور ان پر عمل کرنا ہیں۔

اسکی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و نبیین و ائمہ و اولیاء و خلفاء ہے تا ان کی اقتداء وہدایت سے لوگ راہ راست پر آجائیں اوران کے نمونہ پر اپنے تئیں بناکر نجات پاجائیں‘‘

(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد2 صفحہ462، حاشیہ)

خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اسلئے اسکی اطاعت و فرماں برداری کرنا گویا نبی ورسول کی اطاعت وفرماں برداری کرنا ہوتا ہے۔ مندجہ بالا قرآنی آیت، حدیث واقتباس حضرت مسیح موعود ؑسے یہ واضح ہو جاتاہے کہ نبی یا اس کے قائم مقام خلیفہ وقت کی اطاعت اور اسکی بتائی ہوئی ہدایت کے طریق پر چل کر ہی ہم دین ودنیا میں کامیابی اور کامرانی حاصل کر سکتے ہیں۔ اور یہ کامیابی وکامرانی تب قائم رہیگی جب ہم خلیفہ وقت کے الفاظ و ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارینگے۔ اسی بات کو اور واضح رنگ میں بیان کرتے ہوئے ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اصل حفاظت یہ ہے کہ خلیفہ وقت کے الفاظ کو پھیلایا جائے۔ ان پر عمل کیا جائے۔ان پر عمل کروایا جائے۔ اور نئی نسل کو سنبھالا جائے۔ صرف یہ دعویٰ کر لینا کافی نہیں کہ ہم دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ یہ لڑائی کا تو مسئلہ نہیں ہے۔ آج کل کی لڑائی، آج کل کا جہاد یہ ہے کہ باتوں پر عمل کیا جائے۔‘‘

(خطاب 25اکتوبر 2019ء بمقام مہدی آباد جرمنی)

انہیں باتوں کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے آپ سے قبل تمام خلفائےاحمدیت نے اس طرف توجہ دلائی جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللّٰہ کے ساتھ ہو۔ قرآن تمہارا دستور العمل ہو۔ با ہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضانِ الہٰی کو روکتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اس نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہوگئے۔ اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے۔ اس لئے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یانہیں۔ استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو۔‘‘

(خطبات نور صفحہ131)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:
’’تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانوں میں خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز آئے تم فورا ًاس پر لَبَّیْک کہو اور اس کی تعمیل کے لئے دوڑ پڑو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے بلکہ اگر انسان اس وقت نماز پڑھ رہا ہوتب بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نماز توڑ کر خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز کا جواب دے۔۔۔۔ یہی حکم اپنے درجہ کے مطابق خلیفہ رسول اللہ پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور اس کی آواز پر جمع ہو جانا بھی ضروری ہوتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ408۔409)

نیزآپؓ فرماتے ہیں :
’’تم سب امام کے اشارے پر چلو اور اس کی ہدایات سے ذرہ بھر بھی ادھر ادھر نہ ہو۔ جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے ٹھہرجاؤ اور جدھر بڑھنے کا حکم دے ادھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا و ہ حکم دے ادھر سے ہٹ جاؤ۔‘‘

(انوارالعلوم جلد14 صفحہ515۔516)

پھر آپؓ نے ایک اورموقعہ پر فرمایا کہ :
’’خلافت کے تو معنیٰ ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں نا کام ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936ء روز نامہ الفضل قادیان 31جنوری 1936ء)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں:
’’پس اے میرے عزیز بھائیو! جو مقامات قرب تمہیں حاصل ہیں اگر انہیں قائم رکھنا چاہتے ہو اور روحانیت میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو خلیفہ وقت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا کیونکہ اگر دامن چُھوٹا تو محمد رسول کریم ﷺ کا دامن چھوٹ جائے گا‘‘

(خلافت ومجدیت صفحہ48۔ برموقع اجتماع انصار اللہ 1968ء)

اسی طرح حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
’’آپ نے خلافت کی حفاظت کا جو وعدہ کیا ہوا ہے اس میں بھی یہ بات داخل ہے کہ خلافت کے مزاج کو نہ بگڑنے دیں۔۔۔ ہمیشہ اسکے تابع رہیں ہر حالت میں امام کے پیچھے چلیں۔ امام آپ کی رہنمائی کے لئے بنایا گیا ہے اسلئے کسی وقت بھی اس سے آگے نہ بڑھیں۔‘‘

(روزنامہ الفضل 11فروری 1984ء)

ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم خلافت کے سایے تلے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔لیکن ضرورت یہ ہے کہ اپنی نئی نسل کی اس مبارک وجود کی نصیحت وباتوں سے تربیت کی جائے کیونکہ وقت کے امام کا بتایا ہوا طریق ہدا یت ہی سب سے افضل اور اولیٰ ہوتا ہے جس طرح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ کے خلفاء میں، اور آئندہ بھی ان شاء اللہ خلفاء آتے رہیں گے، ہر ایک کا ایک دور رکھا ہوا ہے۔ اور ہر دور کے مطابق خود رہ نمائی فرماتا رہتا ہے۔ اور جو موجودہ وقت کے تقاضے ہیں اس کے مطابق خلیفۂ وقت رہ نمائی کرتا ہے۔‘‘

(خطاب 25،اکتوبر 2019ء بمقام مہدی آباد جرمنی)

پیارے بھائیو! کسی کی اطاعت ہم تب کرسکتے ہیں جب اسکی محبت ہمارے دل میں ہو جب محبت نہیں تو اطاعت پیدا کرنا ایک ناممکن امر ہے۔ اسلئے خلیفہ وقت کی اطاعت کرنا ہم سے یہ تقاضاکرتا ہے کہ ہم خلیفہ وقت سے بے انتہا محبت کرنے والے ہوں جیساکہ ہمارے پیارے امام نے فرمایا کہ:
’’اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرۃ: 166) اور جو لوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہی ہے جو درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے پیار اور محبت کی طرف مائل کرتی ہے۔ اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طرح اُس دلدار کو راضی کریں۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ جس روز خدا تعالیٰ کے سایہ عاطفت کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہو گا، اُس روز جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ عاطفت میں لے گا اُن میں وہ دو لوگ بھی شامل ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 17؍ دسمبر 2010ء)

اور یہ محبت ہم خلیفہ وقت کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کر کے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلئے خلیفہ وقت کی ہدایت کے مطابق ہمیں اپنی آنے والی نئی نسلوں کی تربیت کرنی ہوگی۔ اسکے لئے اُن الفاظ کے موتیوں کو جو خطبہ، خطابات، اجلاسات وملاقات کی شکل میں بکھرے پڑیں ہیں ان کو ایک خوبصورت ہار کی صورت میں تبدیل کرکے اپنی جسمانی و روحانی دنیاکے لئے زینت کا سامان بنانا ہوگا۔ آئیے ان بے شمار موتیوں میں سے کچھ موتیوں سے ایک ہار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے محبت کا تعلق
اپنی نئی نسل میں پیدا کیا جائے

موجودہ حالات میں پے در پے دنیا میں آفات ومشکلات نازل ہورہے ہیں ان تمام کا مبدا ومرکز مخلوق خداکا اپنے پیدا کرنے والے سے دوری ہے۔اس دور میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا تعلق اپنی نئی نسل میں پیدا کرنا بہت ضروری ہے اس ضمن میں ہمارے پیارےامام حضرت مرزا مسروراحمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے تو پیدا نہیں کیا تھا کہ وہ صرف دنیا کی خوبصورتیوں اور حسن اور آرام و آسائش اور ایجادوں کے پیچھے پھرتا رہے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد تو بہت بڑا تھا۔ اتنا بڑا مقصد کہ اگر اس کو انسان حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اس دنیا کی جو نعمتیں ملنی ہیں وہ تو ملیں گی ہی، دنیا سے جانے کے بعد اخروی اور دائمی زندگی کا بھی حصہ ملے گا۔ اگلے جہان میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا وارث بنے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ مؤرخہ 7۔اپریل 2006ء)

پھر آپ فرماتے ہیں :
’’انسان جوں جوں دنیاوی دھندوں میں پڑتا ہے اللہ کی عبادت سے غافل ہوتا جاتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل شامل حال ہو۔ پس ہر لمحہ، ہر وقت ایک احمدی کو اس فضل کو سمیٹنے کی فکر میں لگے رہنا چاہئے۔ اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے جو خالص ہو کر اس کے حضور ادا کی جائے۔ پس اپنی عبادتوں کی طرف خاص توجہ دیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کریں تاکہ خداتعالیٰ آپ کی اور آپ کی نسلوں کی حفاظت فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ مؤرخہ 12مئی 2006ء)

؎بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے
حاصل ہو تم کو دید کی لذت خدا کرے

قرآنی تعلیمات سے نئی نسل کی تربیت

قرآن کریم کی تعلیمات ہر زمانے کے لئے ہے یہ ایک ایسی کتاب ہے اسکے تعلیمات کے بغیر ایک سچا مسلمان روحانی اور جسمانی زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا لہٰذا اس دور میں قرآنی تعلیمات سے نئی نسل کی تربیت کیا جانا ازحد ضروری ہےاس بارے میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پس اگر قرآنِ کریم کا حق ادا کرتے ہوئے قرآنِ کریم کو پڑھا جائے اور پھر اُس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ ہو تو عملی طور پر بھی ایک نمایاں تبدیلی انسان میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ فرمایا کہ وحشیانہ حالت سے نکل کر ایسا شخص جس نے قرآنی تعلیمات کو اپنے اوپر لاگو کیا ہو، مہذب اور باخدا انسان بنتا ہے اور باخدا انسان وہ ہوتا ہے جس کا خداتعالیٰ سے ایک خاص اور سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے، جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں شجرہ طیبہ کی دی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 26 جولائی 2013ء)

ایک مقام پے آپ فرماتے ہیں:
’’ہم سب جانتے ہیں کہ وہ رسّی کون سی تھی یا کون سی ہے جس کو پکڑ کر ان (صحابہ) میں اتنی روحانی اور اخلاقی طاقت پیدا ہوئی، قربانی کا مادہ پیدا ہوا، قربانی کے اعلیٰ معیار قائم ہوئے۔ جس نے ان میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے انہیں اس حد تک اعلیٰ قربانیاں کرنے کے قابل بنادیا۔ وہ رسّی تھی اللہ تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب قرآن کریم، جو احکامات اور نصائح سے پُر ہے۔ جس کے حکموں پر سچے دل سے عمل کرنے والا خداتعالیٰ کا قرب پانے والا بن جاتا ہے۔‘‘

(مشعل راہ جلد5 حصہ3 صفحہ75)

؎اے عزیزو سنو کہ بے قرآں
حق کو ملتا نہیں کبھی انساں
دل میں ہر وقت نور بھرتا ہے
سینہ کو خوب صاف کرتا ہے
اس کے اوصاف کیاکروں میں بیاں
وہ تو دیتا ہے جاں کو اور اک جاں

آنحضرتﷺ کی محبت وعزت
نئی نسل کے دلوں میں پیدا کی جائے

اس بارے میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ ہم اس عشق کو سچ کر دکھائیں اور امت مسلمہ کو خصوصاً کہ وہ ہمارے محبوب ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور تمام انسانیت کو عموماً آنحضور ﷺکی حقیقی تعلیم کے جھنڈے تلے لے آئیں اور اس کے ساتھ سب سے بڑھ کر ہمیں خود بھی اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اس طرف توجہ دینی ہوگی کیونکہ نیک نمونہ سب سے بڑی تبلیغ ہے۔ اللہ کرے ہمارا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں ہو جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی فکر کو دیکھ کر یہ وعدہ کیا تھا کہ تیرے راستہ پر چل کر میرا قرب حاصل کرنے والے ہوں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 23؍ مئی 2003ء)

نیز آپ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جو درود شریف پڑھنے کی اس قدر تاکید فرمائی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا آنحضرت ﷺ کو ہماری دعاؤں کی حاجت ہے۔ نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں یہ طریق سکھایا ہے کہ اے میرے بندو! تم جب اپنی حاجات لے کر میرے پاس آؤ، میرے پاس حاضر ہو تو اپنی دعاؤں کو قبول کروانے اور اپنی حاجات کو پوری کرنے کا اب ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ میرے پیارے نبی ﷺ کے ذریعہ سے مجھ تک پہنچو۔ اگر تم نے یہ وسیلہ اختیار نہ کیاتو پھر تمہاری سب عبادتیں رائیگاں چلی جائیں گی کیونکہ مَیں نے یہ سب کچھ،یہ سب کائنات اپنے اس پیارے نبی کے لئے پیداکی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 5ستمبر 2003ء)

؎وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اسکا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے
وہ یارلا مکانی وہ دلبر نہانی
دیکھا ہے ہم نے اس سے بس رہنما یہی ہے

خلفائے راشدین و اصحاب رسولﷺ کی عزت واحترام نئی نسل میں پیدا کیا جائے

آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلفاء راشدین کی عزت واحترام کے ضمن میں فرماتے ہیں:
مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ اقتباس سامنے رکھتا ہوں جس میں آپ نے خلفائے راشدین کے طریق پر چلنے کو مومن ہونے اور مسلمان ہونے کی نشانی بتایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر، عمر، عثمان، علی رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْنَ کا سا رنگ پیدا نہ ہو۔ وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔‘‘

(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلدنمبر20 صفحہ نمبر294) (خطبہ جمعہ 2؍ دسمبر 2011ء)

نیز آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز صحابہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرماتے ہیں:
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں اور ان کے مقام و مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کے ان پر انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’غرض ان لوگوں کا صدق و وفا اور اخلاص و مروّت ہر مسلمان کے لئے قابل اُسوہ ہے۔ صحابہؓ کی زندگی ایک ایسی زندگی تھی کہ تمام نبیوں میں سے کسی نبی کی زندگی میں یہ مثال نہیں پائی جاتی…۔‘‘

پھر فرمایا کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جسم کی طرح ہیں اور (آپؐ کے) صحابہ کرامؓ آپ کے اعضاء ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ279۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رنگ میں صحابہ کے مقام کو بھی پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے نمونوں پر چلتے ہوئے اپنے اخلاص و وفا کو بھی بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 9 مارچ 2018ء)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی محبت واطاعت آنے والی نئی نسل کے دلوں میں پیدا کی جائے

اس ضمن میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:
’’اب اس زمانے میں حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت اور محبت سے ہی حضرت اقد س محمد مصطفیٰ ﷺکی اطاعت اور محبت کا دعویٰ سچا ہو سکتاہے۔۔۔۔۔۔اب آنحضرت ﷺکی محبت کا دعویٰ، آپ ؐ کی کامل اطاعت کا دعویٰ تبھی سچ ثابت ہوگا جب آپ کے روحانی فرزند کے ساتھ محبت اور اطاعت کا رشتہ قائم ہوگا۔ اسی لئے تو آپ فرما رہے ہیں کہ سب رشتوں سے بڑھ کر میرے سے محبت و اطاعت کا رشتہ قائم کرو توتم اب اسی ذریعہ سے آنحضرت ﷺکی اتباع کروگے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کروگے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 19؍ ستمبر 2003ء)

نیز آپ فرماتے ہیں:
’’ہمیں یہ خوش نصیبی حاصل ہے کہ ہم نے اس زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو قبول کیا ہے۔ مگر ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آپؑ کی بیعت میں آنا صرف اُس وقت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے اگر یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف رغبت دلاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنے دینی فرائض میں غافل ہیں تو ہمیں یہ دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو قبول کرنے سے ہمارے اندر ایک روحانی انقلاب برپا ہوا ہے۔ یا یہ کہ اس طرح ہمیں حقیقی اسلام کی تعالیٰمات پر عمل کرنے کی توفیق ملی ہے۔ پس ہمارا آپؑ کو قبول کرنے کا زبانی دعویٰ کھوکھلا اور بے معنیٰ ہو گی۔‘‘

(خطاب 23 ستمبر 2018ء بر موقعہ نیشنل اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ الفضل انٹرنیشنل 26اپریل 2019ء)

اسی طرح آپ پھر فرماتے ہیں:
’’آج ہم مسیح محمدیؐ کے غلاموں کا بھی کام ہے کہ آپ کی دعاؤں کو اپنی دعاؤں میں شامل کریں اور آپؑ کی دعاؤں سے بھی حصہ لیں۔ آپؑ کی تعلیمات کو اپنے عملوں پر لاگو کرتے ہوئے مخلوق خدا سے جذبہ ہمدردی کے تحت اس پیغام کو بھی لوگوں تک پہنچائیں اور اپنی دعاؤں کو اپنی استعدادوں کے مطابق زیادہ سے زیادہ کریں تاکہ جس نور محمد ؐ کو پھیلانے کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے، اس میں ہم بھی نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ کا نعرہ لگاتے ہوئے شامل ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ مؤرخہ 26جنوری 2007ء)

؎مسیح کے ہم غلام ہیں جو وقت کا امام ہے
جو اسکو مانتا نہیں وہ وقت کا غلام ہے
خدا ہے جس سے بولتا فرشتے ہمکلام ہیں
امام وقت ہیں وہی اسی کے ہم غلام ہیں

خلفائے احمدیت وصحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی اطاعت،عزت واحترام نئی نسل میں پیدا کی جائے

صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی عزت واحترام کے ضمن میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’وہ لوگ ایسے تھے جن میں سے بعض میں علم کی کمی بھی تھی لیکن علمی اور روحانی پیاس بجھانے کے لئے وہ لوگ ایک تڑپ رکھتے تھے جو انہوں نے بجھائی اور ایک سچے عاشق ثابت ہوئے۔ اور اسی طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بھی تعلق پیدا کیا۔۔۔۔۔ پس یہ وہ محبت اور وفا کے نمونے ہیں جوآگے نسلوں کو بھی قائم رکھنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت اور وفا کے ان نمونوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 17؍ دسمبر 2010ء)

؎مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

پھر خلافت احمدیہ کی اطاعت کے بارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اسوہ کو نئی نسل میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے اس ضمن میں حضرت سیدہ امۃالسبوح بیگم صاحبہ (حرم خلیفۃ المسیح الخامس) اطاعت امام کے حوالے سے خلیفۃالمسیح الخامس کے بارے میں فرماتی ہیں :
’’خلفاء کے ساتھ اطاعت آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ہمیشہ اشارہ سمجھ کر اطاعت کی۔ آپ ہر معاملہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کے ہر حکم کی پوری تعمیل کرتے۔انیس بیس کا فرق بھی نہ ہونے دیتے۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بیمار ہوئے آپ نے منع فرمایا تھا کہ کسی کے آنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن طبیعت کمزور تھی اور فکر مندی تھی۔ انتہائی گرتی ہوئی حالت دیکھ کر میاں سیفی (مرزا سفیر احمد صاحب) نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو فون کر دیا اور صورتِ حال بتا کر کہا کہ اگر آپ آجائیں تو اچھا ہے۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ لندن تشریف لے آئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒسے ملاقات کے لیے گئے تو حضور ؒنے دریافت فرمایا۔ ’’کیسے آئے ہو؟‘‘ آپ نے جواب دیا کہ آپ کی طبیعت کی وجہ سے جماعت فکر مند ہے اس لیے پوچھنے کے لیے آیا ہوں تو حضورؒ نے فرمایا حالات ایسے ہیں کہ فوراً واپس چلے جاؤ۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ بہت بہتر۔ میں فوراً واپسی کی سیٹ Book کروا لیتا ہوں۔ بعد میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے میاں سیفی سے پوچھا کہ اس (حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ) میں تو اتنی اطاعت ہے کہ یہ میرے کہے بغیر آہی نہیں سکتا۔ یہ آیا کیسے؟ تب میاں سیفی نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو بتایا کہ ان کو تو میں نے فون پر آنے کو کہا تھا اس لیے آئے ہیں۔ اس پر حضور رحمہ اللہ کو اطمینان ہوا کہ ان کی توقعات کے مطابق ان کے مجاہد بیٹے کی اطاعت اعلیٰ ترین معیار پر ہی تھی۔‘‘

(ماہنامہ تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور ایدہ اللہ نمبر ستمبر، اکتوبر 2008ء صفحہ20تا21)

کچھ عرصہ قبل ایک بچے نے آپ سے سوال کیا کہ کیا آپ کی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے ساتھ دوستی تھی؟ حضور ایّدہ اللہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ میری کیا مجال، وہ میرے خلیفہ تھے۔ میں ان کا دوست نہیں بلکہ میں ان کا ایک ادنیٰ غلام تھا۔

حضورِ انور نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے کامل محبت اور عزت پر بات کرتے ہوئے ایک موقعے پر فرمایا:
’’میرا دل فی الحقیقت اس بات پر مضبوطی سے قائم تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو مَیں آپ کی ہر بات سنوں گا اور ہر اُس چیز کی کامل ترین فرمانبرداری کروں گا جو آپ مجھ سے چاہیں گے۔ اور یہ کہ میں ہر وقت دوسروں سے زیادہ آپ کی عزت اور اطاعت کروں گا۔ میرے والدین نے میری تربیت اِس انداز میں کی تھی جس کا اثر پوری زندگی میرے اوپر رہا ہے۔‘‘

(عابد وحید خان صاحب کی ذاتی ڈائری اپریل تا جون 2018ء)

؎ہم جسم ہیں اور جان خلافت میں ہے اپنی
زندہ ہمیں کردیتا ہے عنوان خلافت
ہر اک اطاعت میں ہے سبقت کی تمنا
سنتی ہے جماعت جونہی فرمان خلافت

یہ چند الفاظ کے موتی جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مختلف خطبہ، خطابات، اجلاسات و ملاقات کے موقعہ سے لئے گئے تھے تا کہ صحیح معنوں میں ہم خلافت کے تابع ہوکر اسکے ہر حکم پر لَبَّیْک کہتے ہوئے اپنی نئی نسل کی تربیت کرنے والے بن سکیں کیونکہ۔

’’خلیفہ کے مقابل پر کوئی شخص بھی چاہے وہ کتنا ہی عالم ہو کم حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ جماعت کی رہنمائی اور بہتری کے لئے الله تعالی خلیفہ سے ایسے الفاظ نکلوا دیتا ہے جو اللہ تعالی کی منشاء کے مطابق ہوں۔ پس ہر ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ جیسا کہ پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ لغویات اور فضولیات میں نہ پڑیں اور استحکام خلافت کے لئے دعائیں کریں تا کہ خلافت کی برکات آپ میں ہمیشہ قائم رہیں۔

(الفضل، 5 جولائی 2005ء)

پس آج ہمارا یہ فرض ہے اور آج ہم نے اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے اس نعمت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی نئی نسل میں اسکی اہمیت کو قائم کرنا ہے۔ اپنی نسلوں سے یہ عہد لینا ہے کہ چاہئے جس طرح بھی ہو جان، مال، وقت اور اپنے نفس کی قربانی دیتے ہوئےخلافت احمدیہ کی حفاظت کرنی ہے، اسکے الفاظ کی حفاظت کرنی ہے اور ہمیشہ کرتے چلے جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

؎ خلافت سے محبت کی ملیں برکات پشتوں تک
اسی لفظ وکرم کی ہو سدا برسات پشتوں تک
سدا نور خلافت سے منور ہوں میری نسلیں
کسی لمحے جہالت کی نہ آئے رات پشتوں تک

آمین ثمّ آمین

(حلیم خان شاہد۔مربی سلسلہ کٹک،اڈیشہ،انڈیا)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اکتوبر 2021