• 8 مئی, 2024

خطبہ عید الفطر بیان فرمودہ مورخہ 14؍مئی 2021ء

خطبہ عید الفطر

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ14؍مئی 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے) یوکے

ایک مسلمان حقیقی مومناسی وقت بن سکتا ہے جب حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی طرف توجہ رہے

رمضان کا فیض اس صورت میں حاصل ہو گا جب انسان میں پاک تبدیلیاں مستقلاً پیدا ہو جائیں اور
عید کی خوشیاں بھی اس وقت حاصل ہوں گی جب یہ تبدیلیاں ہمیشہ کے لیے زندگی کا حصہ بن جائیں

جو وقف کرنے والے ہیں وہ اپنے وقف کی روح کو سمجھیں اور اس کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ انہوں نے ہر کام اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنا ہے

اسلام کا منشا یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہیم بنو

ہر کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور دیکھ لو کہ اس کام سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گا یاناراض

حقيقي مسلمان ہونے کے ليے ضروري ہے کہ اس قسم کي فطرت حاصل کي جاوے کہ خدا تعاليٰ کي محبت اور اطاعت کسي جزا اور سزا کے خوف اور اميد کي بناء پر نہ ہو بلکہ فطرت کا طبعي خاصہ اور جزو ہو کر ہو پھر وہ محبت بجائے خود اس کے ليے ايک بہشت پيدا کر ديتي ہے اور حقيقي بہشت يہي ہے

بیعت کے بعد ہمیں اللہ تعالیٰ سے لو لگانے میں بھی ایک خاص رنگ پیدا کرنا ہو گا۔ ذکرِ الٰہی میں بھی ایک خاص رنگ پیدا کرنا ہو گا۔ اپنے بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی ایک خاص رنگ پیدا کرنا ہو گا اور جب یہ ہو گا تو وہ ہماری حقیقی عید ہو گی مسلم ممالک جو ہیں وہ اکٹھے ہو کر اپنا کردار ادا کریں تو فلسطینیوں کو اور جو اور دوسری جگہ مظلوم مسلمان ہیں جہاں بھی ہیں ان کو ظلموں سے بچا سکتے ہیں

فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے، پاکستان اور الجزائر کے احمدیوں کے لیے، ضرورت مندوں کے لیے نیز دنیا سے ظلم کے خاتمے اور کورونا وائرس کی وبا سے نجات کے لیے دعا کی تحریک

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ يَوۡمِ الدِّيۡنِؕ﴿۴﴾ إِيَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِيَّاکَ نَسۡتَعِيۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ﴿۶﴾  صِرَاطَ الَّذِيۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡہِمۡ ۬ۙ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّيۡنَ﴿۷﴾

اللہ تعاليٰ کا بےحد فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہميں رمضان کے مہينے سے گزار کر آج عيد کا دن ديکھنے کي توفيق عطا فرمائي ليکن کيا يہي اس رمضان کا مقصد تھا؟ کيا يہي اللہ تعاليٰ ہم سے چاہتا تھا کہ ہم انتيس، تيس دن روزے رکھيں اور عيد منا ليں، خوشياں منا ليں اور کھا پي ليں، کھيل کود کر ليں۔ اللہ تعاليٰ کے اس احسان کو تو حقيقت ميں ہم اس وقت حاصل کرنے والے ہوں گے جب رمضان کے روزے اور يہ عيد ہميں اس مقصد کو سمجھنے والا بنائے جو اس رمضان اور عيد کا مقصد ہے کہ يہ برکات اور پاک تبديلياں جو حاصل کي ہيں اور پيدا کي ہيں، اگر واقعہ ميں کي ہيں تو پھر تيس روزوں کے بعد يہ باتيں نظر آنے والي ہوني چاہئيں۔ ايک رمضان کے بعد اگلے رمضان کا انتظار جو آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا اس ميں وہ ان پاک تبديليوں پر عمل کرتے ہوئے گزرنا چاہيے تا کہ يہ فيض ہميشہ جاري رہے۔

اس زمانے ميں ہماري خوش قسمتي ہے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے جنہوں نے ہماري ايسي راہنمائي فرمائي جو ہميں ہر وقت اس طريق پر چلانے والي ہے جو اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم نے ہمارے ليے مقرر فرمائے ہيں۔ اگر ہم اس پر عمل کريں تبھي ہم عبادتوں کے حق بھي ادا کرنے والے ہوں گے، اللہ تعاليٰ کے دوسرے احکامات پر عمل کرنے والے اور ان کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ دين کي حقيقت اور اللہ تعاليٰ کي تعليم کو سمجھنے اور اس کا ادراک حاصل کرنے والے ہوں گے اور پھر اس سے فيض پانے والے بھي بنيں گے۔ حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے ہميں اپني بعثت کے مقصد کے بارے ميں بتاتے ہوئے يہ واضح فرمايا کہ يہ دو مقصد ہيں جن کے ليے ميں بھيجا گيا ہوں۔ ايک بندے کو خدا سے ملانے کے ليے اور دوسرے بندوں کو بندوں کے قريب کرنے کے ليے، ان کے حق پہچاننے کے ليے، ان کے کام آنے کے ليے، ان کے جذبات اور احساسات کا خيال رکھنے کے ليے، ان کي تکليفوں کو دور کرنے کے ليے۔ اور يہ مقصد دو قسم کي ادائيگي سے پورے ہوتے ہيں۔ ايک حقوق اللہ جس کا نام رکھا گيا ہے، اللہ تعاليٰ کا حق ادا کرنا، بندے کو اللہ سے ملانا اور دوسرے حقوق العباد جس کي تفصيل تھوڑي سي ميں نے بيان کي کہ کس طرح حقوق العباد ادا ہوں گے۔اگر يہ دو حقوق ادا کرنے کي طرف ہماري توجہ ہو جائے تو پھر ہم کامياب انسان بن سکتے ہيں، حقيقي مومن بن سکتے ہيں اور يہي اسلامي تعليم کا خلاصہ ہے اور يہي ايک مومن کي نشاني ہے اور اس کے ليے اللہ تعاليٰ نے مختلف طريقے بھي بيان فرمائے ہيں کہ کس طرح يہ مجاہدہ کر کے انسان يہ مقصد حاصل کرسکتا ہے جن ميں سے ايک رمضان کے مہينے کے روزے بھي ہيں اور اس کے بعد پھر عيد کي خوشي ہے۔ عيد کي خوشي بھي صرف خوشي کے ليے نہيں بلکہ اس ميں بھي ايک سبق ہے۔ پس رمضان کا فيض اس صورت ميں حاصل ہو گا جب انسان ميں پاک تبديلياں مستقلاً پيدا ہو جائيں اور عيد کي خوشياں بھي اس وقت حاصل ہوں گي جب يہ تبديلياں ہميشہ کے ليے زندگي کا حصہ بن جائيں گي۔ ايک مسلمان حقيقي مومن اسي وقت بن سکتا ہے جب حقوق اللہ اور حقوق العباد کي ادائيگي کي طرف توجہ رہے۔ جيسا کہ ميں نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہيں کہ ہم نے آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے غلامِ صادق اور اس زمانے کے امام کو مانا ہے اور انہوں نے ہماري راہنمائي فرمائي اس بارے ميں کہ کس طرح ايک حقيقي مومن کو ہونا چاہيے۔ آپ کے ارشادات کي روشني ميں اس وقت ميں کچھ بيان کروں گا کہ ہم رمضان کے فيض کو جاري رکھنے والے اور حقيقي خوشياں منانے والے کس طرح بن سکتے ہيں۔ کيا معيار ہيں جو ہميں حقيقي عيد منانے کے ليے حاصل کرنے کي ضرورت ہے۔ اللہ تعاليٰ کے ہم پر کيا حق ہيں اور بندوں کے ايک دوسرے پر کيا حق ہيں۔ اگر يہ حاصل ہو جائے، يہ علم حاصل ہو جائے اور يہ حقوق کي ادائيگي کا حق ادا ہو جائے تو پھر يہي حقيقي عيد ہے اور اسي حقيقي عيد کے ساتھ يہ دنيا بھي ہمارے ليے جنت بن جاتي ہے۔

ہم اللہ تعاليٰ کي عبادت اور اس سے محبت کا دعويٰ کرتے ہيں ليکن اس محبت کے معيار کيا ہونے چاہئيں جن کو حاصل کر کے خدا ملتا ہے اس کي وضاحت فرماتے ہوئے ايک جگہ حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں کہ ، سوال اٹھايا آپ نے کہ ’’خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کيا مراد ہے؟ يہي کہ اپنے والدين، جورو‘‘ يعني بيوي ’’اپني اولاد اپنے نفس غرض ہر چيز پر اللہ تعاليٰ کي رضاء کو مقدم کر ليا جاوے۔ چنانچہ قرآن شريف ميں آيا ہے۔ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا (البقرة: 201) يعني اللہ تعاليٰ کو ايسا ياد کرو کہ جيسا تم اپنے باپوں کو ياد کرتے ہو بلکہ اس سے بھي زيادہ اور سخت درجہ کي محبت کے ساتھ ياد کرو۔ يہ تبھي ہو سکتا ہے جب انسان کو اس بات کا ادراک بھي ہو اور اگر يہ چيز پيدا ہو جائے تو تبھي ہم کہہ سکتے ہيں کہ ہماري عيد حقيقي عيد ہے۔ پس يہ جائزہ لينے کي ضرورت ہے کہ کيا ہم اس کے ليے تيار ہيں يا کيا ہم نے اس کے ليے کوشش کي۔

پھر اس محبت کي مزيد وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہيں کہ ’’…… اصل توحيد کو قائم کرنے کے لئے ضروري ہے کہ خدا تعاليٰ کي محبت سے پورا حصہ لو۔ اور يہ محبت ثابت نہيں ہو سکتي جب تک عملي حصہ ميں کامل نہ ہو۔ نري زبان سے ثابت نہيں ہوتي۔ اگر کوئي مصري کا نام ليتا رہے۔‘‘ ميٹھا کھانے کا نام ليتا رہے، چيني اور شيريني کا نام ليتا رہے ’’تو کبھي نہيں ہو سکتا کہ وہ شيريں کام ہو جاوے‘‘ يعني اس کو ميٹھے کا مزہ آنے لگ جائے۔ ’’يا اگر زبان سے کسي کي دوستي کا اعتراف اور اقرار کرے مگر مصيبت اور وقت پڑنے پر اس کي امداد اور دستگيري سے پہلو تہي کرے تو وہ دوست صادق نہيں ٹھہر سکتا۔ اسي طرح پر اگر خدا تعاليٰ کي توحيد کا نرا زباني ہي اقرار ہو اور اس کے ساتھ محبت کا بھي زباني ہي اقرار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہيں بلکہ يہ حصہ زباني اقرار کي بجائے عملي حصہ کو زيادہ چاہتا ہے۔‘‘ منہ سے کہنے سے کوئي فائدہ نہيں ،عمل سے ثابت کرو کہ اللہ سے محبت ہے۔ فرمايا کہ ’’اس سے يہ مطلب بھي نہيں کہ زباني اقرار کوئي چيز نہيں ہے۔ نہيں۔‘‘ زباني اقرار سے اظہار بھي ہونا چاہيے۔ ’’ميري غرض يہ ہے کہ زباني اقرار کے ساتھ عملي تصديق لازمي ہے اس لئے ضروري ہے کہ خدا کي راہ ميں اپني زندگي وقف کرو‘‘ يعني دين کو دنيا پر مقدم رکھنے کا جو عہد کيا ہے اسے ہر وقت سامنے رکھو۔ اور اسي طرح يہ تو ايک عام مومن کے ليے ہے اور جو ايک واقفِ زندگي ہے جو وقف کرنے والے ہيں وہ اپنے وقف کي روح کو سمجھيں اور اس کو ہميشہ سامنے رکھيں کہ انہوں نے ہر کام اللہ تعاليٰ کي خاطر کرنا ہے۔ فرمايا کہ ’’اور يہي اسلام ہے، يہي وہ غرض ہے جس کے لئے مجھے بھيجا گيا ہے۔ پس جو اس وقت اس چشمہ کے نزديک نہيں آتا جو خدا تعاليٰ نے اس غرض کے لئے جاري کيا ہے وہ يقيناً بے نصيب رہتا ہے۔ اگر کچھ لينا اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالب صادق کو چاہئے کہ وہ چشمہ کي طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمۂ جاري کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور يہ ہو نہيں سکتا جب تک خدا تعاليٰ کے سامنے غيريت کا چولہ اتار کر آستانۂ ربوبيت پر نہ گر جاوے اور يہ عہد نہ کر لے کہ خواہ دنيا کي وجاہت جاتي رہے اور مصيبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑيں تو بھي خدا کو نہيں چھوڑے گا اور خدا تعاليٰ کي راہ ميں ہر قسم کي قرباني کے لئے تيار رہے گا۔ ابراہيم عليہ السلام کا يہي عظيم الشان اخلاص تھا کہ بيٹے کي قرباني کے لئے تيار ہو گيا۔ اسلام کا منشا يہ ہے کہ بہت سے ابراہيم بنائے۔پس تم ميں سے ہر ايک کو کوشش کرني چاہئے کہ ابراہيم بنو۔‘‘ فرمايا کہ ’’ميں تمہيں سچ سچ کہتا ہوں‘‘ پھر آپؑ نے فرمايا ’’کہ

ولي پرست نہ بنو۔ بلکہ ولي بنو
اور پير پرست نہ بنو۔ بلکہ پير بنو‘‘

اپنے تعلق کو اللہ تعاليٰ سے اس حد تک لے جاؤ کہ خود خدا تعاليٰ کے ساتھ تمہارا ذاتي تعلق قائم ہو جائے اور اس کي محبت کا تعلق قائم ہو جائے۔

فرمايا کہ ’’تم ان راہوں سے آؤ۔ بےشک وہ تنگ راہيں ہيں۔‘‘ بڑا مشکل کام ہے يہ ’’ليکن ان سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے مگر يہ ضروري ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا۔‘‘ بہت سارے جو انسان کے تکبر، رعونت اور دوسري برائياں ہيں ان کو بہرحال جھاڑنا پڑے گا۔ ’’اگر بہت بڑي گٹھري سر پر ہو تو مشکل ہے۔ اگر گزرنا چاہتے ہو تو اس گٹھري کو جو دنيا کے تعلقات اور دنيا کو دين پر مقدم کرنے کي گٹھري ہے پھينک دو۔ ہماري جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتي ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کو پھينک دے۔ تم يقيناً ياد رکھو کہ اگر تم ميں وفا داري اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے اور خدا تعاليٰ کے حضور راستباز نہيں بن سکتے۔ ايسي صورت ميں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جو وفاداري کو چھوڑ کر غداري کي راہ اختيار کرتا ہے۔ خدا تعاليٰ فريب نہيں کھا سکتا۔ اور نہ کوئي اسے فريب دے سکتا ہے۔ اس لئے ضروري ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پيدا کرو۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ188تا190)

پس ہمارا خدا تعاليٰ سے يہ تعلق اور يہ محبت ہي ہميں ہمارے عہد کہ دين کو دنيا پر مقدم رکھيں گے اس کو صحيح رنگ ميں پورا کرنے والا اور اس عہد پر اس پر چلنے والا بنا سکتا ہے۔ اگر يہ محبت نہيں تو ہمارے عہد ہميں دھوکے ميں رکھنے والے ہيں۔ پس ہميں اپنے جائزے لينے ہوں گے کہ ہمارے اللہ تعاليٰ سے محبت کے معيار کيا ہيں۔ حقيقي محبت الٰہي کے اعليٰ معيار ہي ہميں عيد کي حقيقي خوشياں دينے والے ہوں گے۔ اللہ تعاليٰ کي محبت کے حصول کے ليے ضروري ہے کہ ہماري توجہ استغفار اور توبہ اور نماز کي طرف بھي رہے۔ اس بارے ميں نصيحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہيں کہ
استغفار کرتے رہو اور موت کو ياد رکھو۔ موت سے بڑھ کر اور کوئي بيدار کرنے والي چيز نہيں ہے۔ جب انسان سچے دل سے خدا کي طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعاليٰ اپنا فضل کرتا ہے۔ جس وقت انسان اللہ تعاليٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعاليٰ پہلے گناہ بخش ديتا ہے۔ پھر بندے کا نيا حساب چلتا ہے۔ اگر انسان کا کوئي ذرا سا بھي گناہ کرے تو وہ ساري عمر اس کا کينہ اور دشمني رکھتا ہے اور گو زباني معاف کر دينے کا اقرار بھي کرے ليکن پھر جب اسے موقع ملتا ہے تو اپنے اس کينہ اور عداوت کا اس سے اظہار کر ديتا ہے۔ يہ خدا تعاليٰ ہي ہے کہ جب بندہ سچے دل سے اس کي طرف آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو معاف کر ديتا ہے اور رجوع بہ رحمت ہوتاہے۔ اپنا فضل اس پر نازل کرتا ہے اور اس کے گناہ کي سزا کو معاف کر ديتا ہے اس ليے تم بھي اب ايسے ہو کر جاؤ۔ آپؑ کے پاس لوگ آئے ہوئے تھے آپؑ نے ان کو فرمايا کہ تم وہ ہو جاؤ جو پہلے نہيں تھے۔ نماز سنوار کر پڑھو۔ تمہارے دلوں ميں رقت اور خدا کا خوف ہو۔ پھر فرمايا کہ خدا کا خوف ہر وقت تمہيں رہنا چاہيے۔ ہر ايک کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور ديکھ لو کہ اس سے خدا تعاليٰ راضي ہو گا يا ناراض۔ يہ بہت اہم چيز ہے۔ ہر کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور ديکھ لو کہ اس کام سے اللہ تعاليٰ راضي ہو گا ياناراض۔ فرمايا کہ نماز بڑي ضروري چيز ہے اور مومن کا معراج ہے۔ خدا تعاليٰ سے دعا مانگنے کا بہترين ذريعہ نماز ہے۔ نماز اس ليے نہيں ہے کہ ٹکريں ماري جاويں يا مرغ کي طرح ٹھونگيں مار لي جائيں۔جو دانہ کھاتے ہوئے جس طرح مارتا ہے۔ بہت لوگ ايسي ہي نماز يں پڑھتے ہيں اور بہت سے لوگ ايسے ہوتے ہيں کہ کسي کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگ جاتے ہيں۔ کسي نے کہا نماز پڑھ لو تو پڑھ لي۔ دل سے ان کي آواز نہيں نکل رہي ہوتي کہ نمازکي طرف توجہ کريں۔ يہ کچھ نہيں۔اس کا تو کوئي فائدہ نہيں۔ نماز خدا تعاليٰ کي حضوري ہے اور خدا تعاليٰ کي تعريف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کي مرکب صورت کا نام نماز ہے۔ خدا تعاليٰ کي تعريف کرنا ،حمد کرنا اور اپنے گناہوں کي معافي اس سے مانگنا يہ دونوں باتيں جب اکٹھي ہوتي ہيں تو اس کا نام نماز ہے۔ اس کي نماز ہرگز نہيں ہوتي جو اس غرض اور مقصد کو مدّنظر رکھ کر نماز نہيں پڑھتا۔ پس يہ دو مقصد سامنے ہوں تو تبھي حقيقي نماز ہے۔ پس نماز بہت ہي اچھي طرح پڑھو۔ کھڑے ہو تو ايسے طريق سے کہ تمہاري صورت صاف بتا دے کہ تم خدا تعاليٰ کي اطاعت اور فرمانبرداري ميں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ايسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمي کي طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں ميں اپنے دين اور دنيا کے ليے دعا کرو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلدسوم صفحہ247-248)

پس ايسي نمازيں اگر ہميں حاصل ہو جائيں تو وہ دن ہماري حقيقي عيد کے دن ہوں گے۔ اپنے جائزے کي ضرورت ہے۔ کيا ہم يہ حاصل کرنے کي کوشش کر رہے ہيں تا کہ حقيقي عيد منا سکيں يا کيا اس رمضان ميں ہم نے يہ عہد کيا ہے کہ آئندہ اس طرح عمل کر کے اللہ تعاليٰ کي رضا حاصل کرنے کي کوشش کر کے اپنے ليے عيد کا سامان کريں گے۔ عبادت کے کيا معيار ہونے چاہئيں۔ اس بارے ميں بھي آپ نے ہماري راہنمائي فرمائي۔ فرمايا کچھ تو ہم پہلے ديکھ آئے ہيں مزيد آپؑ نے يہ فرمايا کہ
’’مسلمان وہ ہے جو اپنے تمام وجود کو اللہ تعاليٰ کي رضا حاصل کرنے کے لئے وقف کر دے اور سپرد کر دے اور اعتقادي اور عملي طور پر اس کا مقصود اور غرض اللہ تعاليٰ ہي کي رضا اور خوشنودي ہو اور تمام نيکياں اور اعمال حسنہ جو اس سے صادر ہوں وہ بہ مشقت اور مشکل کي راہ سے نہ ہوں بلکہ ان ميں ايک لذت اور حلاوت کي کشش ہو۔‘‘ خوشي سے عبادت ہو نيکياں ہوں ’’جو ہر قسم کي تکليف کو راحت ميں تبديل کر دے۔‘‘

فرمايا کہ ’’حقيقي مسلمان اللہ تعاليٰ سے ہي پيار کرتا ہے۔ يہ کہہ کر اور مان کر کہ وہ ميرا محبوب و موليٰ ہے پيدا کرنے والا اور محسن ہے اس لئے اس کے آستانہ پر سر رکھ ديتا ہے۔ سچے مسلمان کو اگر کہا جاوے کہ ان اعمال کي پاداش ميں کچھ بھي نہيں ملے گا اور نہ بہشت اور نہ دوزخ ہے اور نہ آرام ہيں نہ لذات ہيں تو وہ اپنے اعمال صالحہ اور محبت الٰہي کو ہرگز ہرگز چھوڑ نہيں سکتا۔‘‘ يہ سچے مومن کي نشاني ہے ’’کيونکہ اس کي عبادت اور خدا تعاليٰ سے تعلق اور اس کي فرمانبرداري اور اطاعت ميں فنا کسي پاداش يا اجر کي بناء اور اميد پر نہيں ہے بلکہ وہ اپنے وجود کو ايسي چيز سمجھتا ہے کہ وہ حقيقت ميں خدا تعاليٰ ہي کي شناخت، اس کي محبت اور اطاعت کے لئے بنائي گئي ہے۔‘‘ وہ اپنے وجود کو ايسي چيز سمجھتا ہے کہ اس کا وجود حقيقت ميں خدا تعاليٰ کي شناخت اور اس کي محبت اور اطاعت کے ليے بنايا گيا وجود ہے۔ ’’اور کوئي غرض اور مقصد اس کا ہے ہي نہيں۔ اسي لئے وہ اپني خداداد قوتوں کو جب ان اغراض اور مقاصد ميں صَرف کرتا ہے تو اس کو اپنے محبوب حقيقي ہي کا چہرہ نظر آتا ہے۔ بہشت و دوزخ پر اس کي اصلاً نظر نہيں ہوتي۔ ميں کہتا ہوں کہ‘‘ اپني مثال ديتے ہوئے آپؑ فرماتے ہيں کہ ’’اگر مجھے اس امر کا يقين دلا ديا جاوے کہ خدا تعاليٰ سے محبت کرنے اور اس کي اطاعت ميں سخت سے سخت سزا دي جائے گي تو ميں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ميري فطرت ايسي واقع ہوئي ہے کہ وہ ان تکليفوں اور بلاؤں کو ايک لذت اور محبت کے جوش اور شوق سے برداشت کرنے کو تيار ہے اور باوجود ايسے يقين کے جو عذاب اور دکھ کي صورت ميں دلايا جاوے کبھي خدا کي اطاعت اور فرمانبرداري سے ايک قدم باہر نکلنے کو ہزار بلکہ لاانتہا موت سے بڑھ کر اور دکھوں اور مصائب کا مجموعہ قرار ديتي ہے۔ جيسے اگر کوئي بادشاہ عام اعلان کرائے کہ اگر کوئي ماں اپنے بچے کو دودھ نہ دے گي تو بادشاہ اس سے خوش ہو کر انعام دے گا تو ايک ماں کبھي گوارا نہيں کر سکتي کہ وہ اس انعام کي خواہش اور لالچ ميں اپنے بچے کو ہلاک کرے۔ اسي طرح ايک سچا مسلمان خدا کے حکم سے باہر ہونا اپنے لئے ہلاکت کا موجب سمجھتا ہے خواہ اس کو اس نافرماني ميں کتني ہي آسائش اور آرام کا وعدہ ديا جاوے۔ پس حقيقي مسلمان ہونے کے لئے ضروري ہے کہ اس قسم کي فطرت حاصل کي جاوے کہ خدا تعاليٰ کي محبت اور اطاعت کسي جزا اور سزا کے خوف اور اميد کي بناء پر نہ ہو بلکہ فطرت کا طبعي خاصہ اور جزو ہو کر ہو۔ پھر وہ محبت بجائے خود اس کے لئے ايک بہشت پيدا کر ديتي ہے اور حقيقي بہشت يہي ہے۔ کوئي آدمي بہشت ميں داخل نہيں ہو سکتا جب تک وہ اس راہ کو اختيار نہيں کرتا۔ اس لئے ميں تم کو جو ميرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اسي راہ سے داخل ہونے کي تعليم ديتا ہوں کيونکہ بہشت کي حقيقي راہ يہي ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ182-183)

پس يہ بہشت ہي حقيقي عيد کي خوشي ہے جو ہم نے حاصل کرني ہے، ہميں حاصل کرنے کي کوشش کرني چاہيے۔ ہميں اپنا جائزہ لينا چاہيے کہ کيا ہم اس طرح کي عيد کي خوشي منانے کے ليے تيار ہيں؟ اس بہشت کو حاصل کرنے کے ليے کوشش کر رہے ہيں؟

 پھر توحيد کے اقرار کے بارے ميں آپؑ فرماتے ہيں کہ ’’خدا تعاليٰ کا قانون قدرت يہي ہے کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ ميں تدريجي ترقي ہوا کرتي ہے اس لئے ہماري جماعت کي ترقي بھي تدريجي اور کَزَرْعٍ (کھيتي کي طرح) ہو گي‘‘ جس طرح کھيتي اُگتي اور بڑھتي ہے اس طرح ہے۔ ’’اور وہ مقاصد اور مطالب اس بيج کي طرح ہيں جو زمين ميں بويا جاتا ہے۔ وہ مراتب اور مقاصد عاليہ جن پر اللہ تعاليٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے۔ ابھي بہت دور ہيں۔‘‘ جماعت کو جہاں اللہ تعاليٰ پہنچانا چاہتا ہے وہ مقاصد بہت دور ہيں۔ ’’وہ حاصل نہيں ہو سکتے ہيں جب تک وہ خصوصيت پيدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قيام سے خدا کا منشاء ہے۔ توحيد کے اقرار ميں بھي خاص رنگ ہو۔ تبتل الي اللہ ايک خاص رنگ کا ہو۔ ذکرِ الٰہي ميں خاص رنگ ہو۔ حقوقِ اخوان ميں خاص رنگ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ95)

پس بيعت کے بعد ہميں اللہ تعاليٰ سے لَو لگانے ميں بھي ايک خاص رنگ پيدا کرنا ہو گا۔ ذکرِ الٰہي ميں بھي ايک خاص رنگ پيدا کرنا ہو گا۔ اپنے بھائيوں کے حقوق کي ادائيگي ميں بھي ايک خاص رنگ پيدا کرنا ہو گا اور جب يہ ہو گا تو وہ ہماري حقيقي عيد ہو گي۔ جائزے کي ضرورت ہے۔ کيا ہم اس کے ليے کوشش کر رہے ہيں يا کہيں ہم ضائع ہو جانے والا بيج تو نہيں۔

پھر آپؑ فرماتے ہيں کہ ’’خوب ياد رکھو کہ انسان کو شرف اور سعادت تب ملتي ہے جب وہ ذاتي طور پر کسي کا دشمن نہ ہو۔ ہاں اللہ اور اس کے رسول کي عزت کے لئے الگ امر ہے۔ يعني جو شخص خدا اور اس کے رسول کي عزت نہيں کرتا بلکہ ان کا دشمن ہے اسے تم اپنا دشمن سمجھو۔‘‘ ليکن يہ ياد رکھو ’’اس دشمني سمجھنے کے يہ معني نہيں ہيں کہ تم اس پر افترا ءکرو‘‘ بلا وجہ اس پر الزام لگاؤ ’’اور بلاوجہ اس کو دکھ دينے کے منصوبے کرو۔ نہيں۔ بلکہ اس سے الگ ہو جاؤ اور خدا تعالي کے سپرد کرو‘‘ معاملہ۔ جو ايسي دشمني کا اظہار کرتا ہے اس سے الگ ہو جاؤ اور معاملہ خدا کے سپرد کر دو۔ ’’ممکن ہو تو اس کي اصلاح کے لئے دعا کرو۔‘‘ يہ نہيں کہ دشمن کے ليے دعا نہيں کرني اس کي اصلاح کے ليے دعا بھي کرو۔ ’’اپني طرف سے کوئي نئي بھاجي اس کے ساتھ شروع نہ کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد8 صفحہ104-105) يعني نيا جھگڑا يا نئے مسئلے نہ پيدا کرنے شروع کر دو اس وجہ سے کہ اس نے دشمني کا اظہار کيا ہے۔

پس اگر غيرت دکھاني ہے تو ہميں خدا تعاليٰ کے ليے غيرت دکھانے کي ضرورت ہے، اس کے رسول کے ليے غيرت دکھانے کي ضرورت ہے ليکن اس ميں بھي آپؑ نے فرمايا کہ اخلاق اور حدود کو سامنے رکھنا ہو گا جو اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول نے ايک حقيقي مومن کے ليے قائم فرمائے ہيں۔ اللہ تعاليٰ سے تعلق اس کي بندگي کا حق ادا کرنے کي کوشش کے ساتھ اللہ تعاليٰ کي کتاب کو پڑھنا ،سمجھنا اور عمل کرنا بھي ايک حقيقي مومن بناتا ہے۔ قرآن کريم ہي ہے جو ہماري اللہ تعاليٰ کے احکامات کے بارے ميں يا ان کي طرف صحيح راہنمائي کرتا ہے۔ پس ايمان اور يقين ميں ترقي کے ليے عبادتوں کے ساتھ قرآن کريم کو پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بھي ضروري ہے۔

حضرت مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں۔ ’’قرآن شريف کو پڑھو اور خدا سے کبھي نااميد نہ ہو۔ مومن خدا سے کبھي مايوس نہيں ہوتا۔ يہ کافروں کي عادت ميں داخل ہے کہ وہ خدا تعاليٰ سے مايوس ہو جاتے ہيں۔ ہمارا خدا عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (البقرة: 21) خدا ہے۔ قرآن شريف کا ترجمہ بھي پڑھو‘‘ تاکہ اس کے احکامات سمجھ آئيں ’’اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھي سمجھو۔ اپني زبان ميں بھي دعائيں کر لو۔ قرآن شريف کو ايک معمولي کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعاليٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو۔ نماز کو اسي طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم پڑھتے تھے البتہ اپني حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپني زبان ميں بےشک ادا کرو اور خدا تعاليٰ سے مانگو اس ميں کوئي حرج نہيں ہے اس سے نماز ہر گز ضائع نہيں ہوتي۔ آج کل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے۔ نمازيں کيا پڑھتے ہيں ٹکريں مارتے ہيں۔ نماز تو بہت جلد جلد مرغ کي طرح ٹھونگيں مار کر پڑھ ليتے ہيں اور پيچھے دعا کے لئے بيٹھے رہتے ہيں۔ نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہي ہے۔ نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔ ايک شخص بادشاہ کے دربار ميں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھي ہو ليکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے ليکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپني درخواست پيش کرے ا سے کيا فائدہ؟ ايسا ہي حال ان لوگوں کا ہے جو نماز ميں خشوع خضوع کے ساتھ دعائيں نہيں مانگتے۔ تم کو جو دعائيں کرني ہوں نماز ميں کر ليا کرو اور پورے آداب الدّعا کو ملحوظ رکھو۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ257-258)

پس ايسي نمازيں اور قرآن کريم پر غور ہماري حقيقي عيد اور مستقل عيد بنائے گا۔ کيا ہم نے اس رمضان ميں اس عيد کو حاصل کرنے کا عہد کيا ہے؟ اگر نہيں تو آج ہميں عہد کرنا چاہيے کہ ہم نے اپني نمازوں کو سنوار کر پڑھنے اور قرآن کريم کو پڑھنے اور غور کرنے کے ليے اپني عيد کي خوشيوں کو دائمي کرنا ہے اور يہي اس کي ايک صورت ہے۔

قرآن کريم کو پڑھنے اور اسے حديثوں پر مقدم سمجھنے کے بارے ميں نصيحت فرماتے ہوئے حضرت مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں کہ ’’اے ميري عزيز جماعت! يقينا ًسمجھو کہ زمانہ اپنے آخر کو پہنچ گيا ہے اور ايک صريح انقلاب نمودار ہو گيا ہے۔ سو اپني جانوں کو دھوکامت دو اور بہت جلد راستبازي ميں کامل ہو جاؤ۔ قرآنِ کريم کو اپنا پيشوا پکڑو اور ہر ايک بات ميں اس سے روشني حاصل کرو۔ اور حديثوں کو بھي ردّي کي طرح مت پھينکو کہ وہ بڑي کام کي ہيں۔‘‘ ساري حديثيں ردّ کرنے والي نہيں ہيں ’’اور بڑي محنت سے ان کا ذخيرہ طيار ہوا ہے ليکن جب قرآن کے قصّوں سے حديث کا کوئي قصّہ مخالف ہو تو ايسي حديث کو چھوڑ دو تا گمراہي ميں نہ پڑو۔ قرآنِ شريف کو بڑي حفاظت سے خدا تعاليٰ نے تمہارے تک پہنچايا ہے سو تم اس پاک کلام کا قدر کرو اور اس پر کسي چيز کو مقدم نہ سمجھو کہ تمام راست روي اور راست بازي اسي پر موقوف ہے۔ کسي شخص کي باتيں لوگوں کے دلوں ميں اسي حد تک مؤثر ہوتي ہيں جس حد تک اس شخص کي معرفت اور تقويٰ پر لوگوں کو يقين ہوتا ہے۔‘‘

(تذکرة الشہادتين، روحاني خزائن جلد20 صفحہ64)

پھر قرآن کريم کي اہميت بيان فرماتے ہوئے مزيد فرماتے ہيں کہ ’’اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حديثوں کے يہ مجموعے ہي مايہ ناز ايمان واعتقاد ہو تے‘‘ انہي پر ہمارا انحصار ہوتا ’’تو ہم قوموں کو شرمساري سے منہ بھي نہ دکھا سکتے۔ مَيں نے قرآن کے لفظ ميں غور کي تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ ميں ايک زبردست پيش گوئي ہے۔ وہ يہ ہے کہ يہي قرآن يعني پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ايک زمانہ ميں تو اَور بھي زيادہ پڑھنے کے يہي قابل کتاب ہو گي جبکہ اَور کتابيں بھي پڑھنے ميں اس کے ساتھ شريک کي جائيں گي۔ اس وقت اسلام کي عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استيصال کرنے کے لئے يہي ايک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گي اور ديگر کتابيں قطعاً چھوڑ دينے کے لائق ہوں گي۔ فرقان کے بھي يہي معني ہيں۔ يعني يہي ايک کتاب حق وباطل ميں فرق کرنے والي ٹھہرے گي اور کوئي حديث کي يا او ر کوئي کتاب اس حيثيت اور پايہ کي نہ ہو گي۔ اس لئے اب سب کتابيں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہي کو پڑھو۔ بڑا بے ايمان ہے وہ شخص جو قرآن کريم کي طرف التفات نہ کرے اور دوسري کتابوں پر ہي رات دن جھکا رہے۔ ہماري جماعت کو چاہئے کہ قرآن کريم کے شغل اور تدبر ميں جان ودل سے مصروف ہو جائيں اور حديثوں کے شغل کو ترک کريں۔ بڑے تاسّف کا مقام ہے کہ قرآن کريم کا وہ اعتنا اور تدارس نہيں کيا جاتا جو احاديث کا کيا جاتا ہے۔‘‘ اس کے درسوں کي طرف زيادہ توجہ ہوتي ہے۔ ’’اس وقت قرآن کريم کا حربہ ہاتھ ميں لو تو تمہاري فتح ہے۔ اس نور کے آگے کوئي ظلمت ٹھہر نہ سکے گي۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ122)

اسي طرح آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے بھي ايک موقع پر فرمايا کہ جس کو قرآن کا کچھ بھي حصہ ياد نہيں وہ ويران گھر کي طرح ہے۔

(سنن الترمذي ابواب فضائل القرآن باب ان الذي ليس في جوفہ حديث 2913)

نيز آپؐ نے فرمايا کہ قرآن کريم کو جلدي جلدي نہ پڑھو بلکہ سمجھ کر پڑھو۔

(سنن الترمذي ابواب القراءات باب في کم اقرأ القرآن حديث 2949)

پس اس رمضان ميں جو قرآن کريم پڑھنے کي طرف توجہ پيدا ہوئي ہے۔ بعض نے شايد کچھ حصہ ياد کرنے کي بھي کوشش کي ہو، پس اسے ياد رکھنا، اسے دہرانا بھي چاہيے تا کہ يادداشت ميں قائم رہے اور پھر يہ کہ قرآن کريم کي تعليم پر غور کرنے کي کوشش بھي کرني چاہيے۔ اس کے احکامات پر غور کريں۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم اور آپؐ کے غلامِ صادق نے جس طرح فرمايا ہے اس پر تدبر کرو۔ اور جب ہم ياد کرنے اور تدبر کرنے اور قرآن کريم کو زيادہ سے زيادہ پڑھنے کي طرف توجہ ديں گے تبھي ہم اس کا حق ادا کر سکتے ہيں اور تبھي ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ اس رمضان نے ہمارے اندر جو پاک تبديلياں پيدا کي ہيں جس کي وجہ سے ہميں قرآن کريم پڑھنے اور سمجھنے کي طرف توجہ ہوئي يہي اصل ميں ہماري عيد ہے۔ اور اس عيد کو آج ہم نے خوشياں منا کر ختم نہيں کر لينا بلکہ ہميشہ کے ليے اور ہر روز اللہ تعاليٰ کي کتاب کو سمجھ کر پڑھنے سے حظ اٹھانا ہے۔ اور صرف حظ ہي نہيں اٹھانا بلکہ اس ليے پڑھنا ہے تا کہ اس کي تعليم کو سمجھ کر روحاني ترقي ہو اور ہمارا ہر دن عيد کي خوشياں لانے والا دن ہو۔ عبادت اور قرآن کريم کو پڑھنے سمجھنے کا روزمرہ کي زندگي ميں عملي اظہار اس وقت ہوتا ہے جب انسان حقوق العباد کي ادائيگي بھي کرے۔ اس ليے اللہ تعاليٰ نے ہميں حقوق العباد کي طرف بھي بہت توجہ دلائي ہے۔

اس بارے ميں نصيحت فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں کہ ’’خدا تعاليٰ قرآن مجيد ميں فرماتا ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۔وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا (الشمس: 10-11) جس کا مطلب يہ ہے کہ نجات پا گيا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکيہ کر ليا اور خائب اور خا سر ہو گيا وہ شخص جو اس سے محروم رہا۔ اس لئے اب تم لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ تزکيہ نفس کس کو کہا جاتا ہے۔ سو ياد رکھو کہ ايک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تيار رہنا چاہئے اور جيسے زبان سے خدا تعاليٰ کو اس کي ذات اور صفات ميں واحد لا شريک سمجھتا ہے ايسے ہي عملي طور پر اس کو دکھانا چاہئے اور اس کي مخلوق کے ساتھ ہمدردي اور ملائمت سے پيش آنا چاہئے اور اپنے بھائيوں سے کسي قسم کا بھي بغض، حسد اور کينہ نہيں رکھنا چاہئے اور دوسروں کي غيبت کرنے سے بالکل الگ ہو جانا چاہئے۔ ليکن ميں ديکھتا ہوں۔‘‘ آپؑ فرماتے ہيں ’’کہ يہ معاملہ تو ابھي دور ہے کہ تم لو گ خدا تعاليٰ کے سا تھ ايسے از خود رفتہ اور محو ہو جاؤ کہ بس اسي کے ہو جاؤ اور جيسے زبان سے اس کا اقرار کرتے ہو عمل سے بھي کر کے دکھاؤ۔ ابھي تو تم لوگ مخلوق کے حقوق کو بھي کما حقہ ادا نہيں کرتے۔ بہت سے ايسے ہيں جو آپس ميں فساد اور دشمني رکھتے ہيں اور اپنے سے کمزور اور غريب شخصوں کو نظر حقارت سے ديکھتے ہيں اور بد سلوکي سے پيش آتے ہيں اور ايک دوسرے کي غيبتيں کرتے‘‘ ہيں حالانکہ غيبت بہت بڑا گناہ ہے۔ ’’اور اپنے دلوں ميں بغض اور کينہ رکھتے ہيں ليکن خدا تعاليٰ فرماتا ہے کہ تم آپس ميں ايک وجود کي طرح بن جاؤ اور جب تم ايک وجود کي طرح ہو جاؤ گے اس وقت کہہ سکيں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکيہ کر ليا کيونکہ جب تک تمہارا آپس ميں معاملہ صاف نہيں ہوگا اس وقت تک خدا تعاليٰ سے بھي معاملہ صاف نہيں ہو سکتا۔ گو ان دونوں قسم کے حقوق ميں بڑا حق خدا تعاليٰ کا ہے مگر اس کي مخلوق کے سا تھ معاملہ کرنا يہ بطور آئينہ کے ہے۔ جو شخص اپنے بھائيوں سے صاف صاف معاملہ نہيں کرتا وہ خدا تعاليٰ کے حقو ق بھي ادا نہيں کر سکتا۔‘‘

(ملفوظات جلددہم فحہ72-73)

پس جب ہم حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي اس خواہش کے مطابق اپنے آپ کو بنا ليں گے تو يہي ہمارے ليے حقيقي خوشي اور عيد کا دن ہے اور اس کے ليے ہميں اپنا جائزہ لينا ہو گا کہ کيا ہم اپنے بھائيوں کے حقوق ادا کر رہے ہيں يا يہ عہد کرتے ہيں کہ آئندہ ان شاءاللہ ادا کرنے کي کوشش کريں گے۔

پھر آپؑ فرماتے ہيں کہ ’’سورة فاتحہ اسي لئے اللہ تعاليٰ نے پيش کي ہے۔ اور اس ميں سب سے پہلي صفت  رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ بيان کي ہے۔ جس ميں تمام مخلوقات شامل ہے اسي طرح پر ايک مومن کي ہمدردي کا ميدان سب سے پہلے اتنا وسيع ہونا چاہئے کہ تمام چرند پرند اور کُل مخلوق اس ميں آجاوے۔ پھر دوسري صفت رحمٰن کي بيان کي ہے جس سے يہ سبق ملتا ہے کہ تمام جاندار مخلوق سے ہمدردي خصوصاً کرني چاہئے۔ اور پھر رحيمميں اپني نوع سے ہمدردي کا سبق ہے۔ غرض اس سورة فاتحہ ميں جو اللہ تعاليٰ کي صفات بيان کي گئي ہيں يہ گويا خداتعاليٰ کے اخلاق ہيں جن سے بندہ کو حصہ لينا چاہئے اور وہ يہي ہے کہ اگر ايک شخص عمدہ حالت ميں ہے تو اس کو اپني نوع کے ساتھ ہر قسم کي ممکن ہمدردي سے پيش آنا چاہئے۔‘‘ دوسرے انسان کے ساتھ ہر قسم کي ممکن ہمدردي سے پيش آنا چاہيے۔ ’’اگر دوسرا شخص جو اس کا رشتہ دار ہے يا عزيز ہے خواہ کوئي ہے۔‘‘ ضروري نہيں کہ رشتہ دار يا عزيز ہو ۔کوئي بھي ہو ’’اس سے بيزاري نہ ظاہر کي جاوے اور اجنبي کي طرح اس سے پيش نہ آئيں بلکہ ان حقوق کي پروا کريں جو اس کے تم پر ہيں۔ اس کو ايک شخص کے ساتھ قرابت ہے اور اس کا کوئي حق ہے تو اس کو پورا کرنا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ345)

پس نماز ميں جتني مرتبہ ہم سورة فاتحہ پڑھتے ہيں ہر مرتبہ اور مضامين کے ساتھ حقوق العباد کي طرف ہماري نظر جاني چاہيے۔ تبھي ہم اللہ تعاليٰ کے حق کے ساتھ حقوق العباد کي طرف متوجہ رہ سکتے ہيں اور تبھي ہماري عيد حقيقي عيد ہو سکتي ہے۔

پھر اس بات کي مزيد وضاحت فرماتے ہوئے کہ عبادت اور قرآن کے پڑھنے اور سمجھنے کے ساتھ حقوق العباد کي ادائيگي مومن کے ليے ايک اہم فرض ہے۔ آپؑ فرماتے ہيں ’’حقوق عباد بھي دو قسم کے ہيں ايک وہ جو ديني بھائي ہو گئے ہيں خواہ وہ بھائي ہے يا باپ ہے يا بيٹا مگر ان سب ميں ايک ديني اخوت ہے اور ايک عام بني نوع انسان سے سچي ہمدردي ہے۔‘‘ فرمايا ’’…… بني نوع انسان کے ساتھ ہمدردي ميں ميرا يہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کي جاوے پورے طور پر سينہ صاف نہيں ہوتا۔ اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن: 61) ميں اللہ تعاليٰ نے کوئي قيدنہيں لگائي کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہيں کروں گا بلکہ ميرا تو يہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا يہ بھي سنت نبوي ہے۔ حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ اسي سے مسلمان ہوئے۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کيا کرتے تھے۔ اس لئے بخل کے ساتھ ذاتي دشمني نہيں کرني چاہئے اور حقيقتاً موذي نہيں ہونا چاہئے۔ شکر کي بات ہے کہ ہميں اپنا کوئي دشمن نظر نہيں آتا جس کے واسطے دو تين مرتبہ دعا نہ کي ہو۔ ايک بھي ايسا نہيں اور يہي ميں تمہيں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں۔‘‘ کہ دشمن کے ليے دعا ضرور کرو۔ ’’خدا تعاليٰ اس سے کہ کسي کو حقيقي طور پر ايذا پہنچائي جاوے اور ناحق بخل کي راہ سے دشمني کي جاوے ايسا ہي بيزار ہے۔‘‘ کسي کو حقيقي ايذا پہنچانا نقصان پہنچانا اور دعا ميں بھي بخل سے کام لينا يا دشمني کرنا اللہ تعاليٰ اس سے بہت بيزار ہے اور ايسا ہي بيزار ہے ’’جيسے وہ نہيں چاہتا کہ کوئي اس کے ساتھ ملايا جاوے۔‘‘ يعني اللہ تعاليٰ کو اس بات سے اسي طرح نفرت ہے جس طرح شرک سے نفرت ہے۔ ’’ايک جگہ وہ فصل نہيں چاہتا اور ايک جگہ وصل نہيں چاہتا يعني بني نوع کا باہمي فصل اور اپنا کسي غير کے ساتھ وصل۔‘‘ انسان انسان سے عليحدہ ہو يہ نہيں چاہتا اور اپنے ساتھ کسي غير کو ملانا نہيں چاہتا يعني شرک نہ ہو۔ دونوں چيزيں اللہ تعاليٰ کو ناپسند ہيں ’’اور يہ وہي راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھي دعا کي جاوے اس سے سينہ صاف اور انشراح پيدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتي ہے اس لئے جب تک ہماري جماعت يہ رنگ اختيارنہيں کرتي اس ميں اور اس کے غير ميں پھر کوئي امتياز نہيں ہے۔ ميرے نزديک يہ ضروري امر ہے کہ جو شخص ايک کے ساتھ دين کي راہ سے دوستي کرتا ہے اور اس کے عزيزوں سے کوئي ادنيٰ درجہ کاہے تو اس کے ساتھ نہايت رفق اور ملائمت سے پيش آنا چاہيے اور ان سے محبت کرني چاہيے۔کيونکہ خدا کي يہ شان ہے

’’بداں را بہ نيکاں بہ بخشد کريم‘‘

کہ وہ کريم خدا بروں کو بھي نيکوں کے ساتھ بخش ديتا ہے۔ ’’پس تم جو ميرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہيں چاہئے کہ تم ايسي قوم بنو جس کي نسبت آيا ہے۔ فَاِنَّھُمْ قَوْمٌ لَا يَشْقٰي جَلِيْسُہُمْ۔ يعني وہ ايسي قوم ہے کہ جن کا ہم جليس بدبخت نہيں ہوتا۔ يہ خلاصہ ہے ايسي تعليم کا جو تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ ميں پيش کي گئي ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ96-97)

ہمارے آپس کے تعلقات اور ايک دوسرے کے ليے دعائيں کرنے کے يہ معيار ہوں گے تو تبھي ہمارے ليے حقيقي خوشي کا وقت ہو گا۔ پھر حقوق العباد کے معيار کا ذکر فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہيں کہ ’’اصل بات يہ ہے کہ سب سے مشکل اور نازک مرحلہ حقوق العباد ہي کاہے کيونکہ ہر وقت اس کا معاملہ پڑتا ہے اور ہر آن يہ ابتلا سامنے رہتا ہے۔ پس اس مرحلہ پر بہت ہي ہوشياري سے قدم اٹھانا چاہيے۔ مير اتو يہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھي حد سے زيادہ سختي نہ ہو۔ بعض لوگ چاہتے ہيں کہ جہاںتک ہو سکے اس کي تخريب اور بربادي کے ليے سعي کي جاوے۔ پھر وہ اس فکر ميں پڑ کر جائز اور ناجائز امور کي بھي پروا نہيں کرتے۔ اس کو بدنام کرنے کے واسطے جھوٹي تہمت اس پر لگاتے، افترا کرتے اور اس کي غيبت کرتے اور دوسروں کو اس کے خلاف اکساتے ہيں۔ اب بتاؤ کہ معمولي دشمني سے کس قدر برائيوں اور بديوں کا وارث بنا اور پھر يہ بدياں جب اپنے بچے ديں گي تو کہاں تک نوبت پہنچے گي۔‘‘

(ملفوظات جلدہشتم صفحہ104)

اور جب ايسي صورت ہو تو پھر اللہ تعاليٰ کي ناراضگي ہوتي ہے اور جب اللہ تعاليٰ کي ناراضگي ہو تو عيد کي حقيقي خوشي کس طرح مل سکتي ہے۔ پس بڑے خوف کے ساتھ اپنے جائزے لينے کي ضرورت ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہيں ’’ايک حديث ميں آيا ہے کہ قيامت ميں اللہ تعاليٰ بعض بندوں سے فرمائے گا کہ تم بڑے برگزيدہ ہو اور ميں تم سے بہت خوش ہوں کيونکہ ميں بہت بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلايا۔ ميں ننگا تھا تم نے کپڑا ديا۔ ميں پياسا تھا تم نے مجھے پاني پلايا۔ ميں بيمار تھا تم نے ميري عيادت کي۔ وہ کہيں گے کہ يا اللہ تُو تو ان باتوں سے پاک ہے۔ تُو کب ايسا تھا جو ہم نے تيرے ساتھ ايسا کيا؟ تب وہ فرمائے گا کہ ميرے فلاں فلاں بندے ايسے تھے تم نے ان کي خبرگيري کي وہ ايسا معاملہ تھا کہ گويا تم نے ميرے ساتھ ہي کيا۔ پھر ايک اَور گروہ پيش ہو گا۔ ان سے کہے گا تم نے ميرے ساتھ برا معاملہ کيا۔ ميں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ ديا۔ پياسا تھا پاني نہ ديا۔ ننگا تھا مجھے کپڑا نہ ديا۔ ميں بيمار تھا ميري عيادت نہ کي۔ تب وہ کہيں گے کہ يا اللہ تعاليٰ تُو تو ايسي باتوں سے پاک ہے۔ تُو کب ايسا تھا جو ہم نے تيرے ساتھ ايسا کيا۔ اس پر فرمائے گا کہ ميرا فلاں فلاں بندہ اس حالت ميں تھا اور تم نے ان کے ساتھ کوئي ہمدردي اور سلوک نہ کيا وہ گويا ميرے ساتھ ہي کرنا تھا۔

غرض نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردي کرنا بہت بڑي عبادت ہے اور اللہ تعاليٰ کي رضا حاصل کرنے کے ليے يہ ايک زبردست ذريعہ ہے۔‘‘ فرماتے ہيں کہ ’’…… جو لوگ غرباء کے ساتھ اچھے سلوک سے پيش نہيں آتے بلکہ ان کو حقير سمجھتے ہيں مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصيبت ميں مبتلا نہ ہو جاويں۔ اللہ تعاليٰ نے جن پر فضل کيا ہے اس کي شکرگزاري يہي ہے کہ اس کي مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کريں اور اس خداداد فضل پر تکبر نہ کريں اور وحشيوں کي طرح غرباء کو کچل نہ ڈاليں۔‘‘

(ملفوظات جلدہشتم صفحہ102-103)

پس غريبوں کي ضرورت مندوں کي مدد ہي اللہ تعاليٰ کے فضل اور پيار کو جذب کرنے والي ہوني چاہيے اور ہو گي اور جب يہ ہو گا تو حقيقي عيد کا دن ہو گا۔ انفرادي طور پر بھي جماعت ميں لوگ ايک دوسرے کي مدد کرتے ہيں ليکن جماعتي طور پر بھي فنڈز قائم ہيں وہاں بھي جو صاحب حيثيت لوگ ہيں ان کو کچھ نہ کچھ ادائيگي کرني چاہيے۔ مريضوں کي امداد کا فنڈ ہے۔ يتيموں کا فنڈ ہے۔ غرباء کا فنڈ ہے۔ غريب طلبہ کي مدد کا فنڈ ہے اور اس طرح بہت سارے ہيں جہاں مدد کي جاتي ہے۔ اس طرف بھي جماعت کے افراد کو صاحبِ حيثيت افراد کو توجہ ديني چاہيے۔

پھر آپؑ فرماتے ہيں ’’پس خدا تعاليٰ چاہتا ہے کہ جب تک تم ايک وجود کي طرح بھائي بھائي نہ بن جاؤ گے اور آپس ميں بمنزلہ اعضاء نہ ہو جاؤ گے تو فلاح نہ پاؤ گے۔ انسان کا جب بھائيوں سے معاملہ صاف نہيں تو خدا سے بھي نہيں۔ بےشک خدا تعاليٰ کا حق بڑا ہے مگر اس بات کو پہچاننے کا آئينہ کہ خدا کا حق ادا کيا جا رہا ہے يہ ہے کہ مخلوق کا حق بھي ادا کر رہا ہے يا نہيں۔ جو شخص اپنے بھائيوں سے معاملہ صاف نہيں رکھ سکتا وہ خدا سے بھي صاف نہيں رکھتا۔ يہ بات سہل نہيں يہ مشکل ہے۔ سچي محبت اور چيز ہے اور منافقانہ اور۔ ديکھو مومن کے مومن پر بڑے حقوق ہيں۔ جب وہ بيمارپڑے تو عيادت کو جائے اور جب مرے تو اس کے جنازہ پر جائے۔ ادنيٰ ادنيٰ باتوں پر جھگڑانہ کرے بلکہ درگزر سے کام لے۔ خدا کا يہ منشاء نہيں کہ تم ايسے رہو۔ اگر سچي اخوت نہيں تو جماعت تباہ ہو جائے گي۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ73-74 حاشيہ)

پس يہ سچي اخوت ہي ہماري دائمي خوشيوں کا باعث بن سکتي ہے اور ہميں جماعت کا حصہ بنانے کے قابل بنا سکتي ہے۔ اس کے حصول کے ليے ہميں اپنے جائزے لينے چاہئيں۔

پھر گھروں ميں ايک مومن کو اپنا کيسا سلوک رکھنا چاہيے، عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا کيا معيار ہونا چاہيے اس بارے ميں بھي آپؑ نے فرمايا۔ فرمايا کہ ’’فحشاء کے سوا باقي تمام کج خلقياں اور تلخياں عورتوں کي برداشت کرني چاہئيں۔ ہميں تو کمال بے شرمي معلوم ہوتي ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کريں۔ ہم کو خدا نے مرد بنايا ہے۔ درحقيقت ہم پر اتمامِ نعمت ہے۔ اس کا شکريہ يہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمي کا برتاؤ کريں۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ1)

گھروں کے يہ حسن سلوک ہيں جو گھروں کو جنت نظير بناتے ہيں۔ بچوں کي بھي تربيت ہو رہي ہوتي ہے اور گھر کا ماحول بھي خوشگوار رہتا ہے اور ايک مومن کے ليے تو يہي بہت بڑي خوشي ہوني چاہيے کہ اس کا گھر اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول کي تعليم کے مطابق ايک نمونہ دکھا رہا ہے اور يہ گھروں کي قائم رہنے والي خوشي اور سکون کا ماحول جو ہے يہي ہے جو انسان کے ليے ہر دن عيد کے سامان پيدا کرتا ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہيں ’’ياد رکھو ہماري جماعت اس بات کے لئے نہيں ہے جيسے عام دنيا دار زندگي بسر کرتے ہيں۔ نرا زبان سے کہہ ديا کہ ہم اس سلسلہ ميں داخل ہيں اور عمل کي ضرورت نہ سمجھي۔ جيسے بدقسمتي سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہيں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہيں پڑھتے اور شعائر اللہ کي حرمت نہيں کرتے۔ پس ميں تم سے يہ نہيں چاہتا کہ صرف زبان سے ہي اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔ يہ نکمي حالت ہے۔ خدا تعاليٰ اس کو پسند نہيں کرتا اور دنيا کي اس حالت نے ہي تقاضا کيا کہ خدا تعاليٰ نے مجھے اصلاح کے ليے کھڑا کيا ہے۔ پس اب اگر کوئي ميرے ساتھ تعلق رکھ کر بھي اپني حالت کي اصلاح نہيں کرتا اور عملي قوتوں کو ترقي نہيں ديتا بلکہ زباني اقرار ہي کو کافي سمجھتا ہے۔ وہ گويا اپنے عمل سے ميري عدم ضرورت پر زور ديتا ہے۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ ميرا آنا ہي بے سود ہے تو پھر ميرے ساتھ تعلق کرنے کے کيا معني ہيں؟ ميرے ساتھ تعلق پيدا کرتے ہو تو ميري اغراض و مقاصد کو پورا کرو اور وہ يہي ہيں کہ خدا تعاليٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداري دکھاؤ اور قرآن شريف کي تعليم پر اسي طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے کرکے دکھايا اور صحابہ نے کيا۔ قرآن شريف کے صحيح منشا کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ خدا تعاليٰ کے حضور اتني ہي بات کافي نہيں ہو سکتي کہ زبان سے اقرار کر ليا اور عمل ميں کوئي روشني اور سرگرمي نہ پائي جاوے۔ ياد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعاليٰ قائم کرني چاہتا ہے۔ وہ عمل کے بدوں زندہ نہيں رہ سکتي۔ يہ وہ عظيم الشان جماعت ہے جس کي تياري حضرت آدم کے وقت سے شروع ہوئي۔ کوئي نبي دنيا ميں نہيں آيا جس نے اس دعوت کي خبر نہ دي ہو پس اس کي قدر کرو اور اس کي قدر يہي ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہل حق کا گروہ تم ہي ہو۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ370-371)

پس يہ بہت اہم باتيں ہيں۔ ہمارا حضرت مسيح موعود عليہ السلام کو ماننا، آپ کي بيعت ميں آنا کوئي معمولي بات نہيں ہے۔ ظاہري خوشياں ہميں ہمارے مقصد ميں کامياب نہيں کر سکتيں۔ صرف بيعت کرنے سے ہمارا مقصود ہميں نہيں مل جاتا بلکہ اس کے ليے ہميں کوشش کرنے کي ضرورت ہے اور پھر اللہ تعاليٰ کا فضل بھي ہوتا ہے اور جب اللہ تعاليٰ کا فضل ہو اور حقيقت ميں اہل حق کا گروہ ہم بن جائيں تو پھر اس سے بڑي خوشي اور اس سے بڑي عيد ہمارے ليے اور کون سي ہو گي۔

پھر آپؑ فرماتے ہيں: ’’جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر ميں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خدا تعاليٰ نے مسلمانوں کو يہي تعليم دي تھي کہ تم وجود واحد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گي۔ نماز ميں ايک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسي لئے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقي طاقت کي طرح ايک کي خير دوسرے ميں سرايت کرے گي۔ اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصيب رہو گے۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے کہ آپس ميں محبت کرو اور ايک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو۔ اگر ايک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تيرے لئے بھي ايسا ہي ہو۔ کيسي اعليٰ درجہ کي بات ہے۔ اگر انسان کي دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کي تو منظورہوتي ہے۔ ميں نصيحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس ميں اختلاف نہ ہو۔ ميں دو ہي مسئلے لے کر آيا ہوں۔ اول خدا کي توحيد اختيار کرو۔ دوسرے آپس ميں محبت اور ہمدردي ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غيروں کے لئے کرامت ہو۔ يہي دليل تھي جو صحابہؓ ميں پيدا ہوئي تھي۔ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ (آل عمران: 104) ياد رکھو تاليف ايک اعجاز ہے۔ ياد رکھو جب تک تم ميں ہر ايک ايسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہي اپنے بھائي کے لئے پسند کرے وہ ميري جماعت ميں سے نہيں ہے۔ وہ مصيبت اور بلا ميں ہے۔‘‘ فرمايا ’’…… چھوٹي چھوٹي باتوں پر لڑائي ہوتي ہے …… ياد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدي کي علامت ہے اور کيا وہ علامت پوري نہ ہو گي۔ وہ ضرور پوري ہو گي‘‘ ليکن ہم اپنے آپ کو نہيں بدليں گے تو ان برکات سے ہم محروم ہو جائيں گے۔ فرمايا کہ ’’……ميرے وجود سے ان شاءاللہ ايک صالح جماعت پيدا ہو گي۔ باہمي عداوت کا سبب کيا ہے؟ بخل ہے رعونت ہے خود پسندي ہے اور جذبات ہيں۔‘‘ فرمايا ’’ميں کسي کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لينا نہيں چاہتا۔ ايسا شخص جو ميري جماعت ميں ہو کر ميرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہني ہے اس کو اگر باغبان کاٹے نہيں تو کيا کرے۔ خشک ٹہني دوسري سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پاني تو چوستي ہے مگر وہ اس کو سرسبز نہيں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسري کو بھي لے بيٹھتي ہے۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ48-49)

پس بہت ڈرنے کا مقام ہے۔ ہماري عيديں کس طرح وہ عيديں ہو سکتي ہيں جن ميں ہم حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي خواہش کے مطابق اپني اخلاقي حالتوں کو درست کر کے حقوق العباد کي طرف توجہ دے کر آپس ميں محبت و پيار پيدا کر کے اس معيار تک نہيں پہنچتے جو حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام ہم سے چاہتے ہيں۔ صرف چند قريبي عزيزوں سے مل کر اور ان کے حقوق ادا کر کے تو حقيقي عيد کا حق ادا نہيں ہو سکتا۔ پس حقيقي عيد منانے کے ليے ہميں ديکھنا ہو گا کہ ہم نے کہاں تک آپس کي محبت و الفت کا معيار حاصل کيا ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہيں ’’اے سعادت مند لوگو! تم زور کے ساتھ اس تعليم ميں داخل ہو جو تمہاري نجات کے لئے مجھے دي گئي ہے۔ تم خدا کو واحد لاشريک سمجھو اور اس کے ساتھ کسي چيز کو شريک مت کرو، نہ آسمان ميں سے، نہ زمين ميں سے۔ خدا اسباب کے استعمال سے تمہيں منع نہيں کرتا ليکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہي بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے۔ قديم سے خدا کہتا چلا آيا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہيں ہے سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفساني کينوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ۔ انسان کے نفس امارہ ميں کئي قسم کي پليدياں ہوتي ہيں مگر سب سے زيادہ تکبر کي پليدي ہے۔ اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئي شخص کافر نہ رہتا سو تم دل کے مسکين بن جاؤ۔ عام طور پر بني نوع کي ہمدردي کرو جب کہ تم انہيں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو۔ سو يہ وعظ تمہارا کب صحيح ہو سکتا ہے کہ اگر تم اس چند روزہ دنيا ميں ان کي بدخواہي کرو۔ خدا تعاليٰ کے فرائض کو دلي خوف سے بجا لاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے۔ نمازوں ميں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہيں اپني طرف کھينچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کيونکہ انسان کمزور ہے ہر ايک بدي جو دور ہوتي ہے وہ خدا کي قوت سے دور ہوتي ہے اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسي بدي کے دور کرنے پر قادر نہيں ہو سکتا۔ اسلام صرف يہ نہيں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئيں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کي حقيقت يہ ہے کہ تمہاري روحيں خدا تعاليٰ کے آستانہ پر گر جائيں اور خدا اور اس کے احکام ہر ايک پہلو کے رو سے تمہاري دنيا پر تمہيں مقدم ہو جائيں۔‘‘

(تذکرة الشہادتين، روحاني خزائن جلد20 صفحہ63)

پس يہ وہ تعليم ہے جو حقيقي عيد کي خوشياں دے سکتي ہے۔ اگر ہم اس کے مطابق اپني زندگيوں کو ڈھاليں گے تو حقيقي عيد منانے والے ہوں گے۔ صرف سال کي دو عيديں ہي نہيں بلکہ ہر دن ہمارے ليے عيد کا دن ہو گا کيونکہ ہم اللہ تعاليٰ کا حقيقي عبد بننے کے ليے اس کي عبادت کا حق ادا کرنے کي کوشش کريں گے جس سے اللہ تعاليٰ پہلے سے بڑھ کر ہميں نوازے گا۔ ہم قرآن کريم کو پڑھ اور سمجھ کر اس پر عمل کرنے کي کوشش کريں گے تو اللہ تعاليٰ اپنے فضلوں کا ہميں وارث بنائے گا۔ ہم حقوق العباد کي ادائيگي کي کوشش کريں گے تو خدا تعاليٰ اپني محبت کي نظر ہم پر ڈالے گا اور يہي چيزيں ہيں جس کو مل جائيں اس کي حقيقي عيد ہو جاتي ہے۔ دعا اور کوشش کرني چاہيے کہ يہ حقيقي عيد ہم حاصل کرنے والے ہوں۔

آخر ميں ميں دعا کي طرف بھي توجہ دلاني چاہتا ہوں۔سب سے پہلے تو فلسطيني لوگوں کے ليے دعا کريں جن پر آج کل بہت زيادہ ظلم ہو رہے ہيں اور ان کو اپنے علاقوں ميں ہي جانے کے ليے، مسجد اقصيٰ ميں جانے کے ليے پرمٹ کي ضرورت ہے جو ديے نہيں جاتے جس سے ان کو روکا جاتا ہے اور جو نماز پڑھنے کے ليے گئے تو وہاں زبردستي ان پر ظلم کيا گيا، ان کو مارا گيا۔ حکومتي اہلکاروں کي طرف سے ان کو ظلم کا نشانہ بننا پڑا۔ پھر اسي طرح ان کو جو شيخ جرّاح ان کا محلہ ہے، ايک چھوٹي سي آبادي ہے وہاں سے ان کو زبردستي نکالا جا رہا ہے۔ وہ ان کي اپني جگہيں ہيں۔ اس پر اب ميڈيا نے بہت سارا لکھنا شروع کر ديا ہے بلکہ اسرائيل کے اپنے اخباروں نے بھي لکھنا شروع کر ديا ہے۔ بعض جگہ پہ ان کے ميڈيا نے بھي لکھنا شروع کيا ہے جو انصاف پسند ہيں۔ اور پوليس لوگوں پرآنسو گيس اور گولياں برسا رہي ہے بلکہ ايئر سٹرائکس(Air Strikes) بھي کيے ہيں اس ليے کہ يہاں دشمن چھپے ہوئے ہيں، ان کو ہم مار رہے ہيں ليکن حقيقت ميں ظلم کيا جا رہا ہے اور عوام الناس کو مارا جا رہا ہے۔ پھر يہ ہے کہ جو زخمي ہوتے ہيں سنا يہ ہے، پريس کي يہ رپورٹ ہے بعض جگہ کي کہ اسرائيلي پوليس طبي خيموں تک بھي ان کو پہنچنے نہيں دے رہي۔ ميڈيکل ايڈ سے بھي ان کو محروم کيا جا رہا ہے۔ تو بہرحال مسجد اقصيٰ ميں جو ظلم ہوا مَيں نے بتايا، اللہ تعاليٰ ان مظلوموں پر رحم اور فضل فرمائے اور ظالموں کي پکڑ کرے۔ سٹيٹ ڈيپارٹمنٹ امريکہ کہنے کو بڑا انصاف پسند ہے ليکن نَو بچوں کے قتل پہ کوئي انہوں نے سٹيٹمنٹ نہيں دي، کوئي ہمدردي کا اظہار نہيں کيا جب تک يہ نَو تھے اب تو اَور بھي زيادہ ہو چکے ہيں۔

پھر نيو يارک ٹائمز نے بھي ہيومن رائٹس واچ کي رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسرائيل اور مقبوضہ علاقوں ميں فلسطينيوں پہ اسرائيل يہوديوں کو فوقيت ديتا ہے۔ انصاف تو ہے ہي نہيں تو ظاہر ہے فوقيت ديني ہے۔ ايمنسٹي انٹرنيشنل کي رپورٹ بھي يہي ہے کہ فلسطينيوں پر بہت زيادہ ظلم کيا جا رہا ہے۔ اسرائيلي قومي اخبار ہيرٹز(Haaretz) لکھتا ہے کہ يروشلم ابل رہا ہے۔ دمشق گيٹ پر رکاوٹيں کھڑي کرنا ايک اشتعال انگيز احمقانہ قدم تھا جس نے شيخ جراح محلہ ميں سينکڑوں فلسطينيوں کو گھروں سے بے دخل ہونے کے پس منظر ميں رمضان المبارک کے مقدس موقع پر رہائشيوں کو پريشان کر ديا۔ پھر ہيرٹز يہ بھي لکھتا ہے کہ عجيب بات ہے کہ انصاف کا انوکھا ورژن ہے جس کا اطلاق اس اصول پہ کيا جاتا ہے کہ جو ميرا ہے وہ ہميشہ کے ليے ميرا ہے اور جو تمہارا ہے وہ بھي ہميشہ کے ليے ميرا ہے۔ اسي طرح ان سے فلسطينيوں کے حقوق چھينے جا رہے ہيں۔

بہرحال اللہ تعاليٰ رحم فرمائے اور يہ عيد کي خوشياں ان کے ليے تو غموں کا پہاڑ لے کر آئي ہيں۔ اللہ تعاليٰ ان کے غموں کو خوشيوں ميں تبديل کرے۔ ان کو سکون کي زندگي ميسر ہو۔ ان کو ليڈر شپ بھي ايسي اچھي ملے جو ان کي صحيح راہنمائي کرنے والي ہو۔ مسلم ممالک اکٹھے ہو کر اپنا کردار ادا کريں تو فلسطينيوں کو اور جو دوسري جگہ مظلوم مسلمان ہيں، جہاں بھي ہيں، ان کو ظلموں سے بچا سکتے ہيں۔ ليکن مسلم اُمہ بھي اکٹھي نہيں ہوتي مسلم ممالک کو جو ردّ عمل دکھانا چاہيے تھا اس زور سے نہيں دکھايا جا رہا۔ ہلکے پھلکے بيان دے ديتے ہيں حالانکہ بڑا اکٹھا ايک مشترکہ بيان ہوتا تو اس ميں طاقت ہوتي۔ تو بہرحال اللہ تعاليٰ مسلمانوں کي ليڈر شپ کو بھي عقل دے اور اسرائيليوں کو بھي عقل دے کہ وہ ظلم نہ کريں۔ فلسطينيوں کو بھي جو بغير ليڈر شپ کے اپني مرضي کر رہے ہيں ان کو بھي اللہ تعاليٰ اس لحاظ سے بھي عقل دے اگر ان کي طرف سے کوئي ظلم ہے، اول تو نہيں ہے، وہ مظلوم ہيں، اگر وہ ڈنڈے کا استعمال کر رہے ہيں تو وہاں توپوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ پہلے بھي ميں کہہ چکا ہوں طاقت کے توازن کي تو کوئي نسبت ہي نہيں ہے۔ پس فلسطينيوں کے ليے بہت زيادہ دعا کي ضرورت ہے اللہ تعاليٰ ان کے حالات کو بہتر کرے اور ان کے ليے آزادي کے سامان پيدا کرے اور جو پہلے معاہدے کے تحت، ابتدائي معاہدے کے تحت جو ان کو جگہيں ميسر ہيں وہ ان کو ملي رہيں اور اس پر قائم رہيں۔

اسي طرح تمام دنيا کے مظلوم احمديوں کے ليے بھي دعائيں کريں جن پر سختياں کي جا رہي ہيں پاکستان ميں يا الجزائر ميں يا کسي بھي ملک ميں اللہ تعاليٰ ان کو بھي مخالفين اور اگر حکومتي کارندے ہيں تو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ دنيا کے تمام ضرورت مند لوگوں کے ليے دعا کريں اللہ تعاليٰ ان کي جائز ضرورتوں کو پورا فرمائے، ان کي مشکلات کو دور فرمائے۔ عمومي طور پر دنيا ميں ظلم کے خاتمہ کے ليے دعا کريں۔ اللہ تعاليٰ اس دنيا سے ظلم کا خاتمہ کرے اور خدا تعاليٰ کو پہچاننے والے يہ لوگ ہو جائيں۔ آج کل جو وبا پھيلي ہوئي ہے اس کے ليے بھي دعا کريں اللہ تعاليٰ اس وبا سے بھي جلد نجات دے اور وہيں دوبارہ ايسے حالات پيدا ہوں جہاں امن ہو اور دوبارہ نارمل حالات پہ دنيا آ جائے ليکن يہ تبھي ممکن ہے جب دنيا والے خدا تعاليٰ کو پہچانيں گے، اللہ کا حق ادا کرنے والے بنيں گے اور اس کے بندوں کا حق ادا کرنے والے بنيں گے۔ اللہ تعاليٰ سب کو اس کي توفيق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنيشنل 6 جولائي 2021 صفحہ6-11)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

اجتماع مجلس اطفال الاحمدیہ و خدام الاحمدیہ کیلاہوں، سیرالیون2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 نومبر 2021