• 14 مئی, 2025

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 17)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط17

اس عنوان کے تحت درج ذىل تىن عناوىن پر حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہىں۔

1۔ اللہ تعالىٰ کے حضور ہمارے کىا فرائض ہىں؟
2۔ نفس کے ہم پر کىا حقوق ہىں؟
3۔ بنى نوع کے ہم پر کىا کىا حقوق ہىں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

خدا جب بندے سے خوش ہو جاتا ہے تو وہ اپنے بندے کو خود عظمت اور رعب عطا کر دىتا ہے کىونکہ حق کے ساتھ اىک عظمت اور رُعب ہوتا ہے۔ دىکھو ابو جہل وغىرہ جو اس وقت مکّہ مىں بڑے آدمى بنے ہوئے تھے اصل مىں ان کا سارا تکبّر اور دبدبہ جُھوٹا تھا۔ ان کى عظمت فانى تھى۔ چنانچہ نتىجہ مىں دىکھ لو کہ ان کى عظمت و شوکت کہاں گئى۔

اصل بات ىہ ہے کہ سچا رُعب اور حقىقى عظمت ان لوگوں کو عطا کى جاتى ہے جو اول خدا کے واسطے اپنے اُوپر اىک موت وارد کر لىتے ہىں اور اپنى عظمت اور جلال کو خاکسارى سے، انکسارى سے، تواضع سے تبدىل کر دىتے ہىں۔ تب چونکہ انہوں نے خدا کے لئے اپنا سب کچھ خرچ کىا ہوتا ہے خدا خود اُن کو اُٹھاتا ہے اور قدرت نمائى سے ان کو نوازتا ہے۔ دىکھو تو بھلا اگر حضرت ابو بکر اور عُمر بھى اپنى پہلى خاندانى بزرگى اور عظمت ہى کو دل مىں جگہ دىئے رہتے اور خدا کے لئے وہ اپنا سب کچھ نہ کھو بىٹھتے تو کىا تھے زىادہ سے زىادہ مکّہ کے کھڑپنچ بن جاتے مگر نہىں خدا تعالىٰ نے ان کے دلوں کے اندرونہ حالات کو خلوص سے بھرا پاىا اور انہوں نے خدا تعالےٰ کى راہ مىں اپنى کسى بزرگى اور عظمت و سطوت کى پروا نہ کى بلکہ سب کچھ نثار کر دىا اور خدا کے لئے فروتن، متواضع، اور خاکسار ہوگئے تو اللہ تعالىٰ نے ان کو کىسا نوازا۔ کىسى عظمت اور جبروت عطا کى۔ بھلا جو کچھ خدا نے ان کو دىا اس کا وہم بھى کبھى کسى عرب کے دل مىں اس وقت آسکتا تھا؟ ہرگز نہىں۔ پس سچى عظمت اور سچا رعب ىہى تھا نہ کہ ابو جہل وغىرہ کا۔ اور ىہ سچى باتىں انہى کو دى جاتى ہىں جو پہلے اپنے اُوپر خدا کے لئے اىک موت وارد کر لىتے ہىں۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ159 اىڈىشن 1984ء)

پھر توبہ استغفار وصول الى اللہ کا ذرىعہ ہے۔ اللہ تعالےٰ فرماتا ہے۔ وَ الَّذِىۡنَ جَاہَدُوۡا فِىۡنَا لَنَہۡدِىَنَّہُمۡ سُبُلَنَا۔ (العنکبوت: 70) پورى کوشش سے اس کى راہ مىں لگے رہو۔ منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے۔ اللہ تعالىٰ کو کسى سے بُخل نہىں۔ آخر انہىں مسلمانوں مىں سے وہ تھے جو قطب اور ابدال اور غوث ہوئے۔ اب بھى اس کى رحمت کا دروازہ بند نہىں۔ قلب سلىم پىدا کرو۔ نماز سنوار کر پڑھو۔ دعائىں کرتے رہو۔ ہمارى تعلىم پر چلو۔ ہم بھى دُعا کرىں گے۔

ىاد رکھو ۔ہمارا طرىق بعىنہٖ وہى ہے جو آنحضرت صلے اللہ علىہ وسلم اور صحابہ کرام کا تھا۔ آج کل فقراء نے کئى بدعتىں نکال لى ہىں۔ ىہ چلّے اور وِرد وظائف جو انہوں نے رائج کر لئے ہىں ہمىں نا پسند ہىں۔ اصل طرىق اسلام قرآن مجىد کو تدبّر سے پڑھنا اور جو کچھ اس مىں ہے اس پر عمل کرنا اور نماز توجہ کے ساتھ پڑھنا اور دعائىں توجہ اور انابت الى اللہ سے کرتے رہنا۔ بس نماز ہى اىسى چىز ہے جو معراج کے مراتب تک پہنچا دىتى ہے۔ ىہ ہے تو سب کچھ ہے۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ107 اىڈىشن 1984ء)

توبہ استغفار کرتے رہو کىونکہ ىہ اللہ تعالےٰ کا وعدہ ہے۔ جو استغفار کرتا ہے اُسے رزق مىں کشائش دىتا ہے۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ110 اىڈىشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

انسان مىں اىک ملکہ احتظاظ کا ہوتا ہے کہ وہ سرود سے حظ اُٹھاتا ہے اور اس کے نفس کو دھوکا لگتا ہے کہ مىں اس مضمون سے سرور پا رہا ہوں مگر دراصل نفس کو صرف حظ درکار ہوتا ہے خواہ اس مىں شىطان کى تعرىف ہو ىا خدا کى۔ جب ىہ لوگ اس مىں گرفتار ہو کر فنا ہو جاتے ہىں تو ان کے واسطے شىطان کى تعرىف ىا خدا کى سب برابر ہو جاتے ہىں۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ177 اىڈىشن 1984ء)

ہمارے نبى کرىم صلے اللہ علىہ وسلم نے جو جماعت بنائى تھى۔ ان مىں سے ہر اىک زکى نفس تھا اور ہر اىک نے اپنى جان کو دىن پر قربان کر دىا ہوا تھا۔ ان مىں سے اىک بھى اىسا نہ تھا جو منافقانہ زندگى رکھتا ہو۔ سب کے سب حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والے تھے۔ سو ىاد رکھو اس جماعت کو بھى خدا تعالےٰ انہىں کے نمونہ پر چلانا چاہتا ہے اور صحابہؓ کے رنگ مىں رنگىن کرنا چاہتا ہے۔ جو شخص منافقانہ زندگى بسر کرنے والا ہو گا وہ آخر اس جماعت سے کاٹا جائے گا۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ74 اىڈىشن 1984ء)

ہم ىہ نہىں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو، ملازمت والا ملازمت کو اور صنعت و حرفت والا اپنے کاروبار کو ترک کردے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بىٹھ جائے بلکہ ہم ىہ کہتے ہىں کہ لَا تُلۡہِىۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَىۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (النور: 38) والا معاملہ ہو۔ دست با کار دل با ىار والى بات ہو۔ تاجر اپنے کاروبار تجارت مىں اور زمىندار اپنے امور زراعت مىں اور بادشاہ اپنے تخت حکومت پر بىٹھ کر، غرض جو جس کام مىں ہے اپنے کاموں مىں خدا کو نصب العىن رکھے اور اس کى عظمت اور جبروت کو پىش نظر رکھ کر اس کے احکام اور اوامر و نواہى کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے۔ اللہ سے ڈر اور سب کچھ کر۔

اسلام کہاں اىسى تعلىم دىتا ہے کہ تم کاروبار چھوڑ کر لنگڑے لُولوں کى طرح نکمّے بىٹھے رہو اور بجائے اس کے کہ اَوروں کى خدمت کرو خود دوسروں پر بوجھ بنو۔ نہىں بلکہ سُست ہونا گناہ ہے۔ بھلا اىسا آدمى پھر خدا اور اس کے دىن کى کىا خدمت کر سکے گا۔ عىال و اطفال جو خدا نے اس کے ذمّے لگائے ہىں ان کو کہاں سے کھلائے گا۔

پس ىاد رکھو کہ خدا کا ىہ ہرگز منشاء نہىں کہ تم دنىا کو بالکل ترک کردو۔ بلکہ اس کا جو منشاء ہے وہ ىہ ہے کہ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا (الشّمس: 10) تجارت کرو، زراعت کرو، ملازمت کرو اور حرفت کرو، جو چاہو کرو مگر نفس کو خدا کى نافرمانى سے روکتے رہو اور اىسا تزکىہ کرو کہ ىہ امور تمہىں خدا سے غافل نہ کر دىں۔ پھر جو تمہارى دنىا ہے ىہى دىن کے حکم مىں آ جاوے گى۔

انسان دنىا کے واسطے پىدا نہىں کىا گىا۔ دل پاک ہو اور ہر وقت ىہ لَو اور تڑپ لگى ہوئى ہو کہ کسى طرح خدا خوش ہو جائے تو پھر دنىا بھى اس کے واسطے حلال ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّىَّاتِ ۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ 260۔261 اىڈىشن 1984ء)

بنى نوع کے ہم پر حقوق

مىں کثرت جماعت سے کبھى خوش نہىں ہوتا۔ اب اگرچہ چار لاکھ بلکہ اس سے بھى زىادہ ہے۔ مگر حقىقى جماعت کے معنے ىہ نہىں ہىں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف بىعت کرلى۔ بلکہ جماعت حقىقى طور سے جماعت کہلانے کى تب مستحق تب ہو سکتى ہے کہ بىعت کى حقىقت پر کاربند ہو۔ سچے طور سے ان مىں اىک پاک تبدىلى پىدا ہو جاوے اور ان کى زندگى گناہ کى آلائش سے بالکل صاف ہو جاوے۔ نفسانى خواہشات اور شىطان کے پنجے سے نِکل کر خدا تعالےٰ کى رضا مىں محو ہو جاوىں۔ حق اللہ اور حق العباد کو فراخدلى سے پورے اور کامل طور سے ادا کرىں۔ دىن کے واسطے اور اشاعتِ دىن کے لئے ان مىں اىک تڑپ پىدا ہو جاوے۔ اپنى خواہشات اور ارادوں آرزؤں کو فنا کر کے خدا کے بن جاوىں۔ خدا تعالىٰ فرماتا ہے کہ تم گمراہ ہو پر جسے مىں ہداىت دوں۔ تم سب اندھے ہو مگر وہ جس کو مىں نُور بخشوں۔ تم سب مُردے ہو مگر وہى زندہ ہے جس کو مىں رُوحانى زندگى کا شربت پلاؤں۔ انسان کو خدا تعالےٰ کى ستارى ڈھانکے رکھتى ہے ورنہ اگر لوگوں کے اندرونى حالات اور باطن دنىا کے سامنے کر دىئے جاوىں تو قرىب ہے کہ بعض بعض کے قرىب تک بھى جانا پسند نہ کرىں۔ خدا تعالےٰ بڑا ستّار ہے۔ انسانوں کے عىوب پر ہر اىک کو اطلاع نہىں دىتا۔ پس انسان کو چاہىئے کہ نىکى مىں کوشش کرے اور ہر وقت دعا مىں لگا رہے

ىقىناً جانو کہ جماعت کے لوگوں مىں اور ان کے غىر مىں اگر کوئى مابہ الامتىاز ہى نہىں ہے۔ تو پھر خدا کوئى کسى کا رشتہ دار تو نہىں ہے۔ کىا وجہ ہے کہ ان کو عزت دے اور ہر طرح حفاظت مىں رکھے۔ اور ان کو ذلّت دے اور عذاب مىں گرفتار کرے۔ اِنَّمَا ىَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِىۡنَ (المائدۃ: 28)۔ متقى وہى ہىں کہ خدا تعالىٰ سے ڈر کر اىسى باتوں کو ترک کر دىتے ہىں جو منشاء الٰہى کے خلاف ہىں نفس اور خواہشات نفسانى کو اور دنىا و ما فىہا کو اللہ تعالىٰ کے مقابلہ مىں ہىچ سمجھىں۔ اىمان کا پتہ مقابلہ کے وقت لگتا ہے۔

بعض لوگ اىسے ہوتے ہىں کہ اىک کان سے سُنتے ہىں دوسرى طرف نکال دىتے ہىں۔ ان باتوں کو دل مىں نہىں اُتارتے۔ چاہے جتنى نصىحت کرو مگر ان کو اثر نہىں ہوتا۔ ىاد رکھو کہ خدا تعالىٰ بڑا بے نىاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہىں کى جاتى وہ پروا نہىں کرتا۔ دىکھو کسى کى بىوى ىا بچہ بىمار ہو ىا کسى پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کىسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا مىں بھى جب تک سچى تڑپ اور حالت اضطراب پىدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بىہودہ کام ہے۔قبولىت کے واسطے اضطراب شرط ہےجىسا کہ فرماىا۔ اَمَّنۡ ىُّجِىۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ ىَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ (النمل:63)۔

ہمارى جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے۔ اگر کسى کى زندگى بىعت کے بعد بھى اسى طرح کى ناپاک اور گندى زندگى ہے جىسا کہ بىعت سے پہلے تھى اور جو شخص ہمارى جماعت مىں ہو کر بُرا نمونہ دکھاتا ہے اور عملى ىا اعتقادى کمزورى دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کىونکہ وہ تمام جماعت کو بد نام کرتا ہے اور ہمىں بھى اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ بُرے نمونے سے اوروں کو نفرت ہوتى ہے اور اچھے نمونہ سے لوگوں کو رغبت پىدا ہوتى ہے۔ بعض لوگوں کے ہمارے پاس خط آتے ہىں۔ وہ لکھتے ہىں کہ مىں اگرچہ آپ کى جماعت مىں ابھى داخل نہىں مگر آپ کى جماعت کے بعض لوگوں کے حالات سے البتہ اندازہ لگاتا ہوں کہ اس جماعت کى تعلىم ضرور نىکى پر مشتمل ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِىۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِىۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النحل: 129) خدا تعالىٰ بھى انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے۔ پس انسان کو بھى اپنے حالات کا اىک روزنامچہ تىار کرنا چاہىئے اور اس مىں غور کرنا چاہىئے کہ نىکى مىں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے۔ انسان کا آج اور کل برابر نہىں ہونے چاہئىں۔ جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نىکى مىں کىا ترقى کى ہے برابر ہو گىا وہ گھاٹے مىں ہے۔ انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسى پر کامل اىمان رکھنے والا ہو تو کبھى ضائع نہىں کىا جاتا بلکہ اس اىک کى خاطر لاکھوں جانىں بچائى جاتى ہىں۔

اىک شخص جو اولىاء اللہ مىں سے تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ جہاز مىں سوار تھے۔ سمندر مىں طوفان آ گىا۔ قرىب تھا کہ جہاز غرق ہو جاتا۔ اس کى دُعا سے بچا لىا گىا اور دُعا کے وقت اس کو الہام ہوا کہ تىرى خاطر ہم نے سب کو بچا لىا۔ مگر ىہ باتىں نرا زبانى جمع خرچ کرنے سے حاصل نہىں ہوتىں۔ دىکھو ہمىں بھى خدا تعالىٰ نے اىک وعدہ دىا ہے اِنِّىْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِى الدَّارِ۔ مگر دىکھو ان مىں غافل عورتىں بھى ہىں۔ مختلف طبائع اور حالات کے انسان ہىں۔ خدانخواستہ اگر ان مىں سے کوئى طاعون سے مَر جاوے ىا جىسا کہ بعض آدمى ہمارى جماعت مىں سے طاعون سے فوت ہو گئے ہىں تو ان دشمنوں کو اىک اعتراض کا موقع ہاتھ آ گىا ہے حالانکہ اللہ تعالىٰ نے ىہ بھى فرماىا ہے کہ اَلَّذِىۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ ىَلۡبِسُوۡۤا اِىۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ (الانعام: 83)۔ بہرحال جماعت کے افراد کى کمزورى ىا بُرے نمونہ کا اثر ہم پر پڑتا ہے اور لوگوں کو خواہ مخواہ اعتراض کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ پس اس واسطے ہمارى طرف سے تو ىہى نصىحت ہے کہ اپنے آپکو عمدہ اور نىک نمونہ بنانے کى کوشِش مىں لگے رہو۔ جب تک فرشتوں کى سى زندگى نہ بن جاوے تب تک کىسے کہا جا سکتا ہے کہ کوئى پاک ہو گىا۔ ىَفۡعَلُوۡنَ مَا ىُؤۡمَرُوۡنَ (النحل: 51)

فنا فى اللہ ہو جانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا چاہىئے کہ اپنے واسطے بھى اور اپنى اولاد بىوى بچوں خوىش و اقارب اور ہمارے واسطے بھى باعثِ رحمت بن جاؤ۔ مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقعہ ہرگز ہرگز نہ دىنا چاہىئے۔ اللہ تعالىٰ فرماتا ہے کہ فَمِنۡہُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ۚ وَ مِنۡہُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَىۡرٰتِ (فاطر: 33) پہلى دونوں صفات ادنىٰ ہىں۔ سَابِقٌۢ بِالۡخَىۡرٰتِ بننا چاہىئے۔ اىک ہى مقام پر ٹھہر جانا کوئى اچھى صفت نہىں۔ دىکھو ٹھہرا ہوا پانى آخر گندہ ہو جاتا ہے۔ کىچڑ کى صحبت کى وجہ سے بد بُودار اور بد مزا ہو جاتا ہے۔ چلتا پانى ہمىشہ عمدہ سُتھرا اور مزىدار ہوتا ہے اگرچہ اس مىں بھى نىچے کىچڑ ہو مگر کىچڑ اس پر کچھ اثر نہىں کر سکتا۔ ىہى حال انسان کا ہے کہ اىک ہى مقام پر ٹھہر نہىں جانا چاہىئے۔ ىہ حالت خطرناک ہے۔ ہر وقت قدم آگے ہى رکھنا چاہىئے۔ نىکى مىں ترقى کرنى چاہىئے ورنہ خدا تعالىٰ انسان کى مدد نہىں کرتا اور اس طرح سے انسان بے نُور ہو جاتا ہے جس کا نتىجہ آخر کار بعض اوقات ارتداد ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے انسان دل کا اندھا ہو جاتا ہے۔

خدا تعالىٰ کى نُصرت انہىں کے شاملِ حال ہوتى ہے جو ہمىشہ نىکى مىں آگے ہى آگے قدم رکھتے ہىں اىک جگہ نہىں ٹھہر جاتے اور وہى ہىں جن کا انجام بخىر ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو ہم نے دىکھا ہے کہ ان مىں بڑا شوق ذوق اور شدت رقّت ہوتى ہے مگر آگے چل کر بالکل ٹھہر جاتے ہىں اور آخر ان کا انجام بخىر نہىں ہوتا۔ اللہ تعالىٰ نے قرآن شرىف مىں ىہ دعا سکھلائى ہے کہ اَصۡلِحۡ لِىۡ فِىۡ ذُرِّىَّتِىۡ (الاحقاف: 16)۔ مىرے بىوى بچوں کى بھى اصلاح فرما۔ اپنى حالت کى پاک تبدىلى اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنى اولاد اور بىوى کے واسطے بھى دعا کرتے رہنا چاہىئے کىونکہ اکثر فتنے اولاد کى وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہىں اور اکثر بىوى کى وجہ سے۔ دىکھو پہلا فتنہ حضرت آدم پر بھى عورت ہى کى وجہ سے آىا تھا۔ حضرت موسىٰ ؑ کے مقابلے مىں بلعم کا اىمان جو حبط کىا گىا اصل مىں اس کى وجہ بھى تورىت سے ىہى معلوم ہوتا ہے کہ بلعم کى عورت کو اس بادشاہ نے بعض زىورات دکھا کر طمع دے دىا تھا اور پھر عورت نے بلعم کو حضرت موسىٰ ؑ پر بد دعا کرنے کے واسطے اُکساىا تھا ۔غرض ان کى وجہ سے بھى اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جاىا کرتے ہىں تو اُن کى اصلاح کى طرف بھى پورى توجہ کرنى چاہىئے اور ان کے واسطے بھى دعائىں کرتے رہنا چاہىئے۔

(ملفوظات جلد دہم صفحہ136۔139 اىڈىشن 1984ء)

(ترتىب و کمپوزڈ: عنبرىن نعىم)

پچھلا پڑھیں

اجتماع مجلس اطفال الاحمدیہ و خدام الاحمدیہ کیلاہوں، سیرالیون2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 نومبر 2021