• 20 جولائی, 2025

عفوودرگزر: آنحضرتﷺ کے اُسوہ حَسنہ کی روشنی میں

عفوودرگزر: آنحضرتﷺ کے اُسوہ حَسنہ کی روشنی میں
(تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2021ء)

اَلَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِي السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَ الۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ۔

(آل عمران :135)

وہ لوگ جو آسائش ميں بھي خرچ کرتے ہيں اور تنگي ميں بھي اور غصہ کو دباجانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہيں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے

عفو عربي زبان کا ايک لفظ ہے جس کے معاني معاف کرنے،بخش دينے ،درگذرکرنےاور بدلہ نہ لينے کے ہيں۔ کسي کي زيادتي اوربرائي پر انتقام کي قدرت و طاقت رکھنےکے باوجود انتقام نہ لينا اور معاف کر دينا ہي حقيقي عفو کہلاتا ہے۔ عفو کا ادنيٰ درجہ يہ ہے کہ آدمي معاف کردے خواہ طبيعت اس پر آمادہ نہ بھي ہو اور اعليٰ درجہ يہ ہے کہ دلي خوشي کے ساتھ معاف کرے اور ممکن ہو توقصوروار کے ساتھ کچھ احسان کا معاملہ بھي کرے۔

اللہ تعاليٰ کے اسماء حسني ميں سے ايک نام ’’العفو‘‘ بھي ہے يعني وہ ذات ہے جو گناہوں سے درگزر کرنے والي، گناہوں کو مٹانے والي اور ان کے بد اثرات کو زائل کرنے والي ہے۔ بندوں کو بھي حکم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اخلاق رباني سے متصف اور مزين کرنے کي کوشش کريں۔ عفو کي صفت کا دائرہ صفت غفور سے زيادہ وسيع ہے۔

حضرت مسيح موعود عليہ السلام اپني کتاب اسلامي اصول کي فلاسفي ميں عفو کے بارے ميں تحرير فرماتے ہيں:
’’دوسري قسم اُن اَخلاق کي جو ايصالِ خير سے تعلق رکھتے ہيں۔ پہلا خُلق ان ميں سے عفو ہے يعني کسي کے گناہ کو بخش دينا۔ اس ميں ايصالِ خير يہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ايک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھي ضرر پہنچايا جائے، سزا دي جائے،قيد کرايا جائے، جرمانہ کرايا جائے يا آپ ہي اس پر ہاتھ اٹھايا جائے۔ پس اس کو بخش دينا اگر بخش دينا مناسب ہو تو اس کے حق ميں ايصال خير ہے اس ميں قرآن شريف کي تعليم يہ ہے۔ اَلَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِي السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَ الۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ (آل عمران: 135) وَ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَي اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَ (الشورى: 41) نيک آدمي وہ ہيں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہيں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہيں۔ بدي کي سزا اسي قدر بدي ہے جو کي گئي ہو۔ليکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ايسے موقعہ پر بخش دے کہ اس سے کوئي اصلاح ہوتي ہو کوئي شر پيدا نہ ہوتا ہو۔ يعني عين عفو کے محل پر ہو۔نہ غير محل پر تو اس کا بدلہ پائے گا۔‘‘

(اسلامي اصول کي فلاسفي، روحاني خزائن جلد10 صفحہ351)

عفو و درگزر انساني اخلاق و اوصاف ميں سے ايک نہايت ہي بلند پايہ اور عالي وصف ہے۔ معاف کرنے سے دلوں سے کينہ، بغض، نفرت اور کدورت دور ہوتي ہيں، محبتيں پروان چڑھتي ہيں، انتقام لينے کا جذبہ ٹھنڈا پڑتا ہے، نفس کي اصلاح ميں مدد ملتي ہے اور معاشرے ميں سنجيدگي، امن و سکون اور پيار ومحبت کي فضا پيدا ہوتي ہے۔ اگر انتقام اور بدلہ لينے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو اس سےدنيا کا امن و سکون ختم ہو تا ہے۔ معاف کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے اور ان کا شمار اپنے محبوب بندوں ميں کرتا ہے اور ايسا شخص لوگوں کي نظروں ميں بھي مکرم اور قابل تعريف ہو جاتا ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ اپنے ذاتي معاملات ميں عفو و درگزر، اغماض و چشم پوشي سے کام لينے سے دل و دماغ اور افکار و خيالات پر نہايت عمدہ اور مثبت اثر پڑتاہے۔

قرآن کريم اور احاديث ميں متعدد مقامات پر عفو و درگزر سے کام لينے کي تلقين اور اس خلق سے متصف افراد کي فضيلت بيان ہوئي ہے۔

اللہ تعاليٰ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے سورة آل عمران ميں فرماتا ہے:

فَبِمَا رَحۡمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِيۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ

(آل عمران: 160)

ترجمہ۔ پس اللہ تعاليٰ کي خاص رحمت کي وجہ سے تو ان کے لئے نرم ہو گيا۔ اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تيرے گرد سے دور بھاگ جاتے ۔پس ان سے درگذر کر اور ان کے لئے بخشش کي دعا کر ……….

سورةالاعراف ميں اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

خُذِ الۡعَفۡوَ وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِيۡنَ۔

 (الاعراف: 200)

 يعني عفو اختيار کر اور معروف کاحکم دے اور جاہلوں سے اعراض کر

سورة النساء ميں ارشاد باري تعاليٰ ہے:

اِنۡ تُبۡدُوۡا خَيۡرًا اَوۡ تُخۡفُوۡہُ اَوۡ تَعۡفُوۡا عَنۡ سُوۡٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِيۡرًا۔

(النساء: 150)

يعني اگر تم کوئي نيکي ظاہر کرو يا اسے چھپائے رکھو ياکسي برائي سے چشم پوشي کرو تو يقيناً اللہ بہت درگزر کرنے والا اور دائمي قدرت رکھنے والا ہے۔

غصے کو پي جانا اور قصوروار کا قصور معاف کرتے ہوئے اس سے درگزر کرنا بڑي ہمت کا کام ہے اور اس خُلق کو اپنانے والوں کو اللہ تعاليٰ دنيا و آخرت ميں بہت سے انعامات سے نواز تاہے۔

جب ہم پيارے آقا حضرت محمد ﷺ کي سير تِ طيبہ کا مطالعہ کرتے ہيں تو عفو در گزر کا خلق آپ کي سيرت ميں بہت نماياں نظر آتا ہے ۔ آپ خدا تعالي کي صفت ’’عفو‘‘ کے کامل مظہر تھے۔ ساري زندگي آپ نے خدا کے احکام خُذِ الۡعَفۡوَ وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ، وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ اور دَعْ اَذَاھُمْ کو حرز جان بنائے رکھا اور ايسے عفو و درگذر کا نمونہ دکھايا جو فقيد المثال ہے۔ عفو بھي ايسا جو نہ صرف بر محل تھا بلکہ خاص طورپر ايسے وقت ميں ظاہر ہوا جب آپ کو انتقام اور بدلہ لينے کے طاقت اور قوت بڑي شان کے ساتھ حاصل تھي ليکن قربان جائيں آپ کي ذات اقدس پر کہ آپ نے ہميشہ صبر و تحمل، حلم و بردباري، عفو و درگذر اوررحمت کے پہلو کو اپنائے رکھااور کبھي انتقام کي پاليسي کو اختيار نہيں کيا۔ جو بھي آپ کے دربار ميں معافي کا خواستگار بن کر آيا خالي ہاتھ نہ لوٹا۔ آپ نے عفو و درگزر کي ايسي روشن اور درخشندہ مثاليں قائم فرمائي ہيں کہ جن کا ذکر سن کر ہر شخص چاہے اس کا تعلق کسي مذہب و ملت سے ہو متاثر ہوئے بغير نہيں رہ سکتا۔

آنحضرت ﷺ کے عفو درگزر کے بارے ميں حضرت عائشہ رضي اللہ عنھا گواہي ديتے ہوئے فرماتي ہيں:
’’نبي کريم ﷺ نے کبھي اپني ذات کي خاطر اپنے اوپر ہونے والي کسي زيادتي کا انتقام نہيں ليا‘‘

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے آنحضرت ﷺ کے بارے ميں توريت ميں مذکور علامات پوچھي گئيں تو انہوں نے بيان کيا:
’’وہ نبي تند خو اور سخت دل نہ ہو گا نہ بازاروں ميں شور کرنے والا۔ برائي کا بدلہ برائي سے نہ دے گابلکہ عفو اور بخشش سے کام لے گا‘‘

حضرت خديجہ ؓ کے صاحبزادے ھند جو آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے زير تربيت رہے ہيں ان کا بيان ہے:
’’رسول اللہ ﷺ دنيا اور اس کي اغراض کي خاطر کبھي غصے نہيں ہوتے تھے۔۔۔۔۔ اپني ذات کي خاطر نہ کبھي آپ غصے ہوئے نہ بدلہ ليا‘‘

حضرت انس رضي اللہ عنہ روايت کرتے ہيں کہ آنحضور ﷺ نے فرمايا:
جب ميں نے جنت ميں اونچے اونچے محلات ديکھے تو جبرائيل سے پوچھا يہ کن لوگوں کيلئے ہيں! انہوں نے عرض کي کہ يا رسول اللہ ﷺ! يہ ان لوگوں کيلئے ہيں جو غصے کو پي جاتے ہيں اور لوگوں سے درگذر کرتے ہوئے انہيں معاف کرديتے ہيں۔

حضرت ابوہريرہ رضي اللہ عنہ روايت کرتے ہيں کہ نبي کريم ﷺ نے فرمايا:
جس کے پاس اس کا بھائي معذرت خواہ ہو کر آئے تو اس کا عذر قبول کرے خواہ صحيح ہو يا غلط۔ اگر ايسا نہيں کرے گا تو ميرے حوض پر نہ آئے

 (حاکم، کنز جلد3 صفحہ368)

حضرت ابو ہريرہؓ بيان کرتے ہيں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمايا کہ صدقہ سے مال ميں کمي نہيں ہوتي اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کر ديتا ہے اللہ تعاليٰ اسے اور عزت ديتا ہے اور کسي کے قصور معاف کردينے سے عزت کم نہيں ہوتي۔

(مسلم ،باب استحباب العفو)

حضرت معاذبن انس ؓ بيان کرتے ہيں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمايا:
سب سے بڑي فضيلت يہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہيں ديتا اُسے بھي دے اور جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے تو درگزر کر۔

(مسند احمد بن حنبل)

حضرت عبداللہ بن ابوبکر بيان کرتے ہيں کہ ايک عرب نے ان سے ذکر کيا کہ جنگ حنين ميں بھيڑ کي وجہ سے اس کا پاؤں آنحضرت کے پاؤں پر جا پڑا۔ سخت قسم کي چپل جو ميں نے پہن رکھي تھي اس کي وجہ سے آنحضرتﷺ کا پاؤں بري طرح زخمي ہوگيا حضورﷺ نے تکليف کي وجہ سے ہلکا سا کوڑا مارتے ہوئے فرمايا:
عبد اللہ! تم نے ميرا پاؤں زخمي کرديا ہے اس سے مجھے بڑي ندامت ہوئي ہے ساري رات ميں سخت بے چين رہا کہ ہائے! مجھ سے يہ غلطي کيوں ہوئي۔ صبح ہوئي توکسي نے مجھے آواز دي کہ حضور ﷺ تمہيں بلاتے ہيں۔ مجھے اور گھبراہٹ ہوئي کہ کل کي غلطي کي وجہ سے شايد ميري شامت آئي ہے۔ بہر حال ميں حاضر ہوا تو حضورﷺ نے بڑي شفقت سے فرمايا:
کل تم نے ميرا پاؤں کچل ديا تھا اور اس پر ميں نے تم کو ايک کوڑا ہلکا سامارا تھا اس کا مجھے افسوس ہے۔ يہ 80بکرياں تمہيں دے رہا ہوں يہ لو اور جو تکليف تمہيں مجھ سے پہنچي ہے اس کو دل سے نکال دو۔

(مسند دارمي باب في سخاء النبيﷺ)

ايک موقعہ پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف چند صحابہ کے ساتھ آپ ﷺ کي خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض کيا۔
’’يا رسول اللہﷺ! ہم مشرک تھے تو معزز تھے اور کوئي ہماري طرف آنکھ تک نہيں اٹھا سکتا تھا ليکن جب سے مسلمان ہوئے ہيں کمزور اور ناتواں ہوگئے ہيں اور ہم کو ذليل ہو کر کفار کے مظالم سہنے پڑتے ہيں۔ پس يا رسول اللہﷺ آپ ہم کو اجازت ديں کہ ہم ان کفار کا مقابلہ کريں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمايا:

اِنِّيْٓ اُمِرْتُ بِالْعَفْوِفَلَا تُقَاتِلُوْا

يعني مجھے اللہ تعاليٰ کي طرف سے عفو کا حکم ہے پس ميں تم کو لڑنے کي اجازت نہيں دے سکتا۔

 ايک دفعہ زينب نامي ايک يہودي عورت نے بکري کي ران کے گوشت ميں نہايت سريع الاثر زہر ملا کر آنحضرت ﷺ کي خدمت ميں بھجوايا۔ پہلا نوالہ منہ ميں ڈالتے ہي آپ ﷺ کو اس ميں زہر کي موجودگي کا احساس ہو گيا۔ رسول کريم ﷺ نے اس عورت کو بلايا اور پوچھا کہ تم نے اس گوشت ميں زہر کيوں ملايا تھا۔ وہ عورت کہنے لگي۔ ہم نے سوچا اگر آپ سچے نہيں تو آپ سے نجات مل جائے گي اور اگر سچے ہيں تو زہر آپ پر اثر نہيں کرے گا۔ اب مجھ پر کھل گيا کہ آپ سچے ہيں اور ميں يہاں موجود سب لوگوں کو گواہ ٹھہرا کر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتي ہوں۔ رسول کريم ﷺ نے اس عورت کو کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف فرما ديا۔ آپ نے اپني ذات کے لئے انتقام لينا پسند نہ فرمايا حالانکہ آخري عمر تک اس زہر کے اثر سے آپ تکليف محسوس کرتے رہے۔ روايات ميں آتا ہے کہ جب آپ آخري بيماري ميں آخري سانس لے رہے تھے تو حضرت عائشہ سے فرمانے لگے:
’’اے عائشہ! ميں اب تک اس زہر کي اذيت محسوس کرتا رہا ہوں جو خيبر ميں يہودي عورت نے مجھے ديا تھا اور اب بھي ميرے بدن ميں اس زہر کے اثر سے تکليف اور جلن کي کيفيت ہے۔‘‘

مکہ ميں ايک دفعہ شديد قحط پڑ گيا اور مکہ کے لوگ غذا اور غلہ کي قلت کے باعث شديد تکليف کا شکار تھے۔ خصوصاً غرباء کا تو برا حال تھا۔ يہ وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلي اللہ عليہ و سلم کي جان کے سخت دشمن تھے اور جنہوں نے ہمارے پيارے آقا ﷺ اور آپ کے ساتھيوں کو شديد تکاليف ميں مبتلا رکھا تھا ليکن آنحضرت ﷺ اپنے دشمنوں کو تکليف ميں ديکھ کر بے چين ہو جاتے ہيں۔ اپنے موليٰ سے ان کي تکليف کے دور ہونے کے لئے صرف دعا ہي نہيں کرتے بلکہ ان جاني دشمنوں کي مالي امداد بھي کرتے ہيں اور کچھ چاندي ان کے لئے بھجواتے ہيں۔

جنگ بدر ميں کافروں کو ذلت آميز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور 70 قيدي پکڑے گئے۔ يہ وہ لوگ تھے جو مسلمانوں کے خون کے پياسے تھے اور مکہ سے دور صرف اس مقصد کے لئے آئے تھے کہ مسلمانوں کي بيخ کني کي جائے۔ اب مسلمانوں کے پاس موقع تھا کہ ان دشمنوں سے ان کي زيادتيوں کا گن گن کا بدلہ ليتے۔ ليکن نہ ان سے بدلہ ليا جاتا ہے اور نہ انہيں ظلم کا نشانہ بنايا جاتا ہے بلکہ اس کے برعکس دربار نبوي سے يہ حکم صادر ہوتا ہے کہ ان قيديوں کے ساتھ نرمي اور شفقت کا سلوک کيا جائے اور ان کے آرام کا پورا پورا خيال رکھاجائے۔ صحابہ رسول جو اپنے آقا کي طرف سے آنے والے ہر حکم اور نصيحت پر عمل کرنا اپني سعادت سمجھتے تھے اس شان کے ساتھ اس حکم پر عمل کرتے ہيں کہ تاريخ عالم اس کي نظير پيش کرنے سے قاصر ہے۔

ايک قيدي ابو عزير بن عمير کي روايت ہے:
آنحضرت ﷺ کے حکم کي وجہ سے انصار مجھے تو پکي ہوئي روٹي ديتے تھے ليکن خود کھجور وغيرہ کھا کر گذارہ کر ليتے تھے اور کئي دفعہ ايسا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اگر روٹي کا چھوٹا ٹکڑا بھي ہوتا تھا تو وہ مجھے دے ديتے تھے اور خود نہيں کھاتے تھے اور اگر ميں کبھي شرم کي وجہ سے واپس کر ديتا تو وہ اصرار کے ساتھ پھر مجھ کو دے ديتے تھے۔

 ذرا غور فرمائيں۔ ايک ايسا معاشرہ جہاں جنگي قيديوں کو قتل کر دينے يا مستقلاً قيد کر لينے کا رواج ہو۔ جہاں قيديوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک ان کے دستور کا حصہ ہو اور مزيد يہ کہ حضرت عمر جيسے کبار صحابي ان قيديوں کے قتل کے حامي بھي ہوں۔ ان ساري باتوں کے باوجود ہميں رحمت عالم حضرت محمد ﷺ کا خلق عفو اس شان کے ساتھ ظہور ميں آتا نظر آتا ہے کہ آپ ان قيديوں کو نہ صرف فديہ ليکر رہا کرنے پر تيار ہوجاتے ہيں بلکہ ان کے ساتھ نرم اور پرشفقت سلوک کي نصيحت بھي فرماتے ہيں۔

ان قيديوں ميں ايک شخص سہيل بن عمرو بھي تھا جو قريش کے سرداروں ميں سے تھا اور اس کي زبان بہت تيز اور کلام بہت پر اثر تھا يہ آنحضرت ﷺ کے خلاف تقارير کيا کرتا تھا۔ اب وہ قيد ہو کر مسلمانوں کے قبضہ ميں تھا۔ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے مشورہ ديا کہ اس کے اگلے دانت نکلوا دينے چاہيں تاکہ يہ آنحضرت ﷺ کے خلاف فتنہ انگيز تقارير نہ کرسکے۔ آنحضرت ﷺ نے اس تجويز کو ناپسند فرمايا اور اسے معاف کرديا اور فرمايا:
عمر تمہيں کيا معلوم کہ خدا آئندہ اسے ايسے مقام پر کھڑا کرے جو قابل تعريف ہو۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقعہ پر سہيل مسلمان ہو گيا اور آنحضرت ﷺ کي وفات پر اس نے متزلزل لوگوں کو بچانے کے لئے اسلام کي تائيد ميں نہايت پر اثر خطبے دئيے جس سے بہت سے ڈگمگاتے ہوئے لوگ بچ گئے۔

آنحضرت ﷺ جب طائف کے لوگوں کو اسلام کي دعوت دينے کے لئے گئے، آپ کے ساتھ زيد بن حارثہ بھي تھے۔ دس دن تک آپ طائف کے رؤساء کو اسلام کا پيغام پہنچاتے رہے ۔بدقسمتي سے سب نے ہي آپ کي دعوت قبول کرنے سے انکار کيا اور آپ کے ساتھ نہايت گستاخانہ اور تمسخرانہ سلوک کے بھي مرتکب ہوئے۔ اس شہر کے بدبخت رئيس عبديا ليل نے واپسي پر شہر کے آوارہ لوگ آپ کے پيچھے لگا ديئے۔ يہ لوگ آنحضرت ﷺ کے پيچھے شور و غوغا کرتے رہے اور مسلسل تين ميل تک آنحضرت ﷺ پر پتھر برساتے رہے۔ آپ کو اس قدر زخمي کيا کہ آپ کا سارا بدن خون سے تر بہ تر ہوگيا۔ يہ دن آنحضرت ﷺ کي زندگي کا سخت ترين دن تھا۔

آپ نے اس ضعف اور کمزوري کي حالت ميں عتبہ بن ربيعہ کے باغ ميں پناہ لي اور ايک سايہ ميں کھڑے ہو کر يہ دعا کي:

اَللّٰھُمَّ اِلَيْکَ اَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِيْ وَ قِلَّةَ حِيْلَتِيْ وَ ھَــــوَ انِيْ عَــــلَي النَّاسِ۔ اَللّٰھُمَّ يَآ اَرْحَــــمَ الرّٰحِمِيْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِيْنَ وَاَنْتَ رَبِّيْ

يعني اے مير ے رب! ميں ضعف قوت اور قلت تدبير اور لوگوں کے مقابلہ ميں اپني بے بسي کي شکايت تيرے ہي پاس کرتا ہوں۔ اے ميرے خدا! تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اور کمزورں اور بے کسوں کا تو ہي نگہبان اور محافظ ہے اور تو ہي مير ا پروردگار ہے۔۔۔۔

عرش کے خدا نے آپ کي فرياد کو شرف قبوليت بخشا۔ اس کي غيرت اپنےنبي کے لئے حرکت ميں آئي اور اس نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کے پاس بھيجا کہ اگر نبي کريم ﷺ اجازت ديں تو اس ظالم بستي کے لوگوں کو دو پہاڑوں کے درميان رکھ کر مليا ميٹ کر ديا جائے۔

کوئي اور ہوتا تو ضرور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ظالموں سے ان کے ظلم کا انتقام ليتا۔ ليکن اس خليق اور رحيم رسول ﷺکے حيرت انگيز عفو کي شان تو ذرا ملاحظہ فرمائيں۔ آپ اس ظاہر ہونے والے فرشتے کو فرماتے ہيں کہ نہيں نہيں ان لوگوں کو تباہ نہيں کرنا۔ مجھے يقين ہے کہ اللہ تعالي ٰ ان ميں سے ايسے لوگ پيدا کردے گا جو خدائے واحد کي عبادت کرنے والے ہوں گے۔

عبداللہ بن ابي بن سلول منافقين کا سردار تھا۔ بظاہر تو يہ ايمان لانے کا دعويٰ کرتا تھا ليکن اس کا دل ايمان کي دولت سے خالي تھا۔ يہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ سخت کينہ اور بغض رکھتا تھا۔ جہاں بھي اسے موقع ملتا يہ اسلام اور آنحضرت ﷺ سے اپني نفرت کا اظہار کرتا اور اپنے قول و فعل سے اسلام کو نقصان پہنچانے کي کوشش کرتا۔ اس کي فتنہ انگيزي سے سب مسلمان واقف تھے۔ رحمت عالم حضرت محمد رسول اللہﷺ نے اس کي گستاخيوں اور شوخيوں کو کمال صبر سے برداشت کيا اور ہميشہ ہي صرف نظر فرماتے رہے۔

ايک جنگ کے موقعہ پر تو اس نے گستاخي ميں حد ہي کردي اور نبي کريم ﷺ کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مدينہ کا ذليل ترين شخص قراد ديا اور اپنے بارے ميں يہ تعلي کي کہ وہ مدينہ کا معزز ترين شخص ہے اور يہ کہ وہ آنحضرت ﷺ کو مدينہ سے نکال دے گا۔ اس بات کا ذکر اللہ تعاليٰ نے سورة المنافقون ميں ان الفاظ ميں کيا ہے:

يَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَي الۡمَدِيۡنَةِ لَيُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ

اس کي اس گستاخانہ حرکت نے صحابہ کے دلوں کو زخمي کر ديا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس گستاخ رسول کو اس کي گستاخي کي سزا ملني چاہئے۔ بعض ان ميں سے اس کے قتل کا ارادہ کرنے لگے يہاں تک کہ عبداللہ کا اپنا بيٹا آنحضرت ﷺ کي خدمت ميں حاضر ہوا اور اور اپنے باپ کو اس حماقت کي پاداش ميں قتل کرنے کي اجازت چاہي۔ ليکن قربان جائيں ہم اس پاک اور مقدس ہستي کے جس کا عفو بے مثل تھا۔ آپ نے نہ صرف يہ کہ عبداللہ کو سز ا دينے کي اجازت نہيں دي بلکہ بدستور اس کے ساتھ رحمت، شفقت اور احسان کا سلوک فرماتے رہے۔ جب وہ فوت ہوا تو آپ نے اپني قميض اس کے کفن کے لئے عنايت فرمائي اور باوجود حضرت عمر کي مخالفت کے اس کي نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشريف لے گئے۔

اپني توہين کرنے والے عبداللہ کے ساتھ آپ کا يہ سلوک جہاں ايک طرف آپ کي بے انتہا رحمت کا آئينہ دار ہے وہاں دوسري طرف ہمارے لئے مشعل راہ بن کر ہماري راہنمائي کررہا ہے۔ کتنے ہي بد قسمت ہيں وہ لوگ جو آنحضرت ﷺ کے اس حسين اسوہ کو اپنانے کے بجائے محاربانہ کارروايوں کے ذريعہ ہمارے پيارے آقا حضرت محمد ﷺ کے مقدس نام کو بدنام کرنے کي مذموم حرکتيں کر رہے ہيں۔

آنحضرتﷺ نے مکہ پرچڑھائي کے ارادے کو بعض حکمتوں کي بناء پر خفيہ رکھا ہوا تھا اور اس کے لئے خاموشي سے تياري ہو رہي تھي۔ اس دوران ايک صحابي حاطب بن بلتعہ نے مکے جانے والي ايک عورت کے ذريعہ قريش کو خط لکھ کر يہ اطلاع بھجوادي کہ آنحضرت ﷺ کا لشکر تيار ہے يہ معلوم نہيں کہاں کا قصد ہے مگر تم اپنا بچاؤ کر لو اور ميرا مقصد اس خط سے تم پر ايک احسان کرنا ہے۔ ادھر اللہ تعاليٰ نے بذريعہ وحي رسول اللہ ﷺ کو اس مخبري کي اطلاع کردي۔ آپ نے گھوڑ سواروں کا ايک دستہ حضرت علي کي سرکردگي ميں اس عورت کے تعاقب ميں بھيجا اور وہ يہ خط واپس لے آئے۔ اب رسول کريم ﷺ نے حاطب کو بلا کر پوچھا تم نے يہ کيا کيا؟ حاطب نے سچ سچ کہہ ديا کہ يا رسول اللہ ميں قريش ميں سے نہيں ہوں مگر اس خط کے ذريعے ميں قريش پر احسان کرنا چاہتا تھاتاکہ وہ مکے ميں ميرے گھر بارکي حفاظت کريں۔

حضرت عمر اس مجلس ميں موجود تھے۔ اُنہوں نے کہا:
يا رسول اللہﷺ! مجھے اجازت ديجئے کہ اس منافق کي گردن اڑا دوں۔ مگر جانتے ہو وہ رحيم و کريم رسول ﷺ کيا جواب ديتے ہيں۔ فرماتے ہيں:
 نہيں نہيں۔ حاطب سچ کہتا ہے اسے کچھ نہ کہو۔

حضرت عمر نے عرض کيا:
 يا رسول اللہﷺ! اس نے مومنوں کے ساتھ خيانت کي ہے مجھے اس کي گردن مارنے ديجئے۔ آپ نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمايا۔ عمر تم جانتے نہيں يہ شخص جنگ بدر ميں شامل ہواتھا اور عرش کا خدا جو اصحاب بدر کے حالات سے خوب واقف ہے ان کے حق ميں فرماتا ہے۔ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّةُ کہ جو چاہو کرو تمھارے لئے جنت واجب ہے۔ يعني اللہ تعاليٰ نے بدريوں کے دلوں ميں گناہ کي ايسي نفرت ڈال دي ہے کہ بالارادہ ان سے کوئي گناہ سرزد نہيں ہو سکتا۔

اس رؤوف و رحيم رسول ﷺ کي شفقت بے پاياں کا يہ حيرت انگيز نظارہ ديکھ کر حضرت عمر بے اختيار رونے لگے۔ ان کي حيراني بجا تھي کہ اپني زندگي کے اہم، نازک ترين اور تاريخ ساز موڑ پرکوئي بھي فاتح اپنے مقصد کي راہ ميں حائل کسي بھي روک کو قطعاً برداشت نہيں کيا کرتا۔ ايسے مواقع پر تو سابقہ خدمات کي بھي کوئي پرواہ نہيں کي جاتي اور آئندہ خطرے سے بچنے کے لئے کم از کم احتياط يہ سمجھي جاتي ہے کہ ايسے قومي مجرم کوزير حراست رکھا جائے۔ ليکن ديکھو اس دربار عفو و کرم کي شان تو ديکھو جس سے حاطب کے لئے بھي مکمل معافي کا اعلان جاري ہوا۔

ابو سفيان قريش کے سرداروں ميں سے تھا اور اسلام کا سخت دشمن تھا مسلمانوں کے خلاف اس کے جرائم کي فہرست بہت لمبي تھي۔ يہ ابو سفيان ہي تھا جو غزوہ احد کے موقع پر اُعْلُ ھُبُل اُعْلُ ھُبُل اور لَنَا عُزّٰي وَلَا عُزّٰي لَکُمْ کے نعرے لگاتا تھا۔ فتح مکہ سے قبل جب حضرت عمر کي سرکردگي ميں مسلمانوں کا ايک دستہ گشت کر رہا تھا تو انہوں نے ابوسفيان کو پکڑ ليا اور آنحضرت ﷺ کي خدمت ميں پيش کيا۔ حضرت عمر نے اس دشمن اسلام کو قتل کرنا چاہا ليکن آنحضرت ﷺ تو اس کے لئے پہلے سے امن کا اعلان کر چکے تھے کہ ابوسفيان بن حرب کسي کو ملے تو اسے کچھ نہ کہا جائے۔

 آپ فاتحيں عالم کے اس دستور سے واقف ہوں گے جس کا نقشہ قرآن کريم ميں يوں بيان ہوا ہے:

قَالَتۡ اِنَّ الۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡيَةً اَفۡسَدُوۡہَا وَ جَعَلُوۡۤا اَعِزَّةَ اَہۡلِہَاۤ اَذِلَّةًۚ وَ کَذٰلِکَ يَفۡعَلُوۡنَ۔

(النمل: 35)

کہ شہروں ميں داخلے کے وقت آباديوں کو ويران اور ان کے معزز مکينوں کو بے عزت اور ذليل کر ديا جاتا ہے۔ تاريخ عالم کے مطالعہ سے يہ بات عياں ہوتي ہے کہ فاتحين کے ہاتھوں مفتوح قوم کو ذليل کيا گيا۔ ان کے گھروں اور قلعوں کو مسمار کرديا گيا۔ ان کے اموال اور جائيدادوں کو بے دريغ لوٹا گيا ۔کہيں ہميں انساني کھوپڑيوں کے مينار دکھائي ديتے ہيں تو کہيں دلوں کو ہلا دينے والي ظلم و بربريت کي داستانيں سننے کو ملتي ہيں۔ فاتحين عالم کے برعکس فتح مکہ کے موقع پر ہميں آنحضرت ﷺ کے خلق کي وہ عظيم الشان فتح نظر آتي ہے جو مفتوح قوم کے ساتھ حسن سلوک، عفو، رحم اور احسان سے عبارت ہے۔ اس دن نہ کسي کو ہلاک کيا گيا اور نہ ہي کھوپڑيوں کے مينار بنائے گئے ہاں اس دن ہميں ايسے پر شوکت مينار نظر آتے ہيں جو آنحضرت ﷺ کے عفو عام اور رحمت تام سے روشن کئے گئے۔

حضرت يوسف عليہ السلام نے تو اپنے بھائيوں کو معاف کيا تھا ليکن ہمارے آقا و مولي حضرت محمد مصطفيٰ ﷺ نے خون کے پياسے دشمنوں کے ناقابل معافي جرائم سے درگزر کرتے ہوئے عام معافي کا اعلان ان الفاظ ميں فرمايا۔ إِذْهَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْکُمُ الْيَوْمَ کہ جاؤ تم آزاد ہو آج تم پر کوئي گرفت نہيں۔

 يہ فتح در اصل آپ کے اخلاق کي فتح تھي جس نے آپ کے اہل وطن کے دل جيت لئے۔ اس موقع پر دس ايسے اشخاص تھے جن کے بھيانک جرموں کي بناء پر انہيں آنحضرت ﷺ نے واجب القتل قرار ديا تھا۔ ان ميں سے جو بھي آنحضرت ﷺ کے دربار ميں معافي کا طالب بن کر آيا اسے معاف کر ديا گيا۔

عبداللہ بن سعد بن ابي سرح جب حضرت عثمان کي پناہ ميں آکر معافي کا طالب ہو اتو اسے معاف کرديا گيا۔ وہ مسلمان ہو گيا ليکن اپنے سابقہ جرموں کي وجہ سے شرمندہ تھا اور آنحضرت ﷺ کے سامنے آنے سے کتراتا تھا۔ اس رحيم و کريم اور بلند حوصلہ رسول نے اسے محبت بھرا پيغام بھجوايا کہ اسلام اس سے پہلے کے گناہ معاف کر ديتا ہے۔

ان واجب القتل لوگوں ميں سے ايک حبار بن الاسود بھي تھا جو کہ آپ ﷺ کي پياري صاحبزادي حضرت زينب کا قاتل تھا ۔جب وہ آپ کي خدمت ميں حاضر ہوا اور رحم کي بھيک مانگتے ہوئے عرض کيا کہ آپ کے عفو اور رحم کا خيال مجھے آپ کے پاس لايا ہے۔ عفو و رحم کے پيکر نے اپني بيٹي کے قاتل سے درگزر فرمايا اور کمال حوصلے سے اس کو معاف کرديا۔

 عکرمہ بن ابي جہل جو ساري زندگي آپ کو اور آپ کے ساتھيوں کو تنگ کرتا رہا۔ آپ پر جنگيں مسلط کيں۔ مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا۔ صلح حديبيہ کو توڑنے ميں اہم کردار ادا کيا۔ فتح مکہ کے موقع پر امن کے عام اعلان کے باوجود ہتھيار نہ ڈالے اور حرم ميں خون ريزي کا مرتکب ہوا۔ جب آپ کے دربار ميں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے نہ صرف اس کو معاف فرما ديا بلکہ آپ دشمن قوم کے اس سردار کے احترام کے لئے کھڑے بھي ہوگئے۔ اور اس پر شفقت فرمائي ۔وہ آپ کے اس حسن سلوک کي وجہ سے بے اختيار کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگيا اور بقيہ ساري عمر اسلام کي خدمت ميں گزار دي۔

حضرت حمزہؓ کو شہيد کرنے والے وحشي اور اسي طرح حضرت حمزہ کا کليجہ چبانے والي ہندہ کو بھي آنحضرت ﷺ نے عالي ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف فرما ديا۔ اور يوں ہميشہ کے لئے ان کے دل جيت لئے۔ اور آپ کي فتح بھي دراصل دلوں کي ہي فتح تھي۔ ايسا عفو ودرگزر کا نمونہ کہ جس کي مثال تاريخ عالم سے ملنا ممکن نہيں۔

معاشرتي زندگي ميں باہم پيار و مَحبت اور اُخوّت و بھائي چارے کي فضا کے قيام کيلئے عفوو درگزر نہايت درجہ اہم خُلق ہے۔ اِس کےمطلب اور مفہوم کے علاوہ اِس کے بارے ميں قرآنِ کريم سے ارشاداتِ رباني آپ کي خدمت ميں پيش کئے گئے ۔ اِسي طرح ہمارے پيارے آقا و مولا حضرت محمد مُصطفےٰ احمد مجتبيٰ ﷺ کي سيرتِ طيبہ سے آپ کے اُسوہ حسنہ کي چند مثاليں بھي پيش کي گئيں۔ اِن کي روشني ميں جب ہم اپنا اپنا جائزہ ليتے ہيں اور اپنا محاسبہ کرتے ہيں تو ہميں اپنے عمل ميں بہتري کي بہت گنجائش نظر آتي ہے۔ ہم نے سنا کہ آپ ﷺ تو اپنے جاني دشمنوں تک کو بھي معاف کر ديا کرتے تھے ليکن ہم ميں سے بعض اپنے نہايت قريبي بلکہ رحمي رشتے داروں تک کے قصور معاف کرنے کو تيار نہيں ہوتے۔ بڑے دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ يہاں تک ديکھا گيا ہے کہ ايک ہي ماں کا دودھ پينے والے اور ايک ہي صحن ميں کھيلنے والے بعض بہن بھائيوں کي آپس ميں رنجشيں اور ناراضگياں چل رہي ہيں اور سالہا سال سے آپس ميں قطع تعلق کئے بيٹھے ہيں۔ پس ضرورت اِس امر کي ہے کہ ہم آپس ميں ايک دوسرے کي غلطيوں اور کوتاہيوں کو معاف کريں اور درگزر سے کام ليں ۔اپنا حق چھوڑ ديں ليکن اپنے بھائي کو اپنے حق کيلئے نہ چھوڑيں۔ خود سے کوئي غلطي ہو جائے تو معذرت کر ليں اور معافي مانگ ليں۔ دوسرا معافي کا طلب گار ہو تو کھلے دل سے اُسے معاف کر ديں۔ اِس عظيم خُلق کے حوالے سے کسي نے کيا خوب کہا ہے :

نُسخہ بڑا ہے کيميا يہ آزمانا چاہئے
جنگ ہو اپنوں سے گر تو ہار جانا چاہئے
عفو اور درگزر کرنا سنّتِ ابرار ہے
معاف کرنا اور غصے کو دبانا چاہئے
دل کو اپنے صاف کر کے اور ضد کو چھوڑ کر
گر کوئي چاہے منانا، مان جانا چاہئے
اپنے حق کي ہي طلب رکھنا کوئي خوبي نہيں
فرض اپنا جان کر رشتہ نبھانا چاہئے
پھول الفت کے سارے اور کہتا ہے
حريمل کے باغيچے ميں اِن کو بھي لگانا چاہئے

اللہ تعاليٰ ہم سب کو اِن نصائح پر عمل کرنے کي کما حقہ توفيق عطا فرمائے۔ آپ عليہ السلام اپني جماعت کو نصيحت کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
’’خدا چاہتا ہے کہ تمہاري ہستي پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ايک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہيں زندہ کرے گا تم آپس ميں جلد صلح کرو اور اپنے بھائيوں کے گناہ بخشو۔ کيونکہ شرير ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائي کے ساتھ صلح پر راضي نہيں وہ کاٹا جائے گا کيونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپني نفسانيت ہر ايک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمي ناراضگي جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹوں کي طرح تذلل اختيار کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانيت کي فربہي چھوڑ دو کہ جس دروازہ سے تم بلائے گئے ہو اس ميں سے ايک فربہ انسان داخل نہيں ہوسکتا۔ کيا ہي بد قسمت ہے وہ شخص جو ان باتوں کو نہيں مانتا جو خدا کے منہ سے نکليں اور ميں نے بيان کيں۔تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضي ہو تو تم باہم ايسے ہو جاؤ جيسے ايک پيٹ سے دو بھائي۔تم ميں سے زيادہ بزرگ وہي ہے جو زيادہ اپنے بھائي کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہيں بخشتا۔سو اس کا مجھ ميں حصہ نہيں۔‘‘

(کشتي نوح، روحاني خزائن جلد19 صفحہ12)

(مولانا صداقت احمد۔ مبلغ انچارج جرمنی)

پچھلا پڑھیں

اجتماع مجلس اطفال الاحمدیہ و خدام الاحمدیہ کیلاہوں، سیرالیون2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 نومبر 2021