• 14 مئی, 2024

زمانے کی ایجادات اور سہولتوں سے فائدہ اُٹھا کر حضرت مسیح موعودؑ کا مددگار بننا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
گزشتہ دنوں میرے علم میں ایک بات آئی کہ پاکستان میں اور بعض ملکوں میں، وہاں کی یہ خبریں ہیں کہ لڑکیوں کو شادیوں کا جھانسہ دے کر پھر بالکل بازاری بنا دیا جاتا ہے۔ وقتی طور پر شادیاں کی جاتی ہیں پھر طوائف بن جاتی ہیں اور یہ گروہ بین الاقوامی ہیں جو یہ حرکتیں کر رہے ہیں۔ یقینا یہ خوفناک حالت رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ اسی طرح نوجوان لڑکوں کو مختلف طریقوں سے نہ صرف عملی بلکہ اعتقادی طور پر بھی بالکل مفلوج کر دیا جاتا ہے۔ پس جہاں یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان غلاظتوں سے محفوظ رکھے، وہاں ہر احمدی کو بھی اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہوئے ان غلاظتوں سے بچنے کے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے۔ زمانے کی ایجادات اور سہولتوں سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں ہے لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے زمانے کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھا کر تکمیلِ اشاعتِ ہدایت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مددگار بننا ہے نہ کہ بے حیائی، بے دینی اور بے اعتقادی کے زیرِ اثر آ کر اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنا ہے۔

پس ہر احمدی کے لئے یہ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے۔ ہمارے بڑوں کو بھی اپنے نمونے قائم کرنے ہوں گے تاکہ اگلی نسلیں دنیا کے اس فساد اور حملوں سے محفوظ رہیں اور نوجوانوں کو بھی بھر پور کوشش اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے آپ کو دشمن کے حملوں سے بچانا ہو گا۔ وہ دشمن جو غیر محسوس طریق پر حملے کر رہا ہے، وہ دشمن جو تفریح اور وقت گزاری کے نام پر ہمارے گھروں میں گھس گھس کر ہماری جماعت کے نوجوانوں اور کمزور طبع لوگوں کو متاثر بھی کر رہا ہے۔ اُن میں نقص پیدا کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔

بیشک جیسا کہ میں نے کہا، خلفائے احمدیت عملی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں۔ گزشتہ خلفاء بھی اور میں بھی خطبات وغیرہ کے ذریعہ اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں اور ان ہدایات کی روشنی میں ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی پروگرام بناتے ہیں تا کہ ہم ہر طبقے اور ہر عمر کے احمدی کو دشمن کے ان حملوں سے بچانے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی طرف خود توجہ کرے، مخالفینِ دین کے حملوں کو ناکام بنانے کے لئے کھڑا ہو جائے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دشمنانِ دین کی اصلاح کا عزم لے کر کھڑا ہواور صرف دفاع نہیں کرنا بلکہ حملہ کر کے اُن کی اصلاح بھی کرنی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے اپنا ایک خاص تعلق پیدا کرے تو نہ صرف ہم دین کے دشمنوں کے حملوں کو ناکام بنا رہے ہوں گے بلکہ اُن کی اصلاح کر کے اُن کی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بھی ہوں گے۔ بلکہ اس فتنہ کا خاتمہ کر رہے ہوں گے جو ہماری نئی نسلوں کو اپنے بد اثرات کے زیرِ اثر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس ذریعہ سے ہم اپنی نئی نسل کو بچانے والے ہوں گے۔ ہم اپنے کمزوروں کے ایمانوں کے بھی محافظ ہوں گے اور پھر اس عملی اصلاح کی جاگ ایک سے دوسرے کو لگتی چلی جائے گی اور یہ سلسلہ تا قیامت چلے گا۔ ہماری عملی اصلاح سے تبلیغ کے راستے مزید کھلتے چلے جائیں گے۔ نئی ایجادات برائیاں پھیلانے کے بجائے ہر ملک اور ہر خطّے میں خدا تعالیٰ کے نام کو پھیلانے کا ذریعہ بن جائیں گی۔

ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم حقائق سے کبھی نظریں نہیں پھیر سکتے کیونکہ ترقی کرنے والی قومیں، دنیا کی اصلاح کرنے والی قومیں، دنیا میں انقلاب لانے والی قومیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتی ہیں۔ اگر آنکھیں بند کر کے ہم کہہ دیں کہ سب اچھا ہے تو یہ بات ہمارے کاموں میں روک پیدا کرنے والی ہو گی۔ ہمیں بہر حال حقائق پر نظر رکھنی چاہئے اور نظر رکھنی ہو گی۔ ہم اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ پچاس فیصد کی اصلاح ہو گئی ہے یا اتنے فیصد کی اصلاح ہو گئی ہے بلکہ اگر ہم نے دنیا میں انقلاب لانا ہے تو سو فیصد کے ٹارگٹ رکھنے ہوں گے۔

(خطبہ جمعہ 6؍دسمبر 2013ء بحوالہ خطبات مسرور جلد11 صفحہ675-676)

پچھلا پڑھیں

شفقت و دلداری

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 نومبر 2022