دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ)
قسط 3
اس سلسلہ کی قسط 3 باوجوہ شائع ہونے سے رہ گئی تھی جو اب شائع کی جارہی ہے
سچے دل سے توبہ استغفار میں مصروف ہوجاؤ
جب کوئی عذاب اور قہر الٰہی دور ہوجاتا ہے ہیضہ ہو یا طاعون، وبا ہو یا قحط، تو لوگ مطمئن ہوجاتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ وقت جاتا رہا۔ پھر اس طر ح سے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ مگر تمہارا کام یہ ہونا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کے آئندہ وعدوں کو یاد کرکے ترساں و لرزاں رہو اور قبل از وقت سنبھل جاؤ۔نت نئی توبہ کرو۔ جو توبہ کرتا ہے وہ نیکی کی طرف رجوع کرتا ہے اور جو توبہ نہیں کرتا وہ گناہ کی طرف جاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرتا ہے۔ توبہ نہ کرنے والا گناہ کی طرف جھکتا ہے اور گناہ آہستہ آہستہ کفر تک پہنچادیتا ہے۔ تمہارا کام یہ ہے کہ کوئی مابہ الامتیاز بھی تو پیدا کرو۔ تم میں اور تمہارے غیروں میں اگر کوئی فرق پایا جاوے گا تو جب ہی خدا بھی نصرت کرے گا۔ورنہ بنی اسرائیل کی طرف دیکھ لو کہ جب ان میں اور ان کے غیر میں فرق نہ پایا گیا تو باوجود یکہ حضرت موسیٰؑ ان میں موجود تھے کافروں سے کیسی ذلت کی ہزیمت دلائی۔ان کے مقابل میں ایک کافر کی تائید کی اور ان کو سزا دی۔ نبی موجود، کتاب موجود، احکام موجود، بایں انہوں نے خلاف کیا۔ آخر کافروں سے بھی شکست کھائی۔ کافر تو احکام الٰہی سے بیخبر ہوتے ہیں۔ وہ ایسے مواخذہ کے قابل نہیں ہوتے جیسے کوئی مان کر۔ جان پہچان کر خلاف ورزی احکام کرنے والا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ﴿۱۲۹﴾ (النحل: 129) تقویٰ، طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے والے خدا تعالیٰ کی حمایت میں ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت نافرمانی کرنے سے ترساں و لرزاں رہتے ہیں…کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے بلا نہیں پکڑے گی اور کسی کو بھی مطمئن نہیں ہونا چاہیئے۔ آفات تو ناگہانی طور سے آجاتے ہیں۔ کسی کو کیا معلوم کہ رات کو کیا ہوگا۔ لکھا ہے کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے۔ پہلے بہت روئے اور پھر لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا۔ یا عباداللّٰہ خدا سے ڈرو۔ آفات اور بلیّات چیونٹیوں کی طرح انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ان سے بچنے کی کوئی راہ نہیں بجز اس کے کہ سچے دل سے توبہ استغفار میں مصروف ہوجاؤ۔
استغفار اور توبہ کا یہ مطلب نہیں جو آجکل لوگ سمجھے بیٹھے ہیں۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا جبکہ اس کے معنے بھی کسی کو معلوم نہیں۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ ایک عربی زبان کا لفظ ہے۔ ان لوگوں کی تو چونکہ یہ مادری زبان تھی اور وہ اس کے مفہوم کو اچھی طرح سے سمجھے ہوئے تھے۔ استغفار کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ سے اپنے گزشتہ جرائم اور معاصی کی سزا سے حفاظت چاہنا اور آئندہ گناہوں کے سرزد ہونے سے حفاظت مانگنا۔ استغفار انبیاء بھی کیا کرتے تھے اور عوام بھی۔
بعض نادان پادریوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے استغفار پر اعتراض کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے استغفار کرنے سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا گنہگار ہونا ثابت ہوتا ہے۔ یہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ استغفار تو ایک اعلیٰ صفت ہے۔ انسان فطرتًا ایسا بنا ہے کہ کمزوری اور ضعف اس کا فطری تقاضا ہے۔ انبیاء اس فطرتی کمزوری اور ضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ دعا کرتے ہیں کہ یا الٰہی تو ہماری ایسی حفاظت کر کہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں۔ غفر کہتے ہیں ڈھکنے کو۔ اصل بات یہی ہے کہ جو طاقت خدا کو ہے وہ نہ کسی نبی کو ہے نہ ولی کو اور نہ رسول کو۔ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں۔ پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خدا کے محتاج ہیں۔ پس اظہار عبودیت کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور انبیاء کی طرح اپنی حفاظت خدا تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے۔
یہ ان لوگوں کا خیال غلط ہے کہ حضرت عیسیٰؑ استغفار نہ کرتے تھے۔ یہ ان کی بیوقوفی اور بے سمجھی ہے اور یہ حضرت عیسیٰؑ پر تہمت لگاتے ہیں۔ انجیل میں غور کرنے سے صریح اور صاف طور سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے جابجا اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا اور استغفار بھی کیا۔ اچھا بھلا ایلی ایلی لما سبقتانی سے کیا مطلب؟ اَبِیْ اَبِیْ کرکے کیوں نہ پکارا؟ عبرانی میں ایل خدا کو کہتے ہیں۔ اس کے یہی معنے ہیں کہ رحم کر اور فضل کر اور مجھے ایسی بے سروسامانی میں نہ چھوڑ (یعنی میری حفاظت کر)
درحقیقت مشکل تو یہ ہے کہ ہندوستان میں بوجہ اختلاف زبان استغفار کا اصل مقصد ہی مفقود ہوگیا ہے اور ان دعاؤں کو ایک جنتر منتر کی طرح سمجھ لیا ہے۔ کیا نماز اور کیا استغفار اور کیا توبہ۔ اگر کسی کو نصیحت کرو کہ استغفار پڑھا کرو تو وہ یہی جواب دیتا ہے کہ میں تو استغفار کی سو بار یا دو سو بار تسبیح پڑھتا ہوں مگر مطلب پوچھو تو کچھ جانتے ہی نہیں۔
استغفار ایک عربی لفظ ہے اس کے معنی ہیں طلب مغفرت کرنا کہ یا الٰہی ہم سے پہلے جو گناہ سرزد ہو چکے ہیں ان کے بد نتائج سے ہمیں بچا کیونکہ گناہ ایک زہر ہے اور اس کا اثر بھی لازمی ہے اور آئندہ ایسی حفاظت کر کہ گناہ ہم سے سرزد ہی نہ ہوں۔ صرف زبانی تکرار سے مطلب حاصل نہیں ہوتا۔
توبہ کے معنے ہیں ندامت اور پشیمانی سے ایک بدکام سے رجوع کرنا۔ توبہ کوئی برا کام نہیں ہے۔ بلکہ لکھا ہے کہ توبہ کرنے والا بندہ خدا کو بہت پیارا ہوتا ہے۔خداتعالیٰ کا نام بھی تواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنے گناہوں اور افعالِ بد سے نادم ہو کر پشیمان ہوتا ہے اور آئندہ اس بدکام سے باز رہنے کا عہد کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس پر رجوع کرتا ہے رحمت سے۔ خدا انسان کی توبہ سے بڑھ کر توبہ کرتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر انسان خدا کی طرف ایک بالشت بھر جاتا ہے تو خدا اس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہے۔ اگر انسان چل کر آتا ہے تو خدا تعالیٰ دوڑ کر آتا ہے یعنی اگر انسان خدا کی طرف توجہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی رحمت، فضل اور مغفرت میں انتہا درجہ کا اس پر فضل کرتا ہے۔ لیکن اگر خدا سے منہ پھیر کر بیٹھ جاوے تو خدا تعالیٰ کو کیا پروا۔
دیکھو یہ خدا تعالیٰ کے فیضان کے لینے کی راہیں ہیں۔اب دروازے کھلے ہیں تو سورج کی روشنی برابر اندر آرہی ہے اور ہمیں فائدہ پہنچارہی ہے۔ لیکن اگر ابھی اس مکان کے تمام دروازے بند کردیئےجاویں تو ظاہر ہے کہ روشنی آنی موقوف ہوجاوے گی اور بجائے روشنی کے ظلمت آجاوے گی۔ پس اسی طرح سے دل کے دروازے بند کرنے سے تاریکیٴ ذنوب اور جرائم آموجود ہوتی ہے اور اس طرح انسان خدا کی رحمت اور فضل کے فیوض سے بہت دور جاپڑتا ہے۔ پس چاہیئے کہ توبہ استغفار منتر جنتر کی طرح نہ پڑھو۔ بلکہ ان کے مفہوم اور معانی کو مدنظر رکھ کر تڑپ اور سچی پیاس سے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرو۔ توبہ میں ایک مخفی عہد بھی ہوتا ہے کہ فلاں گناہ میں کرتا تھا۔ اب آئندہ وہ گناہ نہیں کروں گا۔
(ملفوظات جلد10 صفحہ335-339 ایڈیشن 1984ء)
ساری بندگیوں کا خلاصہ
انسان کے گناہ معاف ہونا ہے
سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انسان ہر وقت اس بات کا خیال رکھے کہ عمر کا اعتبار نہیں۔ نہ معلوم کہ موت کس وقت انسان کو آپکڑے گی اور پھر اس کے ساتھ توبہ استغفار کرتا رہے۔ خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہنا اور اس کی رضا کے حصول کی تڑپ دل میں پیدا کرنا اسی میں سب دین اور دنیا آ جاتا ہے۔ ساری بندگیوں کا خلاصہ یہی ہے کہ انسان کے گناہ معاف ہوں اور اس سے خدا تعالیٰ خوش ہوجاوے۔
(ملفوظات جلد10صفحہ348 ایڈیشن 1984ء)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)