• 9 جولائی, 2025

خواجہ غلام نبی گلکار مرحوم

معمارِ کشمیر
خواجہ غلام نبی گلکار مرحوم

’’اگر میں مارا جاؤں یا مرجاؤں تو میری نعش کو بجائے قبرستان کے کسی ایسے چوراہے پر دفن کر دیا جائے جو آزادی ملنے کے بعد مجاہدینِ آزادیٔ کشمیر کا گزرگاہ ہوتا کہ ان کے گزرنے اور چلنے کی آواز سے میری رُوح کو تسکین ہو‘‘

یہ وہ مجاہدانہ وصیت ہے جو خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور نے 1931ء میں جامع مسجد سری نگر میں ہزاروں کے جلسہ عام میں کی تھی۔ خواجہ صاحب ایک مخلص احمدی اور تحریک آزادئ کشمیر کے بانی کارکنوں اور قائدین میں شمار ہوتے ہیں اور اس امر میں ہرگز کوئی مبالغہ نہیں کہ عہد نوجوانی سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک آپ خطہ ٴکشمیر کی آزادی کے لئے سرتاپا مصروفِ جہاد رہے۔

پیدائش، بچپن وحصول تعلیم

خواجہ غلام نبی صاحب گلکار مارچ 1909ء میں سرینگر کشمیر میں خواجہ محمد خضر صاحب گلکار کے گھر پیدا ہوئے۔ خواجہ محمد خضر گلکار ایک درویش صفت بزرگ تھے، انہیں فن تعمیر ورثہ میں ملا تھا اور اپنی مہارت اور تجربہ کی بناء پر وہ تعمیرات کا ٹھیکہ لیا کرتے تھے۔ پیشہ معماری کو کشمیر میں گلکاری کہتے ہیں اس لئے گلکار کہلاتے تھے۔

خواجہ غلام نبی گلکار صاحب کی عمر کوئی بارہ سال تھی کہ آپ کے والدین کا انتقال ہو گیا۔ شہر کے ایک دینی مدرسے میں قرآن مجید پڑھنے کے بعد اسلامیہ ہائی سکول اور بعد ازاں سری تاپ ہائی سکول سرینگر میں تعلیم حاصل کی اور میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد لاہور گئے اور اشاعت اسلام کالج میں قرآن مجید اور حدیث کے درس میں شرکت کی۔ ایس پی کالج سرینگر سے آپ نے ایف اے اس وقت کیا جب آپ اپنے ہم وطنوں کی آزادی اور انسانی حقوق کی بحالی کی جدوجہد میں حصہ لینے کی پاداش میں جیل میں تھے۔ بی اے کا امتحان بھی آپ نے سنٹرل جیل سرینگر سے دیا۔آپ اپنے خاندان میں پہلے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔

قبول احمدیت

جہاں تک آپ کے قبول احمدیت کا تعلق ہے اس بارے میں تاریخ احمدیت میں جو حالات اور واقعات محفوظ ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔ ’’آپ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ایک عیسائی نوجوان احمد شاہ ایم اے نے آہستہ آہستہ عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی۔ دوسرے ساتھی تو عیسائی ہونے پر آمادہ ہو گئے مگر گلکار صاحب اپنے ہمجولیوں کو مولوی عبد اللہ صاحب وکیل کے پاس لے گئے اور ان سے پوچھا کہ اسلام اچھا مذہب ہے یا عیسائیت۔ اس روز انہوں نے اپنے درس میں عیسائیت کے خلاف زبردست تقریر کی اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’نور القرآن‘‘ نکال کر سنائی جس سے سب بہت متاثر ہوئے اور روزانہ درس میں حاضر ہونے لگے اور ان کی تبلیغ سے وفات مسیح کے قائل ہوکر مدرسہ نصرت الاسلام میں جہاں نویں جماعت کا داخلہ لیا تھا اپنے ہم مکتبوں میں اس مسئلہ پر بحث شروع کردی اس پر مہتمم مدرسہ نے آپ کو مدرسہ سے خارج کردیا اور آپ سری پرتاپ ہائی سکول میں داخل ہو گئے۔ دسویں جماعت پاس کی تو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے مبلغ مولوی عصمت اللہ صاحب کی تحریک پر اشاعت اسلام کالج (احمدیہ بلڈنگز لاہور) میں تعلیم پانے لگے۔

اسی دوران میں آپ کو 1928ء کے جلسہ سالانہ پر قادیان کی زیارت کا پہلاموقع میسر آیا اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے مکان پر قیام کیا۔ اسی دوران میں آپ نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک شیشہ ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کھڑے معلوم ہوتے ہیں اور اس کے اندر لکھا ہے کہ ’’یہ نور ہے اور آسمان سے یہ نور آیا ہے۔‘‘ اس آسمانی انکشاف پر آپ جماعت احمدیہ قادیان میں شامل ہو گئے اور دسمبر1931ء میں بیعت کرلی۔

(تاریخ احمدیت جلد5 صفحہ424)

اس بارہ میں گلکار صاحب سے منسوب ایک روایت بھی ہے:
’’سرینگر میں احمدیوں اور پادریوں کے درمیان جو بحثیں ہوتی تھیں ان میں احمدی کامیاب رہتے عیسائیوں کے پاس احمدیوں کے سوالات خصوصاً وفات عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی معقول جواب نہ ہوتا تھا۔ جب مجھے صداقت احمدیت کا یقین ہو گیا تو میں نے 1931ء میں بیعت کر لی۔

(تاریخ احمدیت جموں و کشمیر صفحہ228)

خلیفہ ثانیؓ سے ملاقات اور منظم اصلاحی کوششوں کا آغاز

باقاعدہ بیعت کرنے سے پہلے 1929ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کشمیر تشریف لے گئے تو گلکار صاحب کو بھی حضور کی مجلس سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ ملک و قوم کی خدمت کی چنگاری طالب علمی کے زمانے ہی سے آپ کے اندر دبی ہوئی تھی حضور کی توجہ سے سلگنے لگی اور انہوں نے 1930ء کے آغاز میں مختلف پبلک مقامات پر جا جا کر اصلاحی تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا اور ان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نصائح کے پیش نظر تعلیم، اتحاد اور معاشرتی رسم و رواج کی اصلاح پرزور دینے لگے۔

(تاریخ احمدیت جلدششم صفحہ224-225)

اس باہمت نوجوان نے یہ عہد کر لیا کہ ’’خواہ کچھ بھی ہو میں نوجوانوں کو منظم کر کے ہی دم لوں گا… پھر ہم سب مل کر مسلم نوجوانوں کو کالجوں میں داخلہ کے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں گے تا وقتیکہ قوم اپنی حالت کو بدلنے کے قابل ہو سکے۔‘‘

(کشمیر کی کہانی مصنفہ چوہدری ظہور احمد صفحہ27)

دوران تعلیم کشمیر یوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوششیں

ایس پی کالج میں تعلیم کے دوران آپ کی کوششوں سے مسلمانوں کی ایک تنظیم ’’آل کشمیر مسلم سو شل اپ لفٹ ایسوسی ایشن‘‘ قائم ہوئی جس کے آپ پہلے صدر بنے۔ اس تنظیم کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس سے قبل آپ ہند و کشمیر ی اور مسلم کشمیری کو ملا کر کشمیر سوشل اپ لفٹ کے نام سے انجمن بنانے کی کوشش کرچکے تھے جسے کشمیری پنڈتوں نے مسترد کر دیا اور اپنی الگ ہندو سوشل اپ لفٹ انجمن بنالی۔

آپ نے اس پلیٹ فارم سے کشمیری مسلمانوں میں تعلیم عام کرنےکی غرض سے ایک سو کے لگ بھگ نائٹ سکول کھولے۔ پھر مخیر حضرات سے مل کر دواڑھائی سو کے لگ بھگ مسلمان لڑکوں کو کالج میں داخل کرایا اور انہیں کتابیں اور فیسیں مہیا کیں۔ ان کے اس اقدام کی وجہ سے مسلمانوں میں تعلیم کے لئے جوش پیدا ہوا جو آگے چل کر ان کی ترقی کا باعث بنا۔

فتح کدل ریڈنگ روم پارٹی

لوگوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کی کوششیں آپ دورانِ تعلیم ہی شروع کر چکے تھے اور ایس پی کالج سری نگر میں آپ نے ’’کشمیر مسلم سوشل اپ لفٹ ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کر رکھی تھی۔ انہی دنوں شیخ عبد اللہ علی گڑھ سے ایم ایس سی کر کے وطن واپس آئے اور سٹیٹ ہائی سکول سرینگر میں سائنس ٹیچر مقرر ہوئے۔ اس وقت سے شیخ عبد اللہ اور گلکار صاحب نے مل کر کشمیریوں کی آزادی کے لئے کام کرنا شروع کیا۔

سیاسی جماعت بنانے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے سری نگر کےپڑھے لکھے نوجوانوں کے ساتھ مل کر آپ دونوں نے دارالمطالعہ (فتح کدل ریڈنگ روم) قائم کرنے کا پروگرام بنایا تاکہ نوجوانوں کے مسائل پر مل بیٹھ کر غور و فکر کیا جائے۔ تحریک آزادی کشمیر کے ابتدائی محرکات میں ریڈنگ روم کو کافی اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ اس ریڈنگ روم نے کشمیر یوں میں آزادی کی رُوح پھونکنے میں اہم کردار ادا کیا اور یہیں سے انقلاب کشمیر کی تحریک اُٹھی اور پوری ریاست جموں کشمیر میں پھیل گئی۔۔ کچھ ہی عرصہ میں اس مناسبت سے فتح کدل ریڈنگ روم پارٹی وجود میں آٗئی۔ شیخ عبد اللہ صاحب اس کے صدر اور خواجہ غلام نبی گلکار جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی دورہ یورپ سے کشمیر واپسی پر ریڈنگ روم کے نوجوانوں نے ان کے خوشا مدا نہ استقبال کی بجائے اپنا نکتہ نظر، حقوق اور مطالبات مہاراجہ کے سامنے پیش کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس مقصد کےپیش نظر ریڈنگ روم نے جامع مسجد سری نگر میں ایک جلسہ عام بلایا۔حکومتی پابندیوں کے باوجود خواجہ صاحب نے جرات مندی دکھائی اور جامع مسجد سرینگر میں جلسہ عام میں پر جوش تقریر کرکے اپنا نکتہ نظر عوام کے سامنے رکھا۔

معمار ملت کا خطاب

اس جلسہ میں شرکت کرنے والے ہزاروں عوام نے اپنے لیڈروں کو ان کی خدمات کی بناء پر مختلف خطابات سے نوازا۔ چنانچہ شیخ عبد اللہ کو ’’شیر کشمیر‘‘ اور خواجہ غلام نبی گلکار کو ’’معمار ملت‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس کے بعد شیخ عبد اللہ پبلک جلسوں میں بر ملا کہا کرتے تھے کہ خواجہ غلام نبی گلکار شیر دل نوجوان نے تحریک آزادی کشمیر کی بنیاد ڈالی ہے اور ہم نے اسے چلا دیا ہے۔

(معمار آزادیٔ کشمیر مصنفہ قریشی محمد اسد اللہ کاشمیری صفحہ6)

قید و بند کی صعوبتیں

1931ء میں ہی 13؍جولائی کو سنٹرل جیل سرینگر کے باہر جمع مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع پر ڈوگر ہ فوج نے اندھا دھند گولیاں برسائیں جس سے سرکاری اعلامیہ کے مطابق 110افراد جبکہ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق اس سے کہیں زیادہ افراد شہید ہوئے اس واقعہ کے بعد پورے شہر میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے دوران ڈوگرہ پولیس فوج اور ہندوبلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو لوٹا اور مسلمانوں پر شرم ناک مظالم ڈھائے۔ گرفتار ہونے والے کشمیری نوجوانوں میں شیخ عبداللہ اور خواجہ غلام نبی گلکار بھی شامل تھے، چنانچہ ہتھکڑیاں لگے ان قیدیوں کو جب ’’ہری پربت قلعہ‘‘ لے جایا گیا تو انہیں ایک ایک کر کے تنگ و تاریک کو ٹھٹریوں میں جانے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ سب سے پہلے خواجہ گلکار صاحب نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ا ن کو ٹھٹریوں میں جانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیااور یوں آپ ’’قلعہ ہری پر بت کے پہلے قیدی‘‘ کہلائے۔ ان قیدیوں کی رہائی کے لئے کشمیر میں مسلسل 19 دن تک احتجاجی ہڑتال رہی جس کی وجہ سےبا لآخر حکومت کو کچھ عرصہ بعد قیدیوں کو مجبوراً جیل سے رہا کرنا پڑا۔

جیل میں آپ کو سخت اذیتیں دی گئیں مگر آپ نے باطل کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور پہلے سے بڑھ کر منزلِ آزادی کی طرف رواں دواں ہو گئے اور صرف ایک مرتبہ نہیں ڈوگرہ حکومت نے 1931ء سے 1949ء تک گلکار صاحب کو چھ بار قید کیا لیکن آپ نے ہنسی خوشی یہ سب تکالیف برداشت کیں۔

ایک مرتبہ جب انہیں لوہے کی زنجیریں پہنائی جا رہیں تھیں اس موقع بارے شیخ عبدا للہ صاحب کا بیان ہے کہ گلکار صاحب نے بڑی جرأت کے ساتھ اپنی ہتھیلیاں پیش کرتے ہوئے کہا لو پہناؤ، ہمارے لئے یہ لوہے کی زنجیریں نہیں بلکہ سونے کے کنگن ہیں۔

(آتشِ چنار صفحہ98 از شیخ محمد عبداللہ صاحب ناشر چوہدری اکیڈمی لاہور اشاعت 1985ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد5 صفحہ428)

قید و بند کی صعوبتوں اور انتہائی تنگ دستی کے باوجود آپ کے پایہٴ استقلال میں لرزش نہیں آئی، آہنی دیوار کی طرح آپ اپنے نظریات پر ڈٹے رہے، زمانہ کی کوئی گردش، حالات کا کوئی انقلاب آپ کو اپنی جگہ سے ہلا نہ سکا اور یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے دباؤ اور مالی منفعت کی پیشکشوں کے باوجود آپ نے اپنے ضمیر کی آوازپر کبھی سودے بازی نہیں کی۔

انجمن بہبودئ مسلمانان جمو ں و کشمیر کا قیام

آپ نے اپریل 1943ء میں اپنے ہم خیال دوستوں کی ترغیب و تحریک سے ایک انجمن بنام ’’انجمن بہبودئ مسلمانان جموں و کشمیر‘‘ قائم کی۔ خواجہ غلام محمد اس کے صدر اور آپ اس انجمن کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔

قائد اعظم سے ملاقات

وسط 1944ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کشمیر میں قیام پذیر تھے۔ انہی ایام میں ایسوسی ایشن کا ایک وفد جو خواجہ غلام نبی صاحب گلکار اور خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار مدیر ’’اصلاح‘‘ سرینگر پر مشتمل تھا 19؍مئی 1944ء کو قائد اعظم سے ان کی رہائش گاہ پر ملا اور سیاست کشمیر پر گفتگو کی۔ خواجہ صاحب کے بیان کے مطابق دوسرے روز چوہدری غلام عباس خان صاحب اور مسلم کانفرنس کے دوسرے کارکنوں نے بتایا کہ قائد اعظم آپ (یعنی گلکار صاحب) کی بہت تعریف کرتے تھے اور ان کی نظر کشمیر کی لیڈر شپ کے لئے آپ پر لگی ہوئی ہے۔

شاہی تحقیقاتی کمیشن میں مسلمانان کشمیر کی نمائندگی

جون 1944ء میں حکومت کشمیر کی طرف سے ایک شاہی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا تا ریاست کا آئندہ آئین و نظام اس طرز پر ڈھالا جا سکے کہ ریاست کے مختلف فرقے یکساں طور پر زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کر سکیں۔ اس کمیشن میں مسلمانان کشمیر کی نمائندگی کرنے والے چند ممبران میں خواجہ غلام نبی صاحب گلکار جنرل سیکرٹری مسلم و یلفئیر ایسوی ایشن بھی شامل تھے۔

جموں و کشمیر قانون سازاسمبلی کی رکنیت

1946ء میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوئے جس میں آپ سری نگر سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑے، ڈوگرہ حکمرانوں نے آپ کو ہر انے کے لئے مختلف قسم کے مخالفانہ اور جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن آپ ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب جیت گئے۔

پہلی آزاد جموں و کشمیرحکومت کا قیام
اور اس حکومت کے پہلے صدر

1947ء میں ہندوستان سے جب برطانوی اقتدار اُٹھ گیا اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان اور پاکستان دو الگ الگ مملکتیں قائم ہو گئیں تو قانونِ آزادی ہندکے مطابق ریاست جموں و کشمیر سے بھی ڈوگرہ تسلط ختم ہو گیا اور برطانوی ہند کی تمام ریاستوں کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر بھی آزاد ہو گئی۔ مگر ہری سنگھ نے ریاستی عوام کی مرضی کے خلاف ریاست کا الحاق ہندوستان سے کردیا۔ اس لئے ریاستی عوام نے جو صدیوں سے جابر حکمرانوں کے تسلط اور جبر و تشدد کے خلاف سینہ سپر تھے، آزادی کے لئے مسلح جنگ شروع کردی۔ بالآخر ریاست جموں و کشمیر کا جھگڑا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کر دیا گیا۔ اس وقت حضرت مصلح موعودؓ کی ذاتی دلچسپی بلکہ سرپرستی میں 4؍اکتوبر 1947ء کو جمہوریہ آزاد جموںو کشمیر معرض وجود میں آئی۔اس کا پس منظر سردار گل احمد خان صاحب کوثر سابق چیف پبلسٹی آفیسر جمہوریہ حکومت کشمیر کے الفاظ میں کچھ اس طرح ہے۔

’’یکم اکتوبر 1947ء کو جونا گڑھ میں عارضی متوازی حکومت کا اعلان کیا گیا اور نواب جونا گڑھ کو معزول کیا گیا۔ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے دیکھا کہ یہی وقت کشمیریوں کی آزادی کا ہے تو آپ نے کشمیری لیڈروں اور ورکروں کو بلایا، میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا کہ مفتی اعظم ضیاء الدین صاحب ضیا کو عارضی جمہوریہ کشمیر کا صدر بنانا چاہیئے مگر انہوں نے انکار کیا۔ اس کے بعد ایک اور نوجوان قادری صاحب کو کہا گیا اس نے بھی انکار کیا۔ آخر میں قرعہ خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور کے نام پڑا ………… سیلاب کی وجہ سے راولپنڈی اور لاہور کی ریل بند تھی مرزا صاحب نے خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور کو اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں لاہور سے گوجرانوالہ بھیج دیا۔ 3؍اکتوبر 1947ء کو بمقام پیرس ہوٹل متصل ریلوے پل راولپنڈی کارکنوں کی کئی میٹنگیں ہوئیں۔ آخر مسودہ پاس ہو کر خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور کے ہاتھ سے لکھ کر انور ’’بانی صدر‘‘ عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر کے نام سے ہری سنگھ کی معزولی کا اعلان ہوا۔‘‘

(تاریخ احمدیت راولپنڈی صفحہ506-507)

اس وقت کے ہنگامی حالات میں سیاسی مصلحت کے پیش نظر خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کا خفیہ نام انور رکھا گیا تھا۔ یہ مسودہ پریس کو برائے اشاعت دے دیا گیا۔ اس فرمان میں اعلان کیا گیا تھا کہ 4؍اکتوبر 1947ء سے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کو معزول کردیا گیا ہے اور عارضی جمہوریہ کشمیر ہیڈ کوارٹر بمقام مظفر آباد کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ نئی حکومت کے قیام کے اعلان کو پاکستان اور دنیا کے دیگر اخبارات میں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا۔ اس اعلان کو ریڈیو پاکستان نے بھی نشر کیا۔ کشمیری عوام نے 4؍اکتوبر والی حکومت کے قیام پر خوشی کا اظہار کیا۔

انقلابی حکومت میں خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور کو بانی صدر جمہوریہ اور سردار محمد ابراہیم خان کو وزیر اعظم، سیدوزیر حسین شاہ کو وزیر مالیات، مولوی غلام حیدرجنڈالوی کو وزیر دفاع اور گل احمد خان کوثر کو چیف پبلسٹی آفیسر مقرر کیا گیا تھا اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ خواجہ انور صاحب کو فوراً سرینگر روانہ کر دیا جائے اور انہیں مکمل اختیار دےدیا گیا کہ وہ جنہیں مناسب دیکھیں انڈر گراؤنڈ گورنمنٹ میں وزیر یا عہدیدار بنا لیں۔

حکومت آزاد کشمیر کے پہلے صدر کی گرفتاری

17؍اکتوبر 1947ء تک گویا 15 ایام میں انڈرگراؤنڈ کیبنٹ کے ارکان کی تقرری کی گئی اس دوران ہری سنگھ کی گرفتاری کی سکیم پر عملدارآمد کے طریق پر غور کیا گیا اور سکیم کے بہت سے مراحل کامیابی سے طے پا گئے۔ آزاد حکومت تشکیل دینے کے بعد یہ عظیم مجاہد آزادی مقبوضہ کشمیر میں سرینگر کی طرف روانہ ہو گیا جہاں پر ان کوبھارتی حکمرانوں نے 14 دسمبر 1947ء کو گرفتار کر لیا اور انہیں جیل بھیج دیا۔ تاہم ڈوگرہ حکمرانوں کو اس با ت کا علم نہ ہو سکا کہ یہ گرفتار ہونے والا شخص آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا بانی صدر ہے۔ جب خواجہ غلام نبی صاحب گلکار مظفر آباد سے اندرون کشمیر چلے گئے تو اس کے بعد زمامِ حکومت سردار محمد ابراہیم کے ہاتھ میں آگئی۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ660)

خواجہ غلام نبی صاحب گلکار رہا ہو کر پاکستان آئے تو آپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے خود مختار کشمیر کا نظریہ پیش کیا۔ آپ نے اس نظریے کو بلا خوف و خطر اور وقتی مصلحتوں سے آزاد ہو کر نہایت جرات سے پیش کیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ ریاست کے ہر فرد بشر کو یہ حق ہے کہ وہ جو رائے اپنے ملک کے مستقبل کے متعلق دینا چاہے دے سکتا ہےکوئی شخص اسے اس آزادانہ اظہار رائے سے روکنے کا حق نہیں رکھتا۔

ہفت روزہ رسالہ ہمارا کشمیر کا اجرا اور آزاد کشمیر ری پبلکن پارٹی کا قیام

1952ء میں آپ نے ہفت روزہ اخبار ’’ہماراکشمیر‘‘ کا اجراء کیا جس میں کشمیر کی وحدت اور آزادی کی حمایت میں بڑے جاندار مضامین لکھے جاتے۔کشمیر میں جب مسلم کانفرنس باہم اختلاف کا شکار ہونے لگی تو گلکار صاحب نے 1956ء کے اوائل میں آزاد کشمیر ری پبلکن پارٹی کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد ڈالی اور خطۂ کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔

3؍ جولائی 1959ء کو حکومت پاکستان نے آپ کو پاکستان سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا۔ 6 ماہ 14 دن بعد آپ کی رہائی عمل میں آئی۔ 1963ء میں چند با شعور کشمیر یوں نے ’’Kashmir Independence Committee‘‘ کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کی۔ اس جماعت کے قیام میں بھی خواجہ غلام نبی صاحب گلکار نے بنیادی کردار ادا کیا۔۔ 1965ء میں جب سیالکوٹ کے مقام پر متحدہ کشمیری محاذ کا پہلا اجلاس ہوا تو آپ کو محاذ کا نائب صدر مقرر کیا گیا۔

آپ کشمیر کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتے تھے اس مقصد کی خاطر آپ ساری زندگی مصروف عمل رہے۔بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ زندگی کے آخری سانس تک انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود کشمیریوں کی آزادی کے نصب العین پر ڈٹے رہے اور یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے دباؤ اور مالی منفعتوں کی پیشکشوں کے باوجود اپنے ضمیر کی آواز پر آپ نے کبھی سودے بازی نہیں کی۔ آپ سستی شہرت، نام ونمود سے کوسوں دور رہ کر صبر واستقامت سے سچے اور بےلوث مجاہدوں کی طرح جدوجہدِ آزادی میں رواں دواں اور قومی خدمات میں ہر وقت کوشاں رہے۔

مفتی ضیاء الدین صاحب ضیا جو اردو اور فارسی کے نامور شاعر اور جد وجہد آزادی کشمیر کے رہنما تھے نے گلکار صاحب کی شان میں فارسی میں نظم لکھی۔ جس میں آپ کو ’’فخر ملک کشمیر‘‘ قرار دیا۔

(معمار آزادیٔ کشمیر مصنفہ قریشی محمد اسد اللہ کاشمیری صفحہ73)

دیگر خدمات

خواجہ غلام نبی گلکار صاحب نہ صرف کہ ایک سیاسی رہنما تھے بلکہ مزدور پیشہ عوام کے ساتھی بھی تھے۔ آپ کا ایک ا ور کارنامہ یہ ہے کہ آپ ہی نے کشمیر میں سب سے پہلے مزدوروں اور تاجروں کے حقوق کی تنظیموں کے قیام کی بنیاد ڈالی۔ اسی طرح لیبر یونین اور ریاستی باشندوں کے حقوق کی محافظ کمیٹی State Subject Rights Protection Committee کے وائس پریزیڈنٹ بھی رہے۔

خواجہ غلام نبی گلکار صاحب کو پاکستان سے بے حد محبت تھی۔ 1947ءمیں جب صوبہ سرحد میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ریفرنڈم کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو آپ صوبہ سرحد میں کشمیر سے پاکستان کا پرچار کرنے کے لئے گئے اور اس بات پر زور دیا کہ اہلِ سرحد کو پاکستان سے الحاق کرنا چاہیئےاور اس طرح پاکستان کی خدمات انجام دے کر ثابت کیا کہ کشمیریوں کو پاکستان سے کس قدر محبت ہے۔

(معمار آزادیٔ کشمیر مصنفہ قریشی محمد اسد اللہ کاشمیری صفحہ33)

جماعتی خدمات

آپ 1935ء سے 1941ء تک جماعت احمدیہ سرینگر کے پریذیڈنٹ کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ پھر 1941ء تا 1943ء جماعت احمدیہ سرینگر کے جنرل سیکرٹری و سیکرٹری امور عامہ و خارجہ کے طور پر خدمت کی سعادت پائی۔ خواجہ گلکار صاحب کو ابتداء ہی سے احمدیت اور اس کی اشاعت و استحکام سے گہری دلچسپی رہی۔ سیکرٹری امور خارجہ کی حیثیت سے آپ کو مہا راجہ ہری سنگھ والیٔ کشمیر کو احمدیہ البم اور ٹیچنگز آف اسلام ارسال کر کے پیغامِ حق پہنچانے کی توفیق بھی ملی۔

(تاریخ احمدیت جموں و کشمیر صفحہ108)

فتح کدل میں خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کا بہت بڑا گھر تھا۔ اُس کی وسیع و عریض چھت خواجہ صاحب نے نمازوں کی ادائیگی، نیز جماعتی اور انفرادی تقریبات کے لئے وقف کر رکھی تھی کہ کوئی بھی کوئی پروگرام کرنا چاہتا تو وہاں کر سکتا تھا۔ 20؍اگست 1949ء کو اللہ تعالیٰ نے آپ کووصیت کر کے آسمانی نظامِ وصیت سے بھی وابستہ ہونے کی توفیق عطا فرما دی۔آپ کا وصیت نمبر 12465 تھا۔

25؍جولائی 1931ء کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی تو خواجہ غلام نبی گلکار صاحب نے اس کے پروگرام کو اندرون ریاست کامیاب بنانے میں شاندار خدمات انجام دیں۔ ڈوگرہ حکومت کے ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کی اور پہلے سیاسی قیدی ہونے کا اعزاز آپ کے حصہ میں آیا۔آپ نے اپنی زندگی سلسلہ کے لئے وقف کرنے کی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے توفیق پائی اور جماعتی ہدایات کے مطابق خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ اہل کشمیر کے بنی اسرائیل ہونے کی تحقیق کے سلسلے میں بھی آپ نے قابل قدر کام کیا۔

گلکار صاحب کو خلافت سے گہری عقیدت تھی اور اسی بناء پر حضرت مصلح موعودؓ اور اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے نہایت قریبی تعلق تھا۔ خلافت ثانیہ اور اس کے بعد خلافت ثالثہ میں اپنی وفات تک جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت کے اعزازی ممبر کی حیثیت سے خصوصی دعوت نامہ پر آپ ہر سال مجلس شوریٰ میں شرکت فرماتے رہے۔

(تاریخ احمدیت ضلع راولپنڈی صفحہ509)

پاکستان آمد اور راولپنڈی میں قیام

مقبوضہ کشمیر میں گرفتاری کے کافی عرصہ کے بعد 15؍جنوری 1949ء کو آپ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے درمیان قیدیوں کے باہمی تبادلہ کے سلسلہ میں گورنر گلگت بریگیڈئیر گھنساراسنگھ (پاکستان کے قیدی) کے تبادلہ میں پاکستان آئے۔ لاہور پہنچنے پر آپ کا پُر جوش استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر مفتی ضیاء الدین صاحب نے فارسی زبان میں ایک استقبالیہ نظم پڑھی جو روزنامہ غازی لاہور 5؍مئی 1949ء میں شائع ہوئی۔ جس کے پہلے چند اشعار درج ذیل ہیں:

تعالےٰ شانہ غمخوار آمد
پئے ملت علمبردار آمد
بگفتا اہل خطہ فخر کشمیر
نکو سیرت نکو کردار آمد
زقید و بند کایں فرزند اسلام
بحمدللہ کنوں گلکار آمد
بلاشک بانیٴ تحریک کشمیر
زبہر قوم خود دلدار آمد

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی شان بلند ہو۔ ملت کی آزادی کا علمبردار اور غم خوار آگیا (یعنی رہا ہوا)، اہل خطہ آپ کو فخر کشمیر کہتے اور نیک سیرت و نیک کردار مانتے ہیں۔ یہ فرزند اسلام جو قید و بند سے رہا ہو کر آیا اللہ کی حمد ہو یہ گلکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ تحریک کشمیر کے بانی اور اپنی قوم کے دلدار ہیں۔

(معمارِ آزادیٔ کشمیر مصنفہ محمد اسداللہ قریشی کاشمیری صفحہ34-35)

راولپنڈی آ کر آپ محلہ موہن پورہ کے ایک مکان میں رہائش پذیر ہوگئے۔ کئی سال پہلے زیب النسا صاحبہ سےآپ کی شادی ہو چکی تھی لیکن اولاد کوئی نہ تھی۔ اس لئے خواجہ غلام نبی گلکار صاحب نے اپنی بہن فاطمہ صاحبہ کی بیٹی مریم صدیقہ کو بیٹی اور بھائی خواجہ محمد مقبول صاحب کے بیٹے ارشاد احمد کو بیٹا بنا کر اُن کی پرورش شروع کر دی تھی۔ خواجہ صاحب کے راولپنڈی منتقل ہو جانے کے وقت بیگم اور بچے کشمیر میں ہی تھے اور اُنہیں پاکستان سفر کر کے کسی طرح آنا تھا۔کافی سوچ بچار کے بعد آپ کے بڑے بھائی خواجہ غلام احمد صاحب نے ان سب کو پاکستان لانے کا بیڑہ اٹھایا۔ چنانچہ یہ سب خیر خیریت سے پاکستان آ توگئے لیکن بھائی خواجہ غلام احمد صاحب پر واپس سری نگر جانے کے راستے بند ہو گئے۔ اس طرح وہ اپنے بھائی خواجہ غلام نبی صاحب گلکار کی وفات تک اُن کے ساتھ راولپنڈی ہی میں مقیم رہے۔

عادات و خصائل و نیک سیرت

خاکسار کی خالہ فرحانہ احمد صاحبہ اہلیہ ملک رفیع احمد صاحب کے مطابق خواجہ غلام نبی صاحب گلکار بہت سادگی پسند تھےاور حد درجہ مہمان نواز۔ آپ کی بیٹھک میں اکثر و بیشتر کوئی نہ کوئی مہمان آیا ہوتا تھا۔ سردیوں کے موسم میں اکثر آپ لوئی لے کر تخت پوش پر بیٹھے ہوتے، لوئی کے اندر کشمیری کانگڑی رکھی ہوتی۔ کوئی عزیز ملنے آتے تو ان کا نہایت والہانہ استقبال کرتے، ہم چھوٹے بچے سردیوں میں آپ سے ملنے آتے تو ہمارے گرد بھی لوئی پھیلا کر کانگڑی سے گرمائش پہنچایا کرتے۔ آپ کا خلیفہ وقت اور جماعت کے بزرگوں کے ساتھ تعلق بھی بہت گہرا تھا۔ اپنی اہلیہ اور دیگر افراد خانہ کو بڑے اہتمام کے ساتھ تانگے پر بٹھا کر نماز جمعہ اور دیگر جماعتی پروگراموں میں شرکت کے لئے لے جایا کرتے۔

آپ بتاتی ہیں کہ معمار کشمیر خواجہ غلام نبی گلکار صاحب جنہیں ہم سب ٹاٹھا جی کہتے تھے میری امی کے حقیقی ماموں تھے۔ امی کے بچپن ہی میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا تو وہ اپنی والدہ اور بہن بھائی کے ساتھ اپنے ننھیال ہی میں رہائش پذیر رہیں۔سب ایک ساتھ ایک بڑی حویلی میں رہتے تھے اور ٹاٹھا جی سب کا خیال رکھا کرتے۔ ٹاٹھا جی نے امی کے اندر علم حاصل کرنے کی جستجو کو بھانپ لیا تھا۔لہذا وہ امی کی اس سلسلہ میں ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے اور ان کو کئی علمی مجالس میں بھی اپنے ساتھ رکھتے۔کشمیر سے پاکستان ہجرت کے بعد ٹاٹھا جی کی علم دوستی اور Support کا ہی نتیجہ تھا کہ امی نے خدا کے فضل سے دو مضامین میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور پھر CB کالج راولپنڈی میں پہلےبطور لیکچرر اور پھر پرنسپل کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ شادی کے بعد اپنی بیگم یعنی ٹاٹھی امی کو بھی پرائیوٹ ٹیوٹر سے تعلیم دلوائی اور پھر خدا کے فضل سے 1940ء میں بیعت کروا کر حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل کیا۔ آپ بعد ازاں نظام وصیت میں بھی شامل ہوئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ٹاٹھا جی کو میں نے اس عمر میں دیکھا جب ان کے علمی، سیاسی، سماجی پہلو کا مجھے ادراک نہ تھامیرے لئے وہ ہمیشہ ہمارے بہت ہی شفیق پیارے، پیار کرنے والے ٹاٹھا جی تھے۔جنہیں میں نے اونچی آواز یا غصہ یا دبدبہ کرتے نہیں دیکھا تھا۔ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی اور وہ نہایت گرم جوشی سے ہمیں گلے ملتے اور پیار کرتے۔

ان کے کمرے میں ایک تخت پوش اور کتابوں کی الماری ہوا کرتی۔وہ تخت پوش پر بیٹھے مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے پاس کئی نایاب کتابیں موجود تھیں۔ قریب ہی میز پر ایک ریڈیورکھا ہوتا تھا جس پر ٹا ٹھا جی بہت انہماک سے خبریں سنا کرتے تھے۔ آزاد کشمیر کا قومی ترانہ جب نشر ہوتا تو ٹا ٹھا جی کا چہرہ کھل اٹھتا اور وہ ہمیں بھی سناتے تھے۔اُن سے بچپن میں جو کہانی اکثر سنتی تھی وہ ’’دانا کوا‘‘ کی تھی جو جسمانی طور پر کمزور ہونے کے باوجود اپنی دانائی سے اپنے طاقتو ر دشمن سانپ سے کیسے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔

ٹاٹھا جی نے کشمیر کی آزادی کی جد و جہد میں کئی بار بہت تکلیف دہ قید کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جس سے ان کی صحت پر بہت مضر اثر ہوا، وہ دل کے مرض میں مبتلا ہو گئے اور صحت بہت کمزو ر ہو گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جب بھی مری، راولپنڈی یا ایبٹ آباد تشریف لاتے تو ٹاٹھا جی ملاقات کے لئے ضرور حاضر ہوتے۔ ایسے ہی ایک موقعے پر حضور نے ٹاٹھی امی کو فرمایا ’’آپ نے ہمارے شیر کو کیا کردیا ہے ؟‘‘ ٹاٹھی امی کے ساتھ ان کانہایت شفقت اور محبت کا رویہ تھا۔ ٹاٹھی امی بھی ان کے آرام اور صحت کا خیال رکھنے میں ہمہ وقت مصروف رہتیں۔ سردیوں میں مجھے یاد ہے کہ جب ٹاٹھا جی چھت پر دھوپ کے لئے بیٹھتے اور انہیں نیچے سے کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو انہوں نے اپنے پاس ایک ٹوکری کو رسی سے باندھ کر رکھا ہوا تھا جو نیچے لٹکا دی جاتی اور نیچے سے ٹاٹھی امی وہ مطلوبہ چیز اس ٹوکری میں رکھ دیتیں اور ٹاٹھاجی اس کو اوپر سے کھینچ لیتے۔ اپنے تخت پوش پر سردیوں میں بیٹھ کر جب مطالعہ میں مصروف ہوتے تو گرم لوئی اورساتھ ہی کانگڑی کااستعمال کرتے تھے جس میں ہم بھی بہت ذوق و شوق کے ساتھ ٹاٹھاجی کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ میرے والد بشیر الدین احمدخاکی صاحب کے ساتھ سیاسی گفتگو کا دلچسپ سلسلہ دیر تک جاری رہتا تھا۔

مہمان نوازی ان کی بہت نمایاں صفت تھی۔ ٹاٹھی امی کے باورچی خانے سے کشمیری کھانوں اور قہوے کی خوشبو آتی رہتی تھی جو کہ بیٹھک میں بیٹھے مہمانوں کے لئے ہر وقت تیار ہوتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک مہمان تشریف لائے، ٹاٹھا جی اس وقت نماز ادا کر رہے تھے۔ لہذا وہ مہمان دروازے پر ہی سے ٹاٹھی امی کو پیغام دے کر رخصت ہو گئے۔ ٹاٹھاجی جلدی سے نماز مکمل کر کے ان کے پیچھے دوڑے اور اُ نہیں پیچھے کرتے سے پکڑ کر روکا کہ کھانا کھائے بغیر نہیں جانا۔ روکتے روکتے ان کی قمیض ایک جگہ سے پھٹ گئی۔ آپ کے قریبی لوگ اس پر ازراہِ مذاق کہا کرتے کہ مہمان کی قمیض پھٹ جائے مگر ٹاٹھاجی کھانا کھلائے بغیر کسی مہمان کو نہیں جانے دیں گے۔

خاکسار کی والدہ فرزانہ احمد صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد احمد اشرف صاحب بیان کرتی ہیں کہ ہمارے نانا (خواجہ غلام نبی صاحب گلکار) کو گھر کے سب افراد ’’ٹاٹھا جی‘‘ کہا کرتے تھے۔ جس کامطلب ہے پیارے ابا۔ وہ ہم بچوں سے بہت پیار کرتے۔ جب ہم ان کو ملنے جاتے تو اپنی بانہیں کھول کر ہمارا استقبال کرتے، گود میں اٹھاتے اور پیار کرتے۔ ٹاٹھا جی ہمیشہ سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی طرف بہت زور دیا کرتے تھے۔ ہم بچوں کو دیکھ کر اکژ یہ کہا کرتے کہ میرا بیٹا سائنسدان بنے گا۔ ہمیں بچپن میں تحائف کے طور پر اکثر عمر کے لحاظ سےکتابیں ہی انعام میں دیا کرتے۔ ٹاٹھا جی کی حوصلہ افزائی اور خصوصی سرپرستی ہی سے ہماری امی محترمہ صدیقہ بشیر صاحبہ نے الحمد للّٰہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے FG College For Women کشمیر روڈ راولپنڈی کینٹ میں 33 سال ملازمت کی جس میں 11 سال پرنسپل کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔

ٹا ٹھا جی کے بائیں بازو پر قید و بند میں رہنے کا ایک نشان تھا۔ جو دراصل ایک نمبر تھا جو ان کے جسم پر نقش کر دیا گیا تھا اور Prisoner of War کی نشانی تھا۔

بچپن میں ہم بھی ٹاٹھا جی، ٹاٹھی امی کے گھر جاتے تو وہاں کوئی نہ کوئی کشمیری مہمان آئے ہوتے۔ جو بھی مرد ہوتے ہم انہیں ماموں اور اگر کوئی خاتون ہوتیں تو انہیں خالہ کہتے۔ یہ بہت بعد میں جا کر ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ہمارے حقیقی ماموں یا خالہ نہیں تھے بلکہ ٹاٹھا جی انہیں بھی اپنے رشتہ داروں کی طرح خیال کرتے تھے اور ہمیں بھی یہی بات سکھاتے تھے۔ جموں و کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے جن کی فیملیز ساتھ نہیں آسکیں تھیں یا جوبچے تھے، اُن سب کے بزرگ ٹاٹھا جی ہو ا کرتے تھے۔ ان کی پڑھائی، ملازمت، شادی سب کا خیال ٹاٹھا جی رکھا کرتے اور ان کے دیگر کاموں میں بھی پیش پیش ہوا کرتے۔ ایسے اکیلے بچوں کی شادی کے لئے بری یا جہیز تیار کرنے کی ذمہ داری ٹاٹھی امی اٹھایا کرتیں۔

ہمارے ارشاد ماموں کی شادی بھی کچھ اسی طرح ہوئی۔ ہوا یوں کہ ایک کشمیری نوجوان کی درخواست پر اس کے رشتے اور پھر شادی کا تمام انتظام ٹاٹھا جی نے کروایا۔ ٹاٹھی امی نے نوجوان کے کہنے پر بری وغیرہ بھی تیار کر لی۔ لیکن شادی سے چند روز پہلے اس نوجوان نے اس رشتہ سے انکار کر دیا اور کہا کہ زیور اور بری وغیرہ بھی مجھے واپس کردیں۔ ٹاٹھا جی بہت پریشان ہوئے، پہلے تو اُس نوجوان کو سمجھایا لیکن وہ کسی طرح نہ مانا، تو ٹاٹھا جی نے ارشاد ماموں (جن کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی) سے کہا کہ دیکھو اتنی جلدی میں کسی اور سے تو کہہ نہیں سکتا تم ہی میرے بیٹے ہو یہاں شادی کے لئے رضامند ہو؟ ارشاد ماموں ذہنی طور پر اس کے لئے بالکل تیار نہ تھے لیکن جلد ہی انہوں نے اپنی رضا مندی دے دی تو ٹاٹھی امی نے انتہائی مختصر وقت میں چیزیں جمع کر کے بری تیار کی اور اگلے روز ٹاٹھا جی انہیں لے کر مظفر آباد پہنچے اور لڑکی والوں سے کہا کہ پہلے جس جگہ رشتے کی بات ہوئی تھی، اُس لڑکے نے تو انکار کر دیا ہے، یہ میرا بیٹا ہے آپ چاہیں تو اس سے اپنی لڑکی کی شادی کردیں۔ وہ کہنے لگے کہ اگر آپ کا بیٹا ہے تو ہمیں اور کیا چاہیئے۔ اس طرح ارشاد ماموں کی شادی انجام پائی اور دونوں کی ازدواجی زندگی نہایت کامیاب رہی۔ جن سے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔

خواجہ ارشاد احمد صاحب کے بڑے بیٹے خواجہ سلطان احمد صاحب نے ٹاٹھا جی کی ہمدردیٔ خلق کے بارے میں بتایا کہ اُن کا دل دوسروں کی ہمدردی سے لبریز رہتا تھا۔ راولپنڈی میں ان کے گھر میں پانی کا ایک کنواں بھی تھا۔ یہ غالباً 1971ء کی بات ہے کہ ارد گرد کے سب کنوئیں خشک ہو گئے جبکہ اس کنوئیں میں پانی مسلسل موجود تھا۔ ٹاٹھا جی کو جونہی لوگوں کی اس مشکل کا علم ہوا تو آپ نے پانی لینے کی خاطرلوگوں کے لئے اپنے گھر کے دروازے کھول دیئے اور پھر یوں ہوتا کہ صبح فجر کے وقت وہ گھر کا دروازہ کھولتے تو رات گئے تک دروازہ کھلا رہتا اور سارا دن ضرورت مند لوگ جو قریباً سبھی غیر احمدی تھے پانی بھر تے رہتے اور کوئی چند دن نہیں بلکہ مہینوں ایسے ہی سلسلہ چلتا رہا۔ایک مرتبہ ایک غیر از جماعت عورت پانی بھرنے آئی لیکن اُسے جب علم ہوا کہ یہ قادیانی کا گھر ہے تو وہ پانی لئے بغیر واپس چلی گئی۔ نزدیک تو کہیں پانی تھا ہی نہیں لیکن جب دُور والے کچھ لوگوں سے بھی اُسے پانی نہ مل سکا تو پھر اُس نے بھی ہمارے گھر سے ہی پانی لینا شروع کر دیا۔

آپ جہاں ایک سیاسی رہنما تھے وہاں اردو، انگریزی اور کشمیری زبانوں کے ادیب اور شاعر بھی تھے۔ آپ اعلیٰ پائے کے خطیب و ادیب تھے۔ تحقیقی مضامین سے خاص شغف تھا، کشمیری زبان کی تاریخ پر پُرمغز مقالات تحریر کئے جو شائع ہو چکے ہیں۔انگریزی زبان میں بھی آپ کے مضامین Review of Religions میں شائع ہوتے رہے۔

ساری زندگی آپ اپنی امانت، دیانت، خلوص، قومی جذبہ، خیرخواہی، ہمدردی، جرأت، بہادری، قربانی، تدبر، ذہانت، تجربہ، ایثار، صاف گوئی، بے غرضی، بلند خیال، بیدارمغزی، بے تعصبی اور اولوالعزمی کے اوصاف کی وجہ سے عوام میں مشہوراورہردلعزیزرہے۔

مفتی ضیاء الدین مرحوم (مفتی اعظم کشمیر) نے اپنی فارسی کتاب تاریخ حریت کشمیر میں خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور کے بارے میں متعدد اشعار لکھے ہیں، اُن میں سے چند اشعار درج ذیل ہیں:

غلام نبی حسن غمخوار ہست
بآزادیٔ ملک دلدار ہست
نخستیں کہ از رہنمایانِ ملک
ہمیں کس کہ مردے خوش آثار ہست
بسے شہرہ آفاق در کاشمیر
ہمہ گفت گلکار معمار ہست
کزیں سنگ بنیاد نیکو فتاد
زہر کس دریں باب اقرار ہست

ترجمہ: غلام نبی اچھا غمخوار انسان ہے اور ملک کی آزادی کا دلدار ہے۔ ملک کے رہنماؤں میں سے اس وقت یہی شخص ہے جو اچھے آثار کا مالک ہے۔ کشمیر میں چاروں طرف اس کی شہرت پھیلی ہوئی ہے۔ عوام نے اس کو ’’معمارملت‘‘ کا خطاب دیا ہے۔ اسی نیک شخص سے (تحریک کشمیر کا) بنیادی پتھر رکھا گیا۔ ہر ایک کو اس معاملہ میں اقرار ہے۔

( معمارِ آزادیٔ کشمیر مصنفہ محمد اسداللہ قریشی کاشمیری صفحہ74-75)

وفات و تدفین

17؍جولائی 1973ء کو راولپنڈی میں تحریک آزادیٔ کشمیر کے اس مردِ مجاہد نے وفات پائی۔ موصی ہونے کی وجہ سے آپ کی میت ربو ہ لائی گئی جہاں 18؍جولائی کو نماز ظہر کے بعد آپ کی نماز جنازہ حضرت مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری نے پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احبابِ جماعت نے شمولیت فرمائی۔ پھر تدفین بہشتی مقبرہ میں عمل میں آئی۔ جس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے اجتماعی دعا کروائی۔

گلکار صاحب کی وفات کو کشمیری حلقوں میں گہرے رنج و غم سے سنا گیا۔ 18؍جولائی کو جب ان کی وفات کی خبر مظفر آباد پہنچی تو تمام حلقوں میں جو گلکار صاحب کی قومی قربانیوں سے واقف تھے صفِ ماتم بچھ گئی۔ اسی دن گیارہ بجے صبح صدر آزاد کشمیر سردار عبد القیوم خان کی صدارت میں آزاد جموں و کشمیر کے ایڈیٹروں کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں بیس مدیران جرائد موجود تھے اس میں میر عبد العزیز مدیر ’’انصاف‘‘ کی تجویز پر قرارداد پیش ہوئی جو جناب صدر کی صدارت میں بااتفاق رائے منظور ہوئی۔

پیر علی شاہ ایم ایل اے صدر آزاد کشمیر پیپلز پارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ ’’مجھے محترم جناب گلکار کی وفات سے سخت صدمہ ہوا۔ وطن کی آزادی کا شیدائی اور طویل جد وجہد کا ایک عظیم سپاہی ہم سے جدا ہو گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ کس قدر بے غرض اور بے نیاز انسان تھا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت کرے۔‘‘

مورخ کشمیر جناب کلیم اختر نے لکھا ’’ریاستی عوام ایک ایسے انسان کی قومی اور ملی خدمات سے محروم ہو گئے ہیں جو پوری نصف صدی تک ڈوگرہ اور بھارتی سامراج کی کلفتوں کے خلاف نبردآزما رہا اور میدان عمل میں بھی ڈٹا رہا۔‘‘

مشتاق احمد فاروق صاحب ایڈووکیٹ مظفر آباد کے مطابق خواجہ غلام نبی گلکار تاریخ آزادی کشمیر کا ایک عظیم باب تھے۔ اس دنیا کے ریگزار میں ان کی مثال اس اونٹ کی سی تھی جسے ہر موڑ پر کانٹے چبھتے رہے ہوں مگر اس کی پشت پر درویشی، حب الوطنی، انسانی عظمت، رواداری اور محبت کے پھولوں کی وہ ٹوکری لدی ہوئی تھی جس نے ان کے اردگرد بے شمار تحریکوں کے گلز ار کھلا رکھے تھے جن کی خوشبوئیں آج بھی مشامِ جان کو معطر کر رہی ہیں۔

(’’لاہور‘‘ 6؍اگست 1973ء صفحہ5 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد29 صفحہ225-226)

(نبیل احمد اشرف)

پچھلا پڑھیں

شفقت و دلداری

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 نومبر 2022