• 26 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں(قسط 12)

دی واشنگٹن ٹائمز۔ یہاں کا بہت بڑا اخبار ہے۔ اس کی 24؍اپریل 2002ء کی اشاعت میں صفحہ A8 پر یہ ایک خبر شائع کرتا ہے جس کی سہ سرخی ہے:
’’خود کش بمبار شہید نہیں ہیں‘‘۔ واشنگٹن ٹائمز کے رائٹر JOYCE HOWARD PRICE علاقہ کے بہت سے مسلمان لیڈروں کا بیان لکھتے ہیں کہ فلسطین میں جو لوگ خودکش بمبار حملوں میں مر رہے ہیں کیا اُن کو شہید کہا جاسکتا ہے؟ اس بارے میں اس مضمون میں کئی مسلمان لیڈروں کے بیانات پر تبصرہ اور خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مسلمان لیڈروں سے اس بارے میں معلومات لی گئیں تو صرف ایک خاتون نے کہا ہے کہ ایسے لوگ شہید ہیں۔ بعض مسلمان لیڈوں نے اس بارے میں گفتگو کرنے سے پرہیز کیا۔ کئی لوگوں نے شہید کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کیا۔ بہت سے لیڈروں نے کھل کر اس کی مذمت بھی نہیں کی۔ بعض نے کہا کہ بلا شبہ یہ شہید ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنی جانوں، اپنی فیملی کی جانوں اور اپنی سرزمین کی حفاظت کر رہے ہیں۔ یہ مکرمہ فاطمہ حسین صاحبہ کا بیان ہے جو کہ ادارہ جعفریہ اسلامک سینٹر کی رکن ہیں۔

اخبار نے اور لیڈروں کے بیانات دینے کے ساتھ خاکسار (سید شمشاد احمد ناصر) کا بیان بھی شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسجد بیت الرحمان علاقہ کی ایک سب سے بڑی مسجد ہے اور یہ اس کے امام ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ دوسری مساجد کی طرف سے یہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مسٹر ناصر جو کہ پاکستانی ہیں، کہتے ہیں کہ میں اس کے لئے شہید کی ٹرم استعمال نہیں کروں گا۔ کیونکہ اسلام خودکشی کو منع کرتا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی اپنی سرزمین کی حفاظت کر رہے ہیں اور میڈیا جو ہے وہ ساری تصویر نہیں دکھا رہا۔ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے وہ یہ قدم اٹھارہے ہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ جاپان کے ایک شخص نے جنگ عظیم دوم میں کیا تھا ۔

مسٹر ناصر نے مزید کہا کہ معصوموں کی جان لینا یہ بھی تو ٹھیک بات نہیں ہے۔ اور اسرائیل کا مشن صرف یہ ہے کہ وہ معصوم فلسطینیوں کی جان لے۔

دی واشنگٹن ٹائمز اپنی اشاعت 10؍ستمبر 2002ء صفحہ A1پر یہ خبر دیتے ہیں: ’’مسلمان اپنے تشخص کو بحال کرنے کے لئے کوشاں ہیں‘‘۔
اس خبر کی رائٹر JOYCE HOWARD PRICE ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ نائن الیون کے ایک سال بعداب بھی مسلمان اپنے تشخص کو بحال کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔

’’مسجد بیت الرحمان کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے بتایا کہ بعض مسلمان اب بھی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ 9/11 کے بعد انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام الناس کو اسلام کی صحیح تعلیمات سے آگاہ کریں۔ اسلام تو سب کے ساتھ محبت سکھاتا ہے اور کسی سے بھی نفرت نہیں سکھاتا۔‘‘

اخبار لکھتا ہے کہ بہت سے یہودی اور عیسائی اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے امریکہ پر حملہ کر کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔

اخبار نے لکھا ہےکہ آج رات (10؍ستمبر 2002ء) جب کہ امریکہ پر حملہ (9/11) کو ایک برس گذر چکا ہے، اس کی برسی منائی جارہی ہے۔ مسلمان اس موقعہ پر اس دہشت گردی کے حملہ کی مذمت کریں گے۔ اس میں خصوصیت کے ساتھ ’’کونسل آن امریکن اسلامک تعلقات‘‘ جسے متشدد اسلامی گروہ کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے، مسلمان اسے ’’DAY OF UNITY‘‘ کے نام سے موسوم کر رہے ہیں۔ ایک پروفیسر نے کہا کہ اب تو لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بھی نروس ہو رہے ہیں۔ یہ پروفیسر 40 سال سے اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ بہت سے امریکن اس وقت محسوس کر رہے ہیں کہ اب مسلمانوں میں کچھ برداشت کا مادہ پایا جارہا ہے۔ اور وہ پہلے سے زیادہ نرم ہیں۔

نوٹ: خاکسار یہاں پر اس بات کو مزید وضاحت سے بیان کرنا چاہتا ہے کہ 9/11 کے بعد حالات بہت بدلے ہیں۔ مثلاً مسلمانوں کی جہاد کی تعریف جسے خاکسار پہلے بھی بیان کر چکا ہے، امریکن اور دیگر لوگ 9/11 کے بعد خصوصاً مسلمانوں سے بہت زیادہ خائف ہوگئے تھے۔ ایک تو ان کے مزعومہ عقائد کی وجہ سے اور پھر 9/11 کے حملہ کی وجہ سے جس کی وجہ سے اخبار کو یہ خبر دینی پڑی کہ مسلمان اپنے تشخص کو بحال کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے ہر فرقہ نے پھر اتحاد کی طرف، برداشت کی طرف اور یک جہتی کی طرف قوم کو توجہ دلائی اور اپنے عقائد میں اور نظریات کو جو اس حملہ سے پہلے تھے، بدلے۔

دی منٹگمری جرنل۔ 8؍فروری 2002ء کی اشاعت کےصفحہ A4پر خاکسار کا ایک خط شائع کرتا ہے یہ خط NELSON MARANS کے اعتراضات کا جواب ہے جو اس نے اسلام پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ السلام کی ذات پر کئے۔ اس کا یہ خط 27؍جنوری 2002ء کے اخبار میں اس عنوان سے شائع ہوا: ‘‘اس پر یہ لوگ عمل نہیں کرتے جس کا پرچار کرتے ہیں‘‘۔

اس شخص نے تاریخ سے بہت سے واقعات کو غلط اور توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا کہ مسلمانوں میں ’’برداشت کا مادہ بالکل نہیں ہے۔‘‘ خاکسار نے اس کے جواب میں لکھا۔ HISTORY OF ISLAM A TALE OF TOLRANCE یعنی اسلامی تاریخ حوصلہ اور برداشت سے بھری پڑی ہے۔ خاکسار نے اپنے اس مضمون میں (جو خط کی شکل میں شائع ہوا) سب سے پہلے یہ لکھا کہ یہ وقت آپس میں اتفاق اور ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کے لئے ہے، نہ کہ آپس میں نفرت اور علیحدگی کے تصور کو پھیلانے کا۔

خاکسار نے لکھا کہ تنقید کرنے والے نے اسلام کی تاریخ کا صحیح طور پر خود مطالعہ نہیں کیا بلکہ اسلام کے خلاف دشمنوں کی تحریرات سے کچھ لے لیا ہے اور اعتراض کر دیئے ہیں۔ اگر اس نے تھوڑا سا بھی اسلام کا مطالعہ کیا ہوتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ بانیٔ اسلام نے قرآنی تعلیمات پر سب سے اول اور سب سے بہتر رنگ میں عمل کیا ہے۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ ’’مذہب کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں‘‘۔

مسٹر نیلسن ماران نے اپنے مضمون(خط) میں آنحضرت ﷺ پر تنقید کی تھی کہ انہوں نے مدینہ کے یہودیوں کو اسلام نہ لانے پر قتل کیا۔ خاکسار نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ تشریف لا کر سب سے امن کا معاہدہ کیا تھا اور اس میں یہ بات شامل تھی کہ ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ مسلمان بھی اور یہود بھی مدینہ کی حفاظت کے لئے آپس میں متحد رہیں گے اور ایک دوسرے کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔ تمام جھگڑے اور معاملات کو آنحضرت ﷺ ایک دوسرے کی مذہبی کتب کی تعلیمات کے مطابق حل کریں گے۔ جب مدینہ پر مکہ کے لوگوں نے 1000 کی نفری سے حملہ کیا تو 313 مسلمانوں نے لڑائی کی۔ اس میں ایک بھی یہودی شامل نہ ہوا۔ اس کے بعد یہودیوں کے قبائل نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی لیکن آنحضرت ﷺ پھر بھی ان کے ساتھ کمال شفقت اور احسان سے پیش آتے رہے۔

مسٹر نیلسن ماران کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ یہودیوں نے نہ صرف فساد کھڑا کیا بلکہ بدعہدی بھی کی۔ ایک یہودی عورت نے آنحضرت ﷺ کے قتل کی بھی کوشش کی تھی جس نے آپؐ کو گھر کھانے کی دعوت پر بلایا تھا اور اس میں زہر ملا دیا تھا۔ یہودی اپنی شرارتوں میں بڑھتے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو ان امور سے باز رہنے کی تلقین بھی کی لیکن انہوں نے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف حملہ کیا اور پھر قلعہ بند بھی ہوگئے۔ آنحضرت ﷺ نے اُن کا محاصرہ کیا۔ 14 دن بعد انہوں نے اپنے آپ کو اسی شرط پر کہ ان کی جانوں کو امان بخشی جائے، اپنے آپ کو پیش کردیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی شرط کو قبول کر لیا حالانکہ تورات کے حکم کے مطابق اُن سب کو قتل کیا جانا جائز تھا۔

یہودی قبائل میں سے قبیلہ بنونظیر نے بھی ایسا ہی کیا، یعنی بدعہدی۔ اور پھر آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کی سازش بھی کی۔ انہوں نے مدینہ کو چھوڑ کر جانے کی خود درخواست کی تھی۔

خاکسار نے آخر میں نیلسن فاران سے سوال کیا کہ تورات کے مطابق بدعہدی کرنے والوں، قتل کی سازش کرنے والوں اور فساد برپا کرنے والوں کی کیا سزا ہے؟ یا اِس وقت دنیا کے قوانین میں ایسے جرم کا ارتقاب کرنے والوں کی کیا سزا ہوگی؟

دی جرنل منٹگمری۔ 20؍جنوری 2002ء کے اخبار میں صفحہ A6 پر خاکسار کا ایک تفصیلی مضمون تعارف کے ساتھ شائع کرتا ہے کہ شمشاد اے ناصر بیت الرحمان مسجد سلور سپرنگ کے امام ہیں۔

اس خط میں خاکسار نے اپنے مضمون کا یہ عنوان دیا ہے:
’’اسلام کے بارے میں آپ جو کچھ بھی جاننا چاہتے ہیں‘‘

دی منٹگمری جرنل نے اپنی اشاعت 21؍فروری 2002ء کے صفحہ A4پر خاکسار کا ایک مضمون OPINION کے تحت بطور خط شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے ایک شخص LAWRENCE K. MARSH کے اعتراضات کا جواب لکھا ہے۔ اس معترض کا خط اسی اخبار میں یکم فروری 2002ء کو شائع ہوا تھا۔ اس شخص نے افغانستان میں عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور امریکہ میں خواتین کے حقوق کی پوری نگہداشت کے بارے میں (لکھا) ہے۔

خاکسار نے اس مضمون میں لکھا کہ مضمون نگار نے افغانستان اور امریکہ کی خواتین کا موازنہ کر کے درست کام نہیں کیااور نہ ہی یہ درست تجزیہ ہے۔ ایک تو امریکہ کی حکومت نے کبھی بھی اپنے آپ کو عیسائی حکومت قرار نہیں دیا اور نہ ہی مسلمانوں کی اکثریت نے طالبان کی حکومت کو اسلامی سمجھا ہے۔ پھر مصنف نے کیوں زحمت گوارا کی کہ وہ افغان اور امریکن خواتین کا موازنہ کریں۔ اور کیوں انہوں نے بائیبل کے صفحات کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی جس میں عورت کا مقام بیان کیا گیا ہے۔

انہیں چاہیئے تھاکہ سیاسی پالیسیوں کو الگ رکھ کر اسلام کو اسلام کے آئینہ میں ہی دیکھیں نہ کہ سیاست کے آئینہ میں۔

کیا وجہ ہے کہ اسلام کی تو ہر بات کو سیاست کے آئینہ میں دیکھتے ہیں تو پھر کیوں امریکہ کے ہر قانون کو بائیبل کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا؟ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جب کسی اسلامی ریاست میں سیاست کی بات ہو تو اسے قرآن کریم کی رو سے پرکھا جاتا ہے۔ یا کہا جاتا ہے کہ یہ ان کا اسلام ہے۔ اسی طرح امریکہ کے قوانین کو کیوں بائیبل کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ عیسائی قانون ہے؟

مصنف نے سلسلہ وراثت پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ اسی سلسلہ میں وہ قرآنی تعلیمات کا بائیبل کی تعلیمات سے موازنہ کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ کون سی تعلیم اعلیٰ و افضل ہے۔ خاکسار نے اس کے لئے بائیبل کا حوالہ (گنتی باب27 آیت8) پیش کیاہے۔خاکسار نے لکھا کہ اگر وہ بائیبل سے مسئلۂ وراثت بہترطور پر دکھا سکتے ہیں تو پیش کریں۔

اسی طرح مصنف نے مسئلہ خلع و طلاق پر بھی اعتراض اٹھایا تھا جس کا خاکسار نے اپنے اسی مضمون میں شافی جواب دیا ہے اور پوچھا ہے کہ خلع و طلاق کے ضمن میں جو اسلامی تعلیم ہے وہ بائیبل کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھ لیں۔ خود ہی ثابت ہوجائے گا کہ کون سی تعلیم اعلیٰ اور قابل عمل ہے۔ خاکسار نے آخر میں لکھا کہ کوئی شخص بھی ’’اسلام میں عورت کے مقام‘‘ پر عیسائیت کی تعلیم سےموازنہ کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ خاکسار نے کہا کہ یہ سب کچھ تعلیمات پر مبنی ہو،نہ کہ کلچر اور سیاست کے ساتھ موازنہ۔

دی گزٹ برٹنسِول ۔ 23؍جنوری 2002ء صفحہA-15 پر قریباً پورے صفحہ پر خاکسار کا ایک مضمون شائع کرتا ہےجس میں مسجد بیت الرحمان کے مینار اور گنبد کی بڑی اچھی تصویر دی ہے اور ساتھ لکھا ہے کہ مسجد بیت الرحمان کے امام سید شمشاد احمد ناصر ہیں۔ اس کا عنوان ہے: ’’اسلام کی حقیقت۔ اسلام امن اور برابری کا مذہب‘‘۔

خاکسار نے اپنے اس مضمون میں لکھا کہ نائن الیون 9/11 (امریکہ میں مہینہ پہلے لکھا جاتا ہے اور تاریخ بعد میں اسی لئے نائن الیون کہتے ہیں یعنی 11؍ستمبر 2001ء) کے بعد لوگوں میں اسلام کو جاننے کے بارے میں زیادہ دلچسپی دیکھنے میں آئی ہے۔ وہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ فی الواقعہ / حقیقۃً اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟

خاکسار نے لکھا کہ اسلام کے معانی ہیں: ’’امن‘‘ اور ’’اپنے آپ کو کلیۃً سپرد کر دینا‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے اخروی دنیا میں خوشی اور امن نصیب ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ انسان کلیۃً اپنے آپ کو خدا کی مرضی کے تابع کر دے جو کہ ہمارا اور سب مخلوق کا خالق ہے۔ امن اور سلامتی کے لئے کوشاں رہنا ہر مسلمان کا مطمع نظر ہے۔

خاکسار نے اس مضمون میں قرآن کریم کی مختلف آیات درج کیں۔ مثلاً سورۃ البقرہ آیت257 اور دیگر آیات سے ثابت کیا کہ اسلام میں جبر، فتنہ و فساد کلیۃً منع ہے اور اسلام تو انسانی بہبود کو فروغ دینے کا مذہب ہے۔

اس ضمن میں خاکسار نے آنحضرت ﷺ کا اسوہ لکھا کہ ایک جنازہ گذر رہا تھا جو کہ ایک یہودی کا تھا۔ آپؐ اس کے احترام کے لئے کھڑے ہوگئے۔ آنحضرتؐ نے ایک مردہ کو اتنا احترام دیا تو زندہ کے لئے کس قدر احترام ہوگا۔ اسی طرح ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے مسجد نبوی میں عیسائی لوگوں کو اپنے طور طریق پر عبادت کرنے کی اجازت دی۔

خاکسار نے اس مضمون میں بتایا کہ اسلام تمام دیگر مذاہب، انبیاء،کتب اور انسانوں کا احترام سکھاتا ہے۔

جہاد کے نظریہ کے بارہ میں بھی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا کہ کس طرح مسلمانوں اور غیرمسلم لوگوں کو جہاد کے معانی سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ اسلام میں جہاد مذہب کی آزادی کے لئے ہے نہ کہ مذہب کو ختم کرنے کے لئے۔ خاکسار نے جہاد کی تین قسمیں بیان کیں۔ ایک تزکیہ نفس کا جہاد ہے یعنی انسان اپنی اصلاح کرے۔ دوسرے قرآن کریم کی تعلیمات کا پرچار کرے اور تیسرے یہ کہ ضمیراور مذہب کی آزادی کے لئے، دفاع کے طور پر۔

اسلام لوگوں کے دلوں کو جیتنے کی تعلیم دیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث بھی نقل کی گئی ہے کہ بہادر وہ شخص نہیں جو لڑائی میں دوسرے کو پچھاڑ دےبلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔

اس ضمن میں مضمون کے آخر پر خاکسار نے حجۃ الوداع کے خطبہ سے اسلام کی تعلیمات کو بیان کیا۔

دی منٹگمری جرنل نے اپنی اشاعت 13؍جنوری 2002ء کے صفحہ A6پر خاکسار کا ایک خط شائع کیا جس میں خاکسار نے 9/11 کے واقعات کے پس منظر میں اسلامی تعلیمات پر لگائے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔

خاکسار نے بتایاہےکہ اس موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ ناانصافی اور غیر اخلاقی سیاست ہے۔ خاکسار نے اس ضمن میں قرآنی آیات کا انگریزی ترجمہ پیش کر کے اسلامی تعلیمات کو اجاگر کیا۔ خاکسار نے بتایا کہ ناانصافی ، ظلم، جبر اور تشدد سے امن کا قیام ناممکن ہے۔

دی گزٹ برٹنسِول نے اپنی اشاعت 6؍فروری 2002ء میں ایک خط شائع کیا ہے جو کہ Mr. GRAG GRAPSASکا تحریر کردہ ہے۔ انہوں نے خاکسار کا نام لکھ کر میرے اس مضمون کا جواب دیا ہے جو خاکسار کا اسی اخبار کی 23؍جنوری 2002ء کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔اس مضمون میں خاکسار نے اسلام کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھاکہ اسلام امن، محبت و پیار اور صلح آشتی کا مذہب ہے اور ایک دوسرے کے احترام کرنے کا درس دیتا ہے۔

اسی خط میں Mr. GREG نے لکھا: ’’اسلام کے چہرے کا دوسرا رُخ‘‘
مصنف نے یہ غلط تصور بیان کرنے کی کوشش کی کہ امام شمشاد نے جو یہ بتایا ہےکہ اسلام امن و پیار اور صلح کا مذہب ہے۔ بدقسمتی سے بہت سے لوگ اسکو ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ان کا عمل اسکے خلاف ہے۔ اسی وجہ سے مغرب میں یہ رد عمل اور غلط فہمی پائی جاتی ہے کیونکہ جو کچھ اس وقت طالبان اور القاعدہ کے لوگ کر رہے ہیں وہ اسلام کے نام پر کر رہے ہیں۔ 9/11 کے حملہ کی کوئی معقولیت نہیں اور یہ ناقابل فہم ہے کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا۔

جب مسلمان اپنے نوجوانوں کو ’’شہادت‘‘ کے بارے میں تعلیم دیتے ہیں تو پھر یہ معصوم لوگوں کی جانیں لینے لگ جاتے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

دی منٹگمری جرنل نے اپنی اشاعت 10؍مئی 2002ء کے صفحہ A9 پر ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’کونٹی میں مذہب کی بنیاد پر نفرت بڑھ رہی ہے‘‘۔

اس مضمون کو KELLY SMITH نے لکھا ہے جس میں دیگر مذاہب کے علاوہ ہماری مسجد بیت الرحمان کے حوالہ سے بھی یہ لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے مسجد کے فون پر کال کر کے دھمکی آمیز پیغام چھوڑے ہیں۔ مثلاً ’’اسلام مردہ باد‘‘ (نعوذ باللہ) اور ’’امریکہ زندہ باد‘‘۔ اس خمیازے کی سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی وغیرہ۔ خاکسار اس کا ذکر پہلے بھی کر چکا ہے۔

گزٹ کمیونٹی نیوز۔ 3؍دسمبر 2002ء میں انٹر فیتھ کی خبر دیتا ہے کہ مسجد بیت الرحمان میں جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام بین المذاہب میٹنگ ہوگی اور اس میں یہودی، عیسائی، ہندو، بدھ اور دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے امریکن شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہورہے ہیں جس کا مقصد مذاہب میں ہم آہنگی، محبت، بھائی چارے کی تعلیم، برداشت اور ایک دوسرے کے احترام کو فروغ دینے کی بات ہوگی۔ تقاریر کے بعدسوال و جواب بھی ہوں گے۔

دی گزٹ برٹنسِول۔ اپنی اشاعت 4؍ستمبر 2002ء کے صفحہ7 پر 3/4صفحہ پر مشتمل ایک خبر تصویر کے ساتھ دے رہا ہے۔ اس تصویر میں جماعت کی کچھ بچیاں اپنے کیمپ میں بعض مضامین پر کچھ لکھ اور بتا رہی ہیں۔ یہ خبر BROOKS STANLEY نے لکھی ہے۔ اس کا عنوان ہے: ’’بطور مسلمان زندگی کس طرح گزر رہی ہے‘‘۔

مسجد بیت الرحمان میں ہر سال بچیوں کا تربیتی کیمپ لگایا جاتا ہے جس میں ریجن کی تمام جماعتوں سے بچیاں آتی ہیں اور اُن کی تربیت و اخلاقی امور کے حوالہ سے تعلیم دی جاتی ہے۔ سسٹر شکورہ نوریہ صاحبہ امسال اس کی ریجنل سپروائزر تھیں۔ انہوں نے رپورٹر کو بتایا کہ اس سال کے کیمپ میں بچیوں کو قدرے مختلف عناوین دیئے گئے ہیں تا وہ صحیح اسلامی تعلیمات کو سمجھیں۔ اسی کیمپ میں قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ اور تعلیمات، تاریخ اسلام سکھانے کے ساتھ ساتھ بچیوں کو آرٹ اور ڈرائنگ بھی سکھائی جاتی ہے۔ اور ایک وقت روزانہ اُن کی جسمانی صحت و ورزش کا بھی رکھا جاتا ہے۔ شکوریہ نوریہ نے بتایا کہ 9/11 کے بعد حالات بدلے ہیں۔ ہم اپنی بچیوں کو بہتر رنگ میں سمجھا اور سکھا رہے ہیں کہ 9/11 کے بعد کیا حالات ہیں۔ تاکہ اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں اُن کا ازالہ بھی کیا جاسکے۔ اور یہ پھر دوسروں کو بھی بتاسکیں۔ امام شمشاد ناصر نے بتایا کہ 9/11سے پہلے جب ہم لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیمات بتانےکےلیے آنے کی کوشش کرتے تھے تو وہ کوئی دھیان نہیں دیتے تھے لیکن 9/11کے بعد لوگوں میں اسلام کی تعلیمات کو سننے اور سمجھنے میں ایک دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔

(ہماری خواتین اور بچیوں کے انٹرویوز کے علاوہ اس خبر میں دیگر مسلمان خواتین اور بچیوں کے بھی انٹر ویوز شامل ہیں) ایک مسلمان بچی نے بتایا کہ 9/11 کے بعد اب جب بھی ہم باہر نکلتے ہیں لوگ ہمیں گھورگھور کر دیکھتے ہیں۔ ایک اور نے بتایا کہ پہلے میں بلا جھجک اپنے کام پر جایا کرتی تھی مگر اب نہیں کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور کسی وقت بھی ہم امریکنوں کو قتل کر دیں گے۔ لوگ جہاد کے غلط معانی سمجھ رہے ہیں۔

سسٹر شکوریہ نوریہ نے غلط فہمی دور کرتے ہوئے بتایا کہ یہ جہاد نہیں ہے کہ معصوم لوگوں کو قتل کیا جائے یا اُن سے لڑائی کی جائے۔

جہاد کے معانی کوشش کے ہیں جس کا اطلاق بہت سی باتوں پر ہوسکتا ہے۔ لڑائی کی صرف دفاع کے طور پر اجازت ہے۔ اسلام قطعاً جارحیت، تشدد اور زبردستی کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی اجازت دیتا ہے۔ کیمپ کی ایڈمنسٹریٹر سیدہ صبیحہ صاحبہ نے بتایا کہ اس وقت بہت ضروری ہے کہ بچیوں کو جہاد کا صحیح مطلب سمجھایا اور سکھایا جائے تا ایسا نہ ہو کہ وہ دوسروں سے اس کے غلط معنی اور مطلب سیکھ جائیں جو کہ درست نہیں ہے۔

آخر میں خاکسار کے حوالہ سے انہوں نے لکھا کہ امریکہ میں ہمیں ہر طرح مذہبی آزادی میسر ہے اپنے ضمیر کی بات کو کھول کر بیان کرنے میں پوری آزادی ہے۔ اور اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اس لئے ہمیں اپنے ملک کے لئے دعا کرنی چاہیئے اور تمام انسانیت کے لئے بھی دعا کرنی چاہیئے۔

دی گزٹ برٹنسِول نے اپنی اشاعت 11؍ستمبر 2002ء صفحہ A10 پر قریباً 3/4صفحہ کی خبر مسجد بیت الرحمان میں جماعت کےاحباب کی دی ہے جس میں وہ خطبہ سن رہے ہیں۔ یہ خبر سٹاف رائٹر CORINNE PORTILL نے دی ہے۔ جس کا عنوان ہے کہ ’’(9/11) کے حملہ نے ایمان کی ضرورت کو اور بھی بڑھا دیا ہے‘‘

رائٹر نے مختلف مذہبی لیڈروں سے اُن کے تاثرات قلمبد کئے ہیں۔ اور ہر ایک نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق 9/11 کے واقعات اور اس کے بعد کی ذمہ داریوں کو بیان کیا۔

خاکسار کے حوالہ سے انہوں نے لکھا کہ مسجد بیت الرحمان کے امام شمشاد ناصر نے اُن کوششوں کا ذکر کیا جو انہوں نے بذریعہ خطوط، دعوت ناموں اور دیگر ذرائع سے مختلف مذاہب کے لیڈروں کو لکھے جس سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے آپس میں ہم آہنگی ، احترام اور ایک دوسرے کو قریب لانے میں کتنی کوشش کی ہے۔ اور جواباً جواُنہیں خطوط موصول ہوئے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اُن کی کوششیں بر آئیں انہوں نے کہا کہ ہمارا نعرہ ہی یہ ہے کہ محبت سب سے، نفرت کسی سے نہیں۔ اگر اسلام خدا تعالیٰ سے محبت سکھاتا ہے تو اس محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی مخلوق یعنی انسانیت سے بھی پیار کریں۔

شمشاد ناصر نے مزید کہا کہ ہمارا عملی نمونہ لوگوں کے دل جیتے گا۔ نہ کہ دہشت گردوں کا نمونہ۔ جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔

تجزیہ نگار نے مسجد کی ہمسائیگی کے چرچ کے لیڈر پادری گائے کیری GUY CARAY کے حوالہ سے لکھا کہ اس کے مسجد بیت الرحمان کے لوگوں کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات ہیں۔ 9/11 کے فوراً بعد بعض لوگوں نے اسلام کے خلاف باتیں بیان کیں جس سے نفرت پھیلتی تھی۔ گائے کیری نے کہا کہ سارے مسلمان ایک جیسے نہیں ہیں اُن میں بھی بعض امن پسند ہیں جس طرح کہ احمدیہ مسلم فرقہ کے لوگ ہیں۔

مضمون کے آخر میں انہوں نے خاکسار کے حوالہ سے لکھا کہ 9/11 کے زخم اگرچہ اب مندمل ہو رہے ہیں لیکن اس قسم کی برسی منا کر ہم اُن کے زخم دوبارہ تازہ کر رہے ہیں۔

دی گزٹ۔ 3؍جولائی 2002ء کی اشاعت میں گزٹ کمیونٹی نیوز میں ہماری خبر شائع کرتا ہے ۔

’’احمدی اپنا سالانہ جلسہ کر رہے ہیں۔‘‘ اس خبر کے رائٹر ہیں BROOKS STANLAY انہوں نے ہمارے 54ویں جلسہ سالانہ جو مسجد بیت الرحمان میں 2002ء میں منعقد ہوا تھا کی خبر دی۔

پہلے مکرمہ محترمہ سسٹر عائشہ شریف صاحبہ کے انٹرویو میں لکھا کہ ’’ہم اسلام میں امن کے بارے میں پوری طرح لوگوں کو آگاہی دینا چاہتے ہیں کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے۔ عائشہ شریف صاحبہ کی ڈیوٹی اس سال میڈیا اور ضیافت میں تھی۔ عائشہ شریف صاحبہ نے مزید بتایا کہ ہم نے احمدی خواتین و مرد حضرات سے کہا ہے کہ وہ جلسہ میں اپنے مہمانوں کو لاسکتے ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اسی جلسہ میں دیگر مذاہب کے لیڈر اور ان کے پیروکار بھی کثیر تعداد میں شامل ہوئے۔ مثلاً بدھ ٹیمپل سے، مختلف عیسائی چرچوں کے لوگ، سکھ مذہب، یہودی، امریکن ریڈکراس، گورنمنٹ کے آفیشلز، احمدی مسلم بچے بھی اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں تو ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی۔ ہاں اپنے دفاع کی اجازت ہے۔ مردوں اور خواتین کے اجلاس ایک ہی وقت میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم نے یہ بات بیان کی ہے کہ وہ الگ الگ بیٹھیں۔ اور میں نہیں سمجھتی کہ ایسا کوئی شخص بھی تھا جو جلسہ سالانہ کے دوران مسلمانوں کی وجہ سے خوف زدہ ہو۔

خاکسار کے حوالہ سے انہوں نے بتایا کہ شمشاد احمد ناصر جو جماعت احمدیہ کے یہاں مذہبی لیڈر ہیں نے بتایا 9/11 کے بعد عوام الناس میں اسلام کو جاننے کے لئے ایک خاص دلچسپی پائی جاتی ہے۔ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں مسجد آرہے ہیں اور اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ عام سوالات جو پوچھے جارہے ہیں وہ امن کے بارے میں، اسلام میں عورت کے مقام اور جماعت احمدیہ کے لوگوں کا کمیونٹی کے دوسرے لوگوں کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں، کے بارہ میں ہیں۔

یہ جلسہ 3 دن کا تھا تمام ملک سے لوگ اس میں شامل ہونے کے لئے آئے اور سب نے اکٹھے نمازیں پڑھیں ۔ اکٹھے کھانا کھایا۔ تقاریر میں اہم موضوع یہ تھا کہ ’’قرآن کریم دنیا کے لئے راہنما اصول، عورتوں کا مقام۔‘‘

خبر میں یہ بھی تھا کہ گذشتہ 9 سالوں سے ہمارا جلسہ سالانہ یہاں مسجد بیت الرحمان میں ہو رہا ہے۔

دی منٹگمری جرنل ۔ 10؍ستمبر 2002ء کی اشاعت میں KELLY SMITH رپورٹر ہیں۔ اس خبر کا عنوان ہے کہ مذہبی عبادت گاہیں 9/11 کی یاد میں۔ برسی منانے کے لئے تیار ہیں۔

خبر میں ہے کہ سارے ملک میں عیسائیوں کے چرچ اور دیگر عبادت گاہوں میں 9/11 کے حملہ کی یاد میں دعائیہ تقاریب منعقد کرنے کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔ بعض نے کہا کہ اس کے لئے زائد حفاظتی اقدامات کی ضرورت نہیں ہے۔

خبر میں ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں کے مذہبی لیڈروں کے بیانات شائع ہوئے ہیں۔ خاکسار کے حوالہ سے انہوں نے لکھا: کہ سال گزشتہ جب یہ واقعہ ہوا تو ایک غصہ سے بھرے شخص نے ہمارے خلاف الٹی سیدھی باتیں کی تھیں۔ امام شمشاد نے بتایا کہ ہمیں فون کالز بھی موصول ہوئی تھیں جن میں غم و غصہ کا اظہار تھا کیونکہ بعض اراکین اس واقعہ کے بعد عربوں اور مسلمانوں کے خلاف ہوگئے تھے۔ ایک خاتون تو مسجد کے اندر آگئی تھی اور اس نے بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا تھا۔ یہ معمول کے مطابق ہے۔ کونٹی کے حکومتی سطح پر ہمیں بہت اچھا تعاون حاصل رہا۔ شمشاد نے یہ بھی بتایا کہ ہم بھی دعائیہ تقریب کا انعقاد کر رہے ہیں جس میں علاقہ کے سبھی مذہبی لیڈروں اور ان کے پیروکاروں کو بلایا جا رہا ہے۔

ایکسپریس انڈیا نے 9؍جولائی 2002ء کی اشاعت صفحہ 4 پرقریباً پورے صفحہ کی خبر ہمارے جلسہ سالانہ کی دی۔ اس خبر کے رائٹر ہیں مسٹر LAVANYA RAO۔ انہوں نے خبر کے ساتھ دو تصاویر بھی دیں۔ ایک تصویر جلسہ سالانہ کے سٹیج کی ہے جس میں سٹیج پر لیفٹیننٹ گورنر میری لینڈ کیتھلین کینڈی، کونٹی ایگزیکٹیو ڈگ ڈنکن، سیرالیون کے ایمبیسڈر، کمیونٹی کے دیگر مذہبی و سیاسی لیڈرز بیٹھے ہیں۔ اس اجلاس کی صدارت اس وقت کے نائب امیر مکرم برادر منیر حامد صاحب کر رہے تھے۔ دوسری تصویر میں ایم ٹی اے کے والنٹیئر لیفٹیننٹ گورنر کیتھلین کینڈی کا انٹرویو لے رہے ہیں اور ان کے ایک طرف ایڈمرل لارسن ہیں اور دوسری جانب خاکسار ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ مسجد بیت الرحمان میں ہوا۔ اس جلسہ میں دیگر مسلمان مصر، انڈیا، پاکستان، کینیڈا، یوکے، مغربی افریقہ اور زائن سے شامل ہوئےتھے۔ احمدیہ مسلم جماعت اس وقت 172 ممالک میں پھیل چکی ہے ایک نوجوان اسلم شیخ نے کہا کہ میں نیو جرسی سے آیا ہوں۔ اتنا بڑا لوگوں کا مجمع دیکھ کر مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ بہت سے لوگ جو اس میں شامل تھے انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمیں مذہب نے ہی اکٹھا کیا ہے۔ عیسائیت کے بعد اس ملک میں مسلمان سب سے زیادہ ہیں۔ یہ جلسہ اس بات کے لئے بھی ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں باہمی احترام اور مذہب کے بارے میں زیادہ معلومات بہم پہنچائی جاسکیں۔ اخبار نے لکھا کہ اس جلسہ میں دیگر ریاستوں سے بھی نمائندگان شامل ہوئے۔ اس سال جلسہ کے منتظمین نے یہ خیال کیا کہ اس مرتبہ ’’اسلام کے پرامن مذہب‘‘ ہونے کو پیش کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار مسجد بیت الرحمان کے امام شمشاد احمد ناصر نے کیا یہ کامیاب جلسہ رہا جس میں 4500 سے زائد مندوبین شامل ہوئے، زیادہ تر موضوعات قرآن کریم اور عدل و مساوات کے بارے میں تھے۔ ایک سپیشل سیشن خواتین کے لئے الگ بھی تھا۔

حکومتی سطح پر کونٹی ایگزیکٹیومسٹر ڈگ ڈنگن، لیفٹیننٹ گورنر میری لینڈ کیتھلین کینڈی، سیرالیون کے سفیر اور دیگر مذہبی و سیاسی شخصیات تھیں۔ کونٹی ایگزیکٹیو ڈگ ڈنکن نے کہا کہ جہاد کے نام پر بہت تھوڑے ہیں جو امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن جماعت احمدیہ ایک مثال کے طور پر ہے جو صحیح مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی قدر اور احترام سکھا رہی ہے۔

خبر میں جماعت احمدیہ کا تعارف بھی دیا گیا ہے کہ اس کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ تھے اور اب ان کے چوتھے خلیفہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ جو 1982ء میں خلیفہ منتخب ہوئے۔

اس قسم کے جلسوں میں شامل ہونے سے نفرت میں کمی آئے گی۔ اخبار نے لکھا۔ لیفٹیننٹ گورنر کیتھلین کینڈی نے کہا کہ ہمیں پیار، محبت اور انصاف کا پرچار کرنا چاہئے۔ اور اس قسم کے جلسے یقیناً فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس جلسہ میں شامل ہونے کا اعزاز ملا ہے۔ خبر کے آخر میں جماعت احمدیہ کا تعارف ہے۔

دی گزٹ۔ 13؍نومبر 2002ء صفحہ A4 پر پورے صفحہ کی خبر دو تصاویر کے ساتھ دیتا ہے اس خبر کے رائٹر BROOKE STANLAY ہیں۔ انہوں نے رمضان المبارک کی خبر دی ہے۔ اخبار میں علاقہ کے دیگر مسلمان لیڈروں کے بھی انٹرویوز شامل ہیں۔ اور رمضان المبارک کی تمام تفصیل شائع کی ہے کہ مسلمان رمضان کیوں اور کس طرح گذارتے ہیں اور اس کے کیا کیا فوائد ہیں۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی کے حوالہ سے انہوں نے خاکسار کا انٹرویو بھی دیا جس میں لکھا کہ مسجد بیت الرحمان کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے کہا کہ ہم رمضان کے لئے اسلامک کیلنڈر کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اور دوسرے کلینڈر سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خاکسار کے حوالہ سے اخبار نے مزید لکھا کہ نماز فحش اور بے حیائیوں سے روکتی ہے۔

گزٹ ریجنل نیوز۔ نے اپنی اشاعت 15؍مئی 2002ء میں اپنے سٹاف رائٹر MANJU SUBRAMANYA کے حوالہ سے خبر دی ہے۔ 11؍ستمبر کے بعد مسلمانوں کے خلاف جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ منٹگمری کونٹی میں گذشتہ 5سالوں کی نسبت صرف ایک سال ہی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور جرائم میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ کونٹی کے چیف پولیس کو 42 رپورٹس ایسی رجسٹرڈ ہوئی ہیں جن میں یہ بات ہے کہ مذہبی منافرت میں صرف ایک سال ہی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

اخبار نے مذہبی منافرت کی مثالیں بیان کی ہیں کہ مسجد میں یا یہودیوں کی عبادت گاہوں میں داخل ہوتے ہوئے کسی چیز پر یا دیوار پر غلط نشان لگانا ان کے جذبات کو مجروح کرنا ہے یا کسی فرد پر یا اس کے پیروکاروں پر مذہبی منافرت کے سلسلہ میں غلط بیانات دینا جب کہ کرنے والے کی نسبت دوسرے کے جذبات کو مجروح کرنا ہوتا ہے وغیرہ یا کسی خاص گروہ کو اس کا نشانہ بنانا ہے۔

منٹگمری کونٹی کے کمیشن ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے کہا کہ ایسی صورت میں ہمیں فوری ایکشن لینا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ دیر کریں اور معاملہ بگڑ جائے۔ پولیس کے نمائندہ نے اس موقعہ پر کہا کہ مسجد (اس سے مراد احمدیہ مسجد ہے) میں بعض لوگوں نے فون کر کے بڑے غلط قسم کے پیغام چھوڑے ہیں جیسا کہ۔ اسلام مردہ باد، امریکہ زندہ باد اور یہ کہ تمہیں اس کی سزا بھگتنی پڑے گی وغیرہ۔ مسٹر بورجو کہ پولیس کے نمائندہ تھے نے کہا کہ اسرائیل زندہ باد کا پیغام بھی مسجد کی پیغام والی مشین میں چھوڑا گیا ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

٭…٭…٭

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر ۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

اگر خدا کو نہیں پہچانو گے …

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 دسمبر 2020