• 23 اپریل, 2024

چوتھا سبب عملی اصلاح کی کمزوری کا یہ ہے کہ عمل کا تعلق عادت سے ہے

چوتھا سبب عملی اصلاح کی کمزوری کا یہ ہے کہ عمل کا تعلق عادت سے ہے
اور عادت کی وجہ سے کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
چوتھا سبب عملی اصلاح کی کمزوری کا یہ ہے کہ عمل کا تعلق عادت سے ہے اور عادت کی وجہ سے کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور خصوصاً ایسے وقت میں جب مذہب کے ساتھ حکومت نہ ہو۔ یعنی حکومت کے قوانین کی وجہ سے بعض عملی اصلاحیں ہو جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اسلام میں جن باتوں کو اخلاقی گراوٹیں کہا جاتا ہے اور اُس کی اصلاح کی طرف اسلام توجہ دلاتا ہے ان میں اسلامی ممالک میں انصاف کا فقدان ہونے کی وجہ سے، دو عملی کی وجہ سے، باوجود اسلامی حکومت ہونے کے اسلامی ممالک میں بھی عملی حالت قابلِ فکر ہے اور غیر اسلامی ممالک میں بعض باتیں جن کے لئے اصلاح ضروری ہے، وہ اُنہیں بدعملی اور اخلاقی گراوٹ نہیں سمجھتے، اس لئے بعض باتوں کی عملی اصلاح نہیں ہو سکتی۔

پس عملی اصلاح کے لئے حکومت کا ایک کردار ہے۔ جہاں مذہب اور حکومت کی عملی اصلاح کی تعریف ایک ہے اور عملی اصلاح اُس کے مطابق ہے، وہاں عادتیں قانون کی وجہ سے ختم کی جا سکتی ہیں۔ لیکن جہاں حکومت کا قانون عملی اصلاح کے لئے مددگار نہ ہو، وہاں عادتیں نہیں بدلی جا سکتیں اور عملی کمزوریاں معاشرے کا ناسور بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ آزادی کے نام پر ترقی یافتہ ممالک میں ہم بہت سی عملی کمزوریاں دیکھتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ سے عملی کمزوریاں اب دنیا میں ہر جگہ پھیلائی جا رہی ہیں اور ایسے ماحول میں پڑنے والے، ماحول کا حصہ ہونے کی وجہ سے، مستقل ان چیزوں کو دیکھ کر عادتاً بعض عملی کمزوریاں اپنا چکے ہیں۔ اور لاشعوری اور غیر ارادی طور پر بچے اور یا جو نوجوان ہیں اُن میں بھی، لڑکے اور لڑکیوں میں بھی یہ کمزوریاں راہ پکڑ رہی ہیں اور جب عادت پکی ہو جائے تو پھر اُسے چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً نشہ ہے، اس کی عادت پڑ جائے تو چھوڑنا مشکل ہے۔ ایک شخص یہ قربانی تو کر لیتا ہے کہ تین خداؤں کی جگہ ایک خدا کو مان لے اور یہ تو کبھی نہیں ہوگا کہ جب ایک خدا کو مان لیا تو دوسرے دن اُسے ایک خدا کی جگہ تین خداؤں کا خیال آ جائے۔ مگر نشہ کرنے والے کے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہو گی کہ نشہ مل جائے۔ ساری عمر کے عقیدے کو تو ایک شخص چھوڑ سکتا ہے، مگر نشہ کی عادت جو چند مہینوں یا چند سالوں کی عادت ہے اس میں ذرا سی نشے کی کمی ہو جائے تو وہ اُسے بے چین کر دیتی ہے۔ سگریٹ پینے والے بھی بعض ایسے ہی ہیں جو اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر، اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر، اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر، اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کرجماعت میں بھی داخل ہوئے، انہوں نے قربانی دی اور احمدی ہو گئے لیکن اگر سگریٹ چھوڑنے کو کہو تو سو بہانے تلاش کریں گے۔ کسی کا پیٹ پھول جاتا ہے، کسی کو نشہ نہ کرنے سے نیندنہیں آتی، کسی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اُس کے خیال میں ختم ہو جاتی ہیں اور اس کے لئے وہ پھر بے چین رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ صرف اُن کے لئے نہیں جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں، ہر ایک شخص کے لئے ہے۔ بعض بہت نیک کام کر رہے ہوتے ہیں اور بڑی قربانی کر کے کر رہے ہوتے ہیں لیکن چھوٹی سی عادت نہیں چھوڑ سکتے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہمارے ایک تایا تھے، جو دہریہ تھے اور بے دین تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس جب ایسے دوست آتے تھے جن کو حُقّے کی عادت تھی تو وہاں تو حُقّہ ملتا نہیں تھا، لیکن یہ جو تایا تھے اُن کے ہاں حُقّہ ہر وقت چلتا رہتا تھا اَور بھی ان کونشے کی عادت تھی، تو یہ حقہ پینے والے وہاں چلے جایا کرتے تھے اور حُقّے کے نشے کی وجہ سے اُن کی فضول اور بیہودہ باتیں سننے پر مجبور ہوتے تھے۔ اُن تایا سے ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پوچھا کہ کبھی آپ نے نماز بھی پڑھی ہے؟ اُن کی دینی حالت کا یہ حال تھا، کہنے لگے کہ بچپن سے ہی میری طبیعت ایسی ہے کہ جب میں کسی کو سر نیچے کئے دیکھتا ہوں تو مجھے ہنسی آنی شروع ہو جاتی ہے۔ مراد یہ تھی کہ جب میں کسی کو سجدے میں دیکھتا ہوں، نماز پڑھتے دیکھتا ہوں تو اُس وقت سے مَیں مذاق اُڑایا کرتا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ان صاحب کے پاس دوست چلے جاتے تھے اور حُقّے کی مجبوری کی وجہ سے اسلام کے خلاف اور سلسلے کے خلاف باتیں بھی سننی پڑتی تھیں اور سنتے تھے۔ ایک دفعہ ایک دوست وہاں گئے اور اپنے آپ کو گالیاں دیتے ہوئے، برا بھلا کہتے ہوئے باہر نکلے۔ کسی نے پوچھا یہ کیا ہوا ہے؟ تو کہتے ہیں، اس حقے کی وجہ سے، اس لعنت کی وجہ سے میرے نفس نے مجھے ایسی باتیں سننے پر مجبور کیا ہے جو عام حالات میں مَیں برداشت نہیں کر سکتا۔

تو عادتیں بعض دفعہ انسان کوبہت ذلیل کروا دیتی ہیں۔ بعض لوگوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے۔ لاکھ سمجھاؤ، نگرانی کرو مگر جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔ اُن کی اصلاح مشکل ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہو نہیں سکتی۔ اگر اصلاح نہ ہو سکے تو اُن کو سمجھانے کی ضرورت کیا ہے۔ خطبات میں بھی مستقل سمجھایا جاتا ہے، نصیحتیں کی جاتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا سمجھائے جانے کا حکم ہے۔ اگرایمان کی کچھ بھی رمق ہے تو نصیحت بہرحال فائدہ دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ مومنوں کو نصیحت کرو اُن کے لئے فائدہ مند ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ367-369 خطبہ جمعہ 5؍جون 1936ء)

(خطبہ جمعہ 20؍دسمبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اخلاق کامل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 دسمبر 2022