• 25 اپریل, 2024

یہ معیار ہے جس پہ ہم نے اپنے آپ کو پرکھنا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر اس کے بعد یہ سوال ہے کہ کیا ہمارا سال جھوٹ سے مکمل طور پر پاک ہو کر اور کامل سچائی پر قائم رہتے ہوئے گزرا ہے؟ یعنی ایسا موقع آنے پر جب سچائی کے اظہار سے اپنا نقصان ہو رہا ہو لیکن پھر بھی سچائی کو نہ چھوڑا جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا معیار یہ مقرر فرمایا ہے کہ: ’’جب تک انسان اُن نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا‘‘۔ فرمایا ’’سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ360)

پھر یہ سوال ہے۔ کیا ہم نے اپنے آپ کو ایسی تقریبوں سے دُور رکھا ہے جن سے گندے خیالات دل میں پیدا ہو سکتے ہوں۔ یعنی آجکل اس زمانے میں ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے۔ یا اس قسم کی چیزیں اور ان پر ایسے پروگرام جو خیالات کے گندہ ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں کیا ان سے ہم نے اپنے آپ کو بچایا؟۔ اگر ہم ان ذریعوں سے گندی فلمیں اور پروگرام دیکھ رہے ہیں تو ہم عہد بیعت سے دُور ہٹ گئے ہیں اور ہماری حالت قابل فکر ہے کیونکہ یہ باتیں ایک قسم کے زنا کی طرف لے جاتی ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بدنظری سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں؟ کیونکہ بدنظری کا جہاں تک سوال ہے۔ اس میں یہ جو حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو اور غضِّ بصر سے کام لو، یہ عورتوں اور مَردوں دونوں کے لئے ہے کیونکہ کھلی نظر سے دیکھنے سے (بدنظری کے) امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے فسق و فجور کی ہر بات سے اس سال میں بچنے کی کوشش کی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ153مسند عبد اللہ بن مسعود حدیث نمبر4178 عالم الکتب بیروت 1998ء)

سختی سے، لڑائی سے، جب لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اس وقت آدمی سخت الفاظ بھی کہہ دیتا ہے اور برے الفاظ بھی کہہ دیتا ہے اور ایک مومن دوسرے مومن سے جب یہ کر رہا ہو تو یہ فسق ہے بلکہ کسی سے بھی جب کر رہا ہو تو یہ فسق ہے۔

پھر آپ نے فرمایا کہ تاجر فاجر ہوتے ہیں۔ عرض کیا گیا یہ تو حلال ہے۔ تجارت کرنا تو حلال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مگر جب یہ لوگ سودابازی کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور قسمیں اٹھا اٹھا کر قیمتیں بڑھاتے ہیں۔ اسی طرح آپ نے شکر اور صبر نہ کرنے والوں کو بھی فاسق فرمایا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ385-386 حدیث عبد الرحمن بن شبل حدیث نمبر15752-15753عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس یہ ہے گہرائی فسق سے بچنے کی۔

پھر سوال یہ ہے جو ہم نے اپنے آپ سے کرنا ہے کہ کیا ہم نے اپنے آپ کو ہر ظلم سے بچا کر رکھا ہے۔ یعنی ظلم کرنے سے بچا کے رکھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کی ایک ہاتھ زمین بھی دبا لینا۔ تھوڑی سی زمین بھی کسی کی دبا لینا یا کسی کا ایک کنکر جو چھوٹا سا پتھر جو ہے، کنکری، مٹی کا ٹکڑہ، وہ بھی غلط طریق سے لینا ظلم ہے۔

(صحیح البخاری کتاب فی المظالم و الغضب باب اثم من ظلم شیئا من الارض حدیث 2452)

پس یہ معیار ہے جس پہ ہم نے اپنے آپ کو پرکھنا ہے۔

پھر سوال یہ کرنا ہے کہ کیا ہم نے ہر قسم کی خیانت سے اپنے آپ کو پاک رکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے بھی خیانت نہیں کرنی جو تم سے خیانت کرتا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب البیوع باب فی الرجل یاخذ حقہ من تحت یدہ حدیث 3534)۔

یہ ہے معیار۔

(خطبہ جمعہ 30؍دسمبر 2016ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مدرسۃ الحفظ گھانا میں سالانہ ورزشی مقابلہ جات کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جنوری 2023