• 15 مئی, 2024

تعلق باللہ

اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۷﴾

(ہود: 3)

ترجمہ: اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔

آنحضورؐ نے تعلق باللہ کے حوالے سے بہت دلنشین انداز میں یہ مضمون سمجھا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے:
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے جن میں ایک عورت بھی تھی جب وہ قیدیوں میں کسی بچہ کو دیکھتی تو اسے اٹھاتی اپنے سینہ سے لگاتی اور پھر اسے دودھ پلاتی۔ دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتی رہی یہاں تک کہ اس کا اپنا بچہ اسے مل گیا اور وہ اسے گود میں لے کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ رسول کریم ؐ نے اس عورت کو دیکھا اور پھر صحابہؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنا بہت بڑا عمل ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص اس سے کہے کہ اپنے بچہ کو آگ میں پھینک دے تو کیایہ اسے پھینک دے گی؟ صحابہؓ نے عرض کیا خدا کی قسم! اگر اس کا بس چلے تو وہ کبھی اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینکے گی۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا تم نے جو اس عورت کی محبت کا نظارہ دیکھا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے۔ ماں سے تو دس آدمی مل کر اس کا بچہ چھین سکتے ہیں مگر وہ کون ماں کا بچہ ہے جو خدا کی گود سے کسی کو چھین سکے۔ اس لیے خدا کی محبت زیادہ شاندار اور زیادہ پائیدار اور زیادہ اثر رکھنے والی ہے۔

(مسلم کتاب التوبہ باب فی سعۃ)

اس اہمیت کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے:
’’حضرت ابومالک رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔آپؐ فرماتے تھے کہ جس نے اقرار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور انکار کیا ان کاجن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے تو اس کا مال اور اس کا خون قابل احترام ہوجاتے ہیں اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو جاتا ہے۔‘‘

(ماہنامہ انصاراللہ مارچ 2014ء)

ایک ایسے دور میں جبکہ کوئی حضرت مسیح موعودؑ عکو نہیں مان رہا تھا جن ابتدائی لوگوں نے آپ کو مانا اور آپ کے ماننے کے نتیجے میں آپ کے صحابہ کا خداتعالیٰ سے تعلق قائم ہوا ان کی کیا اہمیت ہے۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ لیلۃ القدر کی لطیف تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہم لیلۃ القدر کے دونوں معنوں کومانتے ہیں ایک وہ عرف عام میں ہیں کہ بعض راتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خداتعالیٰ ان میں دعائیں قبول کرتا ہے اور ایک اس سے مراد تاریکی کے زمانہ کی ہے جس میں عام ظلمت پھیل جاتی ہے۔ حقیقی دین کا نام و نشان نہیں رہتا۔ اس میں جو شخص خداتعالیٰ کے سچے متلاشی ہوتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں وہ بڑے قابل قدر ہوتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بادشاہ ہو اور اس کا ایک بڑا لشکر ہو دشمن کے مقابلہ کے وقت سب لشکر بھاگ جاوے اور صرف ایک یا دو آدمی رہ جاویں اور انہیں کے ذریعہ سے اسے فتح حاصل ہو تو اب دیکھ لو کہ ان ایک یا دو کی بادشاہ کی نظر میں کیا قدر ہوگی۔ پس اس وقت جبکہ ہر طرف دہریت پھیلی ہوئی ہے کوئی تو قول سے اور کوئی عمل سے خداتعالیٰ کا انکار کر رہا ہے ایسے وقت میں جو خداتعالیٰ کا حقیقی پرستار ہوگاوہ بڑا قابلِ قدر ہوگا۔‘‘

(روزنامہ الفضل یکم اکتوبر 2007ء صفحہ اول)

حضرت مسیح موعودؑ کے ماننے والے آپ کے دینی بھائی ہیں لہٰذا ان کے لیے ایک دینی اخوت کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے صحابہ کا خداتعالیٰ سے کامل تعلق تھا جو اٹوٹ تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’جب تک انسان خداتعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان پر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے بات نہیں بنتی۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔

اور حقوق العباد بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو دینی بھائی ہوگئے ہیں۔ خواہ وہ بھائی ہے یا باپ یا بیٹا مگر سب میں ایک دینی اخوت ہے اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی۔

اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اسی کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں، تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے۔ اس لیے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے۔ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرایہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لیےدعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا ہے۔۔۔۔ (المومن: 61) میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی کہ دشمن کے لیے دعا کروتو قبول نہیں کروں گا۔ بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لیے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لیے اکثر دعا کیا کرتے تھے۔ اس لیے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے اور حقیقتاً موذی نہیں ہونا چاہئے۔ شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا۔ جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو۔ ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں۔ خداتعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے، ایسا ہی بیزار ہے۔ جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایا جاوے۔ ایک جگہ وہ فصل نہیں چاہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے۔ اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ اس لیے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیار نہیں کرتی۔ اس میں اور اس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کا ہے تو اس کے ساتھ نہایت رِفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہئے اور ان سے محبت کرنی چاہئے کیونکہ خدا کی یہ شان ہے۔

بداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم

تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہئے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے۔۔۔ یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم جلیس بدبخت نہیں ہوتا۔ یہ خلاصہ ہے ایسی تعلیم کا جو تخلَّقُوْا بِأخلاق اللّٰه میں پیش کی گئی ہے‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ68)

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے جہاں قیامِ جماعت کے وقت یہ فرمایا تھا کہ میری دعاؤں، توجہ اور متبعین کی تربیت باطنی کے نتیجہ میں مجھ پر ایمان لانے والوں کا خدا سے تعلق قائم ہوجائے گا اور وہ ان سے ہم کلام ہوگا اور وہ ایک دنیا کو راہ راست کی طرف لانے کا موجب ہوں گے۔ وہاں ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا کہ اصلاح باطنی اور تعلق باللہ کا یہ سلسلہ میرے صحابہ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ قیامت تک میرے سلسلہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے۔ چنانچہ آپ نے اشتہار 4، مارچ 1889ء کے آخر میں یہ بھی فرمایا:
’’وہ (خداتعالیٰ) اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر ایک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی۔ اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے اور وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہر ایک طاقت اور قدرت اسی کو ہے۔‘‘

(روزنامہ الفضل یکم اکتوبر 2007ء)

’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پیر‘‘

حضرت مصلح موعودؑ نے بھی تعلق باللہ کے موضوع پر تقریر فرمائی تھی جس میں آپ نے فرمایا:
میری آج کی تقریر کا موضوع تعلق باللہ ہے۔ میں نے پچھلے دنوں اپنے ایک خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ بہت سے لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا کریں بیٹا ہوجائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میری بیوی اچھی ہوجائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے کوئی بیوی مل جائے۔۔۔

غرض جتنی ضرورتیں بیان کی جاتی ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہوتی ہیں جو اس دنیا کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں حالانکہ سب سے مقدم دعا اگر کوئی ہوسکتی ہے تو یہی ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہوجائے اور سب سے مقدم سوال اگر کوئی شخص کرسکتا ہے تو یہی ہے کہ میری اس بارہ میں رہنمائی کی جائے کہ مجھے تعلق باللہ کس طرح حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے۔ اگر ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہوجائے تو باقی سب چیزیں اسی میں آجاتی ہیں جیسے کہتے ہیں کہ ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔‘‘

’’تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ کوئی بزرگ تھے جن کے ہمسایہ میں کوئی امیر شخص رہتا تھا جو رات دن ناچ گانے کی مجالس گرم رکھتا تھا اور ہر وقت شوروغوغا ہوتا رہتا تھا چونکہ اس طرح اس کی عبادت میں خلل واقعہ ہوتا تھا ایک دن انہوں نے اسے سمجھایا اور کہا کہ تم رات کو باجے بجاتے اور اونچا اونچا گاتے ہو اس طرح میری عبادت میں خلل آتا ہے مناسب یہ ہے کہ تم اس قسم کی مجلسوں کو بند کردو۔ وہ امیر آدمی بادشاہ کا مصاحب تھا اسے یہ بات بری لگی اور اس نے بادشاہ کے پاس شکایت کردی کہ اس طرح بعض لوگ ہمارے گانے بجانے میں مزاحمت کرتے ہیں۔ بادشاہ نے فوج کا ایک دستہ اس کے مکان پر بھجوا دیا۔ جب شاہی فوج آگئی تو اس نے اس بزرگ کو کہلا بھجوایا کہ میری حفاظت کے لیے فوج آگئی ہے اگر طاقت ہے تو مقابلہ کرلو۔ اس بزرگ نے جواب دیا کہ ان سامانوں سے تو مقابلہ کی مجھ میں طاقت نہیں لیکن لڑائی ہم نے بھی نہیں چھوڑنی۔ اگر ہم تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں تو نہ معلوم ہمارا تیر نشانہ پر پڑے یا نہ پڑے اس لیے ظاہری تیر اور تلوار کی بجائے ہم رات کے تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں گے۔ جب یہ پیغام اسے پہنچا تو معلوم ہوتا ہے اس کے اندر تھوڑی بہت نیکی تھی پہلے تو وہ خاموش رہا لیکن کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس کی چیخ نکل گئی اور اس نے کہا مجھے معاف کیا جائے آج سے باجا،گانا سب بند ہوجائے گا کیونکہ رات کے تیروں کے مقابلہ کی نہ مجھ میں طاقت ہے اور نہ میرے بادشاہ میں طاقت ہے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ خداتعالیٰ کا ملنا اور اس سے انسان کا تعلق پیدا ہوجانا یہ سب سے اہم اور ضروری چیز ہے اور اگر خدا مل سکتاہے تو پھر اس میں کوئی شبہ ہی نہیں رہتا کہ ہمارا سب سے بڑا فرض یہی رہ جاتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق پیدا کریں اور اس طرح اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرلیں۔‘‘

(انوار العلوم جلد23 صفحہ125-126)

حضرت مسیح موعودؑ  فرماتے ہیں:
’’خداتعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہراوے اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے کہ تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہوجاؤں اور ان کی آلودگی کے ازالہ کے لیے رات دن کوشش کرتا رہوں اور ان کے لیے وہ نور مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور بالطبع خداتعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان کے لیے وہ روح قدس طلب کروں جو ربوبیت تامہ او ر عبودیت خاصہ کے جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اور روح خبیث کی تکفیر سے ان کی نجات چاہوں کہ جو نفس امارہ اور شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے۔ سو میں بتوفیق تعالیٰ کاہل اور سست نہیں رہوں گا اور اپنے دوستوں کی اصلاح طلبی سے جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا بصدق قدم اختیار کرلیا ہے غافل نہیں رہوں گا بلکہ ان کی زندگی کے لیے موت تک دریغ نہیں کروں گا۔‘‘

(روحانی خزائن جلد3، ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ562)

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی خصوصی دعاؤں، خاص توجہ اور تربیت باطنی کی شب و روز جاری رہنے والی مساعی کے نتیجہ میں دیگر صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کو روحانیت کی معراج یعنی تعلق باللہ میں ترقی کا جو رفیع الشان موقع حاصل ہوا اس کا اندازہ روزمرہ ظاہر ہونے والے ان واقعات سے لگایا جا سکتا ہے جو قبولیت دعا کے سلسلہ میں دعا کی درخواست کرنے والے احباب کے ہرروز بڑی کثرت سے مشاہدہ میں آتے تھے۔ لوگ ہر روز قادیان میں بھی اور ہجرت کے بعد ربوہ میں بھی نماز عصر کے بعد آپ کے گھر پر بڑی کثرت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور اپنی اپنی حاجات کے متعلق دعا کی درخواست کرتے تھے۔ آپ ہر ایک کی درخواست سننے کے بعد اسی وقت ہاتھ اٹھا کر جناب الٰہی میں دعا کرتے۔ جملہ حاضرین بھی ہاتھ اٹھا کر دعا میں شریک ہوتے۔ دعا کے دوران جو کشفی نظارہ آپ کو نظر آتا اس کی روشنی میں آپ اسی وقت بتا دیتے کہ کام ہوجائے گا یا نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو کس حد تک ہوگا اور کس حد تک نہ ہونا مقدر ہے۔

ایک اور اہم امر جس کا ذکر کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے جہاں قیام جماعت کے وقت یہ فرمایا تھا کہ میری دعاؤں، توجہ اور متبعین کی تربیت باطنی کے نتیجہ میں مجھ پر ایمان لانے والوں کا خدا سے تعلق قائم ہوجائے گا اور وہ ان سے ہم کلام ہوگا اور وہ ایک دنیا کو راہ راست کی طرف لانے کا موجب ہوں گے۔ وہاں ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا کہ اصلاح باطنی اور تعلق باللہ کا یہ سلسلہ میرے رفقاء تک محدود نہیں رہے گا۔بلکہ قیامت تک میرے سلسلہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے چنانچہ آپ نے اشتہار 4 مارچ 1889ءکے آخر میں یہ بھی فرمایا:
’’وہ (خداتعالیٰ) اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر ایک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی۔ اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے اور وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہر ایک طاقت اور قدرت اسی کو ہے۔‘‘

(اشتہار 4؍مارچ 1889ء۔ روزنامہ الفضل یکم اکتوبر 2007ء صفحہ3-4)

تعلق باللہ

حضرت مسیح موعودؑ  فرماتے ہیں:
’’مجھ سے خداتعالیٰ باتیں کرتا ہے اور مجھ سے ہی نہیں جو شخص میری اتباع کرے گا اور میرے نقش قدم پر چلے گا اور میری تعلیم کو مانے گا اور میری ہدایت کو قبول کرے گا خداتعالیٰ اس سے بھی باتیں کرے گا۔۔۔لکھا ہے کہ مسیح موعودؑ کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہوگا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا اور نابالغ بچے نبوت کریں گے اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے اور یہ سب کچھ مسیح موعودؑ کی روحانیت کا پرتوہ ہوگا۔‘‘

(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد13 صفحہ475)

(عمر احمد انصاری۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

مدرسۃ الحفظ گھانا میں سالانہ ورزشی مقابلہ جات کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جنوری 2023