• 15 مئی, 2024

کيا پوروشا پورہ کا پيالہ واقعی حضرت گوتم بدھاؑ کا تھا؟

جب ہم جماعت احمديہ کے لٹريچر کا مطالعہ کرتے ہيں تو ہميں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود عليہ السلام کو حضرت عيسیٰ عليہ السلام کے صليبی واقعہ کے بعد بنی اسرائيل کی گمشدہ بھيڑوں (يعنی قبائل) کی تلاش ميں مشرقی علاقوں ميں آنے کے بارے ميں تحقیق کرنے اور تاريخی شواہد کو اکٹھا کرنے ميں بہت دلچسپی تھی۔ آپؑ کی خواہش رہتی تھی کہ اس سلسلے ميں کسی طرف سے کوئی نہ کوئی خوش خبری آتی رہے۔اس بات کا اندازہ ہم ان چند ايک مثالوں سے لگا سکتے ہيں کہ ايک روز آپؑ کی خدمت ميں ايک خط آيا جس ميں آپؑ کو آگاہ کيا گيا کہ جلال آباد کے علاقے ميں يوز آسف نبی کا چبوترہ موجود ہے اور وہاں مشہور ہے کہ دو ہزار برس ہوئے کہ يہ نبی شام سے يہاں آيا تھا۔ اس خط سے حضرت اقدسؑ اس قدر خوش ہوئے کہ فرمايا: اللہ تعالیٰ گواہ اور عليم ہے کہ اگر کوئی مجھے کروڑوں روپے لا ديتا تو ميں کبھی اتنا خوش نہ ہوتا جيسا اس خط نے مجھے خوشی بخشی ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 203)

اسی طرح ايک دفعہ آپؑ نے حضرت حاجی سيٹھ اللہ رکھا عبدالرحمٰن مدراسیؓ صاحب کو اپنی طبيعت کی ناسازی کے باوجود مدراس ايک خط لکھا۔جس ميں آپؑ نے ان کو ايک ميلا يوز آسف (جو مدراس ميں ہر سال منعقد ہوتا تھا) کے حوالے سے ہر طرح کی تفصيلات حاصل کرنے کے بارے ميں ارشاد فرمايا مثلاً وہاں يوز آسف کس کو کہتے ہيں، وہ کہاں سے آيا تھا اور کس قوم ميں سے تھا۔ اس جگہ يوز آسف کا کوئی مقام تھا يا ان کی زندگی کے بارے ميں کوئی تحريرات موجود ہيں

(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 395)

حضور عليہ السلام نے ايک الگ موقعہ پر ايک وفد بھی تحقیق کی غرض سے ان علاقوں ميں بھيجنے کے لئے تيار کيا جہاں صليبی واقعہ کے بعد حضرت عيسیٰ عليہ السلام کے آنے کےآثار ملنے کا امکان تھا۔ حضرت مسیح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں کہ يہی وجہ ہے کہ ہم وفات مسیح کے مسئلے پر زيادہ زور ديتے ہيں، کيونکہ اسی موت کے ساتھ عيسائی مذہب کی بھی موت ہے اور اسی غرض سے ميں نے کتاب ’’مسیح ہندوستان ميں‘‘ لکھنی شروع کی ہے اور اسی کتاب کے بعض مطالب کی تکميل کے لئے ميں نے مناسب سمجھا ہے کہ اپنی جماعت ميں سے چند آدميوں کو بھيجوں جو ان علاقہ جات ميں جا کر ان آثار کا پتہ لگائے۔ جن کا وہاں موجود ہونا بتايا جاتا ہے۔ اگرچہ ميں يقين رکھتا ہوں کہ يہ سفر جو تجويز کيا گيا ہے اگر نہ بھی کيا جاتا، تو بھی خدا تعا لیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس قدر شواہد اور دلائل ہم کو اس امر کے لئے دے دئيے ہيں، جن کو مخالف کا قلم اور زبان توڑ نہيں سکتی، ليکن مومن ہميشہ ترقيات کی خواہش کرتا ہے اور وہ زيادہ سے زيادہ حقائق اور معارف کا بھوکا پياسا ہوتا ہے۔ کبھی ان سے سير نہيں ہوتا۔ اس لئے ہماری بھی يہی خواہش ہے کہ جس قدر ثبوت اور دلائل اور مل سکيں وہ اچھا ہے

(ملفوظات جلد اول صفحہ 222-223)

خاکسار کا يہ مضمون بھی اسی سلسلے کی ايک کڑی ہے۔

حضرت گوتم بدھاؑ اور حضرت عيسیٰ ناصری ؑ

حضرت مسیح موعود عليہ السلام نے اپنی معرکۃالآ را ء تصنيف ’’مسیح ہندوستان ميں‘‘ ميں فرمايا ہے: اور ضرور تھا کہ مسیح اس سفر کو اختيار کرتا۔ کيونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے يہی اس کی نبوت کی علت غائی تھی کہ وہ ان گمشدہ يہوديوں کو ملتا جو ہندوستان کے مختلف مقامات ميں سکونت پذير ہو گئے تھے وجہ يہ کہ درحقيقت وہی اسرائيل کی کھوئی ہوئی بھيڑيں تھيں جنھوں نے ان ملکوں ميں آ کر اپنے باپ دادے کا مذہب بھی ترک کر ديا تھا اور اکثر ان کے بدھ مذہب ميں داخل ہو گئے تھے اور پھر رفتہ رفتہ بت پرستی تک نوبت پہنچی تھی

(مسیح ہندوستان ميں صفحہ 19)

پھر آپؑ مزيد فرماتے ہيں: تو اس ملک ميں خدائے تعالیٰ نے ان کو بہت عزت دی اور بنی اسرائيل کی وہ دس قوموں جو گم تھيں اس جگہ آ کر ان کو مل گئيں۔ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائيل اس ملک ميں آکر اکثر ان ميں سے بدھ مذہب ميں داخل ہو گئے تھے اور بعض ذليل قسم کی بت پرستی ميں پھنس گئے تھے۔ سو اکثر ان کے حضرت مسیح کے اس ملک ميں آنے سے راہ راست پر آگئے۔

(مسیح ہندوستان ميں صفحہ 57-58)

نيز فرماتے ہيں: اور چونکہ ايک گروہ يہوديوں کا بدھ مذہب ميں داخل ہو چکا تھا اس لئے ضرور تھا کہ وہ نبی صادق بدھ مذہب کے لوگوں کی طرف توجہ کرتا۔ سو اس وقت بدھ مذہب کے عالموں کو جو مسیحا بدھ کے منتظر تھے يہ موقع ملا کہ انھوں نے حضرت مسیح کے خطابات اور ان کی بعض اخلاقی تعليميں جيسا کہ يہ کہ ’’اپنے دشمنوں سے پيار کرو اور بدی کا مقابلہ نہ کرو‘‘ اور نيز حضرت مسیح کا بگوا يعنی گورا رنگ ہونا جيسا کہ گوتم بدھ نے پيش گوئی ميں بيان کيا تھا يہ سب علامتيں ديکھ کر ان کو بدھ قرار دے ديا اور يہ بھی ممکن ہے کہ مسیح کے بعض واقعات اور خطابات اور تعليميں اسی زمانے ميں گوتم کی طرف بھی عمداً يا سہواً منسوب کر ديئے گئے ہوں کيونکہ ہميشہ ہندو تاريخ نويسی ميں بہت کچے رہے ہيں اور بدھ کے واقعات حضرت مسیح کے زمانے تک قلمبند نہيں ہوئے تھے اس لئے بدھ کے عالموں کو بڑی گنجائش تھی کہ جو کچھ چاہيں بدھ کی طرف منسوب کر ديں سو يہ قرين قياس ہے کہ جب انھوں نے حضرت مسیح کے واقعات اور اخلاقی تعليم سے اطلاع پائی تو ان امور کو اپنی طرف سے اور کئی باتيں ملا کر بدھ کی طرف منسوب کر ديا ہو گا۔

(مسیح ہندوستان ميں صفحہ 81)

سب سے اہم بات جو اس اقتباس ميں حضرت مسیح موعود عليہ السلام نے بيان فرمائی ہے وہ يہ ہے کہ ممکن ہے کہ حضرت عيسیٰ عليہ السلام کے مشرقی علاقوں ميں آنے کے بعد آپؑ کے بعض واقعات، اقوال، خطابات اور تعليمات کو عمداً يا سہواً حضرت بدھاؑ کے واقعات، اقوال، خطابات اور تعليمات کی طرف منسوب کر ديا گيا ہو۔ خاکسار کی رائے ميں حقيقت بھی يہی معلوم ہوتی ہے۔ لہذا حضرت عيسیٰؑ اور حضرت بدھاؑ کے واقعات، اقوال، خطابات اور تعليمات کا کچھ حصہ آپس ميں مل جل جانےکی وجہ سے حضرت عيسیٰؑ کی موجودگی کا اس حوالے سے پتہ لگانا (کہ وہ ان مشرقی علاقوں ميں تشريف لائے تھے) مشکل ہو گيا ہے۔ اس کے برعکس حضرت بدھاؑ کی پرستش کے آثار بکثرت ملتے ہيں جبکہ حضرت عيسیٰؑ کی موجودگی کے آثار دب گئے ہيں۔ حضرت مسیح موعود عليہ السلام کی يہ بات کہ حضرت عيسیٰ عليہ السلام اور حضرت بدھا عليہ السلام کے واقعات، اقوال، خطابات اور تعليمات کا کچھ حصہ آپس ميں مل جل گيا ہو گا بہت اہم بات ہے جس کو بنياد بنا کر ہم حضرت عيسیٰ عليہ السلام کی موجودگی کو ان علاقوں ميں تلاش کرنے کی کوشش کر سکتے ہيں۔ لہذا اس مضمون کے لکھنے کا مقصد بھی حضرت مسیح موعود عليہ السلام کی اس بيان کردہ حقيقت کو مدنظر رکھتے ہوئے مشرقی افغانستان اور شمالی پاکستان (قديمی نام: گندھارا) کے علاقوں ميں حضرت عيسیٰ عليہ السلام کی موجودگی کا پتہ لگانے کی ادنیٰ سی کوشش ہے۔ اس سلسلے ميں پروفيسر شوشين کووياما اور پروفيسر جوہينگ رہی کی تحقیق سے استفادہ کيا گيا ہے۔ جاپان کے پروفيسر شوشين کووياما ايک مشہور ماہرآثار قديمہ اور تاريخ دان ہيں اور ساؤتھ کوريا کے پروفيسر جو ہينگ رہی بدھ مت کے آرٹ ہسٹورين ہيں۔

جيبن (گندھارا) کا علاقہ اور بدھاؑ کے تبرکات

انڈيا سے بدھ مت کے مونکس (راہبوں) نے تبليغ کی غرض سے چين کا سفر اختيار کيا جس کے بعد بالخصوص چوتھی اور پانچويں صدی عيسوی ميں چين کےرہائشی بدھ مت کے مونکس، ياتريوں اور زائرين نے بڑی تعداد ميں انڈيا کا سفر اختيار کيا۔ ان چينی مونکس نے واپس جانے کے بعد اپنے تفصيلی سفر نامے لکھے۔ ان سفرناموں سے ہميں انڈيا کے حالات، ثقافت، سماج، تجارت، سياست،جغرافيہ، مذہبی روايات و عبادات اور تاريخی واقعات کے بارے ميں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ايشيا کی کوئی قوم ايسی نہيں جس نے جنوبی ايشيا کے بارے ميں اتنی سير حاصل معلومات فراہم کی ہوں جتنی چين کے ان مونکس اور زائرين نے کی ہيں۔ آج بھی ہميں اس زمانے کے انڈيا کے بارے ميں جو علم حاصل ہوتا ہے اس کا زيادہ تر حصہ انہی چينيوں کے حالات زندگی اور تحريرات کے پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے۔چينی مونکس کا انڈيا کا سفر اختيار کرنے کے کئی مقاصد ميں سے ايک خاص مقصد يہ تھا کہ وہ بدھ مت سے تعلق رکھنے والے مقدس مقامات کا دورہ کريں۔ دونوں اطراف سے جانے والے مونکس کا برصغير کے شمال مغرب ميں واقع ايک علاقے سے گہرا تعلق تھا جس کا نام ان چينی تحريرات ميں جيبن (جو ماضی ميں گندھارا کے نام سے زيادہ مشہور تھا) بتايا گيا ہے۔ پہلی صدی عيسوی سے لے کر تقريباً پانچويں صدی عيسوی تک گندھارا بدھ مت کا ايک عظيم مرکز رہا۔ چينی اور ا نڈين مونکس جيبن کے علاقے ميں گوتم بدھاؑ کی جسمانی باقيات اور تبرکات کا درشن اور ان کی پوجا کرنے آتے تھے۔ اس کے علاوہ يہ مونکس جيبن کے علاقہ کی ان جگہوں کی بھی زيارت کرتے تھے جہاں پر بتايا جاتا تھا کہ وہاں بدھاؑ تشريف لائے تھے۔ اس علاقہ کی وجہ شہرت بدھاؑ کے صدقات والے پيالے (پالی زبان ميں: پاترا) کا يہاں موجود ہونا بتايا جاتا ہے۔جيسا کہ اوپر ذکر گيا ہے کہ اس علاقے ميں بدھا ؑ کی کچھ جسمانی باقيات اور دوسری استعمال کی تبرکات موجود تھيں جن ميں آپؑ کا چولہ، بال، دانت، ہڈی کا ٹکرا، ناخن، چھڑی اور ايک صدقات کا پيالہ شامل ہيں۔ لوگ جس چيز کی سب سے زيادہ پوجا کرتے تھے وہ آپؑ کا صدقات والا پيالہ تھا۔ يہ ساری تفصيلات مونکس کے سفرناموں اور حالات زندگی سے ہميں پتہ چلتی ہيں۔ ان تحريرات سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اس پيالے کو جبين کے مرکزی شہر پورو شا پورہ (موجودہ شہر پشاور) ميں رکھا ہوا تھا۔ کيونکہ ان تبرکات ميں سے اس پيالے کی سب سے زيادہ اہميت تھی اور موجودہ تحقیق بھی سب سے زيادہ اس پيالے کے بارے ميں ہوئی ہے لہذا باقی چيزوں کو چھوڑتے ہوئے اس مضمون ميں اس پيالے پر بات کی جائے گی۔

نيز يہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ بدھ مت کی تعليم اور فلاسفی سے براہ راست آگا ہی حاصل کرنے کے لئے ان مونکس نے جيبن ميں رہ کر تعليم بھی حاصل کی۔ وہ مختلف کتب اور تحريرات کے تراجم کرنے کی غرض سے انھيں واپس چين لے جاتے تا اس علم سے مکمل طور پر فيض ياب ہو سکيں۔ چينی مونکس کی اکثريت جيبن کے علاقے سے گزر کر انڈيا کے اندورنی علاقوں ميں نہيں گئی۔ سوائے چند ايک کے باقی سب لوگ جيبن سے ہی واپس چين لوٹ گئے۔جو لوگ اندرونی انڈيا کے علاقوں ميں گئے (بالخصوص گوتم بدھا ؑکے علاقے ميں) ان ميں فاہيان (پانچويں صدی عيسوی کے ابتداء ميں) اور ہيون سانگ (ساتويں صدی عيسوی کی ابتداء ميں) کے نام قابل ذکر ہيں۔

بدھا ؑ کا پيالہ

انڈين اور چينی بدھ مت کی تحريرات کے مطابق بدھاؑ کو اپنی زندگی ميں چار آسمانی بادشاہوں (سنسکرت اور پالی زبان ميں: لوکا پالس) کی طرف سے پتھر سےبنے ہوئے چار پيالے ديئے گئے اور يہ چار پيالے آپؑ پر روحانيت کے آشکار ہونے کے بعد پہلے کھانے کے موقع پر ديئے گئے اور پھر ان چاروں پيالوں کو ملا کر ايک پيالہ بنا ديا گيا۔ بتايا جاتا ہے کہ يہ وہ ہی پيالہ ہے جس کی عبادت پوروشاپورہ ميں کی جاتی تھی۔ فاہيان وہ مونک ہے جس نے اپنے سفر کے دوران 402 عيسوی ميں يہ پيالہ پوروشا پورہ ميں ديکھا اور اس کا تفصيلی ذکر اپنے سفر نامہ ميں کيا۔ وہ کہتا ہے کہ يہ پيالہ ايک عمارت ميں رکھا ہوا تھااور اس کی پوجا کے لئے مونکس اور لوگ دن ميں دو بار جمع ہوتے اور چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ اس پيالے ميں چار ليٹر تک بھرنے کی گنجائش تھی۔اس پيالے کی موٹائی آدھے سنٹی ميٹر تک تھی۔اس کا رنگ ذيادہ تر سياہ تھا۔ چاروں پيالوں کو ايک دوسرے کے اوپر رکھ کر ايک بنانے کی وجہ سے (جيسا کہ کہانی ميں بتايا جاتا ہے) ان چاروں پيالوں کے کناروں کی لائنيں دکھائی ديتی ہيں۔کچھ دوسری چينی روايات ميں يہ ذکر ملتا ہے کہ اس کا سائز ايک عام پيالے سے چار گنا ذيادہ تھا۔ دراصل بدھاؑ کے پيالے کی پوجا کی ابتداء دوسری اور تيسری صدی عيسوی ميں ہی گندھارا تہذيب کے پتھر کے مجسموں کی مذہبی نقش نگاری ميں بھی ديکھائی ديتی ہے۔گندھارا آرٹ بنيادی طور پر ايک مذہبی آرٹ ہے۔ اس آرٹ ميں مثلاً مجسموں ميں گندھارا کے لوگ اس پيالے کے سامنے پوجا کرتے اور اسے عزت ديتے ہوئے نظر آتے ہيں۔اس مضمون ميں پيش کردہ تصوير ميں ان ہی مجسموں ميں سے ايک ميں اس پيالے کی عبادت کرتے ہوئے ديکھا جا سکتا ہے (يہ مجسمہ دراصل ايک بڑے مجسمے کا حصہ ہے جو نيويارک کے ميٹروپوليٹن ميوزيم آف آرٹ ميں موجود ہے)۔ فاہيان کے علاوہ کئی اور مونکس نے اس پيالے کو پوروشاپورہ ميں ديکھا اور اس کا ذکر اپنی تحريرات ميں کيا۔ جب ہيون سانگ پوروشاپورہ آيا (فاہيان کے دو سو سال کے بعد يعنی 630 عيسوی ميں) تو اس وقت يہ پيالہ وہاں سے غا ئب ہو چکا تھا مگر اس عمارت ميں جس ميں وہ پہلے محفوظ تھا اس کی بنياديں ابھی تک قائم تھيں اور نظر آتی تھيں۔ اس پيالے کا کيا بنا کسی کو صحيح طرح نہيں پتا اور نہ کبھی کسی ملک يا قوم نے اس پيالے کا اپنے پاس ہونے کا دعویٰ کيا ہے اور اس طرح يہ پيالہ تاريخ کے اوراق ميں کھو گيا ہے۔

پيالہ اور یوہژی راجہ کے متعلق روايات

فاہيان کے سفر نامہ کے علاوہ چينی زبان کی دو اور تحريرات اس بات کا ذکر کر رہی ہيں کہ يہ پيالہ کس طرح پوروشا پورہ ميں پہنچا۔ ان تحريرات ميں بيان کيا گيا ہے کہ یوہژی قوم (يعنی کہ کوشان سلطنت جو دوسری اور تيسری صدی عيسوی ميں گندھارا اور دوسرے شمالی علاقوں پر قابض تھی) کا ايک راجہ تھا جس نے کسی دوسرے راجہ سے لڑائی ميں فتح پانے کے بعد مال غنيمت کے طور پر اس پيالے کو شمالی انڈيا سے پوروشا پورہ پہنچا يا۔ يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ گوتم بدھاؑ کی زندگی شمالی انڈيا ميں گزری اور وفات بھی وہاں ہی ہوئی اور يہ بتايا جاتا ہے کہ وہاں يہ پيالہ آپؑ کے زير استعمال رہا۔ اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ يہ پيالہ جو پوروشا پورہ ميں پڑا ہوا تھا اور جس کی عبادت کی جاتی تھی کيا وہ واقعی ہی بدھاؑ کا تھا جس کا استعمال آپؑ نےپانچ سو سال قبل مسیح کيا؟ کئی شواہد ايسے ملے ہيں جو اس کہانی کے برعکس نظر آتے ہيں اور اس بات کو رد کرتے ہيں کہ يہ پيالہ بدھاؑ کے استعمال ميں رہا۔

اول تو يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ جن چينی تحريرات ميں يہ ذکر ملتا ہے کہ ايک یوہژی راجہ اس پيالے کو مال غنيمت کے طور پر پوروشا پورہ ميں لايا تھا وہ تحريرات چوتھی اور پانچويں صدی عيسوی کی ہيں۔يعنی کہ ان تحريرات ميں ايک ايسے واقعے کے بارے ميں بتايا جا رہا ہے جو دو سو سال پہلے گزر چکا تھا۔ لہذا ہم اس کہانی پر بنا ثبوت يقين نہيں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ پوروشاہ پورہ کے پيالے اور جيبن کے علاقے کو اہميت دينے کے لئے (کہ يہ بدھاؑ کا اصلی استعمال شدہ پيالہ ہے) بدھاؑ کی طرف منسوب کر ديا گيا ہو۔ اس لئے يہ خيال خارج از امکان نہيں ہے کہ يہ کہانی حقيقت پر مبنی نہ ہواور يہ پيالہ باہر سے پوروشا پورہ ميں نہ آيا ہو بلکہ جيبن کے ايک مقامی پتھر سے بنا يا گيا ہو۔ دوم يہ کہ يہ تين روايات جن ميں ذکر آيا ہے کہ يہ پيالہ باہر سے آيا ہے آپس ميں بھی سو فی صد اتفاق نہيں کرتيں۔ مثلاً ايک روايت ميں ہے کہ يہ پيالہ ویشالی شہر (انڈيا) سے آيا ہے جبکہ دوسری ميں ہے کہ پاٹلی پوترا شہر (انڈيا) سے آيا ہے اور تيسری روايت ميں مڈل انڈيا سے آنے کا ذکر ملتا ہے۔ ايسا تاثر مل رہا ہے کہ ايک کوشش کی جا رہی ہے کہ پوروشا پورہ کے اس پيالے کو کسی نہ کسی طرح بدھاؑ کے وطن اور علاقے کے ساتھ جوڑا جائے۔ لہذا ہم اس کہانی کی صحت کو کمزور پاتے ہيں اور يہ نہيں مان سکتے کہ ايک مقامی راجہ اس پيالے کو باہر سے پوروشا پورہ لے کر آيا۔

پيالے کی حقيقت

اگر اس پيالے کو کوئی اورباہر سے نہيں لايا تو کيا بدھا ؑ خود جيبن کے علاقے ميں تشريف لے گئے اور اس طرح يہ پيالہ آپؑ کے ساتھ آيا اور يہاں پوروشا پورہ ميں رہ گيا اور زيارت کا مرکز بن گيا؟ آج کے دور کے بدھ مت کے تاريخ دان سب اس بات پر متفق ہيں کہ بدھاؑ نے اپنی زندگی ميں کبھی جيبن کے علاقے کا سفر اختيار نہيں کيا۔ جغرافیائی لحاظ سے انڈيا ميں جہاں تک آپؑ تشريف لے گئے وہ مقام ورنجا بتايا جاتا ہے جو متھورا شہر (اتر پرديش) کے قريب ايک جگہ ہے۔ اس کے آگے مغرب کی طرف بدھاؑ نے سفر کبھی نہيں اختيار کيا۔ حيرت کی بات ہے کہ بعد کے زمانے ميں آپؑ کی زندگی کو انڈيا کے اندر اور باہر کے بہت سارے سفروں کے ساتھ جوڑ ديا گيا جن ميں جيبن کا علاقہ (يعنی کہ گندھارا) نماياں ہے۔چنانچہ اس بات پر زور ديا جاتا ہے کہ آپؑ جيبن ميں مختلف جگہوں پر تشريف لے گئے حالانکہ حقيقت ميں آپؑ کبھی وہاں نہيں گئے (ان سفروں کو ’’دی لیجنڈ ری ويزٹس آف دی بدھا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے)۔ ليکن اس کے باوجود چوتھی اور پانچويں صدی عيسوی کے مونکس اور لوگوں کو پورا يقين تھا اور انھوں نے کبھی اس بات پر شک نہيں کيا۔ سب کا يہ ہی ماننا تھا کہ وہ يہاں آئے ہيں اور يہ تبرکات ان سے ہی وابستہ ہيں۔ ايک طرف تو کہا جاتا ہے کہ وہ نہيں آئے اور دوسری طرف پورا يقين ہے کہ آئے ہيں۔اس تضاد کی کيا وجہ ہے؟ ايسا لگتا ہے کہ يہاں کوئی غلط فہمی پيدا ہو ئی ہے اور اس جگہ حضرت مسیح موعود عليہ السلام کی بات ياد آتی ہے کہ عمداً يا سہواً حضرت عيسیٰؑ کے کچھ خطابات، اقوال، واقعات اور تعليمات کو بدھاؑ کی طرف منسوب کر ديا گيا ہے۔ خاکسار کی رائے کے مطابق اگر حضرت عيسیٰؑ کے کچھ خطابات، اقوال، واقعات اور تعليمات کو بدھاؑ کے طرف منسوب کر ديا گيا ہے تو عين ممکن ہے کہ حضرت عيسیٰؑ کی کچھ اشياء اور تبرکات کو بھی بدھا ؑ کی طرف منسوب کر ديا گيا ہو جيسے کہ اس پيالے کو۔

اس کے علاوہ کچھ اور بھی شواہد ہيں جو يہ واضح کرتے ہيں کہ پوروشا پورہ کا پيالہ نہ ہی بدھا ؑ کے وطن سے آيا اور نہ ہی اس کو بدھاؑ کی طرف منسوب کيا جاسکتا ہے۔ انڈيا کی گپتا آرٹ کے مجسموں ميں اس پيالے کا رنگ شوخ اور روشن ديکھايا گيا ہے جبکہ چينی مونکس کے مطابق پوروشا پورہ کے پيالے کا رنگ زيادہ تر سياہ يا گہرا سليٹی تھا۔ لہذا يہ فرق ہميں بتا تا ہے کہ پوروشا پورہ کا پيالہ جيبن کے علاقے ميں بنايا گيا تھا۔ ايک اور ثبوت يہ ہے کہ متھورا کی بدھ مت کی آرٹ (شمالی انڈيا) اور آندھرا کی بدھ مت کی آرٹ (جنوبی انڈيا) کے مجسموں (جو کہ عيسوی صديوں کے آغاز سے وابستہ ہيں) کو ديکھنے سے يہ پتہ چلتا ہے کہ ماتھورا اور آندھرا کے بدھ مت کے پيرو کاروں کے نزديک بدھا ؑ کا پيالہ جنت ميں (سنسکرت زبان ميں: تراياستريمشا) محفوظ ہے۔ يعنی کہ ماتھورا اور آندھرا کے بدھ مت کے پيرو کار اس پيالے کا وجود روحانی اور فلسفیانہ رنگ ميں ليتے تھے نہ کہ ظاہری شکل ميں۔ اس طرح ماتھورا اور آندھرا کے يہ شواہد جيبن کے بدھ مت کے پيرو کار وں کے اس دعویٰ کی نفی کر رہے ہیں کہ پوروشاپورہ ميں بدھاؑ کا پيالہ ظاہری طور پر موجود تھا۔ مزيد برآں ہيون سانگ جب سفر کرتا ہوا جيبن کے راستےشمالی انڈيا (بدھا ؑکے وطن ميں) پہنچا تو وہاں اس کو ايک سٹوپا (گنبد) ملی۔ يہ سٹوپا اس جگہ کی نشان دہی کر رہی تھی جہاں ان چار آسمانی بادشاہوں (لوکا پالس) نے بدھاؑ کو چار پتھر کے پيالے پيش کيے جو آپؑ نے ملا کر ايک پيالہ بنا ديا تھا۔حيرت والی بات يہ ہے کہ ہيون سانگ کی سفرنامہ ميں کسی ايسی بات کا ذکر نہيں ملتا کہ اس جگہ کسی ظاہری پيالے يا کسی بھی ظاہری چيز کی عبادت ہو رہی تھی۔اس سے يہ پتہ چلتا ہے کہ بدھاؑ کے علاقے ميں ظاہری اشياء يا تبرکات کی عبادت کی کوئی رسم موجود نہيں تھی۔يہ جيبن کے علاقے کے بدھ مت کے پيروکار اور معتقدين تھے جنھوں نے پہلی بار (بدھ قوم ميں) ظاہری تبرکات کی عبادت کی رسم شروع کی تھی جو بقول ان کے بدھا ؑ کی استعمال شدہ تھيں۔

خلاصہ بحث

پروفيسر شوشين کووياما اور آج کے ديگر ماہر آثار قديمہ اور آرٹ کے تاریخ دان کے نزديک جيبن کے بدھ مت کے پيرو کار نے اس علاقے کو اہميت دينے کی خاطر اس علاقے کو دانستہ طور پر بدھاؑ کے يہاں آنے اور ان کی استعمال کی اشياء کے يہاں موجود ہونے کے ساتھ جوڑنا شروع کر ديا تا کہ اس علاقے کو ايک مرکزی مقدس حيثيت حاصل ہو۔ مندرجہ بالا بحث کے بعد چند اہم باتيں سامنے آتی ہيں جو ہميں حقيقت کو جاننے ميں مدد ديتی ہيں: اول پوروشاپورہ کا وہ پيالہ جس کا ذکر چينی روايات ميں آتا ہے نہ کبھی حضرت بدھاؑ کے علاقے سے آيا تھا اور نہ کبھی آپؑ کے استعمال ميں رہا بلکہ وہ پيالہ جيبن ميں ہی کسی مقامی پتھر سے بنايا گيا۔ دوم لگتا ہے کہ جن لوگوں کا يہ يقين اور عقيدہ تھا کہ يہ پيالہ حضرت بدھاؑ کا ہے انھوں نے دھوکا کھايا ہے کيونکہ حضرت بدھاؑ کبھی بھی اس علاقے ميں تشريف نہيں لائے۔جبکہ حضرت عيسیٰ عليہ السلام کا اپنے معبوث ہونے کا مقصد پورا کرنے کے لئے اس علاقے ميں آنا ضروری تھاتا کہ وہ بنی اسرائيل کے دس گمشدہ قبائل کو تلاش کر کے ان کی راہنمائی کر سکيں جن ميں سے اکثر بدھ مت کامذہب اختيار کر چکے تھے۔ اس تناظر ميں يہ ہی قرين قياس معلوم ہوتا ہےجو حضرت مسیح موعود عليہ السلام نے فرمايا کہ حضرت عيسیٰ عليہ السلام کے کچھ خطابات، اقوال، واقعات اور تعليمات کو حضرت بدھا ؑ کی طرف عمداً يا سہواً منسوب کر ديا گيا ہے۔خاکسار کی رائے ميں اگر باقی معاملات ميں اس طرح ہو سکتا ہے تو پھر حضرت عيسیٰ عليہ السلام کی کچھ اشياء اور تبرکات مثلا پيالہ کے ساتھ بھی ايسا ہو سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سے ہی (دوسری اور تيسری صدی عيسوی کے مجسموں پر پيالہ کی نقش نگاری کو مدنظر رکھتے ہوئے) بدھ مت کے پيرو کاروں نے منسوب کرنے کے اس عقيدے کو اپنا رکھا تھا اور يہ پيش کردہ شواہد بھی حضورؑ کی اس بات کو تقويت دے رہے ہيں کہ يہ سب منسوب کرنے کا سلسلہ اسی زمانے ميں شروع ہوا جب حضرت عيسیٰؑ يہاں تشريف لائے۔

مستقبل کی ريسرچ

حضرت مسیح موعود عليہ السلام اپنے رسالہ راز حقيقت ميں فرماتے ہيں کہ حضرت مسیح عليہ السلام کی بودوباش کا بنارس اور نيپال اور مدراس اور سوات اور کشمير اور تبت سے پتہ ملا ہے۔

(روحانی خزائن جلد14 صفحہ165)

خاکسار کی رائے کے مطابق وادی کشمير ہی وہ علاقہ ہے بالخصوص سری نگر جہاں سے حضرت عيسیٰ عليہ السلام اور بنی اسرائيل کی گمشدہ بھيڑوں کی موجودگی کے بے شمار ٹھوس آثار مل سکتے ہيں۔ بے شک آپؑ کی قبر مبارک سری نگر خانيار کے محلے ميں موجود ہے مگر فی الحال مختلف وجوہات کی بنا پر ہم آپؑ کی قبر پر کسی قسم کا تحقیقی کام نہيں کر سکتے۔ ليکن اس سلسلے ميں ايک دوسری کوشش جو ہم کر سکتے ہيں وہ يہ ہے کہ غير جانبدار ہو کر سری نگر شہر اوراس کے آس پاس کے علاقے کا جہاں تک ممکن ہو ايک سیسمٹک آرکيالوجيکل سروے جديد ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کريں۔جس کی بنا پر پھر فيصلہ کيا جائے کہ کہاں پر سٹراٹيگرافيکلی کنٹرولڈ کھدائياں کی جائيں۔ يہ کھدائياں سری نگر کے مختلف حصوں ميں ہوریزونٹل (افقی) اور ورٹیکل (عمودی) ہونی چائيں۔ اس سے يہ فائدہ ہو گا کہ سری نگر کی ايک مکمل تاريخ ابتداء سے لے کر موجودہ دور تک ہمارے سامنے آ جائے گی اور جو آثار نکليں گے وہ حقيقت پر روشنی ڈاليں گے۔ مثلا ان کھدائيوں سے حضرت مسیح موعود عليہ السلام کی يہ بات بھی پوری ہونے کے امکانات ہيں جس کے بارے ميں آپؑ فرماتے ہيں کہ: ميں يقين رکھتا ہوں کہ ان (حضرت عيسیٰ عليہ السلام) کے بعض دوستوں کی قبريں بھی اسی جگہ ہيں۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ388)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ وہ دن جلد آئے جب ہم حضرت مسیح موعود عليہ السلام کی اس بات کو آرکيالو جيکل شواہد کے ذريعے اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے ديکھيں۔ (آمين ثم آمين)

اس مضمون کو لکھنے ميں مندرجہ ذيل حولاجات سے مدد لی گئی ہے:

(دی بدھاس بول ان گندھارا 2002ء)

(دی فيٹ آف بول ار بولس: ریپرسنتيشنس آف دی بدھاس بول اينڈ ايرلی انڈين بدھ ازم 2008ء)

(ٹينجيبل ٹائز ودھ شاکیہمنی ان گندھارا 2019ء)

(ہسٹری آف انڈين بدھ ازم : فرام دی اوريجنس ٹو دی شا کا ايرا 1988ء)

(Veneration of the alms bowl of the Buddha)

(ڈاکٹر مبارز احمد ربانی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

مدرسۃ الحفظ گھانا میں سالانہ ورزشی مقابلہ جات کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جنوری 2023