• 7 مئی, 2024

زندگی وقف کرنا خسارے کا سودا نہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’انسان کو ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کرے۔ میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کے لیے وقف کر دی اور فلاں پادری نے اپنی عمرمشن کو دے دی۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لیے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے۔ رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانہ پر نظر کر کے دیکھیں، تو ان کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی تھیں۔

یاد رکھو کہ یہ خسارہ کا سودا نہیں ہے، بلکہ بے قیاس نفع کا سودا ہے۔ کاش مسلمانوں کو معلوم ہوتا اور اس تجارت کے مفاداور منافع پر ان کو اطلاع ملتی جو خدا کے لیے اس کے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرتا ہے۔ کیا وہ اپنی زندگی کھوتا ہے؟ہرگز نہیں۔ فَلَهٗ أَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرہ:113) اس لِلّہی وقف کا اجر ان کا رب دینے والا ہے۔ یہ وقف ہر قسم کے ہموم وغموم سے نجات اور رہائی بخشنے والا ہے۔

مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ جبکہ ہر ایک انسان بالطبع راحت اور آسائش چاہتا ہے اور ہموم وغموم اور کرب وافکارسے خواستگارِ نجات ہے،پھرکیا وجہ ہے کہ جب اس کو ایک مجرب نسخہ اس مرض کا پیش کیا جاوے تو اس پر توجہ ہی نہ کرے۔کیا لِلّہی وقف کا نسخہ 1300 برس سے مجرب ثابت نہیں ہوا؟ کیا صحابہ کرامؓ اسی وقف کی وجہ سے حیات طیبہ کے وارث اور ابدی زندگی کے مستحق نہیں ٹھہرے؟ پھر اب کونسی وجہ ہے کہ اس نسخہ کی تاثیر سے فائدہ اٹھانے میں دریغ کیا جا وے۔

بات یہی ہے کہ لوگ اس حقیقت سے ناآشنا اور اس لذت سے جو اس وقف کے بعد ملتی ہےنا واقف محض ہیں ورنہ اگر ایک شِمَّہ بھی اس لذت اور سرور سے ان کو مل جاوےتو بے انتہا تمناؤں کے ساتھ وہ اس میدان میں آئیں۔

میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے۔یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لیے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول ص370 ,369)

پچھلا پڑھیں

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ مورخہ 28 فروری 2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2020