کلام حضرت نواب مبارکہ بیگم
سیّدا ! ہے آپ کو شوقِ لقائے قادیاں
ہجر میں خوں بار ہیں یاں چشمہائے قادیاں
سب تڑپتے ہیں کہاں ہے زینتِ دارالاماں
رونق بستانِ احمد دل ربائے قادیاں
جان پڑ جاتی تھی جن سے وہ قدم ملتے نہیں
قالبِ بے روح سے ہیں کوچہ ہائے قادیاں
فرقتِ مہ میں ستارے ماند کیسے پڑگئے
ہے نرالا رنگ میں اپنے سماءِ قادیاں
وصل کے عادی سے گھڑیاں ہجر کی کٹتی نہیں
بارِ فرقت آپ کا کیونکر اٹھائے قادیاں
روح بھی پاتی نہیں کچھ چین قالب کے بغیر
ان کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے ہائے قادیاں
ہو وفا کو ناز جس پر جب ملے ایسا مُطاع
کیوں نہ ہو مشہورِ عالم پھر وفائے قادیاں
کشتیء دین محمدؐ جس نے کی تیرے سپرد
ہو تری کشتی کا حافظ وہ خدائے قادیاں
منتظر ہیں آئیں گے کب حضرت فضلِ عمرؓ
سُوئے رہ نگراں ہیں ہر دم دیدۂ ہائے قادیاں
مانگتے ہیں سب دعا ہو کر سراپا آرزو
جلد شاہِ قادیاں تشریف لائے قادیاں
شمسِ ملت جلد فارغ دورۂ مغرب سے ہو
مطلعء مشرق سے پھیلائے ضیائے قادیاں
راہِ حق میں جب قدم آگے بڑھا دے ایک بار
سر بھی کٹ جائے نہ پھر پیچھے ہٹائے قادیاں
خالق ہر دو جہاں کی رحمتیں ہو ں آپ پر
والسلام اے شاہِ دیں اے رہنمائے قادیاں
(درعدن)