• 3 مئی, 2024

حضرت بابا شیر محمدؓ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت بابا شیر محمد رضی اللہ عنہ۔ خان فتہ ضلع گورداسپور

حضرت بابا شیر محمد رضی اللہ عنہ ولد دتے خان صاحب اصل میں موضع دھنگائی (Dhangai) تحصیل اجنالہ ضلع امرتسر کے رہنے والے تھے لیکن زیادہ تر عمر دھرم کوٹ بگہ کے قریبی گاؤں خان فتہ (Khanfatta) میں گزاری اور اسی گاؤں کے حوالے سے معروف ہوئے۔ بعد ازاں آپ ہجرت کے قادیان آگئے اور محلہ دار العلوم میں رہائش رکھی۔ آپ نے 1894ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت و بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ کی مختصر روایات رجسٹر روایات صحابہ میں محفوظ ہیں، آپ بیان کرتے ہیں:
’’جب حضرت صاحب کرم الدین کے دعوا (دعویٰ) کے بابت جہلم تشریف لے گئے۔ اس وقت پہلے معلوم تھا کہ حضور نے جہلم جانا ہے ہم نے کچھ یہ تجویز کر چھوڑی تھی کہ کچھ حضور کو چائے پلائی جاوے۔ جب حضور بٹالہ پہنچے تو انارکلی میں معہ سب جماعت ٹھہر گئے۔ سب کو چائےپلائی گئی۔ بعد حضور نے مجھ سے دریافت کیا کہ چائے پلانے والے کون ہیں ؟میں نے عرض کی اس جگہ جو منادی کرنے والے (مراد مسیحی مشنری۔ ناقل) ہیں، ان کے خانسامے ہیں۔ وہ آپ ؑ کے خادم ہیں۔ انہوں نے یہ ضیافت چائے کی ہے۔ جن کے نام یہ ہیں۔ نبی بخش دوسرا عبداللہ۔ یہ نام سن کر حضرت صاحب بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد ان دونوں کو ملازمت سے علیحدہ کر دیا تھا۔ انہوں نے ان کی ملازمت کی پرواہ نہیں کی۔ وہ ان سے علیحدہ ہو گئے ….

ایک دفعہ دھرم کوٹ میں ایک شخص منّا نمبردار مختار سردار جیوسنگھ کا تھا۔ وہ ایک روز حضرت صاحب کی شان میں بے(بے ادبی کے) الفاظ استعمال کر رہا تھا۔ میں نے بھی اور چند دوستوں نے اس کو روکا کہ یہاں سے چلا جا مگر وہ باز نہ آیا۔ آخر یہاں فساد کی صورت پیدا ہو گئی۔ مارکوٹ تک نوبت پہنچ گئی۔ انہوں نے یہ کہا کہ ہم مولوی فتح دین کو قتل کر دیں گے مگر اس وقت مولوی فتح دین صاحب قادیان میں آیا ہوا تھا۔ جب مولوی فتح دین صاحب دھرم کوٹ پہنچے یہ تجویز ہوئی کہ حفظ امن کی نالش کی جاوے تو پھر مولوی صاحب نے نالش ان پر کر دی۔ فریق مخالف نے بھی دعوا(دعویٰ) دائر کر دیا۔ آخر گورداسپور میں جا کر صفائی کی صورت پیدا ہو گئی منّانے مبلغ پینتیس روپے دے کر مولوی صاحب سے صفائی کر لی پھر ہم سب دوست حضرت صاحب کے پاس آئے تو آپ نے دریافت کیا کہ مقدمہ منّانمبردار پر دائر تھا اس کا کیا ہو اتو مولوی صاحب نے کہا کہ مبلغ 35روپیہ دے کر راضی نامہ کر لیا ہے حضور یہ بات سن کر خوش ہوئے کہ بہت اچھا ہوا فساد مٹ گیا۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 6 صفحہ 45)

آپ مزید فرماتے ہیں:
’’میرے پچھلے گاؤں موضع دھنگائی سے ایک برات قادیان میں آئی اور میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ وہ برات کے آدمی غیر احمدی تھے اور بڈھے راجپوت کے گھر میں آئے تھے۔ ان میں سے پانچ سات آدمی جو کچھ سمجھ دار تھے۔ میں ساتھ لے کر مسجد مبارک میں لے آیا اور نماز پڑھی (مغرب کی)۔ بعد ازاں حضرت صاحب نے حامد علی(فیض اللہ چک والا) کو (جو کہ ان دنوں حضور کا کھانا لایا کرتا تھا) حکم دیا کہ کھانا لائے۔ وہ کھانا لے آیا اور حضور کے آگے اور ہم سب کے آگے کھانا رکھا تو ان آدمیوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا۔ لیکن حضور ؑ نے کئی بار کہاکہ تھوڑا ساہی کھاؤ لیکن وہ یہی کہتے رہے کہ ہم برات میں سے ہیں اور ہمارا کھانا وہاں تیار ہے لیکن حضور ؑ نے پھر ان کو کہا کہ تھوڑا یہاں سے کھالیں اور پھر وہاں سے جاکھائیں۔ لیکن ان بدقسمتوں نے بالکل نہ کھایا اور اسی حالت میں واپس چلے گئے۔ بعدا زاں میں مولوی فتح الدین صاحب کو ساتھ لے کر ان کو وعظ کرنے کے لئے وہاں گئے اور وہ بھی اطمینان سے سنتے رہے۔

میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ ایک کنواں دودھ کابھرا ہوا ہے اور میں نے بعض دوستوں کو کنوئیں میں سے بالٹیاں بھر بھر کر دُودھ پلایا۔ لہٰذا وہ کنواں خشک ہوگیا۔ اس پر میں مولوی فتح الدین صاحب کے پاس گیا اور ان کو یہ خواب سنائی انہوں نے فرمایا کہ تم مولوی عبدالکریم صاحب کے پاس جاؤیا مولوی نورالدین صاحب کے پاس جاؤ۔ اس پر میں قادیان میں آیا او رمولوی عبدالکریم صاحب کو یہ خواب سنائی تو انہوں نے فرمایا کہ دودھ سے مراد علم ہے۔ میں نے کہا کہ میں تو ایک حرف تک پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ اس علم سے مراد وہ علم ہے جو خداسکھائے اور جو بالٹیاں بھر بھر کے پلایا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ کئی دوست آپ سے مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے متعلق فیض اُٹھائیں گے اور کنواں خشک ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو تمہیں تبلیغ کرتے اور حضرت اقدسؑ کو مہدی کہنے سے روکتے تھے، وہ ایک دن تیرے سامنے مرُدہ ہوجائیں گے۔ لہٰذا یہ تینوں باتیں پوری ہوگئیں اور خان فتہ میں میری اتنی مخالفت کے باوجود تمام گاؤں کا گاؤں ہی میری تبلیغ اور خدا تعالیٰ کی مدد اور حضور کی دُعاؤں سے احمدی ہوگیا حالانکہ یہ گاؤں میرا اصل گاؤں نہ تھا اور اصل گاؤں دھنگائی تحصیل اجنالہ ضلع امرتسر میں ہے۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7 صفحہ 81-82)

تقسیم ملک کے بعد آپ پاکستان آگئے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اپنے آپ کو قادیان میں درویشی کے لیے پیش کر دیا اور قادیان چلے گئے اور مورخہ 17؍اگست 1949ء کو وفات پاکر بوجہ موصی (وصیت نمبر 3271) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ نے اعلان وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’امیر جماعت احمدیہ قادیان اطلاع دیتے ہیں کہ قادیان میں بابا شیر محمد صاحب وفات پاگئے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ باباشیر محمد صاحب مرحوم کی عمر کم و بیش 90 سال کی تھی اور قادیان جانے والے آخری کنوائے میں اسی نیت اور ارادے کے ساتھ گئے تھے کہ وہیں وفات پانے کی سعادت حاصل کریں گے …. اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور ان کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو۔ آمین‘‘

(الفضل 19؍اگست 1949ء صفحہ 8)

(غلام مصباح بلوچ۔استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

نماز جنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2022