• 3 مئی, 2024

سلطان ٹیپو ؒ

سلطان ٹیپو ؒ
ایک غیرت مند مسلمان

اس مضمون کے لکھنے کا مقصدان چند اعتراضات کو دور کر کے اصل حقائق کو سامنے لانا ہے جو غیر مسلموں اور بدقسمتی سے بعض مسلمانوں کی جانب سے سلطان ٹیپو ؒ کے بارے میں اٹھائے گئے اور انھیں پھیلایا گیا۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنی نئی نسل کو ان بے بنیاد الزامات سے آگاہ کیا جائے اور سچ کو سامنے لایا جائے تا اپنی ان گمشدہ خوبیوں کو ازسرِ نو زندہ کریں جو ہزاروں سالوں سے رشیوں، اوتاروں اور انبیاء کا شیوہ رہی ہیں جو نفرتوں کی بجائے پیار و محبت کے ان گنت سریلے گیتوں سے اس دھرتی کو جنت بے نظیر میں بدلتے رہے۔

سلطان فتح علی ٹیپو کی پیدائش 10نومبر 1750 (بروز ہفتہ) کو ہوئی۔ والدہ کا نام فخرالنساء تھا جو نواب حیدر علی کی دوسری بیوی تھی۔ آپ کو برصغیر پاک و ہند میں شیرِ بنگال اور شیرِ میسور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اب اُن اعتراضات کی طرف لوٹتے ہیں جو اس نیک دل حکمران پر لگائے گئے جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

(1) اعتراض: ایک متعصب اور اخلاق سے عاری حکمران:

مسلمان مصنف سید میر حسن کرمانی نے اپنی کتاب میں سلطان ٹیپو کے متعلق تحریر کرتے ہوئے لکھا:
’’مسلمانوں کی تربیت و پرورش کا ان کو ہمیشہ خیال رہتا تھا اور دوسری قوموں سے سخت متنفّر تھے۔ کسی کو تعظیم نہیں دیتے تھے۔‘‘

(نشان حیدری ٹیپو سلطان صفحہ466)

اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ سلطان ٹیپو محمد رسول اللہ ﷺ کا سچا حقیقی پیروکار تھا۔ اس ہستی کا متبع تھا جوازلی و ابدی خدا سے رحمۃللعالمین کا لقب پا کر اپنے کیا غیروں کے لئے بھی رحمت باراں بن کر برسا۔ جو ایک یہودی کا جنازہ گزرتے دیکھ کر احترام سے کھڑا ہو گیا۔ اس عظیم ہستی کا پیرو کار (سلطان ٹیپو) بھی اس کی سنت کو قائم کرنے والا اور خدائے رحمٰن کا نام لے کر ہر کام کی ابتداء کرنے والا تھا۔

جناب محمود خاں محمود بنگلوری کی کتاب تاریخ سلطنت خداداد (میسور) جو 1939ء میں بنگلور سے شائع ہوئی سے ایک حوالہ پیش خدمت ہے آپ تحریر کرتے ہیں:
’’سلطان کی بے تعصبی اور مذہبی رواداری کی اس سے بڑھ کر اور مثال کیا مل سکتی ہےکہ سرکاری ملازمتوں میں اس نےمسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندؤوں کو بھی اعلیٰ عہدے دے رکھے تھے۔ پورنیا دیوان سلطنت تھا۔ پایٔہ تخت سرنگا پٹم اور بنگلور کے قلعے خاص وقعت اور حیثیت رکھتے تھے اور انہیں کے استحکام پر سلطنت کا دارومدار تھا۔ ان قلعوں کے قلعدار کشن راؤ اور شتاب راۓ تھے۔ انچے شامیا محکمہ ڈاک کا افسر اعلیٰ تھا۔ سلطنت خداداد کی فوجی اور سول لسٹ دیکھی جاۓ تو معلوم ہو گا ہندو افسروں کی تعداد بھی مسلمان افسروں سے کچھ کم نہ تھی۔‘‘

(تاریخ سلطنت خداداد (میسور) صفحہ نمبر 530)

ہندو مسلم اتحاد کا مجسّمہ

آپ نے سلطان کی اس بے تعصبی اور رواداری کےمتعلق مہا تما گاندھی جی کے اخبار ینگ انڈیا کا حوالہ دیا ہے جس میں گاندھی جی نےلکھا ہے:
’’میسور کا بادشاہ فتح علی ٹیپو سلطان اجنبی (انگریزی) مورٔخوں کی نگاہ میں تو متعصب مسلمان تھا جس نے اپنی ہندو رعایا کو بجبر مسلمان بنایا لیکن یہ سب جھوٹ ہے بلکہ حقیقت یہ ہےکہ ہندؤوں سے اس کے تعلقات بہت دوستانہ رہے۔ اس عظیم المرتبت سلطان کا وزیراعظم ایک ہندو تھا۔

میسور کے آثار قدیمہ کے پاس اس وقت سلطان کے تیس سے زائد خطوط موجود ہیں جو سلطان نے سرنگر ی مٹ کے شنکر اچاریہ کو لکھے تھے۔ یہ خطوط کنٹری زبان میں ہیں۔ ٹیپو ایک خود مختار حکمران تھا۔ مگر اسے کبھی اس بات کا خیال نہیں ہواکہ ہندو ساہوکاروں کو اس پر مجبور کرے کہ وہ اپنا حساب کتاب عربی حروف میں رکھیں بر خلاف اس کے اس نے خود اپنی قومی زبان میں شنکر اچاریہ کے خط کا جواب دیتے ہوۓتپسّیا (دعا خوانی) کی درخواست کی تھی اور اپنے ملک کی بھلائی اور ساری دنیا کی فلاح کی دعا چاہی تھی کہ آپ جلد میسور واپس آئیں کیونکہ نیکوں کے قدم کی برکت سے بارش ہوتی ہے اور فصل اچھی ہوتی ہے۔ (یہ خط اس قابل ہے کہ زریں حروف میں لکھا جائے۔ اس موقع پر ینگ انڈیا نے کنٹری کے اس خط کو دیونا گری حروف میں دیا ہے۔) ٹیپو نے ہندو مندروں کے لئےنہایت فیاضی سے جائیدادیں وقف کیں اور خود ٹیپو سلطان کے محلات کے گرد و پیش میں سری ونگٹارا منّا، سرینواس اور شری رنگناتھ کے مندروں کی موجودگی سلطان کی وسیع النظری اور رواداری کا ثبوت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہیدملت سلطان شہید جس سے بڑھ کر کوئی دوسرا نہیں مل سکتا۔ اپنی عبادت اللہ میں ہندؤوں کی پوجا کی گھنٹیوں سے پریشان نہیں ہوتا تھا‘‘

(تاریخ سلطنت خداداد (میسور) صفحہ531)

ریاست میسور کے محکمہ آثارِ قدیمہ کی آرکیالوجیکل رپورٹ بابت 1916 میں لکھا ہے:
’’سرنگری کے مندر میں نواب حیدر علی کے تین اور ٹیپو سلطان کے تیس خطوط و فرامین ملے ہیں۔ ان خطوط میں بخلاف دوسرے خطوط کے جن میں سلطان کا نام پہلے لکھا جاتا تھا سلطان نے سرنگری کے گرو کا نام اور القاب پہلے لکھا ہےاور اپنے نام کے ساتھ کوئی خطاب یا القاب استعمال نہیں کیا۔‘‘

(تاریخ سلطنت خداداد (میسور )صفحہ 521)

بھوپندرا یا دیو
Bhupendra Yadav

اپنے ایک مضمون میں مصنف سید میر حسن کرمانی کواس بات پر حق بجانب نہیں سمجھتےکہ ٹیپو سلطان نے صرف مسلمانوں میں تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ اس پر انہوں نے کئی ایک سوال اٹھائے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر صرف مسلمانوں میں تعلیم پر توجہ دی تھی تو پھر کس طرح کرشنا راؤ، پُرنیا اور شامیا لینگر نے ٹیپو سلطان کے دربار میں اعلیٰ عہدے اور اس کا اعتماد حاصل کیا۔

(اکنامکس اینڈ پولیٹکل ویکلی، 29دسمبر 1990)

ٹیپو سلطان کے بارے بعض مغربی مصنفین کی رائےپیش کی ہے۔ جیسے کہ نے اپنی کتاب میں جناب محب الحسن خاں صاحب کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ Intolerant bigot or the furious fanatic ٹیپو سلطان کے لئے Kirkpatrick میں ٹیپو سلطان کو مندرمسمار کرنے، مندروں کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنے، زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور ایک مذہبی انتہا پسند History of Mysore اپنی کتاب Wilks کے طور پر پیش کرتا ہے۔

(History of Tipu Sultan صفحہ نمبر 354)

جناب محمود خاں محمود بنگلوی ان بے بنیاد اعتراضات کے جواب میں تحریر کرتے ہیں:
ریاست میسور میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے جو عمارتیں ہر جگہ نمایاں نظر آتی ہیں وہ ہندوؤں کے قدیم معابد و منادر ہیں جن میں بعض کی تعمیر ہزار سال سے پیشتر کی ہے۔ سلطان اگر متعصب ہوتا تو اس کے لئے آسان تھا کہ ان مندروں کا نام و نشان مٹا دیتا برخلاف اس کے ان مندروں میں سلطان کی دی ہوئی جاگیرات کے فرامین موجود ہیں جن سے آج بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

سلطان کا پایہ تخت سرنگا پٹم ہر شخص کا دیکھا ہوا ہے اور ہر سال ہزارہا لوگ اس کے دیکھنے کے لئے دور دور سے آتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر اترتے ہی سب سے پہلے زائر کی نگاہ ان دو بڑے مندروں پر پڑتی ہے جو اسٹیشن سے بالکل قریب ہیں۔ سلطان کا محل انھیں مندروں کے بالکل قریب تھا۔ محل کے پیچھے بلکہ محل سے لگا ہوا ایک اورمندر ہے۔ بنگلور میں محل سے لگا ہوا ایک چھوٹا مندر ابھی تک موجود ہے۔

(تاریخ سلطنت خداداد (میسور) صفحہ 520)

مندر میں ایک کارڈ (خط) موجود ہےجس میں ضلع نگر کے عامل (سید محمدؐ) کو سلطان نے لکھا:
’’سوامی جی سمندری غسل کے لئے جانے والے ہیں ان کے سفر میں تمام ضروریات مہیا کی جائیں۔‘‘

(تاریخ سلطنت خداداد (میسور) صفحہ524)

میسور آرکیالوجیکل رپورٹ بابت 1917کے صفحہ21 پر لکھا ہے:
’’میل کوٹ کے مندر میں بعض زیورات اور برتن سونے چاندی کے پائے گئے ہیں۔ ان پر جو تحریر ہے اس کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹیپو سلطان کے دیے ہوئے انعامات ہیں۔‘‘

(تاریخ سلطنت خداداد میسور صفحہ526)

(2) اعتراض: مندروں کو مسمار کرنا

کرک پٹرک اور ولکس کے اعتراضات کے جواب میں سیمویئل سٹرینڈ برگ کی اپنی کتاب ’’ٹیپو سلطان‘‘ کا حوالہ پیش خدمت ہے:
’’ٹیپو سلطان کے بارے میں یہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ مذہب کے معاملے میں تعصب کا حامل تھااور ایک کٹر مذہبی شخص تھا وہ دیگر مذاہب کو برداشت نہیں کرتا تھا اور دیگر مذاہب کے حامل افراد کو زبردستی مسلمان بناتا تھا۔ اگر آپ مختلف ذرائع سے مطالعہ سر انجام دیں اور پراپیگنڈہ کو نظر انداز کر دیں تو آپ پر حقیقت واضح ہو گی کہ یہ پراپیگنڈہ غلط ہے۔

میسور کی 90 فیصدآبادی ہندووٴں پر مشتمل تھی اور اس ریاست میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ کوئی بھی ذریعہ یہ ظاہر نہیں کرتا کہ ٹیپو سلطان نے ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش سر انجام دی تھی بلکہ اس کے بر عکس وہ یہ سمجھتا تھا کہ میسور میں ہندووٴں کی اکثریت تھی اور یہ اکثریت ہمیشہ قائم رہے گی۔ اس کی انتظامیہ میں بہت سے ہندو اہم عہدوں پر فائز تھے۔ اس کا وزیراول بھی ایک ہندو تھا اور اس کے کئی ایک سفارت کار بھی ہندو تھے۔

ریاست میسور میں ہندووٴں کے مندر نہ صرف محفوظ تھے بلکہ ٹیپو سلطان وقتاً فوقتاً انہیں قیمتی تحائف سے بھی نوازتا رہتا تھا، سرنگا پٹم کے قلعہ کے صحن میں ایک قدیم اور مقدس مندر موجود ہے جو سری رنگا ناتھ کے نام کے ساتھ منسوب ہےیہ مندر سلطان کے قلعے سے قلیل فاصلے پر واقع تھا اور اس مندر میں بجنے والی گھنٹیوں کی آواز سے روزانہ سلطان کی آنکھ کھل جاتی تھی۔ اگر ٹیپو سلطان کسی قسم کے تعصب کا حامل ہوتا تو وہ کیوں مندر میں بجنے والی گھنٹیوں کے شور کو برداشت کرتا۔ یہ مندر آج بھی موجود ہے اور جس طرح ٹیپو سلطان کے زمانے میں ہندو زائرین اس مندر کا رخ کرتے تھے آج بھی اسی طرح ہندو زائرین اس مندر کا رخ کرتے ہیں۔ ریکارڈ میں ایسے ہندو مندروں کی فہرست بھی موجود ہے جن کو سلطان ٹیپو کی حکومت سےامداد ملتی تھی۔‘‘

(ٹیپو سلطان (شیرِ میسور)، تلخیص و ترجمہ: محمد زاہد ملک، صفحہ نمبر 70)

مالا بار میں گروایو ر کا مندر بہت پرانا اور مشہور ہے۔ مالا بار کے ہندووٴں کا اگر اس کو کعبہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ہزاروں خوش اعتقاد اس کی زیارت کے لئے دور دور سے آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہندووٴں کے مشہور دیوتا کرشن جی مہاراج کے والد و اسد یونے وشنو کی یہ مورت اپنی پرستش کے لئے ایک خواب دیکھ کر بنائی تھی۔ سلطان ٹیپو جب مالا بار کو فتح کرتا ہوا گروایور کے قریب پہنچا تو اس مندر کے پجاری بہت گھبرائے اور انہوں نے دیوتا کی بیش قیمت مورت کو ٹراونکور کے ایک مندر میں بھیج دیا۔

ٹیپو سلطان تو گروایور کے قریب ہی ایک مقام پر رک گیا اور اپنی فوجوں کو گروایو رکو فتح کرنے کے لئے بھیج دیا۔ اس کے سپاہیوں نے گروایور کو فتح کر لیا اور چونکہ ان دنوں مسلمانوں کی مرہٹوں سے لڑائیاں ہو رہی تھیں اس لئے بعض مسلمانوں نے ازراہ انتقام اس مندر کو جلا کر خاک کردینا چاہا۔ چنانچہ چند سپاہوں نے مندر کی دیواروں پر گھی چھڑک کر آگ لگا دی عمارت تھوڑی ہی جلنے پائی تھی کہ ٹیپو سلطان کے افسروں کو اپنے بادشاہ کے احکام کا خیال آ گیااور انہوں نے جلدی جلدی آگ بجھا کر مندر کے دو تین برہمنوں کو ٹیپو سلطان کے پاس بھیجا کہ وہ جا کر شورش پسند سپاہوں کی شکایت کریں۔ ٹیپو سلطان نے جس وقت پجاریوں سے یہ سنا کہ اس کےچند شریر سپاہوں نے مندر میں آگ لگانے کی کوشش کی تو بہت ناراض ہوا اور رات ہی رات سفر طے کر کے گروایو رپہنچا۔ یہاں پہنچ کر اس نے تحقیقات شروع کی اور جن مسلمان سپاہوں نے مندر میں آگ لگانے کی کوشش کی تھی ان کو سزا دی۔ مندر کو درست کروایا اور حکم دیا کہ اس شہر سے جو کچھ آمدنی ہو وہ سرکاری خزانے میں داخل کرنے کی بجائے ہمیشہ اس مندر کو بخش دی جائے۔ جب اسے معلوم ہوا کہ پجاریوں نے اس کے خوف سے مندر کی مورتی کو ٹراونکور بھجوا دیا ہے تو اس نے حکم دیا کہ دیوتا کی مورت کو فوراً واپس منگوا کر اس مندر میں نصب کیا جائے۔

(تاریخ سلطنت خداداد میسور صفحہ نمبر528-529)

سلطان کی بے تعصبی کی ایک اور مثال محمود خاں محمود بنگلوری نے یوں بیان کی ہے:
سلطان نے جس جگہ پرورش پائی تھی اس جگہ اب مسجد اعلیٰ بنی ہوئی ہے۔ پہلے یہاں ایک مختصر مندر اور مسافر خانہ تھا۔ فقیر نے یہاں پیش گوئی کی تھی۔ سلطان نے حسب ہدایت فقیر یہی جگہ مسجد کے لئے انتخاب کی مگر مندر ہونے کی وجہ سے اسے پس وپیش رہا۔ پجاریوں اور عام ہندووٴں کو بلا کر کہا گیا کہ اگر یہ جگہ مسجد کے لئے دے دی جائےتو اس کے عوض ایک عالیشان مندر تعمیر کر دیا جائے گا۔ اُن کے راضی ہونے کے بعد سلطان نے اپنے قول کو جس طرح نبھایا اس کا ثبوت وہ عا لیشان مندر جو مسجد سے مغربی جانب ایک فرلانگ دور سڑک کے سیدھے بازو پر ہے، دے رہا ہے اور اس مندر کو جو بیش قرار جائیداد دی گی اس کی سندات ابھی مندر میں موجود ہیں۔

(تاریخ سلطنت خداداد میسور صفحہ 534، 535)

(3) اعتراض : زبردستی مسلمان بنانا:

اکثر عیسائی مورخین نے سلطان کو الزام دیا کہ کورگ کے معاملے میں اس نے نہایت تعصب سے کام لیا۔ وہ لکھتے ہیں :
’’گرد ونواح کورگ میں اکثر ہندو لوگ عیسائی مذہب قبول کرتے جاتے تھے تو سلطان نے اس پر انھیں لکھا کہ وہ اپنا آبائی مذہب ترک نہ کریں۔ مگر جب چھ دفعہ لکھنے پر بھی اس کا اثر نہ ہوا تو آخر سلطان نے لکھا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ آئندہ تم میں سے کوئی شخص اپنا آبائی مذہب ہر گز ترک نہ کرے اور اگر ایسا ہی تبدیل ِمذہب کاشوق ہو تو خود اپنے باشادہ کا جو ظل اللہ ہے کا مذہب اختیار کریں۔

اس سے انکار نہیں کیا جاتا کہ واقعی سلطان نے کورگ کے ہندووٴں کو یہی مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ تبدیل مذہب کا شوق رکھتے ہوں تو وہ اہنے بادشاہ کا مذہب اختیار کریں لیکن اس کو تعصب اور نا انصافی نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے اس نے صاف طور پر انھیں کہا کہ اپنا قدیم اور آبائی مذہب ہر گز نہ تبدیل نہ کریں۔ اس کو معلوم تھا کہ لوگوں کو مذہب حق کی تلاش نہیں بلکہ وہ عیسائی پادریوں کے فریب کا شکار ہو رہے ہیں اور عیسائی پادری مذہب کے لئے نہیں بلکہ آینٔدہ سیاسی فوائد کو مد نظر رکھ کر لوگوں کو اپنے جال میں پھانس رہے ہیں۔ اس کی دور بین نظر یہ دیکھ چکی تھی کہ بنگال اور کرناٹک میں عیسائی پادری کس طرح مذہب کا جال بچھا کر عیسائی حکومت کے لئے راستہ صاف کر چکے تھے۔

(تاریخ سلطنت خداداد میسور صفحہ 532)

(4) اعتراض: عیسایئوں کو در بدر کرنا

Bhupendra Yadav (بھوپندرا یادیو) نے ولکس کے اس اعتراض پر کہ ٹیپو سلطان نے کنارس کے 60,000 عیسائیوں کو اپنے علاقے سے دربدر کیا۔ اس کے جواب میں لکھا کہ بعض سکالر ز کے نزدیک اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ عیسائی مذہب کے خلاف تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ انھوں نے سیکنڈ انگلو۔ میسور وار میں انگریزوں کی مدد کی اور غداری کے مرتکب ہوئے۔ جس کی وجہ سے انگریزوں نےاس جنگ کے دوران منگلور پر قبضہ کر لیا۔ اگر ٹیپو سلطان نے عیسا ئی مذہب کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا ہوتا تو اپنی ریاست میں شام کے عیسایئوں کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرتا اور نہ ہی وہ آرمینین تاجروں کو میسور آ کر آباد ہونے کی دعوت دیتا۔

مزید برآں پرتگالی تحریرات جو کہ پنجم آرکائیو میں دریافت ہوئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیپو سلطان نےگوا کے آرچ بشپ کو درخواست کی کہ کچھ کیتھولک پادریوں کو عیسائی لوگوں کی تربیت کے لئے میسور بھیجا جائے کیونکہ وہ اپنے مذہبی فرائض کو نظر انداز کر رہے تھے۔

(اکنامکس اینڈ پولیٹیکل ویکلی، 29دسمبر 1990)

حکم و عدل امام ِ وقت کا حتمی فیصلہ

آخر میں اس زمانے کے حکم و عدل جو مسلمانوں کے لئے مہدی، عیسایئوں کے لئے عیسیٰ اور ہندووٴں کے لئے کرشن تھے کا فیصلہ حاضرخدمت ہے جو ان تمام باتوں پر حرف آخرہے جس کے بعد کسی بھی اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سلطان ٹیپو کے بارے میں جس محبت و احترام کا اظہار فرمایا اس کا ذکر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ کے موقع پر فرمایا:
’’سلطان ٹیپو کے متعلق تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب وہ آخری دفعہ انگریزوں سے لڑا اور لڑتے لڑتے قلعہ کی فصیل پر چڑھ گیا اور اسے گولی لگی تو وہ خندق کے اندر کی طرف گر گیا۔ اس وقت اس کے چند جان باز سپاہی انگریزوں سے لڑتے لڑتے مارے گئےاور اس پر گر گئے۔ دوسری طرف سے انگریزی فوج اندر داخل ہو گئی اس نے حکم دیا کہ ٹیپو کی لاش تلاش کی جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیٔے کہ باہر تو جاں باز سپاہی دشمن سے لڑتے رہے اورمحل کے اندر عورتوں نے انگریزوں کا مقابلہ شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ جب انگریزی فوج محل کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا محل کے اندر دیکھو شاید وہ زخمی ہو کر اندر نہ پڑا ہو۔ لیکن جب انھوں نے محل کے اندر جھانکا تو سارا صحن عورتوں کی لاشوں سےبھرا ہوا تھا۔ تب انہوں نے کہا، واقع میں یہ بہت بڑا شخص تھا کہ اس کے لئے ہزاروں عورتوں نے قربانی کر کے جا نیں دے دیں۔ اس خیال سے کہ شاید ٹیپو زخمی ہو کر اندر آئے تو ہم اس کی مدد کر سکیں، شہر کی عورتیں محل کے اندر جمع ہو گئی تھیں اور جب انگریز محل میں داخل ہوئے تو وہ ساری کی ساری ان سے لڑتے ہوئے ماری گئیں پھر انگریزں نے اپنے غصّہ کو اس طرح نکالا کہ اپنے کتّوں کا نام انہوں نے ٹیپو رکھنا شروع کر دیا۔ یہ نام کسی زمانہ میں اس قدر عام تھا کہ ہم جب بچے تھے تو سمجھتے تھے کہ شاید ٹیپو کے معنے ہی کتے کے ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازے پر آیا۔ میں وہاں کھڑا تھا۔ اندر کمرے میں حضرت صاحب تھے۔ میں نے اس کتے کو اشارہ کیا اور کہا ٹیپو، ٹیپو، ٹیپو۔۔ ۔ ۔ ۔ حضرت صاحب بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا، تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریزوں نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم ان کی نقل کرکے کتے کو ٹیپو کہتے ہو۔ خبردار آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔ میری عمر اس وقت 9-10 کی تھی۔ وہ پہلا دن تھا جب سے میرے دل کے اندر سلطان ٹیپو کی محبت قائم ہو گئی اور میں نے سمجھا کہ سلطان ٹیپو کی قربانی رائیگاں نہیں گئی خدا تعالیٰ نے اس کے نام کو اتنی برکت دی کہ آخری زمانے کا مامور بھی اس کی قدر کرتا تھا اور اس کے لئے غیرت رکھتا تھا۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ یکم اپریل 1958)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی شہادت کے بعد اسلام کی طاقت بالکل کمزور ہو گئی۔ وہ حقیقت میں اسلام کا آخری تاجدار تھا اور اپنے دل میں اسلام کی ایسی سچی محبت رکھتا تھا کہ جس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔

آپؓ نے مزید فرمایا کہ وہ شخص ایسا بہادر تھا کہ جب انگریز قلعے کی دیواروں کے اندر داخل ہو گئے تو اس کا ایک وزیر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس نے کہا فلاں دروازہ سے آپ باہر نکل جائیے دشمن قلعہ کے اندر داخل ہو گیا ہےلیکن بجائے اس کہ وہ اپنی جگہ چھوڑتا اور اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا اس نے کہا میں ان لوگوں میں سے نہیں جو بھاگ کر اپنی جان بچانا چاہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ’’گیڈر کی ایک سو سال کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی زیادہ اچھی ہے‘‘ میں گیڈر کی طرح بھاگنا نہیں چاہتا بلکہ میں شیر کی طرح مقابلہ کروں گا۔ چنانچہ وہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ گویا مسلمانوں کوآخری شکست بھی وہی ہوئی جس کی وجہ سے اسلام کا نام ہندوستان سے مٹ گیا۔

(سیرروحانی۔ 28 دسمبر 1958 موقع جلسہ سالانہ)

شہادت

سلطان ٹیپو نے 4 مئی 1799ء کو سرنگاپٹم میں انگریزی افواج سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔

وہ قومیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں جو اپنے قومی ہیروز کے کارناموں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور اپنے لئے مشعلِ راہ بناتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو خواہ وہ کسی قوم اور مذہب سےہوں ان حقائق سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔ اورقوموں کی بنیادوں کو کھوکھلا کر نے والے پروپیگنڈاسے اجتناب کرنا چاہیے۔

(عظمٰی ربانی۔ یو کے)

پچھلا پڑھیں

نماز جنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2022