• 19 اپریل, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 20-21)


اپنے جائزے لیں
ازارشادات خطبات مسرور جلد 16حصہ دوم (سال 2018ء)
قسط 20-21

ہر احمدی کو، ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے تو کیا اس ماننے اور بیعت کا حق ادا کرنے والے بھی ہیں ؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پس ہر احمدی کو، ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے تو کیا اس ماننے اور بیعت کا حق ادا کرنے والے بھی ہیں ؟ اکثر میرے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو نمازیں بھی پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ نمازوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ استغفار کی طرف تو بعضوں کی بالکل توجہ نہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں۔ اگر یہ حالت ہے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم اعمال صالحہ بجا لانے والے ہیں۔

ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ دوسرے نہ مان کر گناہگار ہو رہے ہیں۔ جنہوں نے نہیں مانا اور انکار کیا وہ گناہگار ہو رہے ہیں۔ اور ہم مان کر پھر اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کر کے، ایک عہد کر کے پھر اسے پورا نہ کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہیں۔ پس بڑی فکر سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم صرف رسمی طور پر یوم مسیح موعود منانے والے نہ ہوں بلکہ مسیح موعود کو قبول کرنے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنوں سے بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور ہر بلا اور ہر مشکل سے بچائے۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 23؍ مارچ 2018ء صفحہ 147)

ہر احمدی کو دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے ایسی حرکت سرزد ہونے کا اپنا جائزہ لینا چاہئے جو ہمیں خدا تعالیٰ کے نزدیک انتہائی گناہگار تو نہیں بنا رہی!

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ ہم سے ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے ہم سے کوئی ایسی حرکت سرزد تو نہیں ہو رہی یا ہم کوئی ایسی حرکت تو نہیں کر رہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کے نزدیک انتہائی گناہگار بنا رہی ہو۔

پس جیسا کہ میں نے کہا جب ہم اپنے ایمان کو بچانے کے لئے، اپنے دین پر قائم رہنے کے لئے اپنے ملک سے نکلے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سب سے اوّل فوقیت ہمیں دینی چاہئے۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کے بعد ہماری ترجیحات کیا ہیں ا ور کیا ہونی چاہئیں۔ اگر یہ ترجیحات خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق نہیں تو ہم نے اس مقصد کو نہیں پایا جو مقصد ہماری ہجرت کا ہے۔ اور اگر یہ اس کے مطابق ہیں تو ہم نے اس ہجرت کے مقصد کو پا لیا اور ایسی صورت میں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ہمارے شامل حال ہوں گے۔ اگر ہماری بنیاد ہی جھوٹ پر ہے اور ہم نے دنیا کے حصول کو اپنا مقصد سمجھا ہوا ہے تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے والے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے کبھی شرک نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے مقصد پیدائش کی حقیقت کو سمجھا ہے ان کی زندگی کا پہلا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کو حاصل کرنا اور دنیا کی رنگینیوں میں ڈوبنا ہمارا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک مومن کا مقصد پیدائش ہے۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اس کے بتائے ہوئے مقصد پیدائش کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی ہم حقیقی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس دنیا میں آنے کے مقصد کو پورا کر سکتے ہیں۔ یہ دنیا اور اس کی نعمتیں تو ہمیں مل ہی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی نعماء سے اپنی طرف آنے والوں کو محروم نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیاوی نعمتوں سے بھی محروم نہیں رکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ مجھ سے دنیا وآخرت کی حسنات مانگو۔ جیسا کہ فرماتا ہے رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ:202)۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 6؍ اپریل 2018ء صفحہ 158)

ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ خلافت کے ساتھ وابستہ انعامات کے حصول کے لئے نصائح کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ ہمیں ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ساتھ وابستہ انعامات کے حصول کے لئے جن باتوں اور جن کاموں کے کرنے کی نصیحت فرمائی ہے اس کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں ؟ ان کے معیار کیا ہیں ؟ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری عبادتیں کیسی ہیں ؟ ہماری نمازوں کے قیام کیسے ہیں ؟ ہمارا ہر قول و عمل شرک سے پاک ہے یا نہیں ؟ ہماری مالی قربانیوں کے معیار کیا ہیں ؟ ہماری اطاعت کے معیار کس درجہ کے ہیں ؟ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح چاہتے ہیں ہم ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہیں یا نہیں ؟ اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس معیار پر اپنے سلسلہ کے ماننے والوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ہم اس تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں ؟ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 16خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 25؍ مئی2018ء صفحہ 241)

ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ معیار کے مطابق جلسہ میں شامل ہونے کے ہم حق دار ہیں یا نہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ اگر وہ معیار نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام چاہتے ہیں تو پھر ہم جلسہ میں شامل ہونے کے حق دار بھی نہیں ہیں۔ یایہ دیکھیں کہ ہم حق دار ہیں بھی کہ نہیں ؟یا صرف اس لئے کہ پیدائشی احمدی ہیں یا پرانے احمدی ہو گئے، کئی سالوں سے بیعت کر کے یا بزرگ آباؤ اجداد کی اولاد ہیں اس لئے شامل ہو رہے ہیں تو پھر وہ مقصد پورا نہیں کر رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ یا اس نیت سے نہیں آئے کہ ہم نے یہ مقصد حاصل کرنے کی اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کوشش کرنی ہے یا کرتے رہے ہیں یا کر رہے ہیں تو پھر اگر یہ نہیں تو پھر جلسوں پر آنا ایک میلے پر آنا ہی ہے۔ پس اس بات سے ہر مخلص احمدی کے دل میں ایک فکر پیدا ہونی چاہئے۔ اب تو ہر سال دنیا کے مختلف ممالک کے جلسے ہوتے ہیں بعض میں مَیں شامل ہوتا ہوں۔ بعض پر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے شرکت ہو جاتی ہے۔ یورپ کے بعض جلسوں میں آپ میں سے بہت سے شامل ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جو کئی جلسوں میں شامل ہوئے۔ یُوکے کے جلسہ کے بعد جرمنی کے جلسہ میں بہت سے شامل ہو کر آئے ہیں اور ہر جلسہ پر جلسہ کے مقاصد اور دینی علمی اور روحانی ترقی کی باتیں ہوتی ہیں اور تقاریر ہوتی ہیں اور بہت سےلوگ مجھے لکھتے ہیں کہ ایک خاص ماحول تھا اس میں روحانیت کے نظارے ہم نے دیکھے۔آپس میں بہت پیار اور بھائی چارے کے نظارے ہم نے دیکھے۔لوگ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بعض مہمان گئے ہوئے تھے وہ بھی یہ ماحول دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے۔ پس ان باتوں کی وجہ سے اور ایک سال میں ایک سے زیادہ جلسوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ایک انقلاب ہماری حالتوں میں آ جانا چاہئے۔ کہاں تو وہ زمانہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ سال میں ایک دفعہ جلسہ میں شامل ہوں تا کہ تمہارے اندر ایسی پاک تبدیلی ہو کر سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف ایک خاص توجہ پیدا ہو۔ اور کجا اب یہ حالت ہے کہ بعض لوگ سال میں ایک سے زائد جلسوں میں شامل ہوتے ہیں۔ پس جائزہ لیں کہ پھر ایسے حالات میں کیسا انقلاب آ جانا چاہئے۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 16خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 14؍ ستمبر 2018ء صفحہ 447-448)

ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کہیں ہم حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد کے مطابق ان لوگوں میں تو شامل نہیں جن کو جلسہ کوئی فائدہ نہیں دے رہا

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کہیں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق ان لوگوں میں تو شامل نہیں جن کو جلسہ کوئی فائدہ نہیں دے رہا۔

پس جب یہاں جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں تو ہر شامل ہونے والا جلسہ کی تمام کارروائی میں شامل ہو۔ صبر اور تحمل سے بیٹھے اور تمام تقاریر سنے اور جو باتیں بیان ہوئی ہوں ان سے علمی اور عملی فائدہ حاصل کرے۔ ‘‘

(خطبات مسرور جلد16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 14؍ستمبر 2018ء صفحہ 449)

انتظامیہ کو، افسران کو، اپنے اور اپنی
منصوبہ بندیوں کے جائزے لینے چاہئیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کو نصائح کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
’’ انتظامیہ کو، افسران کو، اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ اپنی منصوبہ بندیوں کے جائزے لینے چاہئیں اور تمام کمزوریوں کو ایک لال کتاب جو بنی ہوئی ہے اس میں لکھیں تا کہ آئندہ یہ دہرائی نہ جائیں۔

جرمنی میں کام کرنے والے کارکنان کے بارے میں یہ شکایت آیا کرتی تھی کہ ان کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں ہوتی اور اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ ڈیوٹی دیتے ہوئے سخت رویہ ہوتا ہے۔ اس دفعہ عمومی طور پر اس بارے میں ان کی بھی اچھی رپورٹ ہے۔ آئندہ سالوں میں اسے مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 16خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 21؍ ستمبر 2018ء صفحہ 453-454)

ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کس حد تک ہم اقام الصلوٰة
کے معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ کس حد تک ہم اقام الصلوٰۃ کے اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ اس مادی دنیا میں اکثریت اول تو باجماعت نماز کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ اور اگر مسجد میں آ بھی جائیں تو نہ فرض نمازوں میں، نہ سنتوں میں وہ توجہ رہتی ہے جو نماز کا حق ہے۔ ایسی حالت اگر ہے تو ہم خود ہی اپنی حالت کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا واقعی ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مساجد تعمیر کرنے والے اور اس کا حق ادا کرنے والے کہا ہے۔

پھر فرمایا کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ دین کی خاطر بھی مالی قربانی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بہتری کے لئے بھی، ان کے حق ادا کرنے کے لئے بھی مالی قربانی کرنے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کو سوائے اللہ تعالیٰ کے خوف کے اور کوئی خوف نہیں ہوتا۔ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے کسی عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے، اللہ تعالیٰ کے پیار سے ہم محروم نہ ہو جائیں۔ اپنے اعمال ان ہدایات کے مطابق کرنے والے ہوتے ہیں، ان حکموں کو اپنے پیش نظر ہر وقت رکھنے والے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی مسلمان کو حکم دیا ہے اور جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں۔ پس یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے جو ایک مومن، مسلمان کی ہے۔ اور اس مسجد بننے کے بعد یہاں آنے والوں یا اس مسجد سے اپنے آپ کو منسوب کرنے والوں کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں۔

آپ نے اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی حق ادا کرنے ہیں تبھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جانے والے ہوں گے، تبھی ان لوگوں میں شمار ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر رہتی ہے۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 16خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 19؍ اکتوبر 2018ء صفحہ 511)

اپنے جائزے لے لیں کہ ہمارا عہد بیعت کیا ہے
اور ہمارے عمل کیا ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ پس یہ بہت سوچنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ جب ہم پر فضل فرما رہا ہے تو اس کی شکر گزاری ہم پر فرض ہے۔ پس وہ لوگ جو اپنے دنیاوی کاروباروں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے حق کو اور اپنی عبادتوں کو بھول گئے ہیں یا اس پر وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہئے وہ اپنے جائزے لے لیں کہ ہمارا عہد بیعت کیا ہے اور ہمارے عمل کیا ہیں۔ اور جو یہاں نئے آئے ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ دنیامیں ڈوبنا ترقی نہیں ہے بلکہ تباہی ہے۔ اور انہوں نے ہمیشہ اس بات کو سامنے رکھنا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ مسجدوں کے حق ادا کرنے والے ہوں اللہ کی عبادت کاحق ادا کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’یاد رکھو! ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں، نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔ یہ نکمّی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 16خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 19؍ اکتوبر 2018ء صفحہ 516-517)

اچھی آمد کے لوگوں کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ وہ اپنی آمدنی کے مطابق چندہ دے رہے ہیں یا نہیں؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ جو اچھی آمد کے لوگ ہیں ان کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ وہ اپنی آمد کے مطابق چندہ دے رہے ہیں یا نہیں۔ صرف یہ نہیں کہ جس طرح ٹیکس دینے کے لئے بہت ساری کٹوتیاں کر لیتے ہیں چندے کے لئے بھی کر لیں۔ اپنی آمد کو دیکھیں۔ کیونکہ یہ چندے کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے۔ سیکرٹری مال کو یا نظام کو تو پتہ نہیں ہے کہ کسی کی آمد کیا ہے جو چندہ دے رہا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو تو پتہ ہے۔ وہ تو دلوں کا حال جانتا ہے۔ اگر صحیح شرح سے چندہ دینا شروع کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ مساجد کی تعمیر اور دوسرے جماعتی کاموں کے لئے پھر بہت کم علیحدہ تحریک کرنی پڑے گی۔ پس اس لحاظ سے اپنے جائزے لیں اور اپنے چندہ عام کے بجٹ کا دوبارہ جائزہ لے کر لکھوائیں، جنہوں نے کم لکھوائے ہوئے ہیں۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 16خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 2؍ نومبر 2018ء صفحہ 541)

جلد17 (سال 2019ء)
قسط 21
اطاعت کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے جائزہ لیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ اگر ہم جائزہ لیں تو اکثر موقع پر یہ نظر آئے گا کہ اطاعت کے وہ معیار حاصل نہیں کرتے جو ہونے چاہئیں۔ اگر کسی بات پر عمل کر بھی لیں تو بڑی بے دلی سے عمل ہوتا ہے جو مرضی کے خلاف باتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے جو حکم ہیں، ان آیات میں اتنی بار جو اطاعت کا حکم آیا ہے یہ خلافت کے جاری رکھنے کے وعدے کے ساتھ ان آیات میں آیا ہے گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ خلافت کا نظام بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات اور نظام کا ایک حصہ ہے۔ پس خلافت کی باتوں پر عمل کرنا بھی تمہارے لیے ضروری ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے بلکہ ایک قومی اور روحانی زندگی کے جاری رکھنے کے لیے مومنین کے لیے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ اپنی اطاعت کے معیار کو بڑھائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جس نے میرے قائم کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور میری اطاعت کرنے والے نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی اور اسی طرح میرے امیر کی نافرمانی میری نافرمانی ہے اور میری نافرمانی خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الاحکام باب قول اللّٰہ تعالیٰ اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم حدیث 7137) ‘‘

(خطبات مسرورجلد 17 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 24؍ مئی 2019ء صفحہ 280)

اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ
کس حد تک ہم میں اطاعت کا مادہ ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لیے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم میں اطاعت کا مادہ ہے۔ کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔کس حد تک ہم اپنی عبادتوں کو سنوار رہے ہیں۔ کس حد تک سنت پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کس حد تک ہماری اطاعت کے معیار ہیں۔ یہ جائزے خود ہمیں اپنے آپ سے لینے چاہئیں۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 17 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 24؍ مئی 2019ء صفحہ 284)

ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم خدا تعالیٰ کا حقیقی ذکر کریں اور پھر اللہ تعالیٰ ہمیں یاد رکھ کر اپنے فضلوں کا مورد بنائے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’بعض لوگ باہر جماعتی کاموں میں اچھے ہیں تو گھروں میں بیوی بچے ان سے تنگ آئے ہوئےہیں۔ بعض گھروں کے حق ادا کر رہے ہیں تواللہ تعالیٰ کے حق اور اس کی عبادت کی طرف توجہ نہیں ہے۔ اس قسم کی شکایتیں ملتی ہیں۔ بعض بظاہر عبادت کرنے والے ہیں تو معاشرے کے آپس کے معاملات میں ایک دوسرے کا حق مارنے والے ہیں۔ بعض دنیا والوں کے سامنے بعض نیکیاں کرنے والے ہیں تو صرف دکھاوے کے لیے اور بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو بھی جانتا ہے اور وہ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میری جماعت شمار ہونے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے، اس کے فضلوں کا وارث بننے کے لیے، اللہ تعالیٰ کے لطف و احسان کو حاصل کرنے کے لیے ہر جہت سے اور ہر پہلو سے اپنی عملی حالتوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور یہ جلسے کے اہتمام اسی غرض کے لیے کیے گئے ہیں کہ نیکیوں کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو۔ اور جو مقررین ہیں وہ بھی اپنی تقریروں میں اس طرف توجہ دلاتے رہیں۔ ہمیں ایک ماحول میں رکھ کر اس طرف توجہ دلائی جاتی رہے کہ ہمارے ہر عمل میں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ

’’یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہےلَا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ(النور:38)‘‘ یعنی جنہیں نہ کوئی تجارت نہ خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل رکھتی ہے۔ فرمایا کہ ’’جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت”آپؑ فرماتے ہیں کہ اس طرح، ‘‘اس طریق پر سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے،کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔‘‘

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 20-21)

پس یہ وہ حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس حالت کے پیدا کرنے کی کوشش کے لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے کہ ہم اس حالت کے حاصل کرنے والے بن سکیں اور جب ہم یہ حالت پیدا کریں گے اور اس کے لیے کوشش کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ہمیں یاد رکھے گا جیسا کہ خود اس نے فرمایا ہے کہ اُذْکُرُوا اللّٰہَ یذْکُرْکُمْ۔ پس کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کا اللہ تعالیٰ ذکر کرے، انہیں یاد رکھے۔ ہمارا مولیٰ ہمیں صرف اس بات پر اتنا نوازے کہ ہم دنیاوی مصروفیات میں اپنے مولیٰ کو نہیں بھولے اور ان دنوں میں خاص طور پر اس بات کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم خدا تعالیٰ کا حقیقی ذکر کریں اور پھر اللہ تعالیٰ ہمیں یاد رکھ کراپنے فضلوں کا موردبنائے۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 17 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 5؍ جولائی 2019ء صفحہ 356-357)

اپنے جائزے لیں، دو عملیاں نہ ہوں۔ اپنے دلوں کے میل ایسے لوگوں کو نکالنے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عفو، درگزر اور صلح کے طریق اختیار کرنے چاہئیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ ہمیں اپنا، اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آنحضرتؐ نے جو فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ حدیث 10)

کیا یہ ارشاد ہماری حالتوں کی عکاسی کرتا ہے، ہمارے عمل اس کے مطابق ہیں ؟ کیا ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم سو فیصد اس پر عمل کرنے والے ہیں ؟ اگر یہ سچ ہے، اگر ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ سچ ہے تو پھر قضا میں ہمارا کوئی معاملہ آنا ہی نہیں چاہیےاور ملکی عدالتوں میں حقوق کے حصول کے لیے مقدمات جانے ہی نہیں چاہئیں۔ مجھے بڑے افسوس سے یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض لوگ یہاں جلسہ پر آتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر پرانے کینوں اور رنجشوں کی وجہ سے جلسے کے دنوں میں اس ماحول میں بھی دست و گریبان ہو جاتے ہیں، لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ پولیس کو بھی بلانا پڑتا ہے۔ کیا یہ ایک مومن کی شان ہے؟کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں شامل ہونے والوں کے یہ عمل ہیں ؟ یقیناً نہیں۔ ایسے لوگوں کو نظامِ جماعت اگر جماعت سے باہر نکالے یا نہ نکالے وہ اپنے عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں جماعت سے باہر نکل جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشاد کے مطابق وہ آسمان پر آپؑ کی جماعت میں شامل نہیں ہیں۔

پس اپنے جائزے لیں، دوعملیاں نہ ہوں۔ اپنے دلوں کے میل ایسے لوگوں کو نکالنے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عفو، درگزر اور صلح کے طریق اختیار کرنے چاہئیں۔ دنیا کو یہ بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ کر ہماری روحانی اور اخلاقی حالتوں میں ایک انقلابی تبدیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح عہدیداران ہیں اور جلسہ کی ڈیوٹی دینے والے ہیں وہ ان دنوں میں خاص خیال رکھیں کہ ان کے اخلاق کے معیار بہت بلند ہونے چاہئیں۔ جن کی عام دنوں میں کسی سے کوئی رنجش تھی بھی تو ان کارکنوں کو جلسہ کے ماحول میں اسے صلح اور صفائی میں بدلنے کے لیے پہل کرنی چاہیے۔ نہ یہ کہ بدلے لینے کی صورت پیدا کریں۔ جلسے پر آنے والا ہر شخص مہمان ہے اور ہر عہدیدار اور ہر کارکن کا کام ہے کہ ہر قسم کی ذاتی رنجشوں کو دور کر کے اعلیٰ ظرفی اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کریں۔ عہدیداروں کی یہ خاص ذمہ داری ہے کہ ان میں برداشت کا مادہ زیادہ ہونا چاہیے۔ پس عہدیدار اپنے آپ کو ہر حال میں خادم سمجھیں اور افرادِ جماعت اور جلسے میں شامل ہونے والے عہدیداروں کو نظامِ جماعت کا نمائندہ سمجھیں تو تبھی کھچاؤ اور لڑائیوں کے ماحول میں بہتری آ سکتی ہے، آپس کی رنجشیں دور ہو سکتی ہیں۔

مجھے یہ بھی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں بعض جماعتوں کے عہدیداروں نے اپنے عہدوں کا خیال نہیں رکھا۔ جلسے کے ماحول کی بات نہیں کر رہا۔ عام حالات میں بھی اپنی جماعتوں کی جماعتی ذمہ داریوں میں اور خدمتِ دین کو اللہ تعالیٰ کے فضل کی بجائے دنیاوی عہدے کی طرح سمجھا ہے جس کی وجہ سے انہیں تبدیل بھی کرنا پڑا ہے۔

پس ایسے لوگ اگر یہاں جلسے پر آئے ہیں تو عبادت، ذکرِ الٰہی اور عاجزی میں بڑھنے کی کوشش کریں۔ اگر ان کے خیال میں ان کے بارے میں غلط فیصلے بھی ہوئے ہیں تب بھی عاجزانہ راہیں اختیار کریں اور عاجزانہ راہیں اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور نظامِ جماعت کے بارے میں دلوں میں رنجشیں نہ لائیں۔ اگر غلط فیصلے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ وہ جانتا ہے، غیب کا بھی علم رکھتا ہے، حاضر کا بھی علم رکھتا ہے۔ اس کے آگے اگر عاجز ہو کر جھکا جائے تو وہ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور مشکلات سے نکالتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اصل چیز عہدہ نہیں بلکہ اصل چیز اپنے بیعت کے حق کو ادا کرنا ہے۔ چاہے وہ عہدے دار ہے یا فردِ جماعت ہے اسے اس حق کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہیے ‘‘

(خطبات مسرورجلد 17 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 5؍ جولائی 2019ء صفحہ 358-359)

ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ دیکھے اور تلاش کرت کہ وہ کیا مقاصد ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ والے ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور اس بات کی ضرور ت ہے کہ دیکھے اور تلاش کرے کہ وہ کیا مقاصد ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ کر پورے کرنے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ان پچھلے چند سالوں میں بہت سے احمدی ہجرت کر کے یہاں آئے ہیں اور یہاں جماعت کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کیوں ہجرت کر کے آئے ہیں ؟ اس لیے کہ خاص طور پر پاکستان میں احمدیوں کو مذہبی آزادی نہیں ہے، احمدیوں کو مذہب کے نام پر تنگ کیا جاتا ہے، ان کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے زمانے کے امام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی اور حکم کے مطابق مانا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کا نام لینے اور اس کی عبادت کرنے سے اس لیے روکا جاتا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی بیعت میں کیوں آئے ہیں۔ مسجدیں بنانا تو ایک طرف ہمیں اپنے لوگوں کی تربیت کے لیے جلسے اور اجتماع کرنے سے بھی روکا جاتا ہے بلکہ گھروں میں بھی قانون کی رُو سے ہم نمازیں نہیں پڑھ سکتے۔ عیدِ قربان پر ہم جانوروں کی قربانی نہیں کر سکتے بلکہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔اس پر بھی مقدمے ہو جاتے ہیں اور اس لیے بھی کہ نام نہاد علماء اور ان کے چیلوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ پس ایسے حالات میں بہت سے احمدی پاکستان سے ہجرت کر کے دوسرے ممالک جہاں مذہبی آزادی ہے چلے جاتے ہیں، ہجرت کر گئے ہیں۔

آپ میں سے بھی جو یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں انہیں یہاں مذہبی آزادی بھی ہے اور مالی اور معاشی لحاظ سے بھی اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کے مواقع بھی ملے ہیں۔ پس ہر احمدی کو جو ان پابندیوں سے آزاد ہو کر زندگی گزار رہا ہے جو ان کو پاکستان میں تھیں خاص طور پر اس وجہ سے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی روحانی،علمی اور اخلاقی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس بات پر ہی خوش نہیں ہو جانا چاہیے کہ ہم آزاد ہیں اور کوئی ایسی پابندی ہم پر نہیں ہے جو ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے سے روکے۔

اگر ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق نہیں، اگر ہم نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پہلے سے بڑھ کر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے اظہار پہلے سے بڑھ کر ہم سے ظاہر نہیں ہو رہے تو اس آزادی کا کیا فائدہ ہے، ان جلسوں میں شامل ہونے کا کیا فائدہ؟ یہ مساجد کی تعمیر کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ حقیقی فائدہ تو ہمیں اس آزادی کا تب ہی ہو گا جب ہم بیعت کا حق ادا کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان جلسوں کے انعقاد کا اعلان بھی اللہ تعالیٰ سے اِذن پا کر فرمایا تھا اور اس لیے فرمایا تھا کہ ان جلسوں کی وجہ سے ہم میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں، ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے بنیں اور اس کا صحیح فہم اور ادراک ہمیں حاصل ہو۔ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرنے والے ہوں۔ اپنی روحانی، اخلاقی اور علمی حالت بہتر کرنے والے ہوں اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ جلسے کے مقاصد کو بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں اور اپنی بیعت میں آنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ “تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو۔ اور اپنے مولیٰ کریم اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔‘‘

(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351)

پس بڑا واضح ارشاد ہے کہ میری بیعت میں آ کر صرف زبانی دعوے تک نہ رہو بلکہ مخلصین میں شامل ہو جاؤ اور اخلاص اور وفا میں اس وقت ترقی ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سب محبتوں سے بڑھ کر ہو۔ اس لیے شرائطِ بیعت میں بھی آپ نے یہ شرط رکھی ہے کہ بیعت کرنے والا قال اللہ اور قال الرسولؐ کو ہر معاملے میں دستور العمل قرار دے گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

دنیاوی مصروفیات اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کے لیے قربان کرنی پڑیں گی جو چیز ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی ہے اس سے بچنا ہوگا

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی ہر بات کو اپنے ہر معاملے میں تب ہی رہ نما بنایا جا سکتا ہے جب حقیقی محبت ہو۔ پس یہ جلسے اس لیے منعقد کیے جاتے ہیں تا کہ بار بار ہمیں اس بات کی یاددہانی ہوتی رہے کہ ہماری بیعت کا مقصد کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ دنیا کی محبت بالکل نکل جائے اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت اس پر غالب آ جائے۔ اس کے لیے بڑی جدو جہد کی ضرورت ہے۔ اور جب ہم نے عہدِ بیعت کیا ہے تو یہ جد و جہد کرنی چاہیے اور کرنی پڑے گی۔ ہمیں اپنے دنیاوی کاروبار اپنی عبادتوں کے لیے قربان کرنے پڑیں گے۔ دنیاوی مصروفیات اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کے لیے قربان کرنی پڑیں گی۔ جو چیز ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی ہے اس سے بچنا ہو گا۔ اگر ہماری ملازمتیں، ہماری تجارتیں اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے سے روکتی ہیں تو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں رہنے کے لیے ان برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہو گا، ان روکوں کو دُور کرنا ہو گا۔ اسی طرح اگر ہماری انائیں، ہماری نام نہاد دنیاوی عزتیں اور شہرتیں، ہماری خود غرضانہ سوچیں اور عمل حقوق العباد ادا کرنے سے روک رہی ہیں تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی ہے۔ حقوق العباد ادا کرنے کا بھی اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور یہ نافرمانی کر کے ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں رہنے کے مقصد کو پورا نہیں کر رہے۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 17 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 27ستمبر 2019ء صفحہ 522-524)

جلسہ سالانہ کی اغراض کو سامنے رکھ کر
اپنے جائزے لیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے کے انعقاد کی جو اغراض ہمارے سامنے پیش فرمائی ہیں اگر ہم ان کو سامنے رکھ کر اپنے جائزے لیں تو نہ صرف ان تین دنوں کے مقصد کو پورا کرنے والےبن جائیں گے اور جلسے میں شامل ہونے والوں کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو دعائیں ہیں ان کے حاصل کرنے والے بن جائیں گے اور پھر ان کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن جائیں گے اور نہ صرف اپنی حالتوں بلکہ ہماری نیک اعمال کے حصول کے لیے کوشش اور اس پر عمل ہماری آئندہ نسلوں کے دین پر قائم رہنے اور خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والے بنا کر انہیں بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بنا دیں گے۔ جہاں دنیا خدا تعالیٰ اور دین سے دور جا رہی ہے ہماری نسلیں خدا تعالیٰ کے قریب ہونے والی ہوں گی اور دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا باعث بن رہی ہوں گی۔

پس اگر ہم نے اپنے عہدِ بیعت کو پورا کرنا ہے، اپنی نسلوں کو بچانا ہے تو پھر ان اغراض کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے جو جلسے کے انعقاد کی ہیں، ان تین دنوں کو اس عہد کے ساتھ گزارنے کی ضرورت ہے کہ یہ باتیں اب ہماری زندگیوں کا حصہ ہمیشہ رہیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسےکی اغراض بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کی فکر ہو۔ جلسہ پر آنے والوں کے لیے اس لیے جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے کہ ان کو یہاں رہ کر اس ماحول میں رہ کر اپنی آخرت کی فکر ہو۔ خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو۔ تقوٰی ان میں پیدا ہو۔ نرم دلی پیدا ہو۔ آپس کی محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو، عاجزی اور انکساری پیدا ہو، سچائی پر وہ قائم ہوں اور دین کی خدمت کے لیے سرگرمی ہو۔

(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)

پس یہ ہے آج ہمارے یہاں جمع ہونے کا مقصد۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 17 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 4؍ اکتوبر 2019ء صفحہ 531-532)

جائزے لیں کہ کیا ہم مقاصد کو سامنے رکھ کر
جلسہ میں شامل ہوتے ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اس نیت سے جلسے میں شامل ہو رہے ہیں ا ور اپنے اندر ان مقاصد کو حاصل کرنے کی ایک تڑپ رکھتے ہیں۔ اگر بشری کمزوریوں کی وجہ سے ماضی میں ہم سے ان باتوں کے حصول کے لیے غلطیاں اور کوتاہیاں ہو گئی ہیں تو آئندہ ہم ایک نئے عزم کے ساتھ ان نیکیوں کو پیدا کرنے اور انہیں قائم رکھنے کی حتی المقدور کوشش کرنے کے لیے تیار ہیں اور کریں گے؟ آج ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر کرنے والے ہوں گے، ہم خدا کا خوف اور اس کی خشیت اور اس کی محبت کو ہر چیز پر فوقیت دیں گے، ہم تقوٰی کی باریک راہوں پر چلنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے، ہم اپنے دلوں میں دوسروں کے لیے نرمی پیدا کریں گے، ہم آپس میں محبت اور بھائی چارے کو اس قدر بڑھائیں گے کہ یہ محبت اور بھائی چارہ ایک مثال بن جائے، عاجزی اور تواضع میں ہم بڑھنے والے بنیں گے، سچائی اور قولِ سدید ہماری ایک خصوصیت بن جائے گا کہ ہر شخص کہے کہ احمدی ہیں جو ہمیشہ سچ پر قائم رہتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور اس کے لیے بڑے سے بڑا نقصان بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ دینی خدمات کے لیے ایسے سرگرم ہوں گے جو ایک مثال ہو گا اور اس کے لیے پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے دین کے پیغام کو اپنے ماحول کے ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش کریں گے، ان کو بتائیں گے کہ حقیقی اسلام کیا ہے۔

اگر ہم اپنے اس عہد کو پورا کرنے والے بن گئے، ہماری زندگیاں اس کے مطابق گزرنے لگ گئیں تو یقیناً ہم نے عہدِ بیعت پورا کر لیا۔‘‘

(خطبات مسرورجلد 17 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 4؍ اکتوبر 2019ء صفحہ 533-534)

عبادتوں کے ساتھ
حقوق العباد کی ادائیگی کا بھی جائزہ لیتے رہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ ہمیں اپنے جائزے لیتے ہوئے اپنی عبادتوں کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیں، نرم دلی، آپس کی محبت اور عاجزی کی حقیقت پہچاننے کی کوشش کریں اور یہ اس لحاظ سے بھی ہم پر ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو عہدِ بیعت باندھا ہے اس میں شرک سے پرہیز، نمازوں کی ادائیگی؛ فرض نمازیں بھی اور نوافل کی ادائیگی کے ساتھ ہم نے یہ عہدِ بیعت بھی کیا ہے کہ ہم عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو اپنے نفسانی جوشوں سے کسی قسم کی تکلیف نہیں دیں گے۔ صرف آپس کے مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، جماعت کے ممبران کے لیے ہی نہیں۔ ٹھیک ہے اپنے گھر سے شروع کرو، آپس میں بھی ہونا چاہیے پھر مسلمانوں کے لیے پھر عام مخلوق کے لیے بھی، ہر ایک کے لیے ہمارے دل میں ایک پیار اور محبت کے جذبات ہونے چاہئیں۔ نفسانی جوشوں سے ہمیں خالی ہونا چاہیے۔ اپنے ماتحتوں کے ساتھ بھی نیک سلوک کرنے والے ہم ہوں۔ ہمارے ایسے سلوک ہوں جس سے ہم ایسے بن جائیں کہ ہر ایک ہمارے ان رویوں کو، ہماری نیکیوں کو پرکھنا چاہے تو پرکھ سکے۔ یہ دیکھنا چاہے کہ کیا یہ معیار جو کہتے ہیں اس کے مطابق ہیں ؟ کیا ہم اس کے مطابق عمل کر رہے ہیں ؟ تو اگر یہ معیار ہیں اور دوسرا جب ہمیں پرکھتا ہے اس کے مطابق پرکھ لے کہ واقعی یہ ہیں تو تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم حقیقی مومن ہیں اور ہم بیعت کا حق ادا کر رہے ہیں۔ بیعت جو ہم کرتے ہیں اس میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ تکبّر کو مکمل طور پر چھوڑ کر عاجزی اور مسکینی کی زندگی بسر کروں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

یہ عاجزی اور مسکینی کا پیدا کرنا صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے کے انعقاد کے مقاصد میں سے ایک مقصد بیان نہیں کیا بلکہ ہم نے آپؑ سے جو عہدِ بیعت کیا ہے اس میں یہ عہد ہے کہ میں عاجزی اور مسکینی سے زندگی بسر کروں گا۔ پس یہ عہد پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور یہی سچائی کی طرف پہلا قدم ہے کہ ہم نے جو عہد بیعت کیا ہے اس کو پورا کریں۔ پس بیعت کی شرائط بھی پڑھتے رہنا چاہیے، پڑھتے رہیں اور دیکھیں کہ کیا ہم سچائی کے ساتھ ان پر قائم ہیں، اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر نہیں تو دنیا کی اصلاح کا دعویٰ جو ہم کرتے ہیں وہ غلط ہے۔ اس سے پہلے ہمیں اپنی اصلاح کی کوشش کرنی ہو گی ورنہ ہم ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو کہتے کچھ اَور ہیں اور کرتے کچھ اَور ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ناپسند فرمایا ہے۔ ہمارے عمل ہماری سچائی کی بجائے ہمارے جھوٹ کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔ اور جب یہ قول و فعل کا تضاد ہو گا تو پھر خدمتِ دین کا دعویٰ اور اس کے لیے سرگرمی کا اظہار جو ہے وہ بھی غلط ہو جائے گا۔

بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سچے ہیں، آپؑ کا دعویٰ سچا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے کامیابیوں کا وعدہ کیا ہوا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مخلصین کی جماعت دینے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے لیکن اگر ہماری حالتیں ایسی نہیں تو پھر ہم ان میں شامل نہیں ہوں گے جو آپ کے سلسلے کے مددگار ہوں۔ پس بیعت کی برکات کے حصول کے لیے اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے، جو جلسے کی اغراض آپ نے بیان فرمائی ہیں ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے جلسے کے یہ تین دن ہمیں اس غور کرنے کے لیے میسر آئے ہیں۔ ان دنوں میں ہر ایک اپنا جائزہ لے۔ بجائے اس کے کہ اِدھر اُدھر کی باتوں میں اپنا وقت گزاریں دعا، استغفار اور درود کی طرف ہمیں متوجہ رہنا چاہیے اور تب ہی ہم اس جلسے سے حقیقی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 17 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 4؍ اکتوبر 2019ء صفحہ 537-538)

پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کا بھی جائزہ لیتے رہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ ہر احمدی کو اپنے نمازوں کے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا ان کی پانچ وقت باقاعدگی سے نماز پڑھنے کی طرف توجہ ہے اور پھر باجماعت نماز پڑھنے کی طرف توجہ ہے؟ صرف اتنا تو کافی نہیں کہ ہماری مسجد بن گئی۔ جنت میں گھر بنانے کے لیے تو اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ مسجد بنا لی، اس کے لیے ایمان کے ساتھ عمل کی بھی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی بھی ضرورت ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں ہونے کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہر سال ہزاروں مسجدیں مسلمان بناتے ہیں لیکن اگر ان میں فرقہ واریت کے درس دیے جاتے ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے بجائے ذاتی مفادات یا صرف اسی فرقے کے مفادات کی باتیں کی جاتی ہیں یا نئی نئی بدعات نام نہاد علماء پیدا کر رہے ہیں جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کوئی تعلق نہیں تو وہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور اس کے رسولؐ کے نزدیک جنت میں لے جانے والی مسجدیں نہیں۔

پس مسجد کا حق ادا کرنا اور اسے جنت لے جانے کا ذریعہ بنانا اور اس کی تعمیر سے جنت میں ایک گھر بنانا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ہر احمدی کو سمجھ کر پھر اس پر عمل کرنے اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور اس زمانے میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ِصادقؑ نے ایک حقیقی مسلمان بننے اور عبادتوں اور اپنی مسجدوں کے حق ادا کرنے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنے کے بارے میں جس طرح بتایا ہے اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر پختہ اور کامل ایمان لانے والے ہیں، یومِ آخرت پر کامل ایمان اور یقین رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی نمازوں کو قائم رکھنے والے ہیں اور اپنے مال قربان کر کے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی قائم کرنے والے ہیں اور اگر کسی ہستی کا ہمیں خوف ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی خشیت ہی ہمارے دلوں میں ہے کیونکہ ہم اس سے پیار کرنے والے ہیں۔ کسی دنیاوی چیز سے ہمیں خوف نہیں ہے، کسی دنیاوی چیز سے ہمیں وہ محبت نہیں جو ہمیں خدا تعالیٰ سے ہے۔ ہم اپنے دنیاوی مفادات کو اپنے ایمان اور اپنے دین کے لیے قربان کرنے والے ہیں۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 17 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 11؍ اکتوبر 2019ء صفحہ 543)

آپ لوگ فوراً اپنے جائزے لیں کہ نماز کے قیام کا حق کس حد تک ادا کرتے ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ آپ لوگ خود اپنے جائزے لے سکتے ہیں کہ کس حد تک ہم نماز کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں ؟ کس حد تک خدا تعالیٰ سے ہر ایک کا تعلق قائم ہو گیا ہے یا اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں ؟ کس حد تک دنیا کے کام ہماری نمازوں میں حائل ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی بات، والی چیز جو ہے وہ ترکِ نماز ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ حدیث:82)

کفر اور ایمان کے درمیان فرق کس چیز سے ہو گا اسی سے ہو گا کہ نماز چھوڑ دی۔ پس یہ ارشاد ہمیں ہلا دینے والا ہونا چاہیے کہ مومن وہ ہے جو نمازوں میں باقاعدہ ہے ورنہ اس میں اور ایک کافر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نماز باجماعت پڑھنے والے کا ثواب بھی اللہ تعالیٰ نے صرف یہ نہیں کہا کہ نمازیں پڑھو بلکہ باجماعت پڑھے۔ حق ادا کر کے پڑھے تو پچیس گنا اور بعض جگہ ستائیس گنا ثواب رکھا ہوا ہے بیان کیا گیا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 645-646)

اس کے باوجود اگر بغیر کسی جائز عذر کے ہم اس طرف توجہ نہ دیں تو پھر ہماری کس قدر بدقسمتی ہے۔ پس اگر ہم نے مساجد بنائی ہیں تو مسجدوں کے حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اپنی مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ خود نیکیاں کرنے اور اپنے اخلاق بلند کرنے اور دوسروں کو نیکیاں کرنے کی تلقین کی ضرورت ہے۔ خود یہاں کے ماحول کی برائیوں سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی ضرورت ہے ورنہ ہمارا عہدِ بیعت بھی صرف لفظی عہدِ بیعت ہے۔ ‘‘

(خطبات مسرورجلد 17 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 25؍ اکتوبر 2019ء صفحہ 573-574)

(ابو مصور خان۔ رفیع ناصر)

پچھلا پڑھیں

مسلمانوں پر کیوں ادبار آیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2023