• 12 مئی, 2025

آداب معاشرت (سلام کے آداب) (قسط 5)

آداب معاشرت
سلام کے آداب
قسط 5

ہمارا مذہب جہاں ہمیں جسمانی اور مالی عبادات بجا لانے کا حکم دیتا ہے وہاں زبانی عبادت بجا لانے کو بھی بہت بھاری نیکی قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ نیک بات کہنا بھی صدقہ ہے۔ سلام کے معنی امن،سلامتی اور رحمت وبرکت کے ہیں۔ یہ وہ عظیم الشان دعا اور تحفہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے جس کا نام’’ السلام‘‘ ہے جو تمام دنیا کو امن دینے والااور سلامتیوں کا سرچشمہ ہے۔ حضرت محمد ﷺ کو عطا کیااور پھر محسن انسانیت حضرت محمدﷺنے اپنی اُمت کو اس قول خیر کو پھیلانے کا حکم دیاتاکہ معاشرے کی فضا سلامتی کی دعاؤں سے بھر جائے۔ سلام کے بار ے میں آداب پیش ہیں۔

دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر اجازت لینی چاہئے۔ گھر والوں کی طرف سے اگر ایک دفعہ ’’السلام علیکم‘‘ کا جواب نہ ملے تو وقفہ وقفہ کے بعد تین دفعہ ’’السلام علیکم‘‘ کہناچاہئے۔ حضرت رسول کریمﷺ کی یہ عاد ت تھی کہ آپؐ جب کسی قوم کے پاس تشریف لےجاتے تو تین بار سلام کہتے۔ ( بخاری )اپنے گھروں میں داخل ہوتے وقت بھی گھر والوں کو سلام کہنا چاہئے۔ کیونکہ سلام کرنے والے پر اورسلام کئے جانے والوں پر خدا تعالیٰ برکتیں نازل کرتا ہے۔ سلام کے لفظ میں کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا وعدہ ہے اس لیے اگر گھر میں کوئی شخص موجود نہ بھی ہو تواپنے گھروں میں داخل ہوتے وقت اپنے نفس پر سلام بھیجناچاہئے۔ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے وقت بھی ’’السلام علیکم‘‘ کے الفاظ کہنے چاہئیں۔ آداب وغیر ہ کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ کیونکہ شریعت نے سلام کو ایک دینی شعارقرار دیا ہے۔ سلام کا جواب ضرور دینا چاہئے بلکہ بہتر طور پر اس کا جواب دینا چاہئے۔ بہتر رنگ میں سلام کے جواب سے انسان کی نیکیوں میں اضافہ ہوتاہے۔ سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرنی چاہئے۔ سلام میں ابتداء کرنے والے شخص کو زیادہ ثواب ملتاہے۔

سلام کوعام کرنا چاہئے کیونکہ سلام کو رواج دینے اور پھیلانے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔خواہ واقف ہویا ناواقف اُسے سلام کرنا چاہئے۔ حضور اکر مﷺ نے سلام کہنے کو اخوت اسلامی کے قیام کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ ملاقات کے وقت ’’السلا م علیکم‘‘ کہنے کے بعد اگر درمیان میں کوئی چیز حائل ہوجائے تو دوبارہ ملاقات کے وقت پھر ’’السلام علیکم‘‘ کہنا چاہئے۔ کسی مجلس میں بیٹھنے سے پہلے ’’السلام علیکم‘‘ کہنا چاہئے۔ اسی طرح جب مجلس سے اُٹھ کر جا نا پڑے توبھی ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر جانا چاہئے۔ بڑوں کوچاہئے کہ وہ بچوں کو سلام کریں اور چھوٹوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے بڑوں کو سلام کریں۔ سوار کو چاہئے کہ وہ پید ل کو سلام کرے۔ اسی طرح پیدل چلنے والے بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کریں اور تھوڑے آدمی زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔ مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو جب ’’السلام علیکم‘‘ کہا جائے تو مجلس میں سے ایک یا چند اشخاص کا سلام کاجواب دینا سب کی طرف سے کافی ہوجاتا ہے۔ مردوں کا واقف عورتوں کو اور عورتوں کا واقف مردوں کو سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

پس سلامتی اورامن کی یہ نوید جو حضرت محمدﷺ نے خدائے سلام کی طرف سے لاکر تمام دنیا کو د ی ہے۔ ہم اسے اختیار کریں اور اجنبیت کی فضا کو دور کرنے، اپنی روحانی بیماریوں کا علاج کرنے اور آپس میں محبت ومودّت بڑھانے کے لیے سلامتی کی راہوں پر چلتے ہوئے ہم السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبر کاتہ کو رواج دیں۔

(حنیف محمود کے قلم سے)

پچھلا پڑھیں

مغفرت کی چادر

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ