• 26 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت قاضی فیروز الدین ؓ (کوٹلی آزاد کشمیر)

حضرت قاضی فیروزالدین ؓ ابن قاضی خیر الدین محلہ چوک قاضیاں گاؤں ندھیری موضع گوئی ضلع کوٹلی کے رہائشی تھے۔ آپ کے والد صاحب علاقہ گوئی کے امام تھے۔ آباؤ اجداد لوگوں کے معاملات کے فیصلہ جات کی وجہ سے قاضی کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ اس لحاظ سے آپ کی علاقے میں کافی عزت اور شہرت تھی۔
آپ کاقد لمبا، جسم دبلا پتلا، سینہ چوڑا اور ریش مبارک سفید تھے۔

تعلیم

آپ نے دینی اور دنیوی ہر قسم کی تعلیم حضرت مولوی محبوب عالم سے حاصل کی جو کہ علاقہ ہذا کے پہلے احمدی اور حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی تھے۔ آپ حضرت مولوی محبوب عالم کی رہنمائی سے قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

بچپن

آپ کا بچپن نہایت صاف ستھرا گزرا۔ آپ اپنا وقت کھیل کودمیں صرف کرنے کی بجائے ذکر الہٰی اور عبادت میں مصروف رہتے۔ بچپن سے ہی سچ بولتے اور سچ بولنے کی تلقین کرتے۔ اپنے والد صاحب کے ہمراہ نمازوں کی پابندی کرتے اور ہر قسم کی لغویات سے اجتناب کرتے۔

آپ ہر وقت باوضو رہتے جب بھی کوئی آپ کو آوازدے کر بلاتا چاہے بڑا ہو یا چھوٹا آپ جی کے لفظ سے اسے مخاطب ہوتے ۔ زبان نہایت شیریں تھی اور اخلاق کے اعلیٰ مراتب پر فائز تھے۔ ہر ایک آپ کے صدق اور اخلاق کا معترف تھا۔ جس کے ساتھ وعدہ کرتے پورا کرتے آپ ایک اعلیٰ شخصیت کے مالک گردانے جاتے تھے۔ آپ عموماً شلوار قمیص پہنا کرتے تھے۔ سرپرپگڑی یا ٹوپی پہنا کرتے تھے۔

شادی و اولاد

آپ کی پہلی شادی محترمہ رانی بی بی سے ہوئی جن سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیدا ہوا ۔بیٹا جب سترہ سال کا ہواتو فوت ہو گیا۔ ان کے بعد غلام بی بی نامی بیٹی پیدا ہوئی۔ بوجوہ آپ کو علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔

آپ کی دوسری شادی گجر برادری میں محترمہ بگھی بیگم صاحبہ سے ہوئی ان سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو 3بیٹے اور 3بیٹیاں عطا کیں۔ جن کے نام یہ ہیں۔

مکرمہ خورشید بی بی، مکرمہ خدیجہ بی بی، مکرم عبدالرحیم، مکرمہ عینماں بی بی، مکرم عبد العزیز اور مکرم عبدا للطیف ۔

مکرم عبدا للطیف اور مکرمہ خدیجہ بی بی دونوں عہدِ شباب میں وفات پا گئے تھے۔

آپ کی سب سے بڑی بیٹی خورشید بی بی اولاد کی نعمت سے محروم رہیں۔ جب آپ کی عمر 100سال کے قریب پہنچی تو ایک لڑکے کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی صداقت کے نشان دیکھے اور بیعت کرلی۔ آپ کے بیٹے عبدالرحیم جو پیدائشی احمدی تھے ان کی اولاد خدا کے فضل سے احمدی ہے۔ آپ کے بیٹے مکرم عبدالعزیز کو اللہ تعالیٰ نے سات بیٹوں سےنوازا۔

آپ کی تیسری شادی مکرمہ خواج بی بی سے ہوئی۔ جن کا تعلق مغل خاندان سے ہے ان سے کوئی نرینہ اولاد نہ ہوئی۔

بیعت

حضرت مولوی محبوب عالم جب بیعت کر کے اپنے گاؤں ندھیری تشریف لائے تو آپ کے تمام شاگرد آپ کی ملاقات کے لئے آئے بعض روایات کے مطابق حضرت محبوب عالم ابتداء میں حضرت قاضی صاحب کے ہاں مقیم رہے۔ جب شاگرد آپ سے ملنے آتے تو آپ ان کو فرماتے: ’’قادیان چلے جاؤ اور حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرو‘‘ اس پر قاضی صاحب اپنے ایک عزیز ساتھی کے ہمراہ سونا گلی سے راجوری کے راستے پیدل لمبی مسافت طے کرنے کے بعد اپنے ایک عزیز قاضی بہادر علی کے ہمراہ (جوکہ قاضی عبدالرحیم کے سسر تھے) قادیان پہنچے اور حضرت مسیح موعود کی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔

چنانچہ آپ دونوں کچھ عرصہ حضرت مسیح موعودؑ کی روحپرور تقاریر سے مستفید ہوتے رہے پھر ان برکتوں کو لےکر واپسلوٹے۔

ایمان افروز واقعات

حضرت قاضی فیروز الدین دمہ کے مریض تھے ۔ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں عرض کی۔ مجھے ایک عرصہ سے دمہ کی مرض ہے حضور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے اور یہ مرض دور ہو جائے۔ حضور نے دعا فرمائی ’’اللہ تعالیٰ شفا دے گا‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو معجزانہ شفا عطا فرمائی اور دوبارہ آپ کو کبھی یہ بیماری لاحق نہیں ہوئی۔ آپ اکثرقبولیت دعا کے اس واقعہ کا ذکر فرمایا کرتے رہتے تھے کہ مسیح پاک کی دعا سے مجھے شفا ہوئی اور مرض جاتا رہا۔

شدید مخالفت

حضرت قاضی فیروز الدین صاحب جب بیعت کرکے اپنے گھر واپس آئے تو آپ کو اپنے والد قاضی خیر الدین کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کے دوسرے بہن بھائیوں نے بھی شدید رد عمل کا اظہار کیا اور آپ کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ہر لحاظ سے آپ کا بائیکاٹ کیا گیا آپ کے والد نے آپ کو عاق کرکے وراثتی حقوق سے محروم کردیا۔ کہنے لگے تم میری رسی سے نکل گئے ہو اور مذہب چھوڑ دیا ہے۔

آپ کے والد صاحب کی زمین 48 کنال تھی انہوں نے عاق کرکے اس وراثتی حق سے محروم کردیا۔ اس وقت غربت کا دور دورہ تھا آپ نے انتہائی مشکل وقت گزارا۔ ذریعہ معاش صرف کھیتی باڑی تھا آپ کے والد صاحب ایک یا دو روٹیاں بھیج دیتے تھے۔ دس سال کا عرصہ آپ نے بڑی مشکل سے گزارا۔

مہمان نوازی کا واقعہ

ایک دفعہ دو بازی گُر آپ کے گھر ٹھہرے۔ وہی کھانا جو والد صاحب کے ہاں سے آتا تھا۔ دونوں مہمانوں کو کھلا دیا اور میاں بیوی دونوں بھوکے رہے دوسرے روز جب صبح کا ناشتہ آیا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کھانا گھر میں نہیں بناتے؟ آپ نے ان کو سارا ماجرا سنایا کہ میں نے امام مہدی کی بیعت کر لی ہے ۔ اس پر والد صاحب نے ناراض ہو کر مجھے جائیداد سے عاق کر دیا ہے ۔ صرف ایک یا دو روٹیاں کھانے کے لئے بھجواتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناشتہ ہم نہیں کھائیں گے۔ آپ چونکہ رات سے بھوکے ہیں ۔ آپ کھا لیں اس کے بعد مہمان ناشتہ کئے بغیر آپ کے والد کے پاس چلے گئے اور ان سے کہنے لگے آپ بہت ظالم آدمی ہیں اپنے بیٹے کا حصہ دوسروں کو دے رہے ہیں۔ آپ کے والد صاحب نے کہا جب تک اماممہدی کا انکار نہیں کرتے ۔ اس وقت تک میں انہیں حصہ نہ دوں گا۔ مہمانوں نے اس واقعہ کا ذکر دوسرے لوگوں سے بھی کیا کہ قاضی خیردین بہت ظالم آدمی ہے ۔ اس نے اپنے بیٹے کو جائیداد سے محروم کر دیاہے جب یہ بات گاؤں کے دوسرے لیڈروں تک پہنچی تو انہوں نے قاضی خیر الدین پر دباؤ ڈالا کہ اپنے بیٹے کو جائیداد سے حصہ دو۔ جس پر آپ کے والد صاحب نے 48کنال رقبہ میں سے صر ف چھ کنال رقبہ آپ کو دیا۔

اللہ تعالیٰ کا کریمانہ سلوک

اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے نرالا سلوک کرتا ہے۔ آپ کی بیوی بگھی کی تین بہنیں تھیں۔ بھائی کوئی نہ تھا۔ قاضی فیروز دین صاحب نے اپنے خسر کی بہت خدمت کی اور دیکھ بھال کرتے رہے۔ ان کے حسن سلوک کو دیکھ کر انہوں نے اپنی ساری 50 کنال زمین آپ کے نام لگوا دی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے نعم البدل کے طور پر کئی گنا زیادہ زمین سے نوازا یہ ایسی زمین ہے کہ جس میں بکثرت چشمے ہیں۔

عبادت

آپ کو بچپن سے ہی عبادت کا شوق تھا۔ جنگل میں ایک غار میں عبادت کی جگہ مخصوص کی ہوئی تھی۔ اس میں چوڑے پتھر لگوائے ہوئے تھے۔ ان پر بیٹھ کر آپ عبادت کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ اور وہاں تلاوت بھی کیا کرتے تھے۔ آپ باقاعدگی سے تہجد بھی پڑھا کرتے تھے دوسروں کو بھی تہجد پڑھنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔

قرآن پاک سے عشق

آپ عاشق قرآن تھے آپ گھرسے دور ایک غار میں چلے جاتے تھے وہاں تلاوت اور عبادت میں مشغول رہتے۔ آپ نہایت خوش الحانی سے تلاوت کیا کرتے تھے۔ مولوی اللہ دتہ مولوی امام دین مرحوم کے والد تھے۔ ایک دن انہوں نے فرمایا کہ قاضی فیروز الدین کو بلاؤ تاکہ ان سے قرآن کریم سنوں۔

آپ نیک ، عبادت گزاراور پارسا بزرگ تھے۔حسب معمول جلسہ سالانہ پر شرکت کرتے۔ آپ کی عادت تھی کہ چھوٹے بچوں کو سلام کرنے میں پہل کرتے تھے اور جب بھی کوئی چھوٹا بچہ آپ کو آواز دیتا ’’جی‘‘ کا لفظ بو لتے تھے اور یہ لفظ ان کا مشہور تھا۔ آپ خاندان حضرت مسیح موعودؑ اور علماء سلسلہ سے گہری محبت رکھتے تھے جب بھی مرکز سے کوئی مربی آتا اسے گھر بلا کر دعوت الیٰ اللہ کرواتے۔

جہاں بھی چشمہ ہوتا آپ اس کے گرد دیوار بناکر باؤلی بناتے۔ آپ کے علاقہ کے گردو نواح میں کئی چشمے ہیں جن سے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔

آپ کو بچپن سے باغبانی کا شوق تھا۔ آپ نے کیلوں کاایک باغ اپنے ہاتھ سے لگایا۔ جس کی شہرت آج بھی گردو نواح میں ہے۔

وفات

آپ 1955ء میں فوت ہوئے۔ اپنی وفات سے قبل مولوی امام الدین کے پاس جا کر اپنی متعدد خوابوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میں جلد دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا۔ میرے لئے دعا خیر کرتے رہیں۔ اس کے بعد آپ جلد ہی فوت ہوگئے۔

(محمد حسین شاہد۔مرحوم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

بدی اور گناہ سے پرہیز