• 5 مئی, 2024

ایمان مضبوط کرنے کے لئے اللہ سے تعلق ضروری ہے

جرمنی سے ایک بچی نے یہ سوال کیا کہ ایک مشکل وقت میں سے انسان کیسے گزرسکتا ہے جب اسکو محسوس ہو رہا ہو کہ وہ اپنا ایمان کھو رہا ہے اور وہ ایمان کو کیسے واپس حاصل کر سکتا ہے؟

جواب۔ حضورانور نے اسکا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایمان ضائع اگر ہو رہا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جو تعلق ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ ایمان مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تمہیں پتہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک تو پہلے غیب پر ایمان ہونا چاہئے، یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہے اور اسکے ہاتھ میں سب طاقتیں ہیں۔ پھر وہ کس طرح ہے اسکی تلاش کرو۔کل ہی میں نے خطبے میں بیان کیا تھا حضرت مصلح موعودؓ کا واقعہ کہ وہ گیارہ سال کے تھے تو ان کو خیال آیا کہ میں کیوں احمدی ہوں؟ پھر میں کیوں مسلمان ہوں؟ میں کیوں اللہ تعالیٰ پر یقین کرتا ہوں؟ پھر انہوں نے سوچنا شروع کیا اور ایک رات، اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھانا تھا تو، آسمان پر چمکتے ستارے ہی دیکھ کر ان کو پتہ لگ گیاکہ دیکھو! یہ ستارے ہیں ان کے پیچھے اور ستارے ہیں، سیارے ہیں، ایک کائنات ہے، ایک کائنات کے بعددوسری کائنات ہے، اتنی لاکھوں کائناتیں ہیں۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ کتنی کائناتیں ہیں۔ تو جب ان کو پتہ ہی نہیں اور لامحدود ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طاقت بھی اسی طرح لا محدود ہے۔ تو جب یہ پتہ لگ جائے کہ اللہ تعالیٰ ہے تو پھریہ بھی پتہ لگنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جو نبی بھیجتا ہے ہماری اصلاح کے لئے وہ بھی سچے ہیں۔ اور پھر اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا۔ قرآنِ کریم میں دیکھو بہت ساری پیشگوئیاں ہیں۔ اگر دیکھو تم کہ لوگ نماز نہیں پڑھتے، اللہ سے دعا نہیں کرتے رو رو کے اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے تو پھر تو ایمان ضائع ہی ہوتا ہے۔پھر اگر قرآنِ کریم نہیں پڑھتے قرآن شریف کو سمجھ کر نہیں پڑھتے اس میں سے حکم نہیں نکالتے جو ایمان کو مضبوط کرنے والے ہوں تو پھر بھی ایمان کمزور ہوتا ہے۔ پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بہت سا لٹریچر دیا ہے اس میں جو آسان باتیں ہیں ایمان مضبوط کرنے کے لئے اگر ہم وہ پڑھیں تو ہمارا علم بڑھے گا۔ اور علم کے ساتھ ہمارا ایمان بھی بڑھے گا۔تو یہ چیز تو محنت سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن شریف میں یہ ہی کہا ہے کہ۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا۔ وہ جو میرے رستے میں جہاد کرتے ہیں۔ان کو میں صحیح راستے دکھاتا ہوں۔ جہاد کا مطلب یہی ہے کہ کوشش کرنی پڑتی ہےایمان کو لانے کے لئے اور کوشش یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور اپنا علم بڑھانے کی کوشش کرو اور قرآنِ کریم میں جو حکم ہیں اللہ کے ان کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس عمر میں یہ کوشش کرنی شروع کر دینی چاہئے بارہ سال کی عمر میں۔

سوال۔ ایک بچی نے پیارے حضورِ انور سے سوال کیا کہ: حضور! میرا سوال یہ ہے کہ وہ کون سی نظم ہے جو آپ کو بہت پسند ہے اور آپ اکثر سنتے ہیں ؟

جواب۔ حضور نے جواب ارشاد فرمایا کہہر نظم جو اچھی پڑھی ہوتی ہے مجھے اچھی لگتی ہے۔

باقی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں ہیں سب سے اچھی اور کلامِ محمود کی نظمیں بہت ساری درِّ عدن کی نظمیں ہیں۔ اور بہت سے اچھے شاعروں کی نظمیں ہوتیں ہیں۔ کسی دن کسی چیز کا موڈ ہو جاتا ہے اور سننے کا اگر وقت ملے تو۔ وقت ہی نہیں ملتا نظمیں سننے کے لئے بیٹھ کر (حضور بہت مسکراتے ہوئے یہ جواب دے رہے تھے) پھر حضورِ انور نے بچی سے پوچھاکہ تم کون سی نظمیں سنتی ہو؟ تو بچی نے جواب دیا کہ بہت ساری سنتی ہوں جیسے خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا۔ خلیفہ دل ہمارا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ درثمین کی نظمیں پڑھا کرو اور کلامِ محمود کی نظمیں بھی پڑھا کرو تو تمہارا اس سے ایمان بھی بڑھے گا۔ یہ تو جو عارضی جوش پیدا کرنے والی نظمیں ہیں یہ تو ہیں لیکن ایمان بڑھانے کے لئے بھی زمانے کے امام حضرت مسیح موعود اور پھر خلفاء کا کلام جو ہے اس کو بھی پڑھنا چاہئے اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔

سوال۔ ایک اور بچی نے سوال کیا کہ: جاپان، کوریا اور چین میں سلام کرتے وقت جھکتے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم ادھر جائیں تو اس طرح جھکنا شرک کہلائے گا کیونکہ انسان کے سامنے جھکنا جائز نہیں ہے۔

جواب۔ حضورِ نے جواب میں فرمایا کہانکا ایک ٹریڈیشن ہے وہ یوں سر جھکا کر سلام کرتےہیں۔ ہمارے ایشیا میں بھی رواج ہے۔ پاکستان میں بھی، انڈیا میں بھی کہ بعض دفعہ سینے پر ہاتھ رکھ کر یوں جھک کر سلام کردیتے ہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتے ہیں اور ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں۔ تو وہ کوئی شرک تو نہیں ہوتا۔ ویسے بھی یہ انکی ٹریڈیشن ہے انکا سلام کا طریقہ ہے۔ وہ یوں جھکتے ہیں۔ کوئی عبادت کے لئے نہیں جھکتے۔ وہ اگلے کو خدا سمجھ کے تو نہیں جھک رہے ہوتے کہ اس سے میں نے کچھ لینا ہے یا مانگ رہا ہوں۔ وہ تو کرٹسی کا اظہار ہے کہ دکھائی جا رہی ہےکہ کس طرح ہم آپ کو عزت دیتے ہیں، احترام دیتے ہیں اور سلام کا ایک طریقہ ہے۔ تو جاپان وغیرہ اور بہت ساری دوسری جگہوں پر جب عورتیں آتی تھیں سلام کرنے کے لئے تو میں ان سے ہاتھ تو نہیں ملاتا، عورتوں سے، تو میں ذرا سا جھک کر آگے ہو کر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ دیتا ہوں۔ اس سے ان کو ہوجاتا ہے کہ ہماری عزت افزائی ہو گئی ہے۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ اگلے کی عزت کرنا۔ تو ایک اصول یاد رکھو کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر تمہاری نیت کسی کے سامنے جھکنے کی اس لئے ہے کہ تم اس سے مانگو اور اس کو خدا سمجھ رہی ہو تو وہ شرک ہے۔ اگر صرف کرٹسی ہے اور یہ کرٹسی دکھانے کے لئے، اس کو عزت دینے کے لئے ہے یوں کر کے (حضور نے جھکتے ہوئے واضح کیا) ہلکاسا سر جھکا دیا آگے۔ یا ذرا سی کمر کو بھی خم کر دیا، ذرا سا جھکا دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی شرک نہیں ہےیہ۔

(This Week with Huzoor مؤرخہ 25فروری 2022ء مطبوعہ الفضل آن لائن 19؍مارچ 2022ء)

پچھلا پڑھیں

مولوی محمد عبداللہ پیر کوٹی مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مئی 2022