• 14 مئی, 2024

قرآنى تعلىم کى خوبىاں

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’یہ زعم کہ قرآن اپنے دین کو چھپا لینے کے لئے حکم دیتا ہے محض بہتان اور افترا ہے جس کی کچھ بھی اصلیت نہیں۔ قرآن تو اُن پر لعنت بھیجتا ہے۔ جو دین کی گواہی کو عمداً چھپاتے ہیں اور اُن پر لعنت بھیجتا ہے جو جھوٹ بولتے ہیں شاید آپ نے قرآن کی اس آیت سے بوجہ نافہمی کے دھوکاکھایا ہوگا جو سورۃ النحل میں مذکور ہے اور وہ یہ ہے اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ …… (النحل:107) یعنی کافر عذاب میں ڈالے جائیں گے مگر ایسا شخص جس پر زبردستی کی جائے یعنی ایمانی شعار کے ادا کرنے سے کسی فوق الطاقت عذاب کی وجہ سے روکا جائے اور دل اس کا ایمان سے تسکین یافتہ ہے وہ عنداللہ معذور ہے۔ مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ اگر کوئی ظالم کسی مسلمان کو سخت دردناک اور فوق الطاقت زخموں سے مجروح کرے اور وہ اُس عذابِ شدید میں کوئی ایسے کلمات کہہ دے کہ اُس کافر کی نظر میں کفر کے کلمات ہوں مگر وہ خود کفر کے کلمات کی نیت نہ کرے بلکہ دل اُس کا ایمان سے لبالب ہو اور صرف یہ نیت ہو کہ وہ اس ناقابل برداشت سختی کی وجہ سے اپنے دین کو چھپاتا ہے مگر نہ عمداً بلکہ اس وقت جبکہ فوق الطاقت عذاب پہنچنے سے بے حواس اور دیوانہ سا ہوجائے تو خدا اُس کی توبہ کے وقت اُس کے گناہ کو اُس کی شرائط کی پابندی سے جو نیچے کی آیت میں مذکور ہیں معاف کر دے گا کیونکہ وہ غفورو رحیم ہے اور وہ شرائط یہ ہیں ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا فُتِنُوۡا ثُمَّ جٰہَدُوۡا وَ صَبَرُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (النحل:111) یعنی ایسے لوگ جو فوق الطاقت دُکھ کی حالت میں اپنے اسلام کا اخفاء کریں اُن کا اس شرط سے گناہ بخشا جائے گا کہ دُکھ اُٹھانے کے بعد پھر ہجرت کریں یعنی ایسی عادت سے یا ایسے ملک سے نکل جائیں جہاں دین پر زبردستی ہوتی ہے پھر خدا کی راہ میں بہت ہی کوشش کریں اور تکلیفوں پر صبر کریں۔ ان سب باتوں کے بعد خدا اُن کا گناہ بخش دے گا کیونکہ وہ غفور رحیم ہے۔ ‘‘

(نورالقرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد9 ص411)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر47، دو جون 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جون 2020