خطبہ جمعہ ہے یا کوئی رنگِ جمال ہے
یا آسمانی پیڑ کے پھولوں کی ڈال ہے
موتی چمکتے اِس میں ہیں حکمت کے باخُدا
ہر لفظ لفظ اِس کا سمندر مِثال ہے
اِک وجد اِک سُرور میں کرتا ہے مُبتلا
لگتا ہے جیسے ارض وسما کا وِصال ہے
اِک نُور نُور شخص خدا کا ہے ترجمان
اِس کا وجود مَظہرِ نُورِ جمال ہے
کرتا چمن کو خوشبوئے شبنم وہ جب عطا
اُٹھتی ہے دل سے پھر کوئی شاخِ نِہال ہے
برکت بہت خلافتِ خطبات میں نہاں
کرتا یہ پھل اِنعام نئے پورے سال ہے
چِمٹے رہو خلافتِ حَقّہ کے ساتھ تم
اَب اِس میں ہے عروج بس باقی زوال ہے
سب برکتیں رکھی ہیں اِطاعت میں دوستو
مِلتا خدا اُسے ہے جو عِجزو کمال ہے
ڈَر ڈَر کے روز وشب یہ گزارو جہان میں
ربِّ رحیم وہ کبھی ربِّ جَلال ہے
قدموں میں رکھ دو دین کے تم لا کے دولتیں
آخر میں فائدہ دیکھنا دے گایہ مال ہے
اب کیا یہاں بیان کروں حالتِ جہاں
چشمِ مَلال کہتی کہ پھیلا زوال ہے
میں اُس کو پیار کیوں نہ کروں جان و دل کے ساتھ
میرا حسیں تو ارض و سما کا غزال ہے
(عبدالجلیل عبادؔ ۔ جرمنی)