کوئی بھی اچھا نہیں لگتا سماں اس دہر میں
جب نہ ہو چہرہ تیرہ جلوہ کناں اس دہر میں
اے خدا ! مجھ کو عطا کر وہ دل بریانِ عشق
جس سے ہوں پیدا نئے لاکھوں جہاں اس دہر میں
میں محبت میں بھی ہوں خاموشیوں کا معترف
مجھ کو تُو چھپ کر بنا اپنا مکاں اس دہر میں
جو کوئی بھی جب تیرے نوروں میں نہلایا گیا
تو ہوئے اس میں عیاں کون و مکاں اس دہر میں
جو مِرے دل کے نہاں خانوں کو کچھ تو کھول دے
کاش کہ مجھ کو ملے ایسی زباں اس دہر میں
جو مِرے دل کے اک اک ذرّے پہ ہیں لکھے ہوئے
ہیں وہی تو چار سُو بکھرے جہاں اس دہر میں
(مقبول احمد ظفر۔مرحوم)