اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ کُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ۔ ترجمہ: پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور سجده کرنے والوں میں سے ہو جا۔
(الحجر: 99)
حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِيْ صَلَاتِهٖ فَلَمْ يَدْرِأَوَاحِدَةً صَلّٰی أَمْ ثِنْتَيْنِ
جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز کے در میان شک ہو جائے اور وہ نہ جانتا ہو کہ اُس نے دور کعات ادا کی ہیں یا ایک تو وہ اُسے ایک رکعت شمار کرے اور جب اُسے یہ معلوم نہ ہو سکے کہ اُس نے دور کعت ادا کی ہیں یا تین تو وہ اُنہیں دو رکعتیں شمار کر لے اور اگر وہ نہ جانتا ہو کہ اُس نے تین رکعت ادا کی ہیں یا چار تو وہ اُنہیں تین رکعتیں شمار کر لے۔ پھر جب وہ اپنی نماز مکمل کر لے تو بیٹھے بیٹھے سلام پھیرنے سے قبل دو سجدے کر لے۔
(مسند احمد، مسند العشرة المبشرين بالجنة، حديث عبد الرحمن بن عوف)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ۔
أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ صَلَّی الظُّھْرَ خَمْسًا فَقِیْلَ لَہٗ أَزِیْدَفِیْ الصَّلَاۃِ کہ رسول الله ﷺ نے ظہر کی پانچ رکعات ادا کیں تو (نماز کے بعد) آپؐ سے پوچھا گیا کہ کیا نماز میں اضافہ ہو گیا ہے؟ آپؐ نے فر مایا کون سا اضافہ؟ صحابہؓ نے عرض کی کہ آپؐ نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں تو آپ ﷺ نے دو سجدات سہو ادا کئے (اور سلام پھیرا)۔
(صحيح البخاري، کتاب الجمعة، باب اذا صلى خمسا)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں۔ آپؐ کو یاد دلایا گیا کہ آپ ؐ نے سہواً دو رکعتیں ادا کی ہیں فَصَلّٰی رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ تو آپ ﷺ نے دو رکعتیں مزید ادا کیں پھر سلام پھیرا اور دو سجدات سہو ادا کئے۔
(البخاري، الأذان باب هل یا خذالإمام اذا شك)
حضرت عبد الله بن بُحَيْنَة رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک نماز میں صرف دو رکعتیں پڑھائیں اور آپؐ قعدہ میں بیٹھنے کی بجائے (سیدھے) کھڑے ہو گئے تو صحابہ کرامؓ بھی آپؐ کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے فَلَمَّاقَضَی صَلَاتَہٗ وَ نَظَرْنَا تَسْلِیْمَہٗ کَبَّرَ قَبْلَ التَّسْلِیْمِ فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ وَ ھُوَ جَالِسٌ ثُمَّ سَلَّمَ جب آپ ﷺ نے نماز ختم کر لی اور سلام پھیرنے لگے تو آپ ﷺ نے سلام پھیرنے کے بجائے اللہ اکبر کہا اور پھر بیٹھے بیٹھے سجدے میں چلے گئے اور دو سجدات سہو ادا کئے اور اس کے بعد سلام پھیرا۔
(صحيح البخاري، کتاب الجمعة باب ما جاء فی السھو)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھائی۔ جب آپؐ نے سلام پھیرا تو آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: آخر کیا بات ہوئی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا۔ آپؐ نے اتنی رکعتیں ادا کی ہیں۔ یہ سُن کر آپ ﷺ نے اپنے دونوں پاؤں موڑے اور قبلہ کی طرف رُخ کر لیا اور دو سجدات سہو ادا کئے اور سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو مَیں تمہیں پہلے ہی ضرور کہہ دیتا، لیکن مَیں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو مَیں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لئے جب مَیں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہوجائے فَلْیَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْیُتِمَّ عَلَیْہِ ثُمَّ لِیُسَلِّمْ ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ تو اُس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اُسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے (سہو کے) کر لے۔
(صحيح البخاري، کتاب الصلاة، التوجه نحو القبلة)
حضرت عمران بن حصین ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اُنہیں نماز پڑھائی، تو آپ ﷺ نماز میں بھول گئے فَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ ثُمَّ تَشَھَّدَ ثُمَّ سَلَّمَ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو سجدے کئے پھر تشہد بیٹھے پھر سلام پھیرا۔
(سنن الترمذي، کتاب الصلاة باب ما جاء في التشهد)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں۔ سجدۂ سہو اُس غلطی کی بناء پر ہوتا ہے جو قائم ہو جائے۔ مثلاً ایک شخص نے پہلی رکعت کے سجدوں کے بعد دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہونا تھا لیکن غلطی سے وہ بیٹھ گیا۔ اس صورت میں اگر تشہد شروع کرنے سے پہلے اُسے اپنی غلطی کا علم ہو گیا اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا تو نماز کے بعد اُسے سجدہ سہو ادا نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر اُسے اپنی غلطی کا احساس اُس وقت ہوا جبکہ اُس نے تشہد پڑھنا شروع کر دیا تو پھر اُسے کھڑا نہیں ہونا چاہئے بلکہ بیٹھے رہنا چاہئے۔ اس صورت میں نماز کے بعد سجدۂ سہو ادا کرنا ضروری ہو گا۔ پس سجدہ ٔ سہو اُسی صورت میں ہے جبکہ کوئی غلطی ہو جائے اور پھر وہ غلطی استحکام پکڑ جائے۔ اگر استحکام نہیں پکڑتی اور اُس غلطی کا احساس ہو جاتا ہے تو اس صورت میں اُسے دُرست کر لینا چاہئے اور سجدہ ٔ سہو ادا نہیں کرنا چاہئے۔
(فرموداتِ مصلح موعود ص 88-89)