خاکسار کے سب سے چھوٹے چچا مکرم محمد ابراہیم شمس ابن الحاج میاں پیر محمد آف مانگٹ اُونچے 14۔اگست 1936ء کو مانگٹ اُونچہ کے ایک مخلص اور دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نیک والدین کے زیر سایہ پرورش پائی ۔ آپ کا گھرانہ نیکی ، تقویٰ اور اخلاص کی وجہ سے قابل احترام تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ تقسیم ملک سے پہلے تقریباً ایک سال قادیان میں بھی زیر تعلیم رہے۔ مڈل اپنے گاؤں سے پاس کیا اور پھر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ سے میٹرک کیا۔ ایف اے کیلئے تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہوئے لیکن امتحانات سے قبل شدید زکام کے حملہ کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اپنے بڑے بھائی مکرم چوہدری سلطان احمد طاہر کے مالی تعاون سے آپ نے رحمت بازار ربوہ میں ’’ربوہ آئرن سٹور‘‘ کے نام سے کاروبار کا آغاز کر دیا۔ دکان کے عقبی جانب دارالرحمت غربی میں آپ کی رہائش تھی۔
محلہ دارالرحمت غربی میں رہائش کے زمانہ میں آپ خدام الاحمدیہ کے مستعد رُکن تھے ۔پھر آپ زعیم خدام الاحمدیہ دارالرحمت غربی بھی رہے۔دارالرحمت غربی میں آپ کے زمانہ کے خادم محترم پروفیسر عبدالجلیل صادق اکثر میرے ساتھ تذکرہ کیا کرتے ہیں کہ آپ کے چچا مکر م محمد ابراہیم شمس ہمارے زعیم ہوا کرتے تھے۔اسی کاروبار کے زمانہ میں 31 دسمبر 1958ء کو آپ کی شادی ہوئی اور پھر فیملی بھی دارالرحمت غربی میں آپ کے ساتھ 1963ء تک رہی۔شروع میں کاروبار اچھا چل نکلا تھا لیکن پھر اس میں لوگوں نے اُدھار مال لینا شروع کیا تو کاروبار کمزور پڑ گیا جس کی وجہ سے آپ نے آئرن سٹور بند کر دیا اور آپ ربوہ سے کراچی منتقل ہو گئے۔
کراچی جانے کا قصّہ بھی دلچسپ اور ایمان افروز ہے ۔ آپ نے جب ربوہ آئرن سٹور بند کیا تو کچھ عرصہ کے لئے آپ دفتر خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں بھی ملازم رہے۔ لیکن پھر اپنے گاؤں مانگٹ اُونچے چلے گئے۔ گاؤں جانے سے پہلے آپ کی اہلیہ بشریٰ بیگم حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓکے گھر گئیں اور ان کی بیٹی زینب بی بی سے ملاقات ہوئی ۔ اُن کو آپ نے دُعا کے لئے کہا کہ کاروبار ختم ہوگیا ہے۔ راجیکی صاحب کے گھر آنا جانا تھا اور بہت اچھے مراسم تھے۔ راجیکی صاحب کی بیٹی کو آپ خالہ کہا کرتی تھیں۔ اُنہوں نے دُعا کی تو اُنہیں خواب میں نظارہ دکھایا گیا کہ بشریٰ بیگم سمندر کنارے کھڑی ہیں۔ خواب میں اُنہوں نے پوچھا کہ بشریٰ تم یہاں کیوں کھڑی ہو تو جواب دیا خالہ جان اِدھر میرا گھر ہے۔ بشریٰ بیگم جب اپنے گاؤں سے واپس آکر خالہ جان کو ملی تو اُنہوں نے یہ خواب سنایا اور کہا کہ آپ لوگ یا ڈھاکہ چلے جاؤ یا کراچی۔ خداکا کرنا ایسا ہوا کہ جب آپ واپس گاؤں گئیں تو ہمارے تایا جان مکرم چوہدری سلطان احمد طاہر بھی گاؤں والدین کو ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ہمارے دادا الحاج میاں پیر محمد نے اُن سے کہا کہ عزیزم ابراہیم کو اپنے ساتھ کراچی لے جاؤ پڑھا لکھا ہے وہاں کوئی نوکری کرے گا۔چنانچہ آپ کراچی چلے گئے اور کچھ عرصہ بعد فیملی بھی کراچی شفٹ ہوگئی۔ کراچی میں آپ کی پہلی رہائش نیول کالونی سمندر کنارے پر تھی۔یوں راجیکی صاحب کی بیٹی کا وہ خواب بھی پورا ہوا اور آپ کا کراچی جانا بھی آپ اور آپ کی فیملی کےلئے باعث برکت ثابت ہوا۔مانگٹ اُونچے میں آپ کی فیملی ، اہلیہ اور 2بچے تقریباً ایک سال مقیم رہے۔
1967ء میں آپ دستگیر منتقل ہو گئے اور تمام عمر دستگیر کے علاقے میں رہائش رہی۔ کراچی میں پہلے تو آپ نے اپنے بڑے بھائی محترم چوہدری سلطان احمد طاہر کے ساتھ کام کیا جو کہ کنسٹرکشن کی ٹھیکیداری کرتے تھے۔پھر آپ نے دستگیر میں جنرل اینڈ کریانہ کا کاروبار شمس پرویژن اینڈ جنرل سٹور کے نام سے شروع کیا جو علاقہ میں بہت معروف سٹور تھا ۔ کئی لوگوں کی ڈاک اس سٹور کے پتہ پر آیا کرتی تھی۔ آپ ساری عمر اپنے اسی کاروبار سے منسلک رہے۔ آپ کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ 1968ء کے بعد میں نے اپنا زیور 4 سو روپے میں فروخت کر کے دستگیر کے نواحی علاقے گوہر آبا د میں پلاٹ خرید کر وہاں ایک کچا کمرہ ڈالا اور ہم وہاں منتقل ہوگئے اور پھر آہستہ آہستہ مکان کی تعمیر ہوتی رہی۔اس مکان میں آپ سولہ سال تک مقیم رہے۔ اس سے پہلے چوہدری سلطان احمد طاہر کی دکان واقع دستگیر کی بالائی منزل پر رہائش پذیر تھے۔
جماعت دستگیر میں آپ محاسب اور سیکرٹری رشتہ ناطہ کے طور پر خدمات بجالا تے رہے۔ چندہ اکٹھے کرنے میں معاونت کرتے رہے۔ رشتہ ناطہ میں آپ کی اہلیہ بھی آپ کی معاونت کرتی تھیں۔وفات کے وقت آپ رشتہ ناطہ کے سیکرٹری تھے ۔ آپ کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ہم میاں بیوی نے مل کر 50 کے قریب رشتے کروائے ہیں جو الحمدللہ کامیاب زندگی گزاررہے ہیں۔آپ ایک پُر جوش داعی الیٰ اللہ بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعوت الیٰ اللہ کو باثمر بھی کیا اورالحمدللہ آپ کو 7 بیعتیں کروانے کی توفیق ملی۔پابندیوں کے باوجود حکمت عملی کے ساتھ آپ نے تبلیغ کا کام جاری رکھا۔ٹی وی عام ہونے سے قبل آپ کی دکان پر ریڈیو موجود تھا جس کی وجہ سے خبریں سننے کے لئے اِردگرد کے لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے اور یوں وہاں کھل کر تبلیغ کرنے کا موقع میسر آ جاتا۔
آپ کی اہلیہ صاحبہ نے گھر میں سکول کھولا ہوا تھا جس میں علاقے کے غریب گھرانوں کے بچے تعلیم پاتے تھے۔آپ گھر میں بچوں کو قرآن کریم بھی پڑھایا کرتی تھیں اس وجہ سے آپ کا گھر مخالفین کے نشانے پر بھی تھا۔ چنانچہ 1974ء کے پُر آشوب دَور میں ایک دفعہ عصر کے بعد آپ کے گھر پر سینکڑوں مخالفین کا جلوس حملہ آور ہو گیا۔ جلوس میں اشتعال انگیز تقاریر لاؤڈ سپیکر پر کی گئیں۔ آپ سب افراد خانہ گھر میں محبوس ہو کر رہ گئے اور دُعاؤں میں لگ گئے۔نماز مغرب گھر میں باجماعت پڑھی گئی ۔ خدائی مدد اس طرح آئی کہ آپ کی پڑوسن جلوس میں گئی اور اُن کو کہہ آئی کہ ان پر حملہ نہ کرنا ان کے پاس اسلحہ ہے اگر وہ چل گیا تو ہم سب کا نقصان ہو جائے گا۔یہ سن کر جلوس منتشر ہوگیا۔ یہ خدائی مدد اور رُعب کے ذریعہ نصرت کا نظارہ تھا جو آپ سب نے مشاہدہ کیا۔
اسی طرح گوہر آباد دستگیر کی مسجد میں ایک بار مولوی نے اعلان کیا کہ ایک قادیانی عورت بچوں کو پڑھا رہی ، قرآن سکھا رہی ہے وہ اُنہیں مرزائی کرنا چاہتی ہے تم اپنے بچوں کو اُس کے پاس نہ بھیجو۔اس پر محلے کی غیر از جماعت عورتیں مولوی کے پاس گئیں کہ جو کام وہ احمدی خاتون کررہی ہے تم اپنی بیوی کو کہو کہ وہ کرے اور ہمارے بچوں کو پڑھائے، ہماری میتوں کو غسل دے ۔چنانچہ اس پر مولوی کے اعلان بے اثر ہوگئے۔اللہ تعالیٰ نے دہشتگردی کے ایک واقعہ میں بھی آپ کو اور آپ کے بیٹے کو محفوظ رکھا۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ27۔اپریل 1994ء کو بیت النصرت دستگیر کراچی میں نماز فجر کے وقت دہشتگردوں نے کلاشنکوف سے فائرنگ کردی ۔ اللہ کے فضل سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔امام الصلوٰۃ مکرم صغیر احمد چیمہ گولی سے زخمی ہوئے۔ بعض گولیوں نے دیواروں سے ٹکرا کر بعض نمازیوں کو زخمی کیا۔ ان زخمیوں میں مکرم محمد ابراہیم شمس اور آپ کے بیٹے ناصر محمود ظفر بھی شامل تھے۔
(تاریخ احمدیت کراچی جلد2 صفحہ714)
بیت العزیزعزیز آباد کراچی کی تعمیر کے وقت آپ کو اپنے بھائی چوہدری سلطان احمد طاہر صاحب کے ساتھ معاونت کی توفیق ملی۔ لیبر اور بلڈنگ مٹیریل کی آپ نگرانی کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کے بھائی مکرم محمد حنیف قمر ڈرافٹسمین کو جو چھٹیوں میں کراچی گئے ہوئے تھے بیت العزیز کے نقشہ کی ڈرائنگ بنانے کی توفیق ملی۔ یوں بیت العزیز کی تعمیر میں 3 بھائیوں کو خدمت کا موقع ملا۔
25۔دسمبر2003ء کو محترم محمدابراہیم شمس نے 67سال کی عمر میں وفات پائی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ موصی تھے۔ آپ کی میت ربوہ لائی گئی اور آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔آپ کی اہلیہ بتائی ہیں کہ آپ کہا کرتے تھے کہ لوگ موت سے ڈرتے ہیں لیکن مجھے موت کا کوئی ڈر نہیں۔ موت تو ایسے آنی ہے جیسے اُونگھ آتی ہے اور پھر دوسرے جہان میں آنکھ کھل جائے گی۔ آپ کو بالکل اسی طرح موت کا پروانہ آیا۔ وفات کے روز معمول کے مطابق مسجد جا کر نماز فجر باجماعت ادا کی۔ آپ کی طبیعت خراب ہوئی تو ہسپتال لے جانے کے لئے تیاری کی تو اس وقت آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو کہا کہ میں نے ہسپتال سے واپس نہیں آنا۔ (آپ کو شاید آخری وقت کا علم ہو گیا تھا)۔ آپ اپنے قدموں پر چل کر ٹیکسی میں بیٹھے اور باتیں کرتے ہنسی خوشی اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ ہسپتال میں میت کفنانے والے ایک سٹاف نے کہا میں روزانہ کئی میتوں کو دیکھتا ہوں ایسا پُر نور اور پُر سکون چہرہ بھی نہیں دیکھا معلوم ہوتا ہے بہت نیک آدمی تھے۔
محترم محمد ابراہیم شمس خدا ترس، متقی،غریبوں کے ہمدرد اور جماعت کے فدائی تھے۔ ساری عمر خدمت ِ دین اور خدمت ِ خلق کے لئے وقف رہی۔آپ کے زُہد وتقویٰ اور نماز باجماعت کے سبھی گواہ ہیں۔ کراچی جیسے مصروف شہر میں پانچوں وقت مسجد میں جا کر نمازادا کرنا یہ اپنی ذات میں ایک مجاہدہ ، قربانی ، عزم و ہمت اور استقلال پر دلالت کرتا ہے۔یہ آپ ہی کا کمال تھا۔ اس کو میں نے خود بھی مشاہدہ کیا ہے۔ نماز ظہر و عصر ، مغرب و عشاء تو کاروبار کے دوران آتی تھیں۔آپ کاروبار سے اُٹھ کر مسجد نصرت دستگیر میں نماز باجماعت کے لئے جایا کرتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی اس کا عادی بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے بچے بھی پابند صوم وصلوٰۃ ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز تہجد میں باقاعدہ تھے اور تنہائی میں اپنے مولیٰ سے راز و نیاز کیا کرتے تھے۔
آپ کے گھر کا ماحول خالصتاًمذہبی تھا ۔ جماعت کے ساتھ وابستگی مضبوط جڑوں کی مانند پیوست تھی۔آپ کے ایک بیٹے کو مربی سلسلہ بننے کی توفیق ملی جبکہ ایک بیٹی واقفہ نو مع خاوند طاہر ہارٹ میں خدمات بجالا رہی ہے۔ باقی اولاد بھی خدمت ِ دین کے ساتھ اپنی گہری وابستگی رکھے ہوئے ہے۔آپ اورآپ کی اہلیہ نے اپنے گھر کو حقیقی احمدی گھرانہ بنائے رکھا جس میں جماعتی روایات کی پاسداری ہوتی تھی۔جہاں سادگی ان کا شعار اور خدمت ِ دین ان کا شیوہ تھا۔بجا طور پر آپ کا گھرانہ مستقل مزاجی کے ساتھ بیت النصرت دستگیر کی رونق رہا۔الحمدللہ کہ تیسری نسل میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور آپ کے 2 پوتے جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیر تعلیم ہیں۔
آپ کے بچوں کا وقف بھی آپ کو ایک خواب میں دکھایا گیا۔جب آپ کا مربی سلسلہ بیٹا شاہد محمود بدر 10 سال کا تھا تو آپ نے خواب دیکھی کہ آپ حضرت مصلح موعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور دو بچے پیش کئے ہیں۔ ایک بچے کو حضور نے گود میں لے لیا اور ایک بچہ ذرا ہٹ کر کھڑا ہے ۔جس بچے کو گود میں لیا اس کو اپنے ہاتھ سے کوئی چیز کھلا رہے تھے۔ اس نظارہ کے بعد آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کے بعد آپ نے اہلیہ کو کہا کہ میرے دو بچے واقف ِ زندگی ہوں گے اور اللہ ہمیں ایک مزید بچہ عطا کرے گا۔ اس خواب کے بعد تحریک وقف ِ نو کا اعلان بھی ہوا۔اللہ تعالیٰ نے دسمبر1987ء میں آپ کو بیٹی عطا کی اور وہ الحمدللہ تحریک وقف ِ نو میں شامل ہوئی۔آپ کے بیٹے شاہد محمود بدر کو مربی سلسلہ بننے کی توفیق ملی اورواقفہِ نو بیٹی سائرہ کو ریسپریٹری تھراپی میں بی ایس کرنے کے بعد طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں خدمات کی توفیق مل رہی ہے۔نیز اس کے شوہر حماد احمد ریحان واقف ِ نو طاہر ہارٹ کے شعبہ اکاؤنٹس میں خدمت کر رہے ہیں۔
مہمان نوازی آپ کا بڑا وصف تھا۔ مجھے یاد ہے 1978ء میں جب میں پانچویں جماعت میں داخلہ کے لئے بشیر آباد سے کراچی چلا گیا تو اس وقت آپ سے پہلی بار میں دکان پرملا۔آپ بڑی محبت کے ساتھ ملے اور مہمان نوازی کی۔میں بچہ تھا دکان میں سجے مرتبانوں سے ٹافیاں نکال کر مجھے دیں ۔ پھر جب جواں عمری میں جانا ہوا تو آپ کو لڈ ڈرنک پیش کیا کرتے تھے۔اسی طرح گھر میں بھی فوراً مہمان نوازی کے لئے پھل وغیرہ پیش کردیتے تھے۔ روزگار کے سلسلہ میں کئی لوگوں کا باہر سے کراچی آنا جانا رہتا تھا ، اُن کو اپنے گھر میں بھی رکھتے رہے اور اُن کی مہمان نوازی اور معاونت کرتے رہے۔
غریب پروری کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنی دکان سے کئی بیوگان کے لئے خاموشی کے ساتھ راشن جاری کیا ہوا تھا۔یہ گھر والوں کو بھی نہیں بتایا تھا۔ ان خواتین نے اس بات کا ذکر کیا ۔ صبح دکان پر جاتے اور صفائی کرنے کے بعد پرندوں کو دانہ ڈالا کرتے تھے۔ بہت رحم دل تھے ایک بار علاقے میں پٹھانوں کے خلاف شورش ہوئی۔ ایسے میں آپ نے اُن کو اپنی دکان میں چھپا دیا اور دکان کو تالا لگادیا۔ حالات ٹھیک ہونے پر آپ نے اُنہیں کہا کہ اب آپ اپنے آبائی علاقہ چلے جائیں۔آپ کے ایک پلاٹ پر ایک غریب نے جھونپڑی ڈال لی لیکن آپ نے اس کو منع نہ کیا لیکن اس نے آپ کی نیکی سے ناجائز فائدہ اُٹھایا اور بدنیت ہو گیا اور پلاٹ پر مستقل قبضہ کر لیا۔
محلہ اور دکان کے ہمسایوں سے بہت حسن ِ سلوک کرتے اور اُن سے اچھے تعلقات اُستوار کئے ہوئے تھے۔ آپ کی دکان کے سامنے غیر از جماعت کی بہت بڑی مسجد تھی ۔اس کے مولوی اور مؤذن سے بہت اچھا تعلق تھا۔ چنانچہ اس مسجد کا مولوی آپ کی خوشدامن کی وفات پر تعزیت کے لئے دکان پر آیا۔ خدمت ِ خلق کے کاموں میں بھی آپ پیش پیش رہتے، غریبوں کے بچوں کے داخلہ کا معاملہ ہو یا راہگیر کو راستہ بتانا ہوتا اکثر اوقات ان کو ان کی منزل پر چھوڑ کر آتے تھے اور بزرگ دوستوں کو اپنی موٹر سائیکل پر مسجد لے جاتے۔ مسجد کی دریاں اور صفیں اپنے خرچ پر صاف کروایا کرتے تھے۔ بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھا اور اُنہیں ہمیشہ تلقین کی کہ کسی غلط بیانی سے کام نہیں لینا۔پڑھائی کے معاملہ میں سختی سے بھی سمجھاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے ساری عمر زہد و تقویٰ، امانت داری اور جماعتی خدمت میں گزاری۔ لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھوایا کرتے تھے۔ آپ خود نیکی پر قائم رہے اور بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے اور آپ کی اولاد کو آپ کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
31دسمبر 1958ء کو آپ کی شادی آپ کی خالہ محترمہ حسین بی بی اہلیہ مکرم امام دین گوندل آف پیر کوٹ کی چھوٹی بیٹی مکرمہ بشریٰ بیگم کے ساتھ ہوئی ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو 5 بیٹے اور 3 بیٹیوں سے نوازا ہے۔
- مکرمہ نعیمہ فرحت مرحومہ اہلیہ منور احمد سعید
- مکرم طارق محمود بدر آف کراچی حال مقیم لندن۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کراچی میں ضلعی سیکرٹری مال اور سیکرٹری وصایا رہ چکے ہیں اور خدمت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاریخ احمدیت کراچی جلد2 صفحہ 1185 پر آپ کی خدمات کا تذکرہ طبع شدہ ہے۔آج کل آپ چیرٹی واک زیر انتظام انصاراللہ برطانیہ کے فنانشیل کنٹرولر ہیں۔ نیز نائب قائد مال انصاراللہ UK اور مقامی جماعت میں سیکرٹری مال ہیں۔
- مکرم محمد محمود
- مکرم ناصر محمود ظفر ۔ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے ہیں اور محلہ کی انصاراللہ کی عاملہ کے ممبر ہیں۔ان کے بیٹے مبشر محمود ظفر طالب علم متعلم جامعہ احمدیہ ہیں۔
- مکرم شاہد محمود بدر مربی سلسلہ ۔ آپ کے بیٹے جاہد محمود بھی طالب علم متعلم جامعہ احمدیہ ہیں۔
- مکرمہ عطیۃ العلیم ذکیہ۔
- مکرمہ سائرہ حماد واقفہ نو اہلیہ حماد احمد ریحان واقف نو ۔طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں دونوں میاں بیوی بطور واقف ِ زندگی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
- ایک بیٹا زاہد محمود دو سال کی عمر میں وفات پاگیا تھا۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ مرحوم کو جنت میں اعلیٰ مقام دے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے ۔آمین
(محمد محمود طاہر)