• 28 اپریل, 2024

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 24)

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
کیفیتِ نماز
قسط 24

حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دل میں فطری طور پر اپنے معبود سے عشق ودیعت کیا گیا تھا۔ ہوش سنبھالی تو اپنے ماحول میں مشرکانہ طور طریق سے بیزار رہنے لگے۔ انسانی ہاتھوں سے گھڑے ہوئے لکڑی، پتھر،مٹی اور دھات کے بُت عبادت کے لائق نہ لگے کسی بھی گروہ یا مکتبہ ٔ فکر کے پاس خدائے واحد کا تصور نہ تھا دین ابراہیمی کا نام تو باقی تھا مگر تعلیمات پرعمل کرنے والے نایاب تھے۔ اب قلب محمدﷺ کو ایک طاقت و ر توانا خدا کی کھوج لگ گئی۔ مظاہر قدرت پر تدبر کرنے لگے۔ دنیا اور اس کے جھمیلوں سے بیزاری بڑھنے لگی۔ تنہائی میں معبود کی تلاش میں زیادہ وقت گزرنے لگا۔ سکون خانہ کعبہ میں ملتا یا غار حرا کی خلوت میں۔ جوں جوں قدرت آپﷺ پر اپنے راز ظاہر کررہی تھی آپﷺ محبتِ الٰہی، ذکر الٰہی اور عبادت میں سرشار رہنے لگے مکہ والے کہتے عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَّبَّہٗ۔ محمد تو اپنے رب کا عاشق ہوگیا ہے۔۔ عبادت کا ذوق رگ و پے میں سرایت کیا ہوا تھا۔ بعثت سے پہلے کی کیفیت کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے ’’شروع شروع میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوا تو وہ رؤیائے صالحہ کی شکل میں ہوتا تھا یعنی خوابیں وغیرہ آیا کرتی تھیں۔ آپ رات کے وقت جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا تھا۔ پھر آپ کو خلوت اچھی لگنے لگی توآپؐ غار حرا میں بالکل اکیلے، کئی کئی راتیں خداتعالیٰ کی عبادت میں گزارتے۔ اور جتنے دن آپؐ وہاں قیام کرتے آپؐ اپنا زادِراہ ساتھ لے جاتے اور جب یہ ختم ہو جاتا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس تشریف لاتے اور کھانے پینے کا مزید سامان ساتھ لے کر دوبارہ غار حرا میں چلے جاتے اور عبادتوں میں مشغول ہو جاتے۔ یہاں تک کہ آپؐ پر وحی نازل ہوئی اور آپؐ کے پاس حق آگیا۔

(بخاری۔ کتاب بدء الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللّٰہؐ)

خداتعالیٰ سے محبت نے آپؐ کو نڈر اور جرأت مند بنا دیا تھا اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپؐ اس قدر فنا ہو چکے تھے کہ آپؐ کو اس تنہائی سے خوف نہ آتا بلکہ اس میں پوری لذّت اور ذوق پاتے۔ یہ نہیں کہ گھر میں سکون نہیں تھا۔ حضرت خدیجہؓ جیسی جاں نثار بیوی اور بچوں کی نعمت سے جنت جیسا گھر تھا مگر آپ ؐ کی اعلیٰ لذات اپنے خدا کی عبادت میں تھیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’آپ کی پہلی عبادت وہی تھی جو آپؐ نے غارِ حرا میں کی۔ جہاں کئی کئی دن ویرانہ پہاڑی کی غار میں جہاں ہر طرح کے جنگلی جانور اور سانپ چیتے وغیرہ کا خوف ہے دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور میں عبادت کرتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے۔ قاعدہ ہے کہ جب ایک طرف کی کشش بہت بڑھ جاتی ہے تو دوسری طرف کا خوف دل سے دور ہوجاتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ322)

نبوت کا پیغام ملا تو آپؐ پر نماز فرض ہوئی آپؐ مکہ کے بلند حصے میں تھے جہاں پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا حضرت جبرائیل نے وضو کیا پھر آنحضرتﷺ نے اسی طرح وضو کیا۔ بعد ازاں حضرت جبرائیل نے آپؐ کو ساتھ لے کر نماز پڑھی اور غائب ہوگئے (اس کشفی نظارہ کے بعد) آنحضرتﷺ حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لائے ان کے سامنے وضو کیا اور ساتھ لے کر نماز پڑھی جس طرح حضرت جبرائیل نے پڑھی تھی۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام جز1 صفحہ243 مطبوعہ مصر)

ابتدا میں نماز ایک نفلی رنگ رکھتی تھی کچھ مسلمان مل کر ایک عام عبادت کے رنگ میں نماز ادا کرلیتے تھے ایک دفعہ آنحضرتﷺ اور حضرت علیؓ مکہ کی کسی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک اس طرف سے ابو طالب کا گزر ہوا۔ ۔ ابو طالب کو ابھی تک اسلام کی کوئی خبر نہ تھی اس لئے وہ کھڑا ہوکر نہایت حیرت سے یہ نظارہ دیکھتا رہا جب آپؐ نماز ختم کرچکے تو اس نے پوچھا ’’بھتیجے یہ کیا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے؟‘‘ آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’چچا! یہ دین الٰہی ہے اور دینِ ابراہیم ہے‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ صفحہ144)

مکی دور میں ہی حضرت جبریل نے نبی کریمﷺ کو پانچوں نمازوں کی امامت کرواکے نماز کا طریق اور اوقات سمجھا دیئے تھے۔

(ترمذی کتاب الصلوٰۃ باب 113)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ میں نہایت جرأت سے بے دھڑک ہو کر خانہ ٔ خدا کا طواف کرتے اور وہاں اپنے طریق پر عبادت کیا کرتے تھے۔ قریش مکّہ آپؐ کو دیکھ کر غصے سے پاگل ہو جاتے ہمارے بتوں کو برا کہنے والا ہمارے سامنے اپنے کسی ان دیکھے خدا کو یاد کرتا ہے ایک دن ایک شخص نے حضور ؐ کی چادر مبارک کھینچ کر مروڑنی شروع کردی حتٰی کہ آپؐ کا دم گھٹنے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ بھی وہاں موجود تھے۔ وہ یہ حالت دیکھ کر روتے ہوئے قریش سے کہنے لگے کہ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے۔ تب قریش نے آپؐ کو چھوڑ دیا۔

(خلاصہ از مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ218 مطبوعہ بیروت)

ایک دن ایک شخص نے اونٹنی کی بچہ دانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر جبکہ وہ سجدے میں تھے رکھ دی اور مذاق اڑانے لگے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل سجدے میں رہے۔ آپؐ اپنا سرنہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ؐ کے پاس حضرت فاطمہؓ آئیں اور انہوں نے اس بچہ دانی کو آپؐ کی کمر سے بمشکل روتے روتے اتارا۔ اس پر آپؓ کے والد نے اپنا سر اٹھایا۔

(خلاصہ از بخاری کتاب الوضوء۔ باب اذا القیٰ علی ظھر المصلّی قذراو جیفۃ حدیث نمبر240)

نماز کی فرضیت

پھر آپؐ کے معبود نے آپ ؐ کو نبوت پر سرافراز کرکے اعلائے کلمٔہ توحید کا کام سونپ دیا اس فرض کی ادائیگی کے لئے آپ ؐ کو خلوت چھوڑ کرجلوت میں آنا پڑا۔ عبادت کی معراج نماز شبِ معراج کو پانچ نبوی میں فرض ہوئی آپ ؐخانہ کعبہ یعنی مسجدِ حرام میں سورہے تھے معراج کے بعدحضرت جبرائیل نے آنحضرتﷺ کے پاس آکر پانچوں نمازوں کے اوقات بالتفصیل بتائے۔

(بخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ)

اللہ تعالیٰ نے حکم دیا

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَقُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا

(بنی اسرائیل: 79)

سورج کے ڈھلنے سے شروع ہوکر رات کے چھا جانے تک نماز کو قائم کر اور فجر کی تلاوت کو اہمیت دے۔ یقیناً فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اُس کی گواہی دی جاتی ہے۔

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ

(الانعام: 163)

تو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مَرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

پھر فرمایا یہ عبادت رات کو بھی کرنی ہے:۔

اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا

(المزمل: 7)

رات کا اٹھنا یقینا نفس کو پاؤں تلے کچلنے کے لئے زیادہ شدید اور قول کے لحاظ سے زیادہ مضبوط ہے۔

یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّقِیَامًا

(الفرقان: 65)

کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں

اَلَّذِیۡ یَرٰٮکَ حِیۡنَ تَقُوۡمُ۔وَ تَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیۡنَ

(الشعراء: 219-220)

یعنی جو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب تو کھڑا ہوتا ہے۔ اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بے قراری کو بھی۔

آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر بہترین طریق پر عمل کرکے مسلمانوں کے لئے بہترین مثال قائم فرمائی جس کی تصدیق خود خدا تعالیٰ نے فرمائی یقینا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ رات کے دو تہائی حصے میں یا آدھے حصے میں یا وقت کے لحاظ سے تیسرے حصے میں توُ نے عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کر دئیے، حق ادا کر دئیے۔

اِنَّ رَبَّکَ یَعۡلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدۡنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَنِصۡفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ

(المزمل: 21)

یقیناً تیرا ربّ جانتا ہے کہ تُو دو تہائی رات کے قریب یا اس کا نصف یا اس کا تیسرا حصہ کھڑا رہتا ہے نیز اُن لوگوں کا ایک گروہ بھی جو تیرے ساتھ ہیں۔

ایک دفعہ حضرت عائشہؓ کے ہاں آپ کی باری تھی۔ اور یہ باری نویں دن آتی تھی، موسم سرما کی رات تھی بستر پر لیٹ جانے کے بعد حضرت عائشہ سے فرماتے ہیں کہ عائشہ اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار دوں۔ وہ بخوشی اجازت دیتی ہیں اور آپ ساری رات عبادت میں روتے روتے سجدہ گاہ تر کر دیتے ہیں۔

(انسان کامل صفحہ69)

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی دلی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی ہے اور میری دلی خواہش رات کی عبادت ہے‘‘

(المعجم الکبیر للطبرانی باب سعید بن جبیر عن ابن عباسؓ)

حضرت عائشہ سے رسول اللہﷺ کی نماز یعنی تہجد کی نماز کی کیفیت پوچھی گئی تو فرمایا کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے مگر وہ اتنی لمبی اور پیاری اور حسین نماز ہوا کرتی تھی کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو۔‘‘

(بخاری کتاب التہجد۔ باب قیام النبیؐ باللیلٍ فی رمضان وغیرہ حدیث نمبر 1147)

نماز آپ کی روح کی غذا تھی، اگرچہ امت کی سہولت کی خاطر آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب کھانا لگ جائے تو پہلے کھانا کھا لو مگر اپنا یہ حال ہے کہ جب ایک دفعہ کھانا کھا رہے تھے تو حضرت بلالؓ نے آواز دی کہ ’’نماز کا وقت ہو گیا ہے‘‘ اگلے ہی لمحہ آپ نے کھانا چھوڑ دیا اور سیدھے نماز کے لئے تشریف لے گئے۔

(ابوداؤد، کتاب الطہارہ بحوالہ اسوہ انسان کامل صفحہ57)

غزوہ بدر میں ایک جنگ تو تیروں تلواروں سے ہورہی تھی دوسری آپ کے اپنے خیمہ میں خدا کے حضور سر بسجود رو رو کر دعاؤں سے ہورہی تھی۔ آپؐ اپنے خدا کو پکار رہے تھے کہ اے خدا اگر یہ عبادت گزار تباہ ہو گئے تو کون تیری عبادت کرے گا۔ یہ دعا دراصل نماز اور نمازیوں کی حفاظت کے لئے ہی تھی یہ جنگ دعاؤں کے ذریعہ ہی جیتی گئی۔

نماز سے ایسی محبت کا عالم تھا کہ جس بیماری سے آپ فوت ہوئے ہیں اس سے تھوڑا سا پہلے جب بیماری سے افاقہ ہوا تو اسی کمزوری کی حالت میں دو صحابہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اور سہارا لیکر مسجد میں نماز کے لئے پہنچے، اور حالت یہ تھی کہ کمزوری سے پاؤں زمین پر گھسٹتے جا رہے تھے۔ دنیا میں آپ کی آخری خوشی بھی نماز ہی تھی جس دن آپ کی وفات ہوئی ہے اس دن فجر کی نماز کے وقت اپنے حجرے کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو صحابہ عبادت میں مشغول تھے۔ اپنے غلاموں کو نماز میں دیکھ کر آپ کا دل خوشی سے بھر گیا اور چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی۔

(بخاری، کتاب الاذان بحوالہ اسوہ کامل صفحہ60)

حضرت حذیفہؓ بن یمان فرماتے ہیں۔ ایک رات رسول ؐ اللہ کے ساتھ نماز ادا کی جب نماز شروع کی تو آپ نے کہا اَللّٰہُ اَکْبَرْ ذُوْالْمَلَکُوْتِ وَالْجَبْرُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظْمَۃِ۔ یعنی اللہ بڑا ہے جو اقتدار اور سطوت کبریائی اور عظمت والا ہے۔ پھر آپؐ نے سورۃ بقرہ مکمل پڑھی۔ پھر رکوع فرمایا جو قیام کے برابر تھا۔ پھر رکوع کے برابر کھڑے ہوئے۔ پھر سجدہ کیا جو کہ قیام کے برابر تھا۔ پھر دونوں سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْلِیْ، رَبِّ اغْفِرْلِی اے میرے رب مجھے بخش دے، اے میرے رب مجھے بخش دے کہتے ہوئے اتنی دیر بیٹھے جتنی دیر سجدہ کیا تھا۔ پھر دوسری رکعتوں میں آپؐ نے آل عمران، نساء، مائدہ، اَنعام وغیرہ طویل سورتیں پڑھیں۔

(ابو داؤد۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ حدیث نمبر 869)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنی لمبی نماز ادا فرمایا کرتے تھے کہ آپ ؐ کے پاؤں متورم ہو کر پھٹ جاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے آپ ؐ سے عرض کی اے اللہ کے رسول! آپؐ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اگلے پچھلے تمام قصور معاف فرما دئیے ہیں۔ توآپؐ نے فرمایا اَفَلَا اُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔ کیا میں یہ نہ چاہوں کہ میں اللہ کا شکر گزار بندہ بنوں۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفتح باب قولہ لیغفرلک اللّٰہ ماتقدم من ذنبک …)

پھر ام المومنین حضرت سودہؓ نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کا ارادہ کیا۔ اور حضورؐ کے ساتھ جا کر نماز میں شامل ہوئیں۔ اپنی سادگی میں دن کے وقت انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس لمبی نماز پہ جو تبصرہ کیا اس سے حضورؐ بہت محظوظ ہوئے۔ کہنے لگیں یا رسول اللہ! رات آپ نے اتنا لمبا رکوع کروایا کہ مجھے تو لگتا تھا جیسے جھکے جھکے کہیں میری نکسیر نہ پھوٹ پڑے۔

(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ۔ حرف السین – القسم الاوّل – سودہؓ بنت زمعۃ)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس تشریف لائے۔ میرے ساتھ میرے بستر میں لیٹے پھر آپؐ نے فرمایا اے عائشہ! کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اپنے رب کی عبادت کر لوں۔ میں نے کہا خدا کی قسم! مجھے تو آپؐ کی خواہش کا احترام ہے اور آپ کا قرب پسند ہے۔ میری طرف سے آپ کو اجازت ہے۔ تب آپ اٹھے اور مشکیزہ سے وضو کیا۔ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور نماز میں اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو آپ کے سینہ پر گرنے لگے۔ نماز کے بعد آپ دائیں طرف ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ آپؐ کا دایاں ہاتھ آپؐ کے دائیں رخسار پر تھا۔ آپ ؐ نے پھر رونا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ آپ کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے۔ آپؐ اسی حالت میں تھے کہ فجر کی اذان دینے کے بعد بلال آئے جب انہوں نے آپ کو اس طرح گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

(تفسیر روح البیان زیر تفسیر سورہ آل عمران آیت 191۔ 192)

مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس وقت شدت گریہ و زاری کے باعث آپؐ کے سینے سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب البکاء فی الصلوٰۃ)

ایک دوسری روایت میں یہ آتا ہے کہ: آپؐ کے سینے سے ایسی آواز اٹھ رہی تھی جیسے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز ہوتی ہے۔

(سنن نسائی کتاب السھو۔ باب البکاء فی الصلوٰۃ حدیث نمبر 1213)

حضرت ام سلمیٰؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر اٹھ کر نماز میں مصروف ہوتے۔ پھر سو جاتے، پھر اٹھ بیٹھتے اور نماز ادا کرتے۔ غرض صبح تک یہی حالت جاری رہتی۔

(ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ماجآء کیف کان قراءۃ النبیﷺ)

حضرت عائشہؓ کی ایک اور روایت ہے کہ ایک رات میری باری میں باہر تشریف لے گئے۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کپڑے کی طرح زمین پر پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں سَجَدَ لَکَ سَوَادِیْ وَ خَیَا لِیْ وَاٰمَنَ لَکَ فُؤَادِیْ۔ رَبِّ ھٰذِہِ یَدَایَ وَ مَا جَنَیْتُ بِھَا عَلَی نَفْسِیْ۔ یَا عَظِیْمًا یُرْجٰی لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِالذَنْبَ الْعَظِیْم کہ اے اللہ ! تیرے لئے میرے جسم و جان سجدے میں ہیں میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے۔ اے میرے رب! یہ میرے دونوں ہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہیں اور جو کچھ میں نے ان کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے۔ اے عظیم ! جس سے ہر عظیم بات کی امید کی جاتی ہے، عظیم گناہوں کو تُو بخش دے۔ پھر فرمایا کہ اے عائشہ! جبریل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کے لئے کہا ہے۔ تم بھی اپنے سجدوں میں یہ پڑھا کرو۔ جو شخص یہ کلمات پڑھے سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے بخشا جاتا ہے۔

(مجمع الزوائد للھیثمی کتاب الصلٰوۃ باب مایقول فی رکوعہ وسجودہ)

آپؐ کو یہ کسی طرح گوارا نہیں تھا کہ آرام دہ بستر پر سوئیں اور گہری نیند ہو جو اللہ کی یاد سے غافل کر دے۔ حضرت حفصہؓ روایت کرتی ہیں کہ: ایک رات انہوں نے بستر کی چادر کی چار تہیں کر دیں، ذرا نرم ہو گیا۔ تو صبح آپ نے فرمایا رات تم نے کیا بچھایا تھا۔ اسے اکہر اکر دو یعنی ایک رہنے دو۔ اس نے مجھے نماز سے روک دیا۔

(الشمائل النبویۃ للترمذی باب ما جاء فی فراش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)

حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ:
جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری یا کسی اور و جہ سے تہجد رہ جاتی تھی تو آنحضورﷺ دن کو بارہ رکعتیں نوافل ادا کیا کرتے تھے۔

(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین باب جامع صلاۃ اللیل ومن نام عنہ او مرض)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ:
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بیمار تھے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آج بیماری کا اثر آپ پر نمایاں ہے۔ فرمانے لگے اس کمزوری کے باوجود آج رات میں نے نماز تہجد میں طویل سورتیں پڑھی ہیں۔

(الوفاء باحوال المصطفیٰ للجوزی باب التھجد)

حضرت عبداللہ ابن ابی قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ: قیام اللیل مت چھوڑنا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑتے تھے۔ اور جب آپ بیمار ہو جاتے، جسم میں سستی محسوس کرتے تو بیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے۔

(سنن ابی داؤد کتاب التطوع باب قیام اللیل حدیث نمبر 1303)

حضرت کعب بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دن کے وقت سفر سے واپس تشریف لاتے اور سب سے پہلے مسجد تشریف لے جاتے۔ وہاں دو رکعت نفل ادا کرتے پھر کچھ دیر وہاں بیٹھتے۔

(مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا باب استحباب رکعتین فی المسجد لمن قدم من سفر أول قدومہ حدیث نمبر 1659)

ایک روایت میں آتا ہے:
غزوۂ اُحد کی شا م جب لوہے کے خود کی کڑیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے رخسار میں ٹوٹ جانے کی وجہ سے آپؐ کا بہت سا خون بہہ چکا تھا۔ کلّے پر لگنے کی وجہ سے خون بہہ چکا تھا۔ آپؐ زخموں سے نڈھال تھے۔ علاوہ ازیں 70صحابہ کی شہادت کا زخم اس سے کہیں بڑھ کر اعصاب شکن تھا۔ اس روز بھی آپ بلالؓ کی اذان کی آواز پرنماز کے لئے اسی طرح تشریف لائے جس طرح عام دنوں میں تشریف لاتے تھے۔

پھر آخری بیماری میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدید بخار میں مبتلا تھے اس وقت بھی اگر آپ کو فکر تھی تو صرف نماز کی تھی۔ گھبراہٹ کے عالم میں بار بار پوچھتے کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ بتایا گیا کہ لوگ آپؐ کے منتظر ہیں۔ بخار ہلکا کرنے کی خاطر فرمایا میرے اوپر پانی کے مشکیزے ڈالو۔ پانی ڈالو۔ تعمیل ارشاد ہوئی۔ حکم پورا کیا گیا۔ پھر غشی طاری ہو گئی۔ پھر ہوش آیا، پھر پوچھا کہ نماز ہو گئی۔ جب پتہ چلا کہ صحابہ ابھی انتظار میں ہیں تو پھر فرمایا مجھ پر پانی ڈالو۔ پھر پانی ڈالا گیا۔ پھر اس طرح پانی ڈالنے سے جب بخار کچھ کم ہوا تو نماز پر جانے لگے۔ مگر پھر کمزوی کی وجہ سے بیہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔

(بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبیﷺ و وفاتہٖ)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
جب آپؐ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے۔ اس لئے آپؐ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ جب حضرت ابو بکرؓ نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لئے نکلے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہو گئی تو آپؐ نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی آپ اس طرح مسجد کی طرف نکلے کہ د و آدمی آپؐ کو سہارا دے کر لے جا رہے تھے۔ کہتی ہیں کہ میری آنکھوں کے سامنے یہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے اس وقت آپؐ کے قدم زمین سے گھسٹتے جاتے تھے۔ آپؐ کو دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ جائیں۔ اس ارادے کو معلوم کرکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کی طرف اشارہ فرما کر کہا اپنی جگہ پہ کھڑے رہو۔ پھر آپؐ کو وہاں لایا گیا۔ پھر آپؐ ابو بکرؓ کے ساتھ بیٹھ گئے اور اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنی شروع کی اور آپؐ کی جو حرکت ہوتی تھی اس پر حضرت ابو بکرؓ تکبیر کہتے تھے۔ اَللّٰہُ اَکْبَر بولتے تھے۔ اور باقی لوگ حضرت ابو بکرؓ کی نماز کی اتباع میں آپؐ کے پیچھے نماز پڑھتے رہے‘‘

(بخاری کتاب الاذان، باب حد المریض ان یشھد الجماعۃ)

حضرت علیؓ اور حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت اور آخری پیغام جبکہ آپؐ جان کنی کے عالم میں تھے اور سانس اکھڑ رہا تھا۔ یہ تھا کہ ’’اَلصَّلوٰۃُ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ نماز اور غلام کے حقوق کا خیال رکھنا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا، باب ھل أَوصٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

عبودیت کے وہی نظارے

چشم فلک نے صدیوں کے انتظار کے بعد پھر عبودیت کے وہی نظارے دیکھے۔ ایک بدر کامل طلوع ہوا جس نے سراج منیر کی روشنی منعکس کرکے دنیا کو نور محمدی سے منور کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریف آوری کے وقت ’’اٹھارہویں صدی کی ہلاکت آفرینیوں نے دنیا میں الحاد و دہریت اور فسق وفجور کا ایک تندو تیز سیلاب بہا رکھا تھا اور بڑے بڑے متدین خاندان اس کی زد میں آچکے تھے بلکہ خود آپؑ کے خاندان میں بے دینی کی ایک رو چل نکلی تھی لیکن حضرت کے قلب صافی میں ابتداء ہی سے خداتعالیٰ کی عبادت اور اس سے محبت کے جذبات موجزن تھے اور دنیا کی کوئی دلکشی اور رنگینی آپؑ کے اس والہانہ عشق میں حائل نہیں ہو سکی‘‘ (تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ51) آپؑ تو افسروں کے افسر اور مالک الملک احکم الحاکمین کے حضور حاضر ہو چکے تھے۔ آپؑ کے والد صاحب نے اس مسیتڑ لڑکے کے بارے میں کہا ’’یہ شخص زمینی نہیں آسمانی (ہے) یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے‘‘

(تاریخ احمدیت جلد1 یک صفحہ53)

آپؑ کی نہایت چھوٹی عمر کی دعا ’’نامرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے‘‘ ظاہر کرتی ہے کہ ذوق عبادت آپؑ کی فطرت میں شامل تھا آپؑ فرماتے ہیں

المسجد مکانی والصالحون اِخوانی
وَ ذکر اللّٰہِ مالی و خلق اللّٰہِ عَیالی

مسجد میرا مکان صالحین میرے بھائی یاد الہی میری دولت اور مخلوقِ خدا میرا عیال اور خاندان ہے

(سیرت مسیح موعودؑ حصہ سوم از یعقوب علی عرفانی صفحہ387)

1883ء میں الہام ہوا وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ۔ وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ترجمہ: اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد چاہو۔ اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو۔

(تذکرہ صفحہ67)

آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز

’’لڑکپن سے ہی قرآن مجید کا مطالعہ اور نماز کی ادائیگی دن رات آپ کا معمول تھا والد صاحب کی اطاعت میں کچھ خاندانی مقدمات کی پیروی کرنی پڑی۔ یہ فرض نبھاتے ہوئے بھی نماز کی ادئیگی کو مقدم رکھتے۔ عین کچہری میں نماز کا وقت آجاتا تو اس کمال محویت اور ذوق و شوق سے مصروف نماز ہوجاتے کہ گویا آپ صرف نماز پڑھنے کے لئے آئے ہیں اور کوئی کام آپ کے مد نظر نہیں بسا اوقات ایسا ہوتا کہ آپ خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے عجزو نیاز کر رہے ہوتے اور مقدمہ میں طلبی ہوجاتی مگر آپ کا ا ستغراق، توکل الی اللہ اور حضورِ قلب کا یہ عالم تھا کہ جب تک مولائے حقیقی کے آستانہ پر جی بھر کے الحاح و زاری نہ کرلیتے اس کے دربار سے واپسی کا خیال تک نہ لاتے‘‘

(تاریخ احمدیت جلد1 یک صفحہ77)

ایک ایسے ہی مقدمے میں آپ نماز کی وجہ سے طلبی پر حاضر نہ ہوسکے مگر اللہ پاک کے کرم سے معجزانہ طور پر آپؑ کے حق میں فیصلہ ہوا۔

نماز تہجد کا التزام

پنجگانہ نماز تو خیر فرض ہی ہے جس کے بغیر کوئی شخص جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو مسلمان نہیں رہ سکتا نفل نماز کے موقعوں کی بھی حضرت مسیح موعودؑ کو تلاش رہتی جیسے ایک پیاسا انسان پانی کی تلاش کرتا ہے تہجد کی نماز جو نصف شب کے بعد اُٹھ کر ادا کی جاتی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا دستور تھا کہ باقاعدہ شروع وقت میں بیٹھ کر ادا فرماتے تھے اور اگر کبھی زیادہ بیماری کی حالت میں بستر سے اُٹھنے کی طاقت نہیں ہوتی تھی تو پھر بھی وقت پر جاگ کر بستر میں ہی اس مقدس عبادت کو بجا لاتے تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ583)

نماز اشراق کے نوافل دو یا چار رکعت کبھی کبھی ادا فرماتے (سیرت المہدی جلد ایک صفحہ3) جس دن آپؑ نے بٹالہ جانا ہوتا تو سفر سے پہلے آپؑ دو نفل پڑھ لیتے (تاریخ احمدیت جلد ۱ اول صفحہ76) 1894ء میں سورج گرہن کے وقت مسجد کی چھت پر نماز کسوف باجماعت ادا کی جس میں قریباً تین گھنٹے دعا جاری رہی۔

(آئینۂ صدق و صفا صفحہ48)

’’نماز تہجد کی خلوت کے علاوہ دن کے وقت بھی عموماً ایک وقت بالکل علیحدگی میں گزارتے تھے۔ آپؑ کی رہائش کے کمرے کے ساتھ چھوٹا سا کمرہ بیت الدعا کا ہے اسے اندر سے بند کرکے دو گھنٹہ کے قریب بالکل علیحدگی میں مصروفِ عبادت رہتے ایام سفر میں بھی آپؑ کے واسطے کوئی چھوٹا سا کمرہ خلوت کے واسطے بالکل الگ کر دیا جاتا۔

(الفضل 3 جنوری 1931ء)

نماز جنازہ خود حضورؑ ہی پڑھاتے تھے۔ حالانکہ عام نمازیں حضرت مولوی نورالدین صاحب یا مولوی عبدالکریم ساحب پڑھاتے تھے کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ جمعہ کو جنازہ غائب ہونے لگا تو نماز تو مولوی صاحبان میں سے کسی نے پڑھائی اور سلام کے بعد حضرت مسیح موعودؑ آگے بڑھ جاتے اور جنازہ پڑھا دیا کرتے تھے‘‘

(سیرت المہدی جلد3 صفحہ167)

حضرت اماں جانؓ سے روایت ہے کہ
حضرت مسیح موعودؑ فرض نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے اور بعد کی سنتیں بھی عموماً گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے‘‘

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ5)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ لکھتے ہیں:۔
’’حضرت مسیح موعودؑ کے ملازم غفار کا کام اتنا ہی تھا کہ جب آپ مقدمات کے لئے سفر کرتے تو وہ ساتھ ہاتا اور لوٹا اور مصلیّٰ اس کے پاس ہوتا ان دنوں آپؑ کا معمول یہ تھا کہ رات بہت کم سوتے اور اکثر حصہ جاگتے رہتے اور رات بھر نہایت رقت آمیز لہجے میں گنگناتے رہتے‘‘

(شمائلِ احمدؑ صفحہ28)

حضرت مفتی محمد صادقؓ لکھتے ہیں:۔
’’ایک دفعہ مقدمہ کرم دین میں جب کہ حضرت صاحب کمرۂ عدالت میں بہ سبب سماعت مقدمہ تشریف فرما تھے نماز ظہر کا وقت گزر گیا اور نماز عصر کا وقت بھی تنگ ہوگیا تب حضورؑ نے عدالت سے نماز پڑھنے کی اجازت چاہی اور باہر آکر برآمدے میں اکیلے ہی ہر دو نمازیں جمع کرکے پڑھیں۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ110)

’’مارچ 1908ء میں پنجاب کے فنانشل کمشنر سر جیمز ولسن ایک روزہ دورے پر قادیان آئے شام کو حضرت اقدسؑ سے ملنے آئے دوسرے دوست بھی تھے حضورؑ پون گھنٹہ اسلام کی خوبیاں بیان کرتے رہے۔ جب نماز کا وقت ہوگیا۔ تو یہ کہہ کر رخصت لی کہ ’’آپ دنیاوی حاکم ہیں خدا نے ہمیں دین کے لئے روحانی حاکم بنایا ہے جس طرح آپ کے کاموں کے وقت مقرر ہیں اسی طرح ہمارے بھی وقت مقرر ہیں اب ہماری نماز کا وقت ہوگیا ہے‘‘

(خلاصہ از سیرت احمد از حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صفحہ57)

’’اے خدا تعالیٰ قادر و ذوالجلال! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں توُ اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کرحضور نمازمیں میسر آوے‘‘۔

(فتاویٰ مسیح موعود صفحہ7 مطبوعہ 1935ء)

آپؑ کے ساتھ نماز کی لذت میں شریک خوش نصیب حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ لکھتے ہیں:
’’سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؓ کے زمانۂ حیات میں جب کہ خدا تعالیٰ کی مقدس وحی کا نزول بارانِ رحمت کی طرح ہورہا تھا۔ اس عہد میں جو بات بار بار میرے تجربے میں آئی یہ تھی کہ دعا اور نماز پڑھنے کی سمجھ اور لذت ان نمازوں کے ذریعہ آئی جو حضور اقدسؑ کی معیت میں پڑھی گئیں۔ سبحان اللہ وہ کیا ہی مبارک زمانہ تھا کہ نماز کے وقت نمازیوں کے خشوع و خضوع، رقتِ قلب اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ گڑگڑانے اور آہ و بکا کا شور مسجد مبارک میں بلند ہوتا تھا لوگ آستانہ الٰہی پر سربسجود ہوتے اور مسجد مبارک وجدانی صداؤں سے گونج اُٹھتی‘‘

(حیاتِ قدسی 871)

آنحضرت ﷺ نماز میں کبھی اتنا لمبا قیام کرتے کہ پاؤں متورم ہو جاتے۔ جنگ بدر اور کئی دیگر مواقع پررات رات بھر آپؐ نے اس طرح دعائیں کیں کہ صحابہؓ بیان کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا چکی چل رہی ہو یا ہنڈیا ابل رہی ہو۔ یہی حال آپؐ کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعودؑ کا تھا۔ حضرت میاں فتح دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک تاریک رات میں نے حضورؑ کو مسجد مبارک میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتے دیکھا، رات بھر اضطراب کے عالم میں ٹہلتے رہے۔ اگلے روز حضورؑ سے اسکی وجہ دریافت کی تو فرمایا ’’ہمیں تو جس وقت اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو مصیبتیں اسلام پر آرہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے اور اسلام کا درد ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے‘‘۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ طاعون کے ایام میں حضورؑ آستانہ الٰہی پر یوں گریہ و زاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے بے قرار ہو۔

روزِ وصال کی نماز

روزِ وصال 26 مئی 1908 ء کی صبح آپ کو فکر تھا تو نماز کا رات بھر طبیعت خراب رہی۔ جب ذرا روشنی ہوگئی تو حضورؑ نے پوچھا ’’کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے‘‘

عرض کیا گیا ’’ہاں حضور ہو گیا ہے‘‘

اس پر حضورؑ نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کیا اور نماز شروع کردی اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہوگئی اور نماز پوری نہ کرسکے تھوڑی دیر بعدحضورؑ نے پھر دریافت فرمایا کہ صبح کی نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ عرض کیا گیاحضور ہو گیا ہے آپ نے پھر نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی۔ اس کے بعد بے ہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب کبھی ہوش آتا وہی الفاظ ’’اللہ میرے پیارے اللہ‘‘ سنائی دیتے تھے اور ضعف لحظہ بلحظہ بڑھتا جاتا تھا۔۔۔ قریباََ ساڑھے دس بجے دو ایک دفعہ لمبے سانس آئے روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی اور خدا کا برگذیدہ، قرآن کا فدائی، اسلام کاشیدائی، محمد مصطفیﷺ کا عاشق اور دینِ محمدی کا فتح نصیب جرنیل جس نے اپنی پوری عمر علمی اور قلمی جہاد کی قیادت میں بسر کی تھی، اپنے اہلِ بیت اور اپنے عشاق کو سوگوار اور افسردہ چھوڑ کر اپنے آسمانی آقا کے دربار میں حاضر ہوگیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

وفات کے وقت حضورؑ کی عمر سوا تہتر سال کے قریب تھی۔ دن منگل کا اور شمسی تاریخ 26 مئی 1908ء جو (ڈاکٹر محمد شہیداللہ صاحب پروفیسر راجشاہی یونیورسٹی) کی جدید تحقیق کے مطابق آنحضورﷺ کا یومِ وصال بھی ہے۔

(تاریخِ احمدیت جلد دوم صفحہ541-542)

اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ ہماری نماز میں بھی ایسی کیفیت پیدا فرما دے آمین اللّٰھم آمین۔

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

درخواست ہائے دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جون 2022