• 23 اپریل, 2024

تمام مدار تقویٰ پر رکھا گیا ہے

’’رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں۔ صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 46۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

خدا کا عام قانون یہی ہے کہ اسلام کے بعد قوموں کی تفریق مٹادی جاتی ہے اور نیچ اُونچ کا خیال دُور کیا جاتا ہے۔ ہاں قرآن شریف سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ بیاہ او ر نکاح میں تمام قومیں اپنے قبائل اور ہم رُتبہ قوموں یا ہم رُتبہ اشخاص اورکُفو کا خیال کرلیا کریں تو بہتر ہے تا اولاد کے لئے کسی داغ اور تحقیر اور ہنسی کی جگہ نہ ہولیکن اِس خیال کو حد سے زیادہ نہیں کھینچنا چاہئے کیونکہ قوموں کی تفریق پر خدا کی کلام نے زور نہیں دیا صرف ایک آیت سے کُفو اور حسب نسب کے لحاظ کااستنباط ہوتا ہے اور قوموں کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مُدت دراز کے بعد شریف سے رزیل اور رزیل سے شریف بن جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ مثلاً بھنگی یعنی چوہڑے یا چمار جو ہمارے ملک میں سب قوموں سے رزیل ترخیال کئے جاتے ہیں کسی زمانہ میں شریف ہوں اور اپنے بندوں کے انقلابات کو خدا ہی جانتا ہے دوسروں کو کیا خبر ہے۔ سو عام طور پر پنجہ مارنے کے لائق یہی آیت ہے کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات 14) جس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب میں سے خدا کے نزدیک بزرگ اور عالی نسب وہ ہے جو سب سے زیادہ اس تقویٰ کے ساتھ جو صدق سے بھری ہوئی ہو خدا تعالیٰ کی طرف جھک گیا ہو اور خدا سے قطع تعلق کا خوف ہردم اور ہر لحظہ اور ہر ایک کام اور ہر ایک قول اور ہرایک حرکت اور ہر ایک سکون اور ہر ایک خلق اور ہر ایک عادت اور ہرایک جذبہ ظاہر کرنے کے وقت اُس کے دل پر غالب ہو۔ وہی ہے جو سب قوموں میں سے شریف تر اورسب خاندانوں میں سے بزرگ تر اور تمام قبائل میں سے بہتر قبیلہ میں سے ہے۔ اور اس لائق ہے کہ سب اس کی راہ پر فدا ہوں۔ غرض شریعت اسلامی کا یہ توعام قانون ہے کہ تمام مدار تقویٰ پر رکھا گیا ہے۔

(تریاق القلوب ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 278)

’’ایک دوست کا سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی اپنی ایک لڑکی غیر کفو کے ایک احمدی کے ہاں دینا چاہتا ہے حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے۔ اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر حسب مراد رشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنا بہ نسبت غیر کفو کے بہتر ہے۔ لیکن یہ امر ایسا نہیں جو بطور فرض کے ہو۔ ہر ایک شخص اپنے ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھ سکتا ہے۔ اگر کفو میں کسی اور کو اس لائق نہیں دیکھتا تو دوسری جگہ دینے میں حرج نہیں اور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہرحال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے جائز نہیں ہے‘‘۔

(البدر مورخہ 11 اپریل 1907ء صفحہ 7 جلد6 نمبر 15)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 3 جولائی 2020ء