• 5 مئی, 2024

خلفائے احمدیت اور لجنہ اماء اللہ کی مساعی

حضرت مسیح موعودؓ مردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ بھی لازمی امر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ133)

قارئین! حضرت مسیحِ موعود مہدئ الزماں علیہ السلام جب اپنا کام ختم کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے حضور حاضر ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق دوسری قدرت کا اظہار کر دیا۔ یعنی خلافت کا سلسلہ چلا دیا، دوسری قدرت کا پہلا مظہر حضرت مولوی الحاج حکیم نورالدینؓ قرار پائے۔ آپ کا وجود عشقِ خدا، عشقِ محمدؐ اور عشقِ قرآن میں بھیگا ہواتھا۔ اپنے دورِ خلافت کے چھ سالوں میں آپ نے پوری جماعت بشمول عورتوں اور بچوں کی تربیت کے لئے ایسے کام کئے جن کی وجہ سے جماعت کو ایک ڈھارس ملی۔ قلیل وقت میں مسیح الزماںؑ کے یارِ غار نے جماعت کے مردو زن کو اپنے امامؑ کی تقلید میں خدا سے محبت کے سنہری اصول سکھائے اور جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ پہلے زمانہ خلافت کے بعد جبکہ جماعت کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا تھا، ضرورت تھی کہ مردحضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم کے تحت لاتے ہوئے کوئی ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ دراصل حضرت مصلح موعودؓ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا تھا کہ
’’اگر تم پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی۔‘‘

(الفضل 29؍اپریل 1944ء)

اس سلسلے میں خلافت ثانیہ نے ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے جماعت کی خواتین کو ایک بندھن میں باندھ دیا۔ جو اس زمانہ سے لے کر آج تک ہے اور ان شا اللہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ جس کا نام لجنہ اما اِللہ رکھا گیا۔

حضرت مصلح موعودؓ اور احمدی خواتین کی تنظیم
1922ء تا 1965ء

1914ء میں اللہ تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ کو مسیح الزماںؑ کا موعود صاحبزادہ حضرت مرزا بشیرالدین محمودؓ دوسرے خلیفہ کے روپ میں عطا کیا۔ موعود مسیحؑ کا، موعود صاحبزادہ جو حضرت مسیحِ موعوؑدکو ایک عظیم الشان پیشگوئی کے بعد دیا گیا جن کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا، دیگر اور بہت سے انتظامی امور کے ساتھ ساتھ حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کی خواتین کے لئے ایک ایسے کام کا آغاز کیا جس نے جماعت کی خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا۔ 25 دسمبر 1922ء کا دن جماعتِ احمدیہ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے جبکہ آپ نے لجنہ اما اِللہ کی عالمگیر تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کی عورت طرح طرح کی ضعیف الاعتقادی کے گھن چکر میں پس رہی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی دور بین نگاہوں نے بھانپ لیا کہ جب تک اپنی جماعت کی عورت کو مضبوط نہ کیا جائے، اسے تعلیمی، ذہنی، فکری اور عملی ہر لحاظ سے ترقی کے رستے پر نہ چلایا جائے، وہ دنیا میں ترقی نہیں کر سکیں گی۔ آپ نے خواتین کے سامنے ایک ایسا تصور پیش کیا جس پر عمل کر کے احمدی خواتین ایک ایسی تنظیم کا حصہ بنیں جس کا نام حضورؓ نے ’’لجنہ اماء اللہ‘‘ رکھا۔ اس عظیم الشان تنظیم کے مقاصد اور کام کی مختصر کہانی کچھ ایسے ہے کہ، حضور نے خاندانِ مبارکہ، صحابیات، اور جماعت کی مخلص کارکنات میں سے پہلی نشست میں چودہ ممبرات کے دستخط لے کر انہیں لجنہ اما اِللہ کی تنظیم کا مطلب سمجھایا اور ان کے سامنے ایک لائحہ عمل رکھا۔ جس کے موٹے موٹے مقاصد میں سے چند ایک اختصار کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی زبانی قارئین کی نظر ہیں۔

حضور فرماتے ہیں۔ ’’اس کلب کے تین موٹے موٹے اغراض فی الحال تم کو بتاتا ہوں۔

1۔ آپس میں مل کر علم سیکھنا 2۔ دوسروں کو سکھانا 3۔ بچوں کی اصلاح کی طرف توجہ۔

آپ نے مزید فرمایا ’’باہم مل کر کام کرنے سے علم بہت ترقی کرتا ہے۔ جب ایک مجلس بیٹھتی ہے تو کئی نئی نئی باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ باہم مل کر کام کرنے سے حوصلے بڑھ جاتے ہیں …حضرت مصلح موعودؓ نے خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا علم کو استعمال کرنے کے لئے مضمون لکھو۔ مضمون لکھنے سے نئے نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔

(تاریخ لجنہ جلد اوّل)

الغرض! جماعتِ احمدیہ کی خواتین کی یہ تنظیم اپنے اولوالعزم خلیفہ کی قیادت میں دھیرے دھیرے اینٹ سے اینٹ جوڑکر ایک مضبوط عمارت بنتی چلتی گئی۔ قادیان سے تنظیم کی شاخیں پھوٹ پھوٹ کر ہندوستان کے دوسرے شہروں میں پھلنے پھولنے لگیں۔ حضورؓ کے ساتھ خواتین مبارکہ خصوصی طور پر حضرت امّاں جانؓ (حضرت اُمّ المومنین)، ان کی دو شعائراللہ صاحبزادیاں، دوسری خواتین مبارکہ اور بہت سی ابتدائی احمدی لجنہ کی ممبرات نے اپنے خلیفہ کا ساتھ دیتے ہوئے ہندوستان کے بیشتر شہروں میں لجنہ اما اِللہ کی تنظیمیں جاری کیں، یعنی ہر شہر میں لجنہ کا ایک دفتر امیر جماعت کی نگرانی میں کھول کر خواتین کی ایک ممبر صدر اور اسکے ساتھ مدد گار خواتین کی عاملہ بنا کر حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایات کے مطابق خواتین کی، تعلیمی، تربیتی اور فکری ترقی کے میدان کھلنا شروع ہو گئے۔ یہاں تک کہ محض تین برس بعد 1925ء میں سیالکوٹ میں حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت اور رہنمائی سے چندہ اکٹھا کر کے مدرسۃالبنات کی بنیاد ڈالی گئی۔ سیالکوٹ کی اچھی تعلیم یافتہ ممبرات نے اپنی خدمات مفت پیش کیں۔

(الفضل 31؍مارچ 1925ء)

چونکہ حضورؓ کی زیرک نگاہوں نے اس تنظیم کو بہت آگے تک جاتا دیکھ لیا تھا، بہت جلد آپ نے لجنہ اماء اللہ کے دو گروپ بنادئیے، سات سال سے پندرہ سال تک، ناصرات کہلائی اور سولہ سے بڑی ممبرات لجنہ اماء اللہ کا نام پا کر اپنی بچیوں (ناصرات الاحمدیہ) کی تربیت میں مصروف ہو گئیں۔ ابتدا میں ہی لجنہ ممبرات میں دو رسالہ جات کی اشاعت بھی کی گئی، ایک رسالہ تادیب النسا جو لجنہ تنظیم بننے سے پہلے ہی شائع ہو رہا تھا جس کے بانی اور پرنٹر تو مرد حضرات تھے، مگر خواتین بھی اس میں مضامین لکھا کرتیں۔ لجنہ کی تنظیم کے بعد ایک رسالہ، مصباح، کے نام سے بھی جاری کیا گیا۔ جو اب تک جاری ہے۔ علمی ترقیات کے ساتھ ساتھ حضور نے لجنہ کی ممبرات کی توجہ مالی قربانی کی طرف بھی کروائی۔ حضرت امّاں جانؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تحریکِ جدید، مساجد کی تعمیر، غربا فنڈ اور دیگر بہت سے شعبہ جات میں چندے دے کر، اور جو حیثیت نہیں رکھتی تھیں انہوں نے سوت کات کات کر، مختلف چھوٹے موٹے کام کر کر کے پیسہ بنایا اور جماعت کی خدمت میں پیش کر دیا۔ الغرض لجنہ اماء اللہ کی تربیت خلافتِ ثانیہ کے دور میں اس انداز سے کی جارہی تھی کہ کوئی رخنہ باقی نہ رہے اور لجنہ اماء اللہ اسلام کی بہترین مجاہدہ بنیں۔

نئے مرکز ربوہ (پاکستان) میں لجنہ اماء اللہ

یہاں تک کہ 1947ء کا وقت آ گیا۔ ہجرت کے وقت بھی حضرت مصلح موعودؓ  جماعت کی اس تنظیم کو دوسرے دفاتر کے ساتھ حفاظت سے لانے اور لاہور رتن باغ میں لجنہ کی سرگرمیاں جاری رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ 1948ء میں نئے وطن میں نیا مرکز ’’ربوہ‘‘ آباد کرنے کے وقت بھی لجنہ امااللہ خلافت اور جماعت کا مضبوط سہارا بنی۔ پاکستان میں آکر حضورؓ نے ہندوستان کی لجنہ پر بھی برابر توجہ رکھی، گو کہ ہجرت کے وقت چار سال تک قادیان میں خواتین نہ ہونے کے برابر تھیں مگر جب 1951ء میں حالات بہتر ہونے پر خاندانوں کو رہنے کی اجازت ملی تو اللہ کے فضل سے قادیان کی لجنہ اماء اللہ کی رونقیں اور سرگرمیاں پھر سے شروع ہو گئیں۔ ادھر ہندوستان سے باہر امریکہ، یورپ، انڈونیشیا، افریقہ، فجی، جرمنی، وغیرہ میں بھی لجنہ امااللہ کی مجالس کے کام شروع ہو گئے۔ ساری دنیا کا مرکز ربوہ ہی تھا۔ لجنہ کی ہر مجلس کو ربوہ سے ہی پیغامات وغیرہ جاتے تھے۔

بہت سے ایسے بے شمار پروگرام اور پراجیکٹس جس نے احمدی خاتون کو علمی و ادبی، تخلیقی، صنعتی، دینی، روحانی، معاشی، صحتِ جسمانی، اصلاحی اور معاشرتی میدان میں بلحاظ عمر، ذہنی صلاحیت اور علاقائی ذرائع کے باعزت اور آزادانہ طور پر کوشش کر کے فائدہ اٹھانے کے قابل بنا دیا۔ ان سب کے ساتھ ایک اور بہت بڑا کام جس کی بنیاد حضورؓ نے 1956ء میں رکھی اور لجنہ اماء اللہ کو ایسا تحفہ دے دیا، جو اس تنظیم کے لئے سب سے قیمتی اور نادر ثابت ہوا۔ وہ ’’لجنہ اماء اللہ کا سالانہ اجتماع‘‘ ہے۔ خلافت ثانیہ میں 1922ء سے لے کر 1965ء تک بیالیس برس احمدی خواتین کی یہ تنظیم اپنے آقا کی سرکردگی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتی ہوئی دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنا مقام بنا چکی تھی۔ آخر حضرت مرزا بشیر الدین محمودؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوہ آ گیا۔

خلافتِ ثالثہ اور لجنہ اماء اللہ کی تنظیم
1965ء تا 1982ء

انسان فانی ہے مگر اس کے نیک کام ہمیشہ قائم رہتے ہیں جن سے بہترین مقاصد مہیا ہوتے رہتے ہیں۔ لجنہ کی تنظیم کا آغاز کرنے والا اپنے کام کر کے دار فانی سے کوچ کر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بھی اکیلا نہ چھوڑا۔ جماعت کی وہ لونڈیاں جنہیں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مصلح نے ایک بندھن میں باندھ دیا تھا۔ وہ کیسے بکھر جاتیں ایسا تو الٰہی جماعت کے ساتھ نہیں ہوتا۔ چنانچہ جماعت کے تیسرے مظہر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے بھی لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو ایسے ہی توجہ دی جیسے اس کا حق تھا۔ اس وقت لجنہ مرکزیہ کی صدر حضرت مریم صدیقہ اہلیہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ (چھوٹی آپا) تھیں، 1966ء تک دنیا کے بہت سے ممالک کی مرکزی اور لوکل تنظیمیں بھی بن چکی تھیں۔ لجنہ اور ناصرات کا شعور بھی بڑھ چکا تھا، اب لجنہ کی تنظیم میں علاقائی اور مرکزی عہدیداران چننے، اور شعبہ کے حساب سے خدمات تقسیم کرنے کا کام بھی تیزی سے شروع ہوا۔ تمام دنیا میں خلافت سے منظور شدہ سالانہ لائحہ عمل، مختلف پروگرام، نصاب اور اطلاعات جایا کرتی تھیں۔ یہ سب کام دفتر لجنہ مرکزیہ کے تحت ربوہ پاکستان میں ہوتے تھے۔ اور جیسا کہ پہلے بھی بتایا جاچکا ہے کہ ان سب کاموں کی نگران صدر مرکزیہ حضرت سیدہ چھوٹی آپا تھیں۔

خلافتِ ثالثہ کے دور میں پہلا لجنہ وناصرات کا عالمگیر اجتماع اکتوبر 1966ء میں ہوا جس میں خلیفۃ المسیح الثالثؒ دوسرے روز کے اجتماع میں لجنہ و ناصرات سے خطاب کرنے کے لئے تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا: ’’لجنہ اماء اللہ کا قیام اس غرض سے ہے کہ تا احمدی مستورات اور احمدی بہنیں اپنی زندگی منّظم ہو کر اس طرح گزاریں کہ ان کے قدم ہمیشہ جنّت کی زمین کو چومنے والے ہوں اور جہنم کی زمین اور جہنم کی آگ اور اس کی تپش اور اس کی تکالیف کا جھونکا تک بھی ان تک نہ پہنچنے پائے۔ خلافتِ ثالثہ میں ہونیوالے چند انقلابی اقدام جن کا اعلان حضورؒ نے پہلے اجتماع میں اور اسکے بعد کچھ مواقع پر فرمایا، قارئین کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ 1.جماعتِ احمدیہ کے لئے اشاعتِ اسلام اور قرآنِ کریم کی اشاعت کے لئے مجاہدہ کے بہت سے میدان ہیں جن کے لئے ہر احمدی مرداور عورت سے وقف کی قربانی مانگتے ہیں2.اور چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں ہر میدان میں کچھ ایسے فدائی اورجاں نثار مہیا کریں 3.…… آپ ان کو ایسے رنگ میں پالیں اور تربیت دیں کہ وہ میدانِ مجاہدہ میں بے نفسی، فدائیت اور ایثار کے ساتھ کودیں 4.…… اپنے بچوں کو اٹھنی ماہوار دینے کی طرف بھی توجہ دلائیں۔ حضورؒ نے اس موقعہ پر قرآن کریم سیکھنے سکھانے سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کے قابل بنانے کے متعلق بھی اپنی مہم کا ذکر فرمایا 5.حضورؒ نے مزید فرمایا: اپنی زندگیوں میں سے ان رسوم کو اور بد عادات کو یکسر اور یک قلم مٹادیں۔ 6.تمہاری زندگی میں کوئی اسراف نہیں ہونا چاہئے۔ (تاریخ لجنہ جلد سوم، صفحہ410-411) اس سے آئندہ برسوں میں بھی حضورؒ نے بارہا لجنہ کو قرآن پاک ناظرہ، باترجمہ اور باتفسیر سیکھنے اور سکھانے پر زور دیا۔

لجنہ اماء اللہ کے چندہ سے مسجد نصرت جہاں کی تعمیر

چونکہ 1964ء میں خلافت ثانیہ کے پچاس سال پورے ہوئے اس موقعہ پر حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے اظہارِ تشکر کے لئے ایک مسجد تعمیر کروانے کے لئے دو لاکھ روپے جمع کرنے کی تحریک فرمائی تھی۔ چنانچہ اس رقم سے خلافت ثالثہ میں مسجد نصرت جہاں (ڈنمارک) کی تعمیر کی گئی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

1969ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ناصرات کو قرآن حفظ کرنے کی تحریک کی۔ افرادِ جماعت کے ساتھ لجنہ کو بھی سورہ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات یاد کرنے کی تحریک کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دور میں بہت سے بیرون از پاکستان دورے کئے گئے۔ جن میں، مغربی افریقہ، امریکہ، ماریشس، سویڈن، ڈنمارک، ناروے، انگلینڈ کے ممالک شامل ہیں۔ حضورؒ جس ملک میں بھی گئے لجنہ کے ساتھ خصوصی خطاب فرمائے اور لجنہ اماء اللہ کو بد رسوم سے دوری، قرآن سیکھنے اور سکھانے پر بچوں کی تربیت اور پردے پر بھر پور نصائح فرمائیں۔ بہت سی جگہوں پر حضرت حرم محترمہ، بیگم صاحبہ مرحومہ نے بھی تقاریر کیں اور لجنات کو نصائح فرمائیں۔

خلافتِ ثالثہ میں لجنہ کی مساعی کے سلسلے میں
دو نمایاں کارنامے

پہلا کارنامہ 1971ء میں خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے لجنہ کو افواجِ پاکستان کے لئے روئی کی صدریاں تیار کرنے کا حکم دیا اور دوسرا ربوہ میں خواتین کے کالج جامعہ نصرت کے سائنس بلاک کا افتتاح تھا جو کہ لجنہ کی تنظیم کے پچاس سال ہونے پر کیا جانا تھا۔ حضورؒ کی تحریک پر اس کاآدھا خرچ لجنہ نے ادا کرنا تھا۔ یہ کام بھی حسن وخوبی سے انجام پاگیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح لثالثؒ نے چونکہ بیرون ازپاکستان بہت سے برِّاعظموں اور ممالک کے دورے کئے، جہاں دوسرے احبابِ جماعت کے علاوہ لجنہ کی تنظیم اور لجنہ کی انفرادی طور پر ممبرات سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، یہ ملاقاتیں ازدیادِ یقین اور ایمان کے لئے بہت موٗثر رہیں۔ دوسری اقوام کی لجنات اور بچیوں کا خلافت سے تعلق کا ایک نیا باب کھلا، باہمی ملاقاتوں سے پاکستان اور ہندوستان آنے کے لئے حوصلے بلند ہوئے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

خلافتِ رابعہ اور لجنہ اماء اللہ
1982ء تا 2003ء

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو جب خدا سے بلاوہ آگیا تو، ان کی جگہ بھرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کے ایک اور صاحبزادے حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کو جماعتِ احمدیہ کے چوتھے مظہر کے طور پر بھیج دیا۔ ابھی آپ کو خلافت کی ذمہ داری سنبھالے ایک برس بھی نہیں گزرا تھا کہ پاکستان کے آمر صدر نے احمدیوں کے لئے ایک ظالمانہ ایکٹ بنا کر جماعت کے لئے تبلیغی طور پر ہر رستہ مسدود کر دیا۔ حالات انتہائی مخدوش ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو درست وقت پر درست فیصلہ کرنے کی توفیق دی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی فیملی اور عملے کے ساتھ ملک چھوڑ دیا۔ برطانیہ میں رہائش اختیار کی گئی، گویا اب خلافت کا مرکز بیت الفضل لندن بن گیا۔ برطانیہ کی لجنہ اماء اللہ کی تنظیم اللہ کے فضل سے بہت پرانی اور مخلص ہے۔ 1985ء میں یہاں لجنہ کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی خلافت کا باقی انیس سال کا عرصہ برطانیہ میں ہی گزارا۔ برطانیہ کی لجنہ اور ممبرات ماشاء اللہ اس وقت بھی بہت چست اور فدائی تھیں۔ لجنہ نے خلافت کے ساتھ اطاعت اور وفاداری کی تاریخی مثالیں قائم کی ہیں۔ کچھ عرصہ لجنہ مرکزیہ کا نظام ربوہ، پاکستان سے ہی چلتا رہا۔ 1989ء میں لجنہ اماء اللہ کا ایک طرح سے نیا دور شروع ہوا۔

وہ ا س طرح کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مرکزی صدر پاکستان کو پاکستان کی صدر بنا دیا، اور عالمگیر لجنہ کا شعبہ اپنی نگرانی میں لے لیا۔ اس دور میں لجنہ کا کام بہت زیادہ جوش سے شروع کیا گیا۔

حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جرمنی میں 1992ء میں خواتین سے خطاب میں فرمایا۔ ’’میں نے اپنے دور میں جو تحریکیں کی ہیں، ان کے نتیجے میں میں جانتا ہوں کہ اتنی عظیم الشان قربانیاں احمدی خواتین نے کی ہیں، اور خاموشی کے ساتھ کی ہیں، بعض دفعہ ان کے خط پڑھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو آجایا کرتے تھے، میں دعا کیا کرتا تھا کہ کاش میری اولاد میں سے بھی ایسی بیٹیاں ہوں۔ جو اس شان کے ساتھ اس پیار کے ساتھ اللہ کے حضور اپنا سب کچھ پیش کر دینے والی ہوں۔‘‘

خلافتِ رابعہ میں تراجم کی طرف خاص توجہ تھی۔ مختلف زبانوں میں لجنہ نے مسلسل رواں ترجمہ کی طرف توجہ دی نوجوان لڑکیوں اور بڑی عمر کی لجنہ نے بھی رواں خطابات اور خطبات کا ترجمہ کرنے میں محنت اور لگن سے مہارت حاصل کی اور جماعت کی خدمت میں لگی رہیں۔ بہت سی کتب، تفسیر القرآن اور قرآن کے جزوی طور پر تراجم کرنے کی سعادت لجنہ کے حصہ میں آئی۔ امریکہ کی خواتین کی ایک ٹیم کو حضور نے دیباچہ تفسیرالقرآن کا انڈیکس تیار کرنے کا کام دیا جس کی قیادت عائشہ شریف صاحبہ نے کی، اور ماشا اللہ اس کام کو خلیفہ وقت کی ہدایت اور خواہش کے مطابق پورا کر کے دکھایا۔ پرتگالی زبان میں ایک خاتون محترمہ امینہ صاحبہ (برازیل) نے صد سالہ جشنِ تشکر کے سلسلے میں شاندار کام کرنے کی مثال قائم کی اور پرتگالی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ مکمل کیا جو شائع بھی ہوچکا ہے۔ اس عظیم کام پر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان خاتون کو پہلی احمدی مشنری خاتون کےلقب سے نوازا۔ لجنہ غانا کے متعلق بھی حضورؒ نے فرمایا کہ ’’میں غانا لجنہ کے اس کام سے بہت خوش ہوں بہت عمدگی سے لجنات اور بچوں کی خدمت کر رہی ہیں۔ خصوصاً غانا میں مشرق سے لے کر مغرب تک یہ کام ہو رہا ہے‘‘ (محسنات صفحہ53-54) قرآن کریم کے تراجم کے علاوہ رواں خطبات اور خطابات کے تراجم، اردو کلاسز، ہومیوپیتھی کلاسز، ترجمة القرآن کلاسز کا انعقاد کر کے حضورؒ نے خواتین کو برابر کا حصہ اور وقت دیا، ہومیو پیتھی کتاب کی تصنیف بھی حضورؒ کے ارشاد پر لجنہ لندن نے کی۔ خلافتِ رابعہ میں وقفِ نو کی تحریک کا اعلان کیا گیا۔ جس میں نوبیاہتا بچیاں اور دیگر خواتین نے جماعت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے نئے پیدا ہونے والے بچوں کو وقف نو کی تحریک میں شامل کیا۔ اس تحریک کے ذیل میں سینکڑوں بچیاں وقف نو کی تحریک میں شامل ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔ خلافتِ رابعہ کے اور بہت سے احسانات کے ساتھ لجنہ اماء اللہ پر ایک اور بڑا احسان مریم شادی فنڈ کی تحریک کا ہے۔ اس تحریک سے سینکڑوں بچیوں کے جہیز بنائے گئے۔ اللہ کے فضل سے یہ کام ہمیشہ جاری رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے خلیفہ کو اَعْلیٰ عِلِیِّین میں جگہ دے۔

خلافتِ خامسہ کا تاریخ ساز دور اور لجنہ اماء اللہ

اللہ کے فضل سے اب جماعت احمدیہ پر دوسری قدرت کے پانچویں مظہر کا سایہ ہے۔ لجنہ اماء اللہ تمام دنیا میں ایک مضبوط تنظیم بن کر دو سو سے زیادہ ممالک میں پھیل چکی ہے، جو قدم قدم چلتے چلتے ایک ادارہ بن چکی ہے۔ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی توجہ مسلسل اس ادارے کے ساتھ ہے۔ وہ بچیاں جو خلافتِ رابعہ کی تحریک سے وقف نو بنیں اور بن رہی ہیں ان کی تعداد میں روز افزوں ترقی ہورہی ہے۔ اب ان بچیوں کی ساری ذمّے داری خلافت خامسہ کے کاندھوں پر ہے۔ مسلسل نظام کے تحت ان سے رابطہ اور انکو آئندہ زندگی کے لئے guide بھی کیا جاتا ہے۔ اور ان کی تعلیم و تربیت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اور پیشہ کا انتخاب بھی خلیفہ کے مشورے اور اجازت سے کیا جاتا ہے۔ اب تک کی جو تحریکات جاری ہوچکی ہیں، ان کو احسن طریق سے جاری رکھنا اور ترقی دینا بھی حضور انور کے عظیم کاموں میں سے ایک ہے۔ لجنہ اور واقفاتِ نوبچیوں کے رسالہ جات کا اجرا کیا گیا، حضور انور نے لجنہ اور ناصرات کے لئے ترتیل القرآن آن لائن کا اجرا بھی کیا تاکہ دور دراز کے ممالک میں بیٹھی لجنہ مربیان سے ترجمہ اور ترتیل سیکھ سکیں۔ حضور انور نے لجنات کو انفرادی اور ذاتی کتب لکھنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔

حضور انور کا COVID-19 کے دوران
لجنہ سے رابطہ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے لجنہ اماء اللہ برطانیہ اور دنیا بھر کی لجنہ و ناصرات کے ساتھ ہمیشہ سے ہی شفیق باپ والا سلوک رکھا۔ بذریعہ خطوط بھی اور ملاقات بھی، خصوصاً چھوٹی عمر کی لجنہ جن کو اپنی زندگی کے فیصلوں کے لئے خلیفہ وقت کی راہنمائی اور نصائح کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضور انور نے COVID-19 کے دنوں میں دنیا بھر کے بیشتر ممالک سے لجنہ و ناصرات کی آن لائن سوال و جواب کی میٹنگز کیں۔ لجنات و ناصرات کے لئے ایسے حالات میں اپنے پیارے خلیفہ سے ملاقات ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی۔

حضور ایدہ اللہ فرماتے ہیں ’’نئی نسل کی تربیت کی ذمے داری ماؤں پر ہوتی ہے۔ بلکہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی یہ ذمے داری شروع ہوجاتی ہے کیونکہ جب بچے کی پیدائش کی امید ہو مائیں اگر اس وقت سے ہی دعائیں شروع کر دیں اور ایک تڑپ کے ساتھ دعائیں شروع کر دیں تو پھر وہ دعائیں اس بچے کی تمام زندگی تک جوانی سے لے کر بڑھاپے تک اس کا ساتھ دیتی ہیں‘‘ (خطاب جلسہ سالانہ ہالینڈ 2004ء) حضور ایدہ اللہ نے لجنہ کے لئے بہت سی تربیتی تحریکات کا اعلان کیا ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔

غریب بچیوں کی شادی کے لئے امداد کی تحریک 3 جون 2005ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے غریب بچیوں کی شادی کے اخراجات کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا ’’جو لوگ باہر کے ملکوں میں ہیں اپنے بچوں کی شادیوں پر بے شمار خرچ کرتے ہیں۔ اگر ساتھ ہندوستان، پاکستان اور دوسرے غریب ممالک کی بچیوں کے لئے کوئی رقم مخصوص کر دیا کریں تو یہ ایسا صدقہ جاریہ ہو گا جو ان کے بچوں کی خوشیوں کا ضامن ہو گا‘‘

بد رسوم ترک کرنے کی تحریک

’’عورتوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے کہ صرف اپنے علاقہ یا ملک کی رسموں کے پیچھے نہ چل پڑیں۔ بلکہ جہاں بھی ایسی رسمیں دیکھیں، جس میں ہلکا سابھی شرک کا شائبہ ہوتا ہو ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ان کے علاوہ حضور نے لجنہ اماء اللہ کو شادی بیاہ کے موقعہ پر لغویات سے بچنے کی تحریک اور جادو اور ٹونے ٹوٹکے سے بچنے کی تحریکات بھی کیں۔ گزشتہ ربع صدی میں بہت سی مساجد کی تحریک کی گئی ان میں سے چند ایک کا ذکرجارہا ہے۔

ناروے کی مسجد (بیت النصر)

ناروے میں ایک مسجد کے لئےجگہ خریدی گئی مگر کچھ وجوہات کی بنا پر اس پر کام نہیں ہو رہا تھا۔ حضور نے ستمبر 2005ء کو ناروے میں ایک خطبہ میں احبابِ جماعت کو تحریک کرتے ہوئےفرمایا کہ ’’یاد رکھیں اگر آج آپ نے یہ موقع ضائع کر دیا تو آج نہیں تو کل جماعتِ احمدیہ کی کئی مساجد اس ملک میں بن جائیں گیں۔ لیکن احمدیت کی آئندہ نسلیں اس جگہ سے گزرتے ہوئے اس طرح یاد کریں گیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جماعت کو مسجد بنانے کا موقعہ ملا۔ لیکن اس وقت کے لوگوں نے اپنی ذمے داریوں کوادا نہ کیا۔

(الفضل14 فروری 2006ء)

اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کی بات میں اتنا اثر ڈالا کہ ناروے کی لجنہ جو اس وقت محض چار سو کے لگ بھگ ہوگی اور ان میں سے جاب کرنے والی ممبرات کُل تجنید کی نصف سے بھی کم ہو نگیں نے حضور کے اس فرمان کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا، ایسے جیسے لجنہ اماء اللہ ناروے کے دل و دماغ میں کرنٹ دوڑ گئی ہو۔ بحیثیت ناروے لجنہ کی ممبر ہونے کے ناطے خاکسار کہ سکتی ہے کہ کون ممبر ہوگی جس نے اپنا زیور نہیں دیا، نو بیاہتا لڑکیوں نے اپنا سارے کا سارا زیور مسجد کے لئے دے دیا، صرف یہی نہیں سال بھر میں مختلف قسم کے پروگرامز کر کے کھانے بنا، بنا کر بیچے۔ لجنہ اماء اللہ کی قربانیاں اور محنتیں رنگ لے آئیں اور 2010ء میں اللہ کے فضل سے مسجد مکمل ہو گئی۔ جس کا افتتاح حضور نے اگست 2010ء میں کیا۔

برلن کی مسجد اور حضور انور کا لجنہ برلن کو تحریک

12 جنوری 2007ء بروز جمعہ حضور نے برلن کی مسجد خدیجہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’1923ء میں جب مسجد برلن بنانے کی تحریک کی گئی تھی تو لجنہ اماء اللہ نے رقم جمع کی تھی۔ جب جرمنی کی لجنہ کو یہ علم ہوا کہ پہلی برلن مسجد بنانے کے لئے جو کوشش ہو رہی تھی وہ بھی لجنہ کی قربانیوں سے ہی بننا تھی تو لجنہ جرمنی نے کہا کہ ہم اس مسجد کا خرچ برداشت کریں گیں… اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے… حضور نے مزید فرمایا کہ اس مسجد کا نام مسجد خدیجہؓ رکھا گیا … پس جہاں یہ مسجد احمدی عورت کو قربانی کے اعلیٰ معیار کی طرف توجہ دلانے والی بنی رہے۔ وہاں دُ نیا سے بے رغبتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والی بنی رہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمارے آقا و خلیفہ کو صحت والی عمر عطا کرے آمین۔

(نبیلہ رفیق فوزی۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

اسلام آباد (ٹلفورڈ) کے بابرکت افتتاح کے موقع پر واقفات نو کے جذبات و خیالات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اگست 2022