• 5 مئی, 2024

صحابیات رسولؐ کی قربانیاں ممبرات کے لئے مشعل راہ

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ وَلَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (النحل: 98)۔ مرد یا عورت میں سے جو بھی نیکیاں بجا لائے بشرطیکہ وہ مومن ہو تو اُسے ہم یقیناً ایک حیاتِ طیّبہ کی صورت میں زندہ کردیں گے اور انہیں ضرور اُن کا اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے جو وہ کرتے رہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
قرآن کریم سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مذہب کی تاریخ میں عورت کا بڑا مقام ہے اور عورت کے قابل تعریف کاموں کی اللہ تعالیٰ نے گواہی دی ہے اور بیان فرمایا ہے اور انہی قابل تعریف اور اہم کاموں کی وجہ سے عورت کو ان انعامات میں حصہ دار بنایا گیا ہے جن کاموں کی وجہ سے مرد اس کے اجر کے حقدار ٹھہرائے گئے ہیں یا نوازے گئے ہیں۔

(جلسہ سالانہ جرمنی 2018ء کے موقع پر حضور انور کا مستورات سے خطاب)

اگر ہم قرون اولیٰ کی عورتوں پر نظر دوڑائیں تو کہیں ہمیں حضرت ہاجرہؓ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا اپنےبیٹے کی قربانی کرتی نظر آتی ہیں، کہیں حضرت موسیٰؑ کی والدہ اپنے جگر گوشے کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا میں ڈالتی ہیں، تو کہیں حضرت مریمؑ کا وسعت حوصلہ ہے ان کو ستایا جاتا ہے ان کے سامنے ان کے بیٹے کو اذیتیں دی جاتیں ہیں۔ قرآن نے ان سب عورتوں کی قربانیوں کا ذکر کیا ہے۔ آنحضورؐ کے زمانے میں بھی صحابیات نے قربانیوں کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ان میں قربانی کاجذبہ مردوں سے کسی طرح بھی کم نہیں تھا۔ اوراقِ تاریخ نے ان کی قربانیوں کو محفوظ کیا ہے۔

ایک عورت رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مرد ہم سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں کہ وہ جہاد میں شامل ہوں اور ہم نہ ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے تم بھی شامل ہو جاؤ۔ آپؐ نے اس کو انکار نہیں کیا۔ چنانچہ جب وہ شامل ہوئیں اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح ہوئی تو باوجود مردوں کے یہ کہنے کے، صحابہ کے یہ کہنے کے کہ اس نے تو جنگ میں اتنا حصہ نہیں لیا جتنا ہم نے لیا ہے اور ہم لڑے ہیں اس لئے اس کو مال غنیمت میں حصہ دینے کی ضرورت نہیں ہے آپؐ نے فرمایا نہیں اس کو بھی مال غنیمت میں حصہ دیا جائے گا۔ پھر اس کے بعد یہ طریق بن گیا کہ مرد جب جہاد پر جائیں تو مرہم پٹی کے لئے عورتیں بھی ساتھ جائیں۔ غرض کہ عورتوں نے باہر نکل کر جہاد بھی کیا اور تمام خطرات کے باوجود مردوں کے ساتھ متفرق ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے جہاد میں جاتی بھی تھیں۔ بلکہ یہ بھی روایات میں آتا ہے کہ فنون جنگ کی بھی انہوں نے تربیت حاصل کی۔

(ماخوذ از قرونِ اولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات،
انوار العلوم جلد21 صفحہ617-618)

آج صحابیات رسولؐ جو اہلِ بیت میں سے ہیں کی قربانیوں کا ذکر کرنا مقصود ہے، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ وفاداری، عقیدت و محبت کی حیرت انگیز نظیریں قائم کیں۔ دین کے لیے بڑی قربانیاں پیش کیں، تکالیف برداشت کیں اور محاذ جنگ پر مختلف خدمات سر انجام دیں۔

حضرت زینب بنت خزیمہؓ

حضرت زینب بنت خزیمہؓ بن حارث ہلالیہ کا تعلق قبیلہ بنی ہلال بن عامر سے تھا۔ آپ نے ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا اور شعب ابی طالب میں محصور ہونے والے مسلمانوں کے ساتھ آپ نے بھی اپنے پہلے شوہر عبیدہ بن الحارث کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

آپ ہجرت مدینہ کے بعد وفات پانے والی پہلی زوجہ مطہرہ تھیں۔ الٰہی تقدیر کے مطابق انہیں چند ماہ رسول اللہؐ کی صحبت نصیب ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود آنحضورؐ کی مزاج آشنا اور کامل فرمانبردار تھیں اور آنحضورؐ کی خاطر ذاتی خواہشات کو قربان کرنے والی تھیں چنانچہ قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت سے روایت ہے کہ میں ایک روز آنحضورؐ کی زوجہ حضرت زینب بنت خزیمہؓ کے پاس بیٹھی تھی اور ہم ان کے کپڑے رنگنے کے لیے سرخ مٹی تیار کر رہے تھے اس دوران آنحضورؐ ان کے حجرہ میں تشریف لے آئے۔ آپ کپڑے رنگ کرنے کے اہتمام کے لیے رنگنے والی سرخ مٹی دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے دروازے سے ہی واپس تشریف لے گئے۔ حضرت زینبؓ نے یہ دیکھا تو سمجھ گئیں کہ رسول اللہؐ نے اسے پسند نہیں فرمایا۔ چنانچہ حضرت زینبؓ نے پانی لے کر ان کپڑوں کو دھو لیا جس سے تمام سرخ رنگ صاف ہو گیا۔ کچھ دیر بعد آنحضورؐ دوبارہ تشریف لائے، اور کمرے کا جائزہ لیا تو رنگنے والی سرخ مٹی وغیرہ موجود نہیں تھی چنانچہ آپؐ اندر تشریف لے آئے۔

(المعجم الکبیر لطبرانی جلد24 صفحہ57 موصل)

اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
ایک دفعہ حضرت زینبؓ اپنے کپڑے گیری میں رنگنے لگیں آنحضرتؐ باہر سے تشریف لائے اور کپڑے رنگتے ہوئے دیکھ کر واپس تشریف لے گئے۔ حضرت زینبؓ تاڑ گئیں کہ آپؐ کس بات کی وجہ سے واپس تشریف لے گئے ہیں۔ ہادیوں کے گھر میں ہر وقت الٰہی رنگن چڑھی رہتی ہے۔ جس کا ذکر صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً (البقرہ: 139) میں ہے۔ یہ رنگینیاں اس کے مقابل میں کیا چیز ہیں۔ پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بناوٹ، زیور اور لباس سے خوش نہیں ہوتا بلکہ نیک بیبیوں کی بناوٹ اور زیور ان کے نیک عمل ہیں۔

(خطابات نور صفحہ226)

حضرت فاطمہؓ

حضرت فاطمہؓ  آنحضورؐ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ آپ کے مقام کے بارے میں آنحضورؐ نے فرمایا:
فاطمہؓ اِس اُمت کی عورتوں، تمام جہانوں کی عورتوں، بہشت میں جانے والی عورتوں اور ایمان لانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔

(ازواج مطہرات و صحابیات صفحہ293)

فاطمہؓ کی رضا سے اللہ راضی ہوتاہے اور اس کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔

(ازواج مطہرات و صحابیات صفحہ292)

اسی طرح فرمایا ’’فاطمہؓ میرے جسم کا حصہ ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔‘‘

(تذکار صحابیات صفحہ143)

حضرت فاطمہؓ کو بچپن سے نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کم سنی میں ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ شفیق باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول اللہؐ کو دی جانے والی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی آپ کے گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ اور غلاظت پھینک دی جاتی کبھی اپنے والد کے جسم مبارک کو پتھروں سے لہولہان دیکھا تو کبھی مشرکوں نے آپ کے والد بزرگوار کے سر میں خاک ڈال دی۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی حضرت فاطمہؓ نڈر ہو کر اپنے بزرگ باپ کی مددگار بنی رہیں۔

ایک دفعہ رسول کریمؐ بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی صحن کعبہ میں مجلس لگائے بیٹھے تھے۔ ان سرداروں میں سے کسی ظالم نے مشورہ دیا کہ فلاں محلہ میں جو اونٹنی ذبح ہوئی ہے کوئی جا کر اس کی بچہ دانی اٹھا لائے اور محمدؐ جب سجدہ میں جائیں تو ان کی پشت پر رکھ دے۔ ان میں سے ایک بد بخت عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور اونٹنی کی گند بھری بچہ دانی اٹھا لایا اور دیکھتا رہا جونہی نبی کریمؐ سجدہ میں گئے اس نے غلاظت بھرا وہ بوجھ آپؐ کی پشت پر دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ رسول کریمؐ سجدہ کی حالت میں رہے بوجھ کی وجہ سے سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ آپؐ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ تشریف لائیں اور آپؐ کی پشت سے وہ غلاظت کا بوجھ ہٹایا۔ تب آپؐ نے سجدے سے سر اٹھایا۔

ایک مرتبہ کسی بد بخت نے آپؐ کے سر پر خاک ڈال دی۔ رسول کریمؐ گھر تشریف لائے۔ آپؐ کی لخت جگر حضرت فا طمہؓ مٹی بھرا سر دھوتی اور ساتھ روتی جاتی تھیں۔ رسول اللہؐ انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا بیٹی! رونا نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کا محافظ ہے۔

(اہل بیت رسو لؐ صفحہ277-278)

حضرت فاطمہؓ کو معاشی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس معاشی تنگی کے پیش نظر آپؐ اس نئے جوڑے کو قناعت اور صبر و دعا کی تلقین بھی فرماتے تھے۔ رسول اللہؐ نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کو ذکر الٰہی کی طرف توجہ دلا کر سمجھایا کہ خدا کی محبت میں ترقی کرو۔ اللہ خود تمہاری ضرورتیں پوری فرمائے گا۔ تم خدا کو نہ بھولو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا۔ اپنی لخت جگر حضرت فا طمہؓ کے حالات دیکھ کر ان کے لیے رسول اللہؐ نے یہ دعا بھی کی کہ کبھی ان کو بھوک کی تکلیف نہ آئے۔ فاطمہؓ فرماتی ہیں اس کے بعد کبھی مجھے بھوک کی تکلیف نہیں پہنچی۔

(اہل بیت رسولؐ صفحہ282)

حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ بنت ہبیرہ نامی ایک خاتون نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھیاں تھیں۔ نبی کریمؐ اپنی لاٹھی سے ان کو ہلاتے جاتے تھے اور فرمانے لگے کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ تمہارے ہاتھ میں آگ کی انگوٹھیاں ڈال دے؟ اس نے حضرت فاطمہؓ کے پاس آ کر اس بات کا شکوہ کیا۔ حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ ادھر میں نبی کریمؐ کے ساتھ روانہ ہو گیا، نبی کریمؐ گھر پہنچ کر دروازے کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور اجازت لیتے وقت آپؐ کا یہی معمول تھا۔ اس وقت حضرت فاطمہؓ کے ہاتھ میں سونے کی ایک لڑی تھی اور وہ اس خاتون سے مخاطب تھیں کہ یہ سونے کی لڑی دیکھو جو مجھے ابوالحسن نے تحفہ دیا ہے، دریں اثناء نبی کر یمؐ گھر میں داخل ہوئے اور فرمایا، اے فاطمہؓ! بات انصاف کی ہونی چاہیے۔ کل کلاں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمدؐکی صاحبزادی فاطمہؓ کے ہاتھ میں آگ کی لڑی ہے۔ پھر آپ نے انہیں ملامت کی اور وہاں رکے بغیر ہی واپس تشریف لے گئے۔ تب حضرت فاطمہؓ نے وہ سونے کی لڑی فوراً فروخت کر کے اس کی قیمت سے ایک غلام خریدا اور اسے آزاد کر دیا۔ نبی کر یمؐ کو اس بات کا پتہ چلا تو آپؐ نے خوش ہو کر اُللّٰہُ اَکْبَرُ کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے فاطمہؓ کو آگ سے نجات دی۔

(اہل بیت رسولؐ صفحہ283-284)

حضرت فاطمہؓ نے غزوات میں بھی رسول اللہؐ کے ساتھ شریک ہو کر آپؐ کی خدمت کی توفیق پائی۔ غزوۂ احد میں آنحضورؐ کا چہرہ مبارک زخمی اور لہولہان ہوا تو حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ نے آپؐ کی مرہم پٹی کی۔

حضرت ام کلثومؓ

اسلام کے ابتدائی مخالفت کے زمانے میں حضرت ام کلثومؓ اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہؓ کے ہمراہ شعب ابی طالب کی گھاٹی میں رہیں۔ آپ نے یہ اڑھائی تین سال کا عرصہ بہت صبر کے ساتھ گزارا۔

حضرت ام کلثومؓ کا نکاح ابو لہب کے بیٹےعتیبہ سے ہوا۔ چنانچہ حضورؐ کے اعلان نبوت کے بعد ابو لہب اورام جمیل نے اپنے دونوں بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کو مجبور کیا کہ چونکہ رقیہؓ اور ام کلثومؓ اب بے دین ہو گئیں ہیں اس لیے تم انھیں طلاق دے دو۔

(اہل بیت رسولؐ صفحہ270)

شعب ابی طالب کی مشکلات اور طلاق کی تکلیف کے بعد حضرت ام کلثومؓ کو اپنی والدہ کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ آنحضورؐ کی مدینہ ہجرت کے وقت حضرت ام کلثومؓ اپنی بہن حضرت فاطمہؓ کے ساتھ مکہ میں ہی تھیں آپ نے یہ وقت بہت استقلال اور بہادری کے ساتھ گزارا۔ اوراس کے بعد حضورؐ نے اپنے صحابی حضرت ابو رافعؓ اور زید بن حارثہؓ کو مکہ روانہ کیا تاکہ وہ دونوں حضرت ام کلثومؓ، حضرت فاطمہؓ اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سعودہؓ کو ہمراہ لے آئیں۔ آپ نے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنے لمبے سفر کی مشکلیں برداشت کیں۔

(ماخوذ از سیرت حضرت ام کلثومؓ)

حضرت رقیہؓ

حضرت رقیہؓ حضرت زینب سے تین سال چھوٹی تھیں۔ حضرت رقیہؓ آنحضورؐ کی اکلوتی صاحبزادی تھیں جنہوں نے اسلام کی پہلی ہجرت کی توفیق پائی۔

رسول اللہؐ کے دعویٰ نبوت سے قبل ابولہب کے بیٹے عتبہ سے حضرت رقیہؓ کا نکاح ہوا لیکن دعویٰ نبوت کے بعد جب آیت تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّتَبَّ نازل ہوئی تو ابولہب نے اپنے بیٹے کو کہا اگر تم نے اس (محمدؐ) کی بیٹی کو طلاق نہ دی، تو اپنے باپ کا بیٹا نہیں۔ چنانچہ اس نے رسول اللہؐ کی صاحبزادی رقیہؓ کو رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی۔

(الطبقات الکبریٰ طبقات ابن سعد جلد8 صفحہ36)

نبوت کے پانچویں سال جب کفارِ مکہ کے مظالم کی وجہ سے پہلی ہجرت یعنی ہجرت حبشہ کا واقعہ پیش آیا اس میں حضرت رقیہؓ نے بھی حضرت عثمانؓ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ حضرت رقیہؓ بنت محمدؐ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے مکہ سے حبشہ ہجرت کی۔ یہ ہجرت 5 نبوی میں ہوئی۔ آنحضرتؐ نے آپ کی حبشہ ہجرت پر فرمایا: ’’ابراہیمؑ اور لوطؑ کے بعد عثمانؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی۔‘‘

(تذکار صحابیات صفحہ122)

ہجرت حبشہ میں حضرت رقیہؓ کو جو مصائب برداشت کرنے پڑے اس میں ایک بڑا صدمہ یہ پیش آیا کہ آپؓ کا ایک بچہ اسقاط حمل سے ضائع ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت رقیہؓ کے ایک اور صاحبزادے عبداللہ پیدا ہوئے لیکن کم عمری میں فوت ہو گئے۔

(اہل بیت رسولؐ صفحہ267)

آپؓ اپنے والدین نیز دوسرے گھر والوں سے جدائی کا زخم لئے، دوبارہ ملنے کی امید میں صبر سے وقت گزارتی رہیں۔ مگر 11 رمضان المبارک ہجرت مدینہ سے تین سال قبل حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہو گیا پھر مکہ میں دوبارہ حضرت رقیہؓ کو اپنی والدہ کے ساتھ رہنا نصیب نہ ہوا۔

حضرت رقیہؓ کو دو ہجرتوں کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے اسلام کی خاطر قربانیوں کی توفیق پائی، آپ نے صبر و استقامت سے زندگی گزاری، تکالیف کے ساتھ خدائی نصرت اور انعامات آپ کے ساتھ رہے۔ آپ کا ایک عظیم نشان فرزندگان ابو لہب کی ذلت و خواری تھی جنہوں نے محض آپ کے قبول اسلام کی وجہ سے آپ سے رشتہ توڑا۔ پھر حضرت عثمانؓ سے آپ کا رشتہ جڑا۔ غرض خدا کی راہ میں کی گئی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔

(ماخوذ از سیرت حضرت رقیہؓ)

حضرت زینبؓ بنت محمدؐ

حضرت زینبؓ حضرت محمدﷺ کی سب صاحبزادیوں میں سے بڑی تھیں۔ جب حضورؐ کو نبوت عطا ہوئی تو حضرت زینبؓ نے اپنی والدہ حضرت خدیجہؓ اور بہنوں کے ساتھ ہی رسول اللہؐ کی تصدیق اور قبولِ اسلام کی سعادت پائی۔

(طبقات الکبریٰ جلد8 صفحہ37)

آنحضرتﷺ نے حضرت زینبؓ کے متعلق فرمایا یہ میری بیٹیوں میں سے سب سے افضل ہے کیونکہ اس کو میری وجہ سے تکلیفیں پہنچی ہیں۔

حضرت زینبؓ مدینہ ہجرت کے لیے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر روانہ ہوئیں۔ ساتھ ان کے دیور کنانہ بن ربیع بھی تھے۔ جب کفار کو حضرت زینبؓ کی روانگی کی اطلاع ہوئی تو اہلِ مکہ اُن کے پیچھے نکلے اور ذِی طُوَیٰ میں ان کو گھیر لیا۔ ان میں ایک شخص ہبار بن اسود نامی تھا۔ اس نے حضرت زینبؓ پر حملہ کیا۔ وہ اونٹ سے زمین پر گر پڑیں انہیں سخت چوٹ آئی اور حمل ساقط ہو گیا۔

(ماخوذ از تذکار صحابیات صفحہ117-118)

حضرت زینبؓ نے آخر دم تک اسلام کی خاطر تکالیف برداشت کیں۔ وفات کے وقت وہی زخم تازہ ہو گئے تھے جو واقعہ ہجرت میں انہیں پہنچے تھے۔ آپ کی وفات بھی راہ مولیٰ میں تکالیف کی وجہ سے ہوئی، رسول اللہؐ نے انہیں شہیدہ کا لقب عطا فرمایا۔

(ماخوذ از سیرت حضرت زینب بنت محمدؐ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ صحابیات کے نمونے کو اپنانے کے متعلق عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تم اپنے مقام کو سمجھو اور اپنے اندر نئی بیداری اور نئی زندگی پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ترقی کے لیے بے انتہا مواقع پیدا کیے ہیں۔ تم بھی حضرت عائشہؓ کی نقل کرنے کی کوشش کرو، تم بھی حضرت حفصہؓ کی نقل کرنے کی کوشش کرو، تم بھی حضرت زینبؓ کی نقل کرنے کی کوشش کرو، تم بھی ان صحابیات کی نقل کرنے کی کوشش کرو جنہوں نے اپنے زمانہ میں بڑے بڑے کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں۔‘‘

(انوار العلوم جلد21 صفحہ592)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان نفوس قدسیہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ یہ نمونے ہم احمدی عورتوں میں بھی نظر آئیں اور ہم قرونِ اولیٰ کی عورتوں کی طرح ہر قربانی کے لیے ہر آن تیار ہوں۔ آمین۔

(فائقہ بشریٰ)

پچھلا پڑھیں

اسلام آباد (ٹلفورڈ) کے بابرکت افتتاح کے موقع پر واقفات نو کے جذبات و خیالات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اگست 2022