• 16 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام

• حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنی تصنیف ’’سیرت مسیح موعودؑ‘‘ میں لکھتے ہیں: ۔
’’ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود ؑ اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کا عربی حصہ لکھ رہے تھے حضور نے مولوی نور الدین صاحب ؓ (خلیفہ اول) کو ایک بڑا دو ورقہ اس زیر تصنیف کتاب کے مسودہ کا اس غرض سے دیا کہ فارسی میں ترجمہ کرنے کے لئے مجھے پہنچا دیا جائے وہ ایسا مضمون تھا کہ اس خداداد فصاحت وبلاغت پر حضرت کو ناز تھا۔ مگر مولوی صاحب سے یہ دو ورقہ کہیں گر گیا ۔چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے ہر روز کا تازہ عربی مسودہ فارسی ترجمہ کے لئے ارسال فرمایا کرتے تھے اس لئے اس دن غیر معمولی دیر ہونے پر مجھے طبعاً فکر پیدا ہوا اور میں نے مولوی نور الدین صاحب سے ذکر کیا کہ آج حضرت کی طرف سے مضمون نہیں آیا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور دیر ہورہی ہے معلوم نہیں کیا بات ہے۔ یہ الفاظ میرے منہ سے نکلنے تھے کہ مولوی نور الدین صاحب کا رنگ فق ہوگیا ۔کیونہ دو ورقہ مولوی صاحب سے کہیں گر گیا تھا ۔بے حد تلاش کی مگر مضمون نہ ملا اور مولوی صاحب سخت پریشان تھے۔ حضرت مسیح موعود کو اطلاع ہوئی تو حسب معمول ہشاش بشاش مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور خفا ہونا یا گھبراہٹ کا اظہار کرنا تو درکنار الٹا اپنی طرف سے معذرت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کو مسودہ کے گم ہونے سے ناحق تشویش ہوئی مجھے مولوی صاحب کی تکلیف کی وجہ سے بہت افسوس ہے ۔میرا تو یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گمشدہ کاغذ سے بہتر مضمون لکھنے کی توفیق عطاء فرمادے۔

جب کوئی دوست کچھ عرصہ کی جدائی کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ کو ملتا تو اسے دیکھ کر آپ کا چہرہ یوں شگفتہ ہوجاتا تھا جیسے کہ ایک بند کلی اچانک پھول کی صورت میں کھل جائے اور دوستوں کے رخصت ہونے پر آپ کے دل کو از حد صدمہ پہنچتا تھا۔

آپ کو یہ بھی خواہش رہتی تھی کہ جو دوست قادیان آئیں وہ حتی الوسع آپؓ کے پاس آپ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی قیام کریں اور فرمایا کرتے تھے کہ زندگی کا اعتبار نہیں جتنا عرصہ پاس رہنے کا موقعہ مل سکے غنیمت سمجھنا چاہیے ۔اس طرح آپؑ کے مکان کا ہر حصہ گویا ایک مستقل مہمان خانہ بن گیا تھا اور کمرہ کمرہ مہمانوں میں بٹارہتا تھا۔ مگر جگہ کی تنگی کے باوجود آپ اس طرح دوستو ں کے ساتھ مل کر رہنے میں انتہائی راحت پاتے تھے۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ590تا 592)

• حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتاب تجلیات الہیہ میں تحریر فرمایا کہ
’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اورمیرے سلسلہ کو تمام دنیا میں پھیلائے گا۔ اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ اور میرے فرقہ کے لوگ اسقدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا۔یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ سو اے سننے والو !ان باتوں کو یاد رکھواور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو۔ کہ یہ خدا کا کلام ہے جوکہ ایک دن پورا ہوگا۔‘‘

(روحانی خزائن جلد20 صفحہ409تا410)

• حضرت مسیح موعود ؑ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے۔ اور جہاں تک میں دوربین نظر سے کام لیتا ہوں ۔تمام دنیا کو اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں۔ کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے۔ جسکو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد3 صفحہ403)

• حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظہر کے وقت ایک نووارد صاحب سے ملاقات کی اور ان کو تاکید سے فرمایا کہ وہ اپنے والد کے حق میں جو سخت مخالف ہیں دعا کیا کریں انہوں نے عرض کی کہ حضور میں دعا کیا کرتا ہوں اور حضور کی خدمت میں بھی دعا کے لئے ہمیشہ لکھا کرتا ہوں حضرت اقدس نے فرمایا کہ۔
’’توجہ سے دعاکرو باپ کی دعا بیٹے کے واسطے اور بیٹے کی دعا باپ کے واسطے قبول ہوا کرتی ہے اگر آپ بھی توجہ سے دعا کریں تو اس وقت ہماری دعا کا بھی اثر ہوگا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ نمبر۵۰۲البدر ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء)

• بٹالہ کے سفر کے دوران حضرت اقدس، شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی سے ان کے والد صاحب کے حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ:
’’ان کے حق میں دعا کیاکرو ہر طرح اور حتی الوسع والدین کی دلجوئی کرنی چاہئیے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھلا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو۔ اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کرسکتے سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا ہے شاید خداتعالیٰ تمہارے ذریعہ ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے۔ اسلام والدین کی خدمت سے نہیں روکتا۔ دنیوی امور جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ دل و جاں سے ان کی خدمت بجا لاؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ۲۹۴ البدر ۱۴؍نومبر ۱۹۰۲ء)

پچھلا پڑھیں

پولینڈکا تاریخی سفر (قسط اول)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2021