• 15 مئی, 2024

وہ بات کہو جو سب سے اچھی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

وَقُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا ﴿۵۴﴾

(بنی اسرائیل: 54)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ:اور تُو میرے بندوں سے کہہ دے کہ ایسی بات کیا کریں جو سب سے اچھی ہو۔ یقیناً شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ شیطان بے شک انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے۔

جیسا کہ آپ نے ترجمہ سے سن لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بات کہو جو سب سے اچھی ہے۔ پہلی بات یہ ہے۔ اور اچھی بات وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ’’عِبَادِیْ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ ’’میرے بندے۔‘‘ ہمیں اس بات کا پابند کردیا کہ جو میرے بندے ہیں یا میرے بندے بننے کی تلاش میں ہیں ان کی اب اپنی مرضی نہیں رہی۔ ان کو اپنی مرضی چھوڑ کر میری مرضی کی تلاش کرنی چاہئے۔ اور اچھائیوں اور ان اچھی باتوں کی تلاش کرنی چاہئے جو مجھے یعنی خدا تعالیٰ کو پسند ہیں۔ اس کی مزید وضاحت اللہ تعالیٰ نے سورۃالبقرہ میں یوں فرمائی ہے کہ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ (البقرہ: 187) اور اے رسول! جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو کہہ میں ان کے پاس ہی ہوں۔ جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ سو چاہئے کہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا ہدایت پا جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’عِبَادِیْ‘‘ یعنی میرے بندے کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان لائے ہیں۔ وہی عِبَادِیْ میں شامل ہیں اور عِبَادِیْ میں شامل ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے قریب ہیں۔ اور وہ جو ایمان نہیں لاتے خدا تعالیٰ سے دور ہیں۔‘‘

(ماخوذ از جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد6 صفحہ146)

پس سچا عِبَادِیْ بننے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ہر حکم کو مانیں۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں۔ اور جب یہ کیفیت ہو گی تو ہر قسم کی بھلائیوں کو حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ دعائیں قبول ہوں گی۔ پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے وہی بات کریں، کہا بھی کریں اور کیا بھی کریں جو خدا تعالیٰ کو اچھی لگتی ہے تو پھر لازماً اپنے ایمان کو بڑھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تلاش کرنی ہوگی۔ اپنے عمل اس طرح ڈھالنے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اچھے اور احسن ہیں اور خوبصورت ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم عمل تو کچھ کر رہے ہوں اور باتیں کچھ اور ہوں۔ ہمارے عمل تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہوں لیکن دوسروں کو اُس کے مطابق جو اللہ اور رسول کے حکم ہیں ہم نصیحت کر رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے قول و فعل کے تضاد کو گناہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (الصف: 3) کہ اے مومنو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (الصف: 4) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں۔ پس قول و فعل کا تضاد اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے بلکہ گناہ ہے۔ ایک طرف ایمان کا دعویٰ اور دوسری طرف دو رنگی یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔

(خطبہ جمعہ 18؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2022