• 5 مئی, 2024

’’اپنے جائزے لیں‘‘ (قسط 3)

’’اپنے جائزے لیں‘‘
از ارشادات خطبات مسرور جلد 4
قسط 3

مولویوں کی پشت پناہی باعثِ ابتلا ہے

یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مولوی جو یہاں اگر ان کو کھلی چھٹی دی تو یہ پیر تسمہ پا کی طرح ان کی گردنوں کو قابو کر لیں گے اور پھر جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی۔صرف پاکستان میں ہی نہیں، ایسے نمونے ہمارے سامنے ہیں کہ جہاں بھی ان کو کھلی چھٹی دی گئی ہے وہاں یہ اس طرح کی کوششیں کرتے ہیں اور کریں گے اور اپنی فطرت دکھائیں گے۔ ہمارے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں، ہمارا تو یہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔جماعت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخالفت کے باوجود دنیا میں ہر جگہ بڑھ رہی ہے لیکن جن حکومتوں نے بھی ان کی پشت پناہی کی ہے یا ان سے انہیں مدد ملی ہے ان کے لئے ہمیشہ ابتلا ہی آیا ہے۔ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اگر پاکستان کی حکومت نے ان سے جان نہ چھڑائی تو یہ پھر کبھی نہیں چھوڑیں گے آجکل وہی ہو رہا ہے۔ اب حکومت بھی مشکل میں ہے اور وہ مغربی ممالک جو اپنے مفاد کے لئے ان کو آگے لائے تھے وہ بھی اب پریشانی کا اظہار کرتے ہیں۔ اب ان کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ لیکن اب ان سے جان چھٹتی نظر نہیں آ رہی۔ اگر گہرائی میں جائزہ لیں تو ان لوگوں کی وجہ سے ہی ملک کی ترقی کئی سال پیچھے ہو چکی ہے۔

(خطبات مسرو رجلد4 صفحہ43)

مسلمان ممالک مل کر جائزہ لیں

بعض طاقتوں کی ایران کے اوپر نظر ہے اور زور یہ دے رہے ہیں کہ جو ایران اپنی ایٹمی توانائی پر امن مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں، جوہری توانائی استعمال کر رہے ہیں وہ بھی استعمال نہیں کرنا۔ کیونکہ اس سے پھر آگے نکل کر وہ اس کو دوسرے مقاصد کے لئے بھی استعمال کریں گے۔ یہ حکومتیں اپنے لئے ہر حق رکھتی ہیں کہ ہم جو چاہیں کریں لیکن دوسرا نہیں کر سکتا۔تو مسلمان ممالک اگر مل کر یہ جائزہ لے لیں، ایران کو بھی سمجھائیں، بھائی بھائی بن کے بیٹھیں اور اس بات کی تسلی کرلیں اور دنیا کو پھر اس بات کی ضمانت دے دیں کہ ہم جو مسلمان ممالک ہیں ہر چیز انسانی فلاح و بہبود کے لئے کرنے والے ہیں، غلط کام نہیں کریں گے تو سارے معاملات سلجھ جائیں گے اور سلجھ سکتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ پھر تم بھی ہمیں یہ ضمانت دو گے کہ آئندہ ہمارے معاملات میں تم کبھی دخل نہیں دو گے۔ تعمیری منصوبوں کے لئے اگر ہمیں مدد چاہئے ہو گی تو لے لیں گے، فوجی کارروائیاں ہمارے ملکوں کے خلاف نہیں ہوں گی۔ اگر اس طرح ہو تو معاملے سلجھ سکتے ہیں۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ155)

شوریٰ کے فیصلے عہدیداران کی سستیوں اور مصلحتوں کا شکار نہ ہوں

نمائندگان یہ بھی یاد رکھیں کہ جب مجلس شوریٰ کسی رائے پر پہنچ جاتی ہے اور خلیفۂ وقت سے منظوری حاصل کرنے کے بعد اس فیصلے کو جماعتوں میں عملدر آمد کرنے کے لئے بھجوا دیا جاتا ہے۔ تو یہ نمائندگان کا بھی فرض ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں اور اس پر نظر رکھیں کہ اس فیصلے پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا اور اس طریق کے مطابق ہو رہا ہے جوطریق وضع کرکے خلیفہٴ وقت سے اس کی منظوری حاصل کی گئی تھی۔ یا بعض جماعتوں میں جا کر بعض فیصلے عہدیداران کی سستیوں یا مصلحتوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اگر تو ایسی صورت ہے تو ہر نمائندہ شوریٰ اپنے علاقے میں ذمہ دار ہے کہ اس پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کرے اپنے عہدیداران کو توجہ دلائے، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ان کے معاون کی حیثیت سے کام کرے۔ ایک کافی بڑی تعداد عہدیداران کی نمائندہ شوریٰ بھی ہوتی ہے۔ وہ اگر کسی فیصلے پر عمل ہوتا نہیں دیکھتے تو اپنی عاملہ میں اس معاملے کو پیش کرکے اس پر توجہ دلائیں۔ نمائندگان شوریٰ چاہے وہ انتظامی عہدیدار ہیں یا عہدیدار نہیں ہیں اگر اس سوچ کے ساتھ کئے گئے فیصلوں کی نگرانی نہیں کرتے اور وقتاً فوقتاً مجلس عاملہ میں نتائج کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ نہیں لیتے تو ایسے نمائندگان اپنا حق امانت ادا نہیں کر رہے ہوتے۔ اور اگر یہاں اس دنیا میں یا نظام جماعت کے سامنے، خلیفۂ وقت کے سامنے اگر بہانے بنا کر بچ بھی جائیں گے تو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ ضرور پوچھے جائیں گے جو اپنی امانتوں کا حق ادا نہیں کرتے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ166)

ذمہ داری سے بچنے کے لئے خاموش نہ بیٹھے رہیں

جماعت کی ترقی کی رفتار تیز کرنے کا یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ بعض لوگ اس خوف سے کہ ہم پر ذمہ داری نہ آ پڑے ذمہ داری سے بچنے کے لئے خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں۔ تو اگر اپنا جائزہ لینے کی، اپنا محاسبہ کرنے کی ہرعہدیدار کو ہر نمائندہ شوریٰ کو عادت ہو گی اور یہ خیال ہو گا کہ مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے خلیفہٴ وقت کو مشورہ دینے کے لئے چنا گیا ہے اورپھر تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے مشورہ دینے کے بعد میری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مَیں یہ جائز ہ لیتا رہوں کہ کس حد تک ان فیصلوں پر عمل ہوا ہے یا ہو رہا ہے تو مجھے امید ہے ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت کے کاموںمیں ایک واضح تبدیلی پیدا ہو گی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہ ایک مسلسل عمل ہے کام کرنے کا اور جائزے لیتے رہنے کا۔ تبھی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ اور جماعتوں میں ایک واضح بیداری پیدا ہو گی اور نظر آ رہی ہو گی۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ167)

نمائندگان شوریٰ جائزہ لیں
کہ شوریٰ کے فیصلوں پر عمل ہو

اس دفعہ بھی پاکستان کی شوریٰ میں پیش کرنے کے لئے جماعتوں نے بعض تجویزیں رکھیں اور یہ دوسرے ملکوں میں بھی ہوتا ہے لیکن ان تجویزوں کو انجمن یا ملکی مجلس عاملہ شوریٰ میں پیش کرنے کی سفارش نہیں کرتی کہ یہ تجویز گزشتہ سال یا دو سال پہلے شوریٰ میں پیش ہو چکی ہے اور حسب قواعد تجویز تین سال سے پہلے شوریٰ میں پیش نہیں ہو سکتی۔ تو اس تجویز کے آنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کم از کم اس جماعت میں جس کی طرف سے یہ تجویز آئی ہے وہاں اُس فیصلے پر جو ایک سال یا دو سال پہلے ہوا تھا، شوریٰ نے کیا تھا اور پھر منظوری لی تھی، اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ اور یہ بات واضح طور پر اس جماعت کے عہدیداران اور نمائندگان شوریٰ کی سستی اور نااہلی ثابت کرتی ہے۔ اور یہ واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ خود ہی کسی کام کو کرنے کے بارے میں ایک رائے قائم کرکے اور پھر اس پر آخری فیصلہ خلیفہٴ وقت سے لینے کے بعد اس فیصلے کو جماعت نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ یہ سستی صرف اس لئے ہے کہ جس طرح ان معاملات کا پیچھا کرنا چاہئے، مرکز نے بھی پیچھانہیں کیا، نظارتوں نے بھی پیچھا نہیں کیا یا ملکی سطح پر ملکی عاملہ پیچھا نہیں کرتی۔ ترجیحات اَور اَور رہیں۔ اس طرح مرکزی عہدیداران بھی جب یہ توجہ نہیں دے رہے ہوتے تو وہ بھی اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہے ہوتے۔ اس کے لئے مرکزی عہدیداران کو بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور مقامی جماعت کے عہدیداران اور نمائندگان شوریٰ کو بھی اپنا محاسبہ کرنا ہو گا اور جائزہ لینا ہو گا اور وجوہات تلاش کرنی ہوں گی کہ کیوں سال دو سال پہلے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ ملکی انتظامیہ کی طرف سے یا انجمنوں کی طرف سے اس بنا پر کہ تھوڑا عرصہ پہلے کوئی تجویز پیش ہو چکی ہے، پیش نہ کئے جانے کی سفارش آتی ہے۔ ٹھیک ہے شوریٰ میں پیش تو نہ ہو لیکن اپنے جائزے اور محاسبہ کے لئے کچھ وقت ان تجاویز کی جگالی کے لئے ضروری ہے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ167-168)

شوریٰ میں کسی کی ذات پر تبصرے نہ ہوں

یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ عملدرآمد نہیں ہوا۔ اگر تو 70-80 فیصد جماعتوں میں عمل ہو رہا ہے اور 20-30 فیصد جماعتوں میں نہیں ہو رہا تو پھر تو جائزے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر 70-80 فیصد جماعتوں میں گزشتہ فیصلوں پر عمل نہیںہو رہا ہے تو لمحہ فکریہ ہے۔ اس طرح تو اعلیٰ مقاصد حاصل نہیں کئے جاتے۔ تو مَیں سمجھتا ہوں کہ شوریٰ میں اس کے لئے بھی مخصوص وقت ہونا چاہئے تاکہ دیکھا جائے اپنا جائزہ لیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کج بحثی ناپسندیدہ فعل ہے لیکن بحث سے بچنے کے لئے،اپنے جائزے لینے کے لئے،آنکھیں بند کر لینا بھی اس سے زیادہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ اس جائزہ میں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جن جماعتوں نے خاص کوشش کی ہے زیادہ اچھا کام کیا ہے ان کا طریقہ کار کیا تھا۔انہوں نے کس طرح اس پر عملدرآمد کروایا۔ اس طرح پھر جب ڈسکشن (Discussion) ہو گی تو پھر دوسری جماعتوں کو بھی اپنی کارکردگی بہتر کرنے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے اس کارروائی یا بحث میں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی ذات پر تبصرے شروع ہو جاتے ہیں۔ کسی کی ذات پر تبصرہ نہیں کرنا بلکہ صرف شعبے کا جائزہ ہو۔ اس فیصلے پر جس پر پوری طرح عمل نہیں ہو رہا، اس کا جائزہ لیا جائے کہ کہاں کمیاں ہیں اور کیوں کمیاں ہیں۔ بہرحال ہمیں کوئی ایسا طریق وضع کرنا ہو گا جس سے قدم آگے بڑھنے والے ہوں۔ یہ نہیں ہے کہ ایک فیصلہ کیا اور تین سال اس پر عمل نہ کیا یا اتنا کم عمل کیا کہ نہ ہونے کے برابر ہو، اکثر جماعتوں نے سستی دکھائی اور پھر تین سال کے بعد وہی معاملہ دوبارہ اس میں پیش کر دیا کہ شوریٰ اس کے لئے لائحہ عمل تجویز کرے۔ تو یہ تو ایک قدم آگے بڑھانے اور تین قدم پیچھے چلنے والی بات ہو گی۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ168)

جو دل عبادتوں سے خالی ہیں ان کے مشورے بھی تقویٰ کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے

اس لئے نمائندگان اور عہدیداران کواس لحاظ سے بھی اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ وہ کس حد تک اپنی عبادتوں کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ مَیں بتا آیا ہوں کہ عبادت ایک بنیادی چیز ہے جس کو نمائندگی دیتے ہوئے مدنظر رکھنا چاہئے اور ایک عام مسلمان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ عبادت گزار ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین ہی نہیں ہے۔

(الترغیب و الترھیب جلد نمبر اول حدیث نمبر 820 الترھیب من ترک الصلوۃ تعمدا و اخراجھا…طبع اول 1994 دار الحدیث قاہرہ)

تو ایک عام احمدی کے لئے جب نمازوں کی ادائیگی فرض ہے تو عہدیدار جو ہر لحاظ سے افراد جماعت کے لئے نمونہ ہونا چاہئیں ان کے لئے تو خا ص طور پر اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی کوئی نماز بغیر جماعت کے نہ ہو سوائے کسی اشد مجبوری کے۔

پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ جو دو تین دن شوریٰ کے لئے آتے ہیں اور آئے ہیں، ان میں صرف یہی نہیں کہ ان دنوں میں ہی یہیں نمازیں پڑھنی ہیں اور دعائوں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ ہر نمائندے کو، ہر عہدیدار کو،باقاعدہ نماز باجماعت کا عادی ہونا چاہئے۔ خود اپنے جائزے لیں، اپنا محاسبہ کریں، دین کی سر بلندی کی خاطر آپ کے سپرد بعض ذمہ داریاں کی گئی ہیں۔ اگران میں دین کے بنیادی ستون کی طرف ہی توجہ نہیں ہے تو خدمت کیا کریں گے اور مشورے کیا دیں گے۔ جو دل عبادتوں سے خالی ہیں ان کے مشورے بھی تقویٰ کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ168-169)

جو لوگ اپنی آمد غلط بتاتے ہیں
وہ غلط بیانی کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہوتے ہیں

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا جائزہ لیتے ہوئے گھر کا نصف مال پیش کر دیا اور اسی طرح باقی صحابہ ؓ نے اپنی استعدادوں کے مطابق قربانیاں کیں اور کرتے چلے گئے۔ تو ہمیں اس ارشاد کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ: 287) کو اپنے بہانوں کے لئے ستعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے، خود اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے کہ مالی قربانی کی میرے اندر کس حد تک صلاحیت ہے،کتنی گنجائش ہے۔ کم آمدنی والے لوگ عموماً زیادہ قربانی کرکے چندے دے رہے ہوتے ہیں بہ نسبت زیادہ آمدنی والے لوگوں کے۔ زیادہ پیسے کو دیکھ کر بعض دفعہ بعض کا دل کھلنے کی بجائے تنگ ہو جاتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ موصی بھی بہت کم آمدنی پر چندے دیتے ہیں اور ایسے راستے تلاش کر رہے ہوتے ہیں جن سے ان کی آمدنی کم سے کم ظاہر ہو۔ حالانکہ چندہ تو خداتعالیٰ کی خاطر دینا ہے۔ ایسے لوگوں کا پھر پتہ تو چل جاتا ہے، پھر وصیت پر زد بھی آتی ہے۔ پھر معذرتیں کرتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں۔ تو چاہے موصی ہو یا غیر موصی جب بھی مالی کشائش پیدا ہو اس مالی کشائش کو انہیں قربانی میں بڑھانا چاہئے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری استعدادوں کو، کشائش کو اس لئے بڑھایا ہے کہ آزمائے جائیں۔ یہ دیکھا جائے کہ بیعت کے دعویٰ میں کس حد تک سچے ہیں۔ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ: 287) کے ارشادکے بعد اس ارشاد کو بھی مدّنظر رکھنا چاہئے کہ لَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ (البقرہ: 287) یعنی نیک کام کاثواب بھی ملے گا اور اگر ٹال مٹول کر رہے ہو گے تو نقصان بھی ہو گا۔ بہرحال اگر دل میں ذرا سا بھی ایمان ہو تو ایسے لوگ جن کی غلطیوں کی وجہ سے ان سے چند ہ نہیں لیا جاتا جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ان کی وصیت پہ زد پڑتی ہے یا دوسرے لوگوں کے چندوں پہ۔ تو کیونکہ احمدی ہیں، دل میں نیکی ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے، پھر ان کے دل بے چین ہو جاتے ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا پھر معافیاں مانگتے ہیں اور ان کے لئے بات بڑی سخت تکلیف دہ بن رہی ہوتی ہے۔ تو جب نظام جماعت نے یہ اجازت دی ہو ئی ہے کہ بعض آدمی مجبوریوں کی وجہ سے شرح کے مطابق چندہ نہیں دے سکتے تو رعایت لے لیں تو سچائی کا تقاضا یہ ہے کہ رعایتی شر ح کی منظوری حاصل کر لی جائے، بجائے اس کے کہ غلط بیانی سے کام لیا جائے۔ اور مَیں اس بارے میں کئی دفعہ کہہ بھی چکا ہوں کہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی سوال جواب کے رعایت شرح مل جائے گی۔ تو ایک تو جو لوگ اپنی آمد غلط بتاتے ہیں وہ غلط بیانی کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے اس غلط بیانی کی وجہ سے اپنے پیسے میں بھی بے برکتی پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس خدا نے اپنے فضل سے حالات بہتر کئے ہیں وہ ہر وقت یہ طاقت رکھتا ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی مشکل میں گرفتار کر دے۔ پس خداتعالیٰ سے ہمیشہ معاملہ صاف رکھنا چاہئے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ175۔176)

صد فی صد جماعتی عہدیداران
نظام وصیت میں شامل ہوں

سب سے پہلے عہدیداران اپنا جائزہ لیں اور امیرصاحب بھی اس بات کا جائزہ لیں کہ 100فیصد جماعتی عہدیداران اس نظام میں شامل ہوں، چاہے وہ مرکزی عہدیداران ہوں یا مرکزی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں یا مقامی جماعتوں کے عہدیداران ہوں یا مقامی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں۔گو کہ اللہ کے فضل سے مجھے بتایا گیا کہ یہاں موصیان کی تعداد کافی اچھی ہے لیکن حضرت صوفی صاحب کے حالات پڑھ کر جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ یہاں کا ہر احمدی موصی ہو اور تقویٰ پرقدم مارنے والا ہو۔ یہ ایسا بابرکت نظام ہے جو دلوں کو پاک کرنے والا نظام ہے۔ اس میں شامل ہوکے انسان اپنے اندر تبدیلیاں محسوس کرتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ195)

شکوے رکھنے والے
بے چینی پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں

عورتوں کیلئے دینی تربیت کا، تعلیم کا انتظام لجنہ کرے۔ مردوں کے لئے ذیلی تنظیمیں انتظام کریں، مجموعی طور پر جماعت جائزہ لے۔ اگر اس سلسلے میں ذیلی تنظیمیں پوری طرح فعال نہیں تو جماعتی نظام کے تحت انتظام ہو اور نگرانی ہو۔ اور جو ذیلی تنظیمیں سست ہیں ان کے بارے میں مجھے اطلاع بھی دیں۔ تو جب اس طرح کام کریں گے تبھی ہر احمدی کو جماعت کا فعال حصہ بنائیں گے۔جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں بعض فجیئن احمدیوں کو بھی شکوہ ہے کہ بعض دفعہ یہاں آ کر وہ اپنے آپ کو اوپرا محسوس کرتے ہیں۔ توان سے مَیں کہتا ہوں اس کا ایک یہ بھی علاج ہے۔ وہ احمدی ہوئے ہیں انہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے اور سمجھا ہے وہ اپنے آپ کو اتنا زیادہ جماعتی کاموںمیں لگائیں کہ انتظامیہ ان سے کام لینے پر مجبور ہو۔ تبلیغ کا بہت بڑا میدان خالی پڑا ہے۔ ہر احمدی کے لئے کھلا ہے۔ اس میں آگے بڑھیں ذاتی رابطے کرکے اَور طریقے اپنا کر تبلیغ کا کام کریں۔ اس کام کو زیادہ سے زیادہ وسعت دیں۔ مردوں میں تو مَیں نے دیکھا ہے اللہ کے فضل سے نوجوانوں میں دوسری قوموں کے بھی کافی لڑکے کام کرنے والے ہیں۔ بعض عورتوں اور بڑی عمر کے لوگوں کو اور عورتوں کو خاص طور پر چاہئے اپنی استعدادوں کے مطابق اور اپنے دائرے کے مطابق تبلیغ کے میدان میں آگے آئیں۔ بہرحال انصاراللہ کی تنظیم اور لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم ان سب کو جائزے لینے چاہئیں کہ کیوں یہ شکوے پیدا ہوتے ہیں۔ چاہے وہ دو چار کی طرف سے ہی ہوں۔ لیکن شکوے رکھنے والے بے چینی پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ انصاراللہ کے صدر بھی شاید فجی کے رہنے والے ہیں۔ وہ آسانی سے اپنے لوگوں کی نفسیات دیکھ کر پروگرام بنا سکتے ہیں۔ لجنہ کو بھی جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ غیر پاکستانی احمدیوں کی یا ایسے نوجوان پاکستانیوں کی جو لمبے عرصہ سے ملک سے باہر ہیں اور ان کا معاشرہ بالکل بدل چکا ہے ان کی فہرست بنائیں اور پھر دیکھیں کہ ان کو کس طرح جماعت کا فعال حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ اپنی کوشش کریں تاکہ ان کے شکوے دور ہو جائیں۔ بہرحال اس کیلئے جس طرح میں پہلے کہہ چکا ہوں دونوں طرف سے دلوں کو کھولنے اور بلند حوصلے دکھانے کی ضرورت ہے۔ ہر طبقے کو اپنے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے جس کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا۔ ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت کا ایک نظام ہے اور یہ خلیفہٴ وقت کے ماتحت ہے اسلئے نظام کی اطاعت بھی فرض ہے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ207)

حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا سب سے بڑا مقصد
خدا کی پہچان کروانا ہے

سب سے بڑا مقصد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا کہ خدا کی پہچان کروائیں اور جب بندے کو خدا کی پہچان ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے۔ پس آپ نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لیا آپ کی بیعت میں شامل ہو گئے تو اپنا جائزہ لیں، ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ جومقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے آنے کا بیان فرمایا ہے اور سب سے بڑا مقصد یہی بیان فرمایا ہے، اور بھی مقاصد ہیں لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا سب سے بڑا مقصد ہے پھر بندوں کے حقوق ادا کرنا ہے اور یہ سارے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ تو جیسا کہ مَیں کہہ رہا تھا اس مقصد کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اور جب ہم اس مقصد کو سامنے رکھیں گے تو ہمیں خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے اور عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اگر ہمیں اللہ کے حضور جھکنے اور اس کی پہچان کرنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی تو ہمارا یہ صرف نام کی بیعت کر لینا بے فائدہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو شرائط بیعت ہیں جن کو پڑھنے کے بعد ہر آدمی اپنے آپ کو جماعت احمدیہ میں شامل کرتا ہے۔ اگر آپ ان کو پڑھیں تو پتہ لگتا ہے کہ آپؑ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں کیا بنانا چاہتے ہیں۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ211)

تبلیغ کا مختلف جگہوں پر جائزہ لیں

یہاں سے فجی والے بھی سن رہے ہیں، اتفاق سے وقت بھی ایک ہے۔ تو جو فجی میں رہتے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنی تبلیغ کی کوششوں کو تیز کریں اور اپنے عملی نمونے دکھائیں اپنے اندر اسلام کی صحیح روح پیدا کریں۔ آپ لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں آپ بھی اس کوشش میں رہیں۔ اس پیغام کو آگے پہنچائیں۔ اپنے عملی نمونے بھی دکھائیں۔ یہاں تبلیغ کے لئے مختلف جگہوں پر جاکر جائزہ لیں، چھوٹی چھوٹی جگہوں پر جائیں۔ گزشتہ سالوں میں دو تین دفعہ مَیں اس طرف توجہ دلا چکاہوں کہ چھوٹی جگہوں پر پیغام پہنچانے اور قبولیت کے امکانات عموماً زیادہ ہوتے ہیں، خاص طور پر تیسری دنیا میں۔ اُن کی مخالفت اگر ہوتی ہے تو لاعلمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دنیاداری کی وجہ سے عموماً نہیں ہوتی۔ پھر مختلف قوموں کے لوگ ہیں، فجی میں بھی اور یہاں بھی ہیں۔ آسٹریلیا میں بھی ہیں۔ یہ جوسارا علاقہ ہے ان تک پہنچیں۔اُن کی زبان میں اُن کو لٹریچر دیں، ان سے مسلسل رابطے رکھیں۔ تعلقات بڑھائیں۔ پھر آپ کے اپنے اندر جو آپ کی اپنی طبیعتیں ہیں، رویے ہیں اگران میں بھی پاک تبدیلیاں ہوں گی تو آپ لوگ ان کو دوسروں سے مختلف نظر آئیں گے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا، جب یہ چیزیں ان کو نظر آ رہی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی آپ کی زبانوں پر ہو گا تو یہ جو مسلسل رابطے اور تعلق ہیں وہ دوسروں کو آپ کے قریب لائیں گے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ 226)

غیروں میں شادیاں کرنے سے
نسلیں برباد ہو جاتی ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے، جائزہ لیں تو یہ 100فیصد حقیقت نظر آئے گی کہ ان ملکوں میں بعض خاندان اس لئے بھی ابتلا میں پڑ گئے کہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ غیروں میں شادیاں کرنے سے نسلیں برباد ہو جاتی ہیں اور دین سے دور چلی جاتی ہیں۔ کئی ایسے دور ہٹے ہوئے ہیں جن کو اب ہٹنے کا احساس ہو رہا ہے۔ یہاں جو خاندان آئے ہیں ان کے حالات اپنے پہلے ملک کی نسبت بہرحال بہتر ہیں۔ یہ بہتری آپ کو دین سے دُور لے جانے والی اور اپنی قدروں اور اپنی تعلیم اور اپنی روایات کو بھلا نے والی نہیں ہونی چاہئے۔ بعض دفعہ وہ جو غلطی کرتے ہیں پھر نظام جماعت کی طرف سے بعض دفعہ کوئی سختی ہو تو پھر نظام کو الزام دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو گئی یا جماعت سے نکال دیا گیا یا ہماری بدنامی کی گئی۔ اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو گا اور دین کا علم ہو گا تو یہ صورتحال کبھی پیدا نہیں ہو گی۔ پس خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کا بھی جماعت سے اور خلافت سے تعلق جوڑے رکھیں۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ228)

نیکی کے احکامات کی جگالی کرتے رہنا چاہئے

اس مقصد کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تاکہ روحانیت میں ترقی کی طرف ہمیں لے کر چلیں اور ایک احمدی نے آپؑ سے عہد بیعت باندھا ہے۔ اگر اس عہد بیعت کے بعد بھی برائیوں میں مبتلا رہے اور معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا کرتے رہے تو پھر اس عہد بیعت کا کیا فائدہ ہے۔ پس ہر ایک کو پہلے اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے، نیکی کے جو احکامات ہیں انکی جگالی کرتے رہنا چاہئے اور جب اپنے آپ کو ہر طرح سے پاک و صاف پائیں تو پھر دوسرے پر الزام لگانا چاہئے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ258)

محمود و ایاز کا قصہ

ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بادشاہ محمود غزنوی کا ایک خاص جرنیل تھا۔ بڑا قریبی آدمی تھا۔ اس کا نام ایاز تھا۔ انتہائی و فادار تھا اور اپنی اوقات بھی یاد رکھنے والا تھا۔ اس کو پتہ تھا کہ مَیں کہاں سے اٹھ کر کہاں پہنچا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کرنے والا تھا اور بادشاہ کے احسانوں کو بھی یاد رکھنے والا تھا۔ ایک دفعہ ایک معرکے سے واپسی پر جب بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ جا رہا تھا تو اس نے ایک جگہ پڑائو کے بعد دیکھا کہ ایاز اپنے دستے کے ساتھ غائب ہے۔ تو اس نے باقی جرنیلوں سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے تو ارد گرد کے جود وسرے لوگ خوشامد پسند تھے اور ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اس کوبادشاہ کی نظروں سے گرایا جائے اور ایاز کے عیب تلاش کرتے رہتے تھے تو انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا کہ بادشاہ کو اس سے بدظن کریں۔ اپنی بدظنی کے گناہ میں بادشاہ کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے فوراً ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں جس سے بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا ہو۔ بادشاہ کو بہرحال اپنے وفادار خادم کا پتہ تھا۔ بدظن نہیں ہوا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے تھوڑی دیر دیکھتے ہیں۔ آ جائے گا تو پھر پوچھ لیں گے کہ کہاں گیا تھا۔ اتنے میں دیکھا تو وہ کمانڈر اپنے دستے کے ساتھ واپس آ رہا ہے اور اس کے ساتھ ایک قیدی بھی ہے۔ تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ مَیں نے دیکھا کہ آپ کی نظر بار بار سامنے والے پہاڑ کی طرف اٹھ رہی تھی تو مجھے خیال آیا ضرور کوئی بات ہو گی مجھے چیک کر لینا چاہئے، جائزہ لینا چاہئے، تو جب مَیں گیا تو مَیں نے دیکھا کہ یہ شخص جس کو میں قیدی بنا کر لایا ہوں ایک پتھر کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں تیرکمان تھی تاکہ جب بادشاہ کا وہاں سے گزر ہو تو وہ تیر کا وار آپ پر چلائے۔ تو جو سب باقی سردار وہاں بیٹھے تھے جو بدظنیاں کر رہے تھے اور بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ سب اس بات پر شرمندہ ہوئے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ264)

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیاروں کی ہمیشہ مدد فرمائی ہے

ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کی وجہ سے ہم میں وہ کیفیت پیدا ہو گئی ہے؟ جب ہر لمحہ اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کی ہم پر بارش ہوتی ہے یا ہو رہی ہے۔ ایسی مدد جو ہماری زندگیوںمیں وہ نموپیدا کرنے والی ہو جس سے ہر طرف آنکھوں کو روشن کرنے والا اور دل کو لبھانے والا سبزہ نظر آتا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو ایمان لانے والوں سے اس سلوک کا اظہار فرمایا ہے کہ اس دنیا میں بھی اُن کا مدد گار ہو گا اور اگلے جہان میں بھی، جبکہ ہر چیز کی گواہی ہو گی حتیٰ کہ اپنے اعضاء کی بھی گواہی ہو گی اور وہاں پھر کوئی غلط بیان نہیں دیا جا سکتا۔ جو بھی گواہی ہو گی وہ حقیقت بیان کرنے والی ہو گی اور جواللہ تعالیٰ کے احکامات پر صحیح عمل کرنے والے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمانے کا وعدہ کیا ہے اس وقت جو ایسے لوگ ہوں گے ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق نصرت فرماتے ہوئے بخشش کا سلوک فرمائے گا اور اپنی بخشش کی چادر میں لپیٹ لے گا۔ من حیث الجماعت تو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء سے، اپنے پیاروں سے وعدے کے مطابق ہمیشہ مدد فرمائی ہے اور فرماتا ہے لیکن انفرادی طور پر بھی اپنی حالتوں کو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالتے ہوئے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کی نصرت کو جذب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس وعدے اور اس خوشخبری سے فائدہ اٹھانا چاہئے کہ مَیں کامل ایمان والوں کی دنیا و آخرت میں مدد کروں گا۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ270)

اپنی اناؤں کو ذبح کرو

جیسا کہ مَیں نے کہا سب سے پہلے اس کے لئے عہدیدار یا کوئی بھی شخص جس کے سپرد کوئی بھی خدمت کی گئی ہے اپنا جائزہ لے اور اطاعت کے نمونے قائم کرے کیونکہ جب تک کام کرنے والوں میں اطاعت کے اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی روح پیدا نہیں ہوگی، افراد جماعت میں وہ روح پیدا نہیں ہو سکتی۔ پس ہر لیول پر جو عہدیدار ہیں چاہے وہ مقامی عاملہ کے ممبر یا صدر جماعت ہیں، ریجنل امیر ہیں یا مرکزی عاملہ کے ممبر یا امیر جماعت ہیں اپنی سوچ کو اس سطح پر لائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمائی ہے کہ اپنی، اپنے نفس کی خواہشات کو، اناؤں کو ذبح کرو۔ اور جب یہ مقام حاصل ہوگا تو پھر دل اللہ تعالیٰ کے نور سے بھرجائے گا اور روح کو حقیقی خوشی اور لذت حاصل ہوگی ایسا مومن جو کام بھی کرے گا وہ یہ سوچ کرکرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کررہا ہے اور یہی ایک مومن کا مقصد ہونا چاہئے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ286)

افسران اپنا اور کارکنان کا تربیتی لحاظ سے جائزہ لیں

پس ان دنوں میں جہاں آنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی دعائوں میں وقت گزاریں وہاں کارکنان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اپنے اس خدا کو کبھی نہ بھولیں جو ہمیشہ ہماری مدد فرماتا رہا ہے۔ افسران صیغہ جات بھی یاد رکھیں کہ وہ اس افسری کے ذریعہ سے قوم کی خدمت پر مامور کئے گئے ہیں۔ جہاں انہوں نے اپنے کام کا جائزہ لینا ہے وہاں تربیتی لحاظ سے اپنے کارکنان کا بھی جائزہ لیتے رہنا ہے اور ہر وقت یہ کوشش کرنی ہے کہ مہمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے والے ہوں اور دعائوں پر زور دیتے ہوئے اپنے کام انجام دینے والے ہوں۔اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ371)

برائیوں کے دور کرنے کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے

اپنی برائیوں کے دور کرنے کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ اور برائیوں کو دور کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہو اور دعا بھی ہو رہی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے خالص توبہ کرنے والوں کی دعا کو بھی سنتا ہے اور ان کی برائیاں دور کرتے ہوئے جیسا کہ اس نے فرمایا انہیں جنتوں میں داخل کرتا ہے اور انہیں ایسا نور دیتاہے جو ان کے دائیں بھی چلتا ہے اور ان کے آگے بھی چلتا ہے۔ پس خوش قسمت ہوں گے ہم اگر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے سے فائدہ اٹھائیں۔ خوش قسمتی سے ہمیں رمضان میں سے گزرنے کا موقع مل رہا ہے اس رمضان کے مہینے میں روزوں سے گزرنے کا موقع مل رہا ہے، جب مغفرت کے دروازے مکمل طور پر کھول دئیے جاتے ہیں، بخشش کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ خالص ہو کر اللہ تعا لیٰ کے حضور جھکیں اور اپنی برائیوں پر نظر کرتے ہوئے انہیں چھوڑنے کی کوشش کریں۔ سچی توبہ کریں کہ آئندہ بھی ان برائیوں میں نہیں پڑیں گے۔ اگر ہر ایک اپنا جائزہ لے تو خود ہی ہر ایک کے سامنے آجا ئے گا کہ کون کون کن کن برائیوں میں مبتلا ہے اور کون کون سی برائیاں چھوڑی ہیں اور چھوڑنی ہیں تو پھریقیناً اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جنت کے نظارے دیکھیں گے۔ سچی توبہ کے بعد پھر قدم پہلے سے آگے بڑھیں گے۔ مزید نیکیوں کی توفیق ملے گی اور یہی نیکیاں اگلے جہان میں بھی کام آنے والی ہیں اور وہاں بھی درجے بڑھتے چلے جائیں گے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ510)

جمعۃ الوداع کی اہمیت کا تصور

میں نہایت افسوس سے اس بات کا ذکر کروں گا کہ امام الزمان کی بیعت میں آنے کے باوجود اور باوجود اس کے کہ خلفاء احمدیت اس تصور کو ذہنوں سے نکالنے کے لئے بار ہا اس طرف توجہ دلا چکے ہیں بعض احمدی بھی معاشرے کی اس برائی اور بدعت کا شکار ہو کر جمعہ کی اہمیت کو بھلا کر جمعۃ الوداع کا تصور ذہنوں میں بٹھائے ہوئے ہیں۔ اور ایسے لوگ چاہے زبان سے اس بات کا اقرار کریں یا نہ کریں اپنے حال سے، اپنے عمل سے یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ عموماً سارا سال مساجد میں جمعوں پر جو حاضری ہوتی ہے، رمضان کے دنوں میں خاص قسم کا ماحول بننے کی وجہ سے جمعوں میں حاضری اس سے بہت بہتر ہو جاتی ہے۔ لیکن رمضان کے آخری جمعہ میں یہ حاضری رمضان کے باقی جمعوں کی نسبت بہت آگے بڑھ جاتی ہے جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ آج توجہ زیادہ ہے۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مرکز میں یا جہاں خلیفۂ وقت نماز جمعہ پڑھا رہے ہوں وہاں اس جمعے میں شامل ہونے کی لوگ زیادہ کوشش کرتے ہیں جو ٹھیک ہے لیکن اگر جماعتیں جائزہ لیں تو ہر مسجد میںرمضان کے آخری جمعہ کی حاضری پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ پس یہ عمل ظاہر کر رہا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہو جائو، جمعہ پڑھ لو اور گناہ بخشوا لو۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان میں پہلے سے بڑھ کر بندے کے ساتھ بخشش کا سلوک فرماتا ہے۔ لیکن بندے کو بھی اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کی وجہ سے حتی الوسع اس تعلیم پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر جمعہ کے دن کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن جمعۃ الوداع کی کسی اہمیت کا تصور نہیں ملتا۔ بلکہ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اس آخری جمعہ میں جو رمضان کا آخری جمعہ ہے، یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اس جمعہ سے اس طرح گذریں اور نکلیں کہ رمضان کے بعد آنے والے جمعہ کی تیاری اور استقبال کر رہے ہوں اور پھر ہرآنے والا جو جمعہ ہے وہ ہرنئے آنے والے جمعہ کی تیاری کرواتے ہوئے ہمیں روحانیت میں ترقی کے نئے راستے دکھانے والا بنتا چلا جائے اور یوں ہمارے اندر روحا نی روشنی کے چراغ سے چراغ جلتے چلے جائیں اور یہ سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو اور ہرآنے والا رمضان ہمیں روحانیت کے نئے راستے دکھاتے چلے جانے والا رمضان ہو، نئی منازل کی طرف راہنمائی کرنے والا رمضان ہو جس کا اثر ہم ہر لمحہ اپنی زندگیوں پر بھی دیکھیں اور اپنے بیوی بچوں پر بھی دیکھیں اور اپنے ماحول پر بھی دیکھیں۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ528)

شعبہ تربیت کو ہر جگہ، ہر لیول پر
فعال ہونے کی ضرورت ہے

ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے، اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم قرآنی تعلیم سے ہٹے ہوئے تو نہیں ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے لاشعوری طور پر دور تو نہیں چلے گئے؟ اپنی اَنائوں کے جال میں تو نہیں پھنسے ہوئے؟ اس بات کا جائزہ لڑکے کو بھی لینا ہو گا اور لڑکی کو بھی لینا ہو گا، مرد کوبھی لینا ہو گا، عورت کو بھی لینا ہو گا، دونوں کے سسرال والوں کو بھی لینا ہو گا کیونکہ شکایت کبھی لڑکے کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکی کی طرف سے آتی ہے،کبھی لڑکے والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، کبھی لڑکی والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکثر زیادتی لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہاں میں نے گزشتہ دنوں امیر صاحب کو کہا کہ جو اتنے زیادہ معاملات آپس کی ناچاقیوں کے آنے لگ گئے ہیں اس بارے میں جائزہ لیں کہ لڑکے کس حد تک قصور وار ہیں، لڑکیاں کس حد تک قصور وار ہیں اور دونوں طرف کے والدین کس حد تک مسائل کو الجھانے کے ذمہ دار ہیں۔ تو جائزے کے مطابق اگر ایک معاملے میں لڑکی کا قصور ہے تو تقریباً تین معاملات میں لڑکا قصور وار ہے، یعنی زیادہ مسائل لڑکوں کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور تقریباً 30-40 فیصد معاملات کو دونوں طرف کے سسرال بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں بھی لڑکی کے ماں باپ کم ذمہ دار ہوتے ہیں اور لڑکے کے ماں باپ اپنی ملکیت کا حق جتانے کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس سے پھر لڑکیاں ناراض ہو کر گھر چلی جاتی ہیں۔ یہ بھی غلط طریقہ ہے، لڑکے کا کام ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرے لیکن بیویوں کو بھی ان کا حق دے۔ جب ایسی صورت ہو گی تو پھر بیویاں عموماً خاوند کے ماں باپ کی بہت خدمت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسی بھی بہت ساری مثالیں ہیں کہ ساس سسر کو اپنے بچوں سے زیادہ اپنی بہوؤں پر اعتماد ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ خدانخواستہ جماعت میں نیکی اور اخلا ق رہے ہی نہیں، بالکل ختم ہی ہو گئے ہیں، اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیکی پر قائم ہے۔ مگر جو مثالیں سامنے آتی ہیں وہ پریشان کرتی ہیں کہ یہ اتنی بھی کیوں ہیں؟ جو جائزہ میں نے یہاں لیا ہے اگر کینیڈا میں، امریکہ میں یا یورپ کی جماعتوں میں لیا جائے تو وہاں بھی عموماً یہی تصویر سامنے آئے گی۔ پس شعبہ تربیت کو ہر جگہ، ہر لیول (Level) پر جماعتی اور ذیلی تنظیموں میں فعال ہونے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ567)

واقف نو کا وقف
والدین کے اخراج سے ختم ہوجاتا ہے

وقف نو کے حوالے سے یہاں ضمناً مَیں یہ بھی ذکر کر دوں کہ اگر ان کا بچہ واقف نو ہو تو والدین کے اخراج کی صورت میں اس کا بھی وقف ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے جماعتیں ایسی صورت میں جہاں جہاں بھی ایسا ہے خود جائزہ لیا کریں۔ پاکستان میں تو وکالت وقف نو اس بات کا ریکارڈ رکھتی ہے لیکن باقی ملکوں میں بھی امیر جماعت اور سیکرٹریان وقف نو کا کام ہے کہ اس چیز کا خیال رکھیں۔ اور پھر معافی کی صورت میں ہر بچے کا انفرادی معاملہ خلیفہ ٔ وقت کے سامنے علیحدہ پیش ہوتا ہے کہ آیا اس کا دوبارہ وقف بحال کرنا ہے کہ نہیں؟ اس لئے ریکارڈ رکھنا بھی ضروری ہے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ574)

سچائی کے خلاف کوئی کلمہ نہ ہو

سچائی کا بنیادی سبب ہمیشہ ہر ایک کو پیش نظر رہنا چاہئے تاکہ زندگی میں بھی اور بعد میں بھی سچوں میں ہی ذکر ہو اور ان کا سچوں میں ہی شمار ہو۔ پس اس پہلو سے بھی ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو،کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جو سچائی کے خلاف ہو۔ اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے تاکہ اپنے ربّ کے احسانوں کا شکر ادا کر سکے اور اس کے انعاموں کا وارث بن سکے۔ ملازمت کرنے والا ہے یا کوئی بھی کام کرنے والا ہے تو محنت اور ایمانداری سے کام کرے، لوگوں سے معاملات ہیں تو ان کے حقوق کا خیال رکھے۔ جماعتی ذمہ داریاں ہیں، چاہے اعزازی خدمت کی صورت میں ہے یا وقف زندگی کارکن کی صورت میں ہے ان میں کبھی کسی قسم کی سُستی یا سچائی سے ہٹی ہوئی بات سامنے نہ لائے۔ ہر ایک شام کو اپنا جائزہ لے تاکہ پتہ لگے کہ کس حد تک صدق پر قائم ہے، ضمیر گواہی دے کہ ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا اور راتیں بھی اس بات کی گواہی دیں کہ تقویٰ سے رات بسر کی۔ اگر دن اور رات میں ہماری سچائی اور تقویٰ کے معیار رہے تو کامیابی ہے لیکن اگر معیار گر رہے ہیں تو اس دعا کے حوالے سے کہ ہم نے آنے والے منادی کو سنا، منادی کو مانا یہ بات غلط ہو جائے گی، یہ جھوٹ ہے، اپنے نفس سے بھی دھوکہ ہے اور خدا تعالیٰ جو ہمارا ربّ ہے اس سے بھی دھوکہ ہے۔ پس رَبَّنَا کی صدا تب قبولیت کا درجہ رکھتی ہے جب سچے دل کے ساتھ تمام احکامات اور عہد بیعت پر قائم رہنے کی کوشش ہو۔ انسان کمزور ہے، غلطیاں کرتا ہے لیکن ان کو دُور کرنے کی کوشش کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا (شاید گزشتہ خطبے میں یااس سے پہلے) کہ ہمارا ربّ اتنا مہربان ہے کہ اُس نے ہمیں بخشنے کے لئے ہمیں استغفار کے طریقے بھی سکھائے ہیں تاکہ ہم خالص ہو کر اس کے حضور جھکیں۔ اور اس کے حضور خالص ہو کر کی گئی استغفار کو اللہ تعالیٰ قبولیت کا درجہ دیتا ہے اور اسے قبول فرماتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ602)

(نیاز احمد نائک۔ استاد جامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2022