• 5 مئی, 2024

جماعت احمدیہ کا نظام خلافت (قسط 1)

جماعت احمدیہ کا نظام خلافت
قسط 1
(دس اقساط پر مشتمل ایک نئے سلسلہ کا آغاز)

خلافت کے لغوی معنی

یہ عربی کا لفظ ہے اور قواعد صرف کی رُو سے یہ مصدر کا صیغہ ہے۔ اس کا مادہ ’’خلف‘‘ (خ۔ل۔ف) ہے جس کے لغوی معنی جانشینی، قائمقامی، نیابت، امارت اور امامت کے ہیں۔ ان تمام معانی کی تائیدات لغت عرب سے ہوتی ہے۔

1. مِنْ قَوْلِکَ خَلَفَ فُلانٌ فُلَانَاً فِیْ ھٰذَا الاَمرِ اِنْ قَامَ مَقَامَہُ فِیہِ ھٰذِہِ۔ یعنی اگر ایک شخص دوسرے شخص کے بعد اس کا نائب و قائمقام ہوا تو یہ خلافت ہے۔

(ابن فارس زیر لفظ خلف)

2. المنجد میں اَلخِلَافَۃُ کے معنی اَلاِمَارَۃُ (امارت)، النِّیَابَۃُ عَنِ الغَیرِ (قائمقامی)، الاِمَامَۃُ یعنی امامت لکھے ہیں۔

(المنجد زیر لفظ خلف)

3. لسان العرب میں اَلْخِلَافَۃُ کے معنی ’’اَلاِمَارَۃُ‘‘ یعنی امارت لکھے ہیں۔

(لسان العرب زیر لفظ خلف)

4. مفردات القرآن میں لکھا ہے۔ اَلخِلَافَۃُ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یامحض نائب کو شرف بخشنے کی غرض سے وہ اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی۔

5. اقرب الموارد میں ’’اَلخِلَافَۃُ‘‘ کے درج ذیل معنی بیان کئے گئے ہیں:

1: اَلاِمَارَۃُ (حکومت)

2: النِّیَابَۃُ عَنِ الغَیرِ اِمَّا لِغَیبِہِ المَنُوبِ عَنہُ اَوْ لِمَوتِہِ اَوْ لِعِجزِہٖ اَوْ لِتَشرِیفِ المُستَخلَفِ۔ یعنی دوسرے کی نیابت کرنا خلافت کہلاتا ہے۔ خواہ وہ نیابت جس کی نیابت کی گئی ہو اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت یاکسی کام میں عجز کی وجہ سے ہو۔ اور بعض اوقات یہ نیابت صرف عزت افزائی کے لئے ہوتی ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو زمین میں خلیفہ بناتا ہے تو یہ صرف ان کے اعزاز کی خاطر ہوتا ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے۔

3: اور شرعی معنی خلافت کے امامت کے ہیں۔

خلافت کے اصطلاحی معنی

اصطلاحی طورپر نبوت کی قائمقامی کا نام خلافت ہے۔خلیفہ وہ ہے جو اپنے انوار و برکات کے لحاظ سے نبی کا جانشین ہوتا ہے۔ نبی کے فرائض کو بجالاتا ہے اور اس کے قائمقام کے طورپر امت کا مطاع اور واجب التسلیم ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’خلیفہ کےمعنی جانشین کے ہیں۔ جو تجدید دین کرے۔ نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں انہیں خلیفہ کہتے ہیں‘‘

(ملفوظات جلد2 نیا ایڈیشن صفحہ666)

اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
’’خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طورپر بقا نہیں لہذا خداتعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طورپر ہمیشہ کے لئے تاقیامت قائم رکھے۔سو اسی غرض سے اللہ تعالیٰ نے خلافت کوتجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ ہو۔‘‘

(شہادة القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ353)

خلافت کی اقسام

قرآن کریم سے تین قسم کی خلافتوں کا ذکر ملتا ہے۔

1۔خلافت نبوت

سورۃ البقرہ کی آیت نمبر31 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنِّىۡ جَاعِلٌ فِى الۡاَرۡضِ خَلِيۡفَةً یعنی زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔

اسی طرح انہی معنوں میں یعنی خلافت نبوت سے سرفراز کرنے کے معنوں میں حضرت داؤد علیہ السلام کو خلیفہ بنایا گیا جیسا کہ سورۃ صٓ میں آتا ہے کہ یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ

(صٓ: 27)

یعنی اے داؤد !یقیناً ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر اور میلان طبع کی پیروی نہ کر ورنہ وہ (میلان)تجھے اللہ کے رستے سے گمراہ کردے گا۔

پس حضرت آدمؑ اور حضرت داود علیہ السلام کو خلیفہ صرف نبی اور مامور ہونے کے معنوں میں کہا گیا ہے۔چونکہ وہ اپنے اپنے زمانے کی ضرورت کے مطابق صفات الٰہیہ کو دنیا میں ظاہر کرتے تھے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ظل بن کر ظاہر ہوئے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کہلائے۔

2۔خلافت قومی

قرآن کریم سے جس دوسری قسم کی خلافت کا علم ہوتا ہے۔وہ خلافت قومی ہے۔ جیساکہ سورۃ الاعراف میں آتا ہے

وَاذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ قَوۡمِ نُوۡحٍ

(الاعراف: 70)

اور یاد کرو جب اس نے نوح کی قوم کے بعد تمہیں جانشین بنایا تھا۔

یعنی قوم نوح کی تباہی کے باوجود ان کے بعد ان کی جگہ تم کو دنیا میں حکومت اور غلبہ حاصل ہوگیا۔

وَاذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ

(الاعراف: 75)

یاد کرو جب تم کو اللہ تعالیٰ نے عاد اولیٰ کی تباہی کے بعد ان کا جانشین بنایا اور حکومت تمہارے ہاتھ میں آگئی۔

اور اسی طرح سورۃمائدہ آیت نمبر 21 کے مطابق قوم موسیٰ میں نبی بھی مقرر کئے تھے اور بادشاہ بھی۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہود کو ہم نے دوطرح خلیفہ بنایا۔ اِذْ جَعَلَ فِیکُم کے تحت انہیں خلافت نبوت دی اور جَعَلَکُم مَلُوکاً کے ماتحت انہیں خلافت ملوکیت دی۔

پس ہر قوم جو پہلی قوم کی تباہی پر اس کی جگہ لیتی ہے۔ان معنوں میں بھی خلیفہ کا لفظ قرآن مجید میں متعدد بار استعمال ہواہے۔لہذا قرآن کریم کے مطابق خلافت کی دوسری قسم خلافت قومی ہے جس کے تحت ہر قوم جو پہلی قوم کی جگہ لیتی ہے وہ قرآنی محاورہ کے مطابق اس قوم کی خلیفہ کہلاتی ہے۔

3۔ خلافت علی منہاج النبوة

قرآنی محاورہ کے مطابق تیسری قسم کی خلافت وہ ہے جس کے مطابق نبی کے جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں اور نبی کے ماننے والوں میں اتحاد و تنظیم قائم رکھنے والے ہوں۔خواہ وہ نبی ہوں یا غیر نبی جیساکہ آیت استخلاف (نور: 56) سے ظاہر ہے۔ اسی طرح سورۃ الاعراف آیت نمبر 143 میں ہے۔ وَقَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ وَاَصۡلِحۡ وَلَا تَتَّبِعۡ سَبِیۡلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا میری قوم میں میری قائمقامی کر اور اصلاح کر مفسدوں کی راہ کی پیروی نہ کر۔

پس اس آیت کریمہ کی رو سےحضرت ہارون علیہ السلام ایک تابع نبی بھی ہوئے اور ایک حکمران نبی کے خلیفہ بھی۔ اس جگہ حضرت ہارون علیہ السلام کی خلافت، خلافت نبوت نہ تھی بلکہ خلافت انتظامی تھی۔ مگر اس قسم کی خلافت بعض دفعہ خلافت انتظامی کے علاوہ خلافت نبوت بھی ہوتی ہے یعنی ایک سابق نبی کی امت کی درستگی اور اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ایک اور نبی مبعوث فرماتا ہے جو پہلے نبی کی شریعت ہی کو جاری کرتاہے۔ کوئی نئی شریعت نہیں لاتا۔ حالانکہ نبوت کے عہدہ پر وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے۔ جس قدر انبیاء حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں آئے سب اسی قسم کے خلفاء تھے جیسا کہ سورۃ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰٮۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّنُوۡرٌ ۚ یَحۡکُمُ بِہَا النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا لِلَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَالرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَالۡاَحۡبَارُ بِمَا اسۡتُحۡفِظُوۡا مِنۡ کِتٰبِ اللّٰہِ وَکَانُوۡا عَلَیۡہِ شُہَدَآءَ

(مائدہ: 45)

یعنی ہم نے تورات کو یقیناً ہدایت اور نور سے بھرپور اتارا تھا۔ اس کے ذریعہ سے انبیاء جو ہمارے فرمانبردار تھے اور عارف اور علماء بہ سبب اس کے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی حفاظت چاہی گئی تھی۔ اور وہ اس پر نگران تھے۔ یہودیوں کے لئے فیصلہ کیا کرتے تھے۔

1۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کئی انبیاء اور کئی غیر نبی جن کو اس آیت میں ربانی اور احبار کہا گیا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے قیام کے لئے یا دوسرے لفظوں میں ان کے خلیفہ کی حیثیت سے بنی اسرائیل میں آتے رہے۔

2۔ احادیث میں حضرت امام مہدیؑ کے لئے جو ھٰذَا خَلِیفَۃُ اللّٰہِ المَھدِی یہ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ مہدی ہے (ابن ماجہ جلد نمبر2 صفحہ279 مطبوعہ مصر) کی حدیث میں خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ وہ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ (النور: 56) کے مطابق بنی اسرائیل کے خلفاء کے ہم معنیٰ استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ امام مہدیؑ انبیاء بنی اسرائیل کی طرح حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے خلیفہ ہوئے تھے۔

3۔ نبی کے وہ جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو غیر نبی ہوں مگر اس نبی کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں یعنی اس کی شریعت پر قوم کو چلانے والے ہوں اور ان میں اتحاد قائم رکھنے والے ہوں۔ جیساکہ آنحضرت ﷺ کے خلفاء راشدین اور حضرت مسیح موعودؑ کے خلفاء ہیں۔ یہ خلفاء بھی خلافت کی اس تیسری قسم یعنی خلافت علیٰ منہاح نبوت میں شامل ہیں۔اس کا ثبوت آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث مبارکہ ہے۔ جس میں اپنے بعد خلافت علیٰ منہاج النبّوت کے قائم ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔ جیسا کہ آپ نے ثُمَّ تَکُونُ خِلَافَۃٌ عَلَی مِنھَاجِ النَّبُوَّۃِ (مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ273) والی مشہور حدیث میں پیشگوئی فرمائی ہے۔

نظام خلافت کے اغراض و مقاصد

اللہ تعالیٰ نے اس عالم کائنات میں بیشمار اور ان گنت مخلوقات پیدا کی ہیں۔جن میں سے انسان کو یہ شرف اور اعزاز حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔اس حقیقت کی تائید متعدد آیات کریمہ سے ہوتی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:۔

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا

(البقرہ: 30)

وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب کا سب پیداکیا جو زمین میں ہے۔

اسی طرح ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا:

وَلَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَحَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ وَرَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا ﴿۷۱﴾

(بنی اسرائیل: 71)

اور یقیناً ہم نے ابنائے آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواری عطا کی اور انہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا اوراکثر چیزوں پر جو ہم نے پیدا کیں انہیں بہت فضیلت بخشی۔

پس اب ظاہر ہے کہ اس کائنات کی سب سے اہم مخلوق جس کے لئے یہ ساری کائنات پیدا کی گئی ہے۔ ضرور اس کی پیدائش کا بھی کوئی مقصد ہوناچاہئے جو سب سے اہم اور اعلیٰ ہونا چاہئے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں ہماری راہنمائی کی گئی ہے۔

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ

(الذاریات: 57)

اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت قرار دینے میں دراصل حکمت یہ تھی کہ اس طریق سے انسان خداتعالیٰ کی صفات کا مظہربن سکے۔۔ جیسا کہ تَخَلَّقُوا بِاَخلَاقِ اللّٰہ (تم اللہ کے اخلاق کو اپناؤ) سے ظاہر ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر بنو۔اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ

اِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ

(مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحہ323)

اللہ تعالیٰ کا آدم کو اپنی صورت پر پیدا کرنا

اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی مادی وجود نہیں ہے۔ لہذا اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد اس کے ذریعہ صفات باری تعالیٰ کا ظہور تھا۔اسی طرح ایک حدیث قدسی ہے کہ

كُنْتُ كَنْزاً مَخْفِياً فَأَرَدْتُ أَنْ أُعْرِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ

(مزیل الخفَاء الالباس جلد2 صفحہ123 مصنفہ اسمٰعیل بن العجلونی)

یعنی میں نے ارادہ کیا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے آدم کو پیدا کیا۔ چنانچہ اسی عظیم مقصد کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا:

اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً

(البقرہ: 31)

یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔

پس یہی وہ عظیم مقصد اورمشن تھا جس کے پیشِ نظر انبیاء علیہم السَّلام کا سلسلہ جاری کیا گیا۔ جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور تکمیل افضل الرسل خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے بابرکت وجودسے ہوئی۔ بعض روایات کے مطابق دنیا کو ہر قوم، ہر علاقے اور ہر زمانہ میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے۔ پھر انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ جس نظام کی تخمریری ہوئی اس کی آبیاری کے لئے انبیاء کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا جس کی تصدیق اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔

مَا کَانَتْ نَبُوَّۃُ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتہُ خِلَافَۃٌ

(مجمع الزوائد علی بن فجی بکراً الھیثمی جلد5 صفحہ188 دارالکتاب العربی)

یعنی کوئی بھی ایسی نبوت نہیں گزری جس کے بعد خلافت نہ ہوئی ہو۔

پس اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں پر خلافت سے مراد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ہے جو نبوت کے جانشین اور قائمقام ہوتی ہے۔ جس کے قیام کا مقصد درحقیقت برکات رسالت کو جاری رکھنا ہوتا ہے اور وہ مقصد جس کے پیش نظر انسان کو پیدا کیاگیا ہے نبی سابق کی تعلیم کی روشنی میں اس کی راہنمائی کرنا۔ نیز تجدید دین کرنا اور نبی کے وجود کو ظلی طورپر قائم رکھنا ہوتا ہے۔ اور نبی کے ماننے والوں میں اتحاد و تنظیم قائم رکھنا ہے۔

جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کےقیام کو سمجھنے کے لئے سورۃ النور کی آیت 56 (جو آیت استخلاف کے نام سے معروف ہے) ہماری مکمل راہنمائی کرتی ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۶﴾

(النور: 56)

ترجمہ:۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائےگا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو،جو اس نے ان کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

اس آیت کو آیت استخلاف کہا جاتا ہے جس میں یہ بات ظاہر فرمائی گئی ہے کہ جس طرح خدانے پہلے انبیاء کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا تھا اسی طرح آنحضورﷺ کے بعد بھی جاری فرمائے گا اور وہ خلافت نبی کے نور کو لے کر آگے بڑھے گی اور آنحضرت ﷺ کی نبوت کا تتمہ ثابت ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں نظام خلافت کے تمام بنیادی ضروری مضامین بیان کردئیے گئے ہیں جن کی تفصیل میں اپنے اپنے موقع پر جایا جائے گا مگر اس جگہ صرف نظام خلافت کے مقاصد کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ آیت استخلاف میں نظام خلافت کے درج ذیل تین بنیادی مقاصد بیان کئے گئے ہیں۔

  1. تمکنت دین۔ یعنی نظام خلافت دین کی مضبوطی کا باعث بنتاہے۔
  2. خوف کا امن میں تبدیل ہونا۔یعنی دین پر جب بھی کوئی خوف یا خطرے کی گھڑی آتی ہے تو نظام خلافت کے ذریعہ وہ خوف امن اور سکون میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
  3. توحید باری تعالیٰ کا قیام۔ جیساکہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کی پیدائش اور انبیاء علیہم السَّلام کی بعثت کا مقصد خداتعالیٰ کی صفات کا ظہور ہے۔ یعنی توحید خداوندی کا قیام۔ پس مذہب اور دین کا یہ بنیادی مقصد بھی نبوت کے بعد خلافت کے ذریعہ پورا ہونے میں مدد ملتی ہے۔ جہاں اس سے توحید خداوندی کے قیام میں مدد ملتی ہے وہاں اس کے لازمی نتیجہ کے طورپر امت میں وحدت اور اتحاد ویگانگت پیدا ہوتی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نظام خلافت کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ خداتعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہتا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مددکرتاہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیساکہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی رحمت زمین پر پوری ہوجائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کرسکے۔اسی طرح خداتعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کردیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلا نا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتی ہے مخالفوں کو ہنسی ٹھٹھے اور طعن و تشنیع کا موقع دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کرچکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیداکردیتا ہے جن کی ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔ غرض دوقسم کی قدرت ظاہرکرتا ہے۔

1۔ اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتاہے۔

2۔ دوسرے اپنے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیااور یقین کرلیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہوجائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑجاتے ہیں اوران کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں۔ تب خداتعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہرکرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔

پس جو اخیر تک صبر کرتا ہے خداتعالیٰ کے معجزہ کو دیکھتاہے۔ جیسے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہ ؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خداتعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا او راسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا۔

وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا (النور: 56) یعنی خوف کے بعد ہم ان کے پیر جمادیں گے۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ104)

اسی طرح ایک دوسری جگہ خلافت کی اغراض بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طورپر بقا نہیں لہذا خداتعالیٰ نے ارادہ کیاہے کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طورپر ہمیشہ کے لئے تاقیامت قائم رکھے۔ سو اسی غرض سے خداتعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے نہ رہے۔‘‘

(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ353)

حضرت مسیح موعودؑ سے ایک موقع پر سوال کیا گیا کہ خلیفہ آنے کا مدعا کیا ہے۔ آپؑ نے فرمایا:
’’دیکھو! حضرت آدم سے اس نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک مدت درازکے بعد جب انسانوں کی عملی حالتیں کمزور ہوگئیں اور انسان زندگی کے اصل مدعا اور خدا کی کتاب کی اصل غایت بھول کر ہدایت کی راہ سے دور جاپڑے تو پھر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ایک مامور اور مرسل کے ذریعہ سے دنیا کو ہدایت کی اور ضلالت کے گڑھے سے نکالا۔شان کبریائی نے جلوہ دکھایا اور ایک شمع کی طرح نور معرفت دنیا میں دوبارہ قائم کیا گیا۔ایمان کو نورانی اور روشنی والا ایمان بنادیا۔

غرض اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہی سنت چلی آتی ہے کہ ایک زمانہ گزرنے پر جب پہلے نبی کی تعلیم کو لوگ بھول کر راہ راست اور متاع ایمان اور نور معرفت کو کھوبیٹھتے ہیں اور دنیا میں ظلمت اور گمراہی، فسق وفجور کا چاروں طرف سے خطرناک اندھیرا ہوجاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی صفات جوش مارتی ہیں اور ایک بڑے عظیم الشان انسان کے ذریعہ سے خداتعالیٰ کا نام اور توحید اور اخلاق فاضلہ پھرنئے سرے سے دنیا میں اس کی معرفت قائم کرکے خداتعالیٰ کی ہستی کے بین ثبوت ہزاروں نشانوں سے دئیے جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ کھویا ہوا عرفان اور گمشدہ تقویٰ طہارت دنیا میں قائم کی جاتی ہے اور ایک عظیم الشان انقلاب واقع ہوتا ہے۔غرض اسی سنت قدیمہ کے مطابق ہمارایہ سلسلہ قائم ہوا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم نیا ایڈیشن صفحہ560-561)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے قیام کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’خلافت خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے۔ جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے۔ اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اگر قدرت ثانیہ نہ ہوتو دین حق کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔‘‘

(الفضل انٹر نیشنل 23 مئی تا 5 مئی 2003ء)

حضرت قمرالانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نظام خلافت کے اغراض و مقاصد تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کی تعلیم اور سلسلہ رسالت کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی رسول اور نبی کو بھیجتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ ایک آدمی دنیا میں آئے اور ایک آواز دے کر واپس چلاجاوے بلکہ ہر نبی اور رسول کے وقت خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک تغیر اور انقلاب پیدا کرے جس کے لئے ظاہر اسباب کے ماتحت ایک لمبے نظام اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ ایک انسان کی عمر بہرحال محدود ہے۔صرف تخم ریزی کاکام لیتا ہے اور اس تخم ریزی کو انجام تک پہنچانے کے لئے نبی کو وفات کے بعد اس کی جماعت میں سے قابل اور اہل لوگوں میں یکے بعد دیگرے اس کے جانشین بناکر اس کے کام کی تکمیل فرماتا ہے۔ یہ جانشین اسلامی اصطلاح میں خلیفہ کہلاتے ہیں۔‘‘

(بحوالہ ماہنا مہ خالد ربوہ مئی 1960ء)

خلافت کی ضرورت واہمیت

جماعت احمدیہ کی خوش نصیبی اور خوش بختی ہے کہ اسے خلافت جیسی عظیم نعمت حاصل ہے۔ اگر جماعت احمدیہ میں نظام خلافت قائم نہ ہوتا تو آج جماعت احمدیہ کا نفوذ 200 سے زائد ممالک میں نہ ہوتا۔یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ جس نے جماعت میں شیرازہ بندی اور وحدت کو قائم رکھا ہواہے ورنہ جماعت احمدیہ بھی کئی فرقوں میں تقسیم ہوچکی ہوتی۔

پس خلافت تتمہ نبوت ہےاس کے ذریعہ سے صحیح دین کی حفاظت ہوتی ہےدین کو تمکنت حاصل ہوتی ہے۔ جماعت مومنین کی شیرازہ بندی اور اتحاد کا استحکام ہوتا ہے۔ نبی کی روحانیت کا دور ممتد رہتا ہے۔اگر اللہ تعالیٰ نظام خلافت کو قائم نہ کرے تو کہنا پڑے گا کہ قیام نبوت کا عظیم مقصد ناقص اور ناتمام رہ گیا۔ اس لئے شرعاً اور عقلاً بھی نبوت کے بعد خلافت کا ہونا لازمی ہے۔

خلافت کی ضرورت واہمیت کا اندازہ ذیل کے حوالہ جات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہےجن میں خلافت کی نعمت سے محروم جماعتوں وتحریکوں کے عمائدین وسربراہان ودانشوروں نے خلافت کی ضرورت کاایسے ہی کھل کر اظہار کیا ہے جس طرح خشک سالی میں باران رحمت کا انتظار کیا جاتا ہے۔

1۔ حضرت اسماعیل شہید خلافت کی جستجو اور اس نعمت کے لئے دعا کرنے کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں۔
’’نزول نعمت الٰہی یعنی ظہور خلافت راشدہ سے کسی زمانہ میں مایوس نہ ہونا چاہیئے اور اسے مجیب الدعوات سے طلب کرتے رہنا چاہیئے اور اپنی دعا کی قبولیت کی امید رکھنا اور خلیفہ راشد کی جستجو میں ہر وقت ہمت صرف کرنا چاہیئے۔ شاید یہ نعمت کاملہ اسی زمانہ میں ظہور فرما دے اور خلافت راشدہ اس وقت ہی جلوہ گر ہوجاوے۔‘‘

(منصب امامت صفحہ28 گیلانی پریس ہسپتال روڈ لاہور مطبوعہ1949ء)

2۔ مشہور صحافی م۔ش تحریر کرتے ہیں کہ:
’’پاکستان کے مقاصد کی تکمیل پارلیمانی یا صدارتی نظام ہائے حکومت رائج کرنے سے نہیں بلکہ خلافت کے قیام سے ہی کی جا سکتی ہے۔‘‘

(روزنامہ نوائے وقت لاہور 21مارچ 1947ء)

3۔ اہل قرآن کے لیڈر غلام احمد صاحب لکھتے ہیں:
’’ہمارے لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ پھر سے خلافت علیٰ منھاج رسالت کا سلسلہ قائم کیا جائے جو امت کو احکام وقوانین خداوندی کے مطابق چلائے۔‘‘

(ماہنامہ طلوع اسلام مارچ 1977ء صفحہ6)

4۔ اہلحدیث کا ترجمان رسالہ تنظیم اہلحدیث لکھتا ہے:
’’اگر زندگی کے ان آخری لمحات میں ایک دفعہ بھی خلافت علیٰ منھاج النبوۃ کا نظارہ نصیب ہوگیا تو ہو سکتا ہے کہ ملت اسلامیہ کی بگڑی سنور جائے اور روٹھا ہوا خدا پھر سے مان جائے اور بھنور میں گھری ہوئی ملت اسلامیہ کی ناؤشائد کسی طرح اس کے نرغے سے نکل کر ساحل عافیت سے ہمکنار ہو جائے ورنہ قیامت میں خدا ہم سے پوچھے گاکہ دنیا میں تم نے ہر ایک اقتدار کے لئے زمین ہموار کی۔کیا اسلام کے غلبہ اور قرآن کریم کے اقتدار کے لئے بھی کچھ کیا؟‘‘

(ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور 12ستمبر 1969ء)

5۔ ماہنامہ جدوجہد لاہور لکھتا ہے:
’’مراکش سے لے کر انڈونیشیاتک تیس ممالک کا ایک عظیم اسلامی بلاک صرف اتحاداتفاق کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی اقوام سے پٹ رہا ہے۔اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر اس دشمن اسلام اقوام متحدہ کو چھوڑ کر خلافت اسلامیہ کا احیاء کریں۔ایک فعال قوت کی حیثیت سے زندہ رہنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘

(ماہنامہ جدوجہد لاہور اگست 1974ء)

6۔ احیائے خلافت کی حالیہ تحریکوں میں سے ایک تحریک کے داعی چوہدری رحمت علی صاحب ‘‘دارالسلام’’ میں لکھتے ہیں:
’’نفاذ غلبہ اسلام اور وجود قیام خلافت لازم وملزوم ہیں۔ بالفاظ دیگر جیسے دن سورج کا محتاج ہے اور بغیر اندھیرے کے رات کا تصور ناممکن ہے اسی طرح خلافت معرض وجود میں ہوگی تواسلام کا نفاذ غلبہ ممکن ہوگا ورنہ ’’ایں خیال است و محال است وجنوں‘‘ نیز تاریخ مزید ثبوت مہیا کرتی ہے کہ جب خلافت اپنے عروج پرتھی اسلام کا بھی وہی سنہری دور تھا۔‘‘

(دارالسلام عمران پبلیکیشنز اچھرہ لاہور 1985ء صفحہ3)

7۔ جناب فضل محمد یوسف زئی استاد جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی لکھتے ہیں:
’’مسلمان ترس رہے ہیں کہ کاش ہماری ایک خلافت ہوتی، ہمارا ایک خلیفہ ہوتا، کاش ہماری ایک بادشاہت ہوتی، کاش ہمارا ایک بادشاہ ہوتاجس کی بات پوری دنیا کے مسلمانوں کی بات ہوتی جس میں وزن ہوتا جس میں عظمت ہوتی جس میں شجاعت ہوتی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ میں ان کی حیثیت ہوتی عالمی برادری میں ان کی قیمت ہوتی ویٹو پاور میں ان کا مقام ہوتا سلامتی کونسل میں اس کا نام ہوتا۔‘‘

(ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک مارچ 2000ء صفحہ58)

8۔ تحریک خلافت کے داعی اور تنظیم اسلامی کے امیر ڈاکٹر اسرار احمد لکھتے ہیں:
’’اول دور خود حضورﷺاور خلفائے راشدین کا دور ہے جسے خلافت علیٰ منھاج النبوۃ کہا جاتا ہے اور قیامت سے پہلے آخری دور میں پھر خلافت علیٰ منھاج النبوۃ کا نظام قائم ہوگا۔ اس قول سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ حضور ﷺ نے اسلام کا نظام عدل اجتماعی جس طریقے سے قائم فرمایا تھا صرف اسی طریقے سے اب یہ نظام قائم ہوسکتا ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہر شخص اپنی ذات میں اللہ کا خلیفہ بنے پھر اپنے گھر اور دائرہ اختیار میں خلافت کا حق ادا کرے اور جو لوگ یہ دو مرحلے طے کر لیں انہیں بنیان مرصوص بنا کر ایک نظم میں پرو دیا جائے اور پھر یہی لوگ باطل کے ساتھ ٹکرا جائیں، میدان میں آکر منکرات کو چیلنج کریں اور اپنے سینوں میں گولیاں کھائیں۔‘‘

(پاکستان میں نظام خلافت۔ امکانات، خدوخال اور اس کے قیام کا طریق صفحہ132
انجمن خدام القرآن لاہور1993ء)

9۔’’حزب التحریر‘‘ نامی تنظیم کی طرف سے مورخہ 13؍اپریل 2003ء کو ایک پمفلٹ اسلام آباد میں تقسیم کیا گیا جس کا عنوان تھا۔ ’’حزب التحریرکی پکار‘‘ صرف خلافت کے ذریعہ ہی تم فتح حاصل کروگے۔‘‘

اس میں لکھا گیا ہے کہ:
’’اے مسلمانو، کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم اپنے معاملات پر غور کرو اور اس بات کو جان لو کہ اس تہہ در تہہ ظلمت سے نکالنے والا صرف نظام خلافت ہی ہے‘‘

کیا تم سبحانہ وتعالیٰ کی تصدیق نہیں کرتے جب وہ تمہارے لئے بیان کرتا ہے کہ تم کوکس طرح عزت اور نصرت ملے گی۔ ’’بلاشبہ تمام کی تمام عزت اللہ کے لئے ہی ہے۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔ ’’پس تم اللہ کی مدد کرو، خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے شریعت کو نافذ کرو، تب ہی تمہیں فتح اور عزت ملے گی۔‘‘

آگے چل کر لکھا گیا کہ:
’’خلافت کے ساتھ تم معتصم کی سیرت کوزندہ کروگے۔تم مدد کے لئے بچوں کی چیخ وپکار کا جواب دے سکوگے جن کو کفار نے عراق کی دشمنی میں ذلیل وخوار کر رکھا ہےاور ان کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ مدد کے لئے اپنے ہاتھ دراز کریں اور یہ منظر دلوں کو چیر دیتا ہے۔ ان بچوں کے چہروں سے معصومیت ٹپکتی ہے جبکہ خوف ان کے دلوں میں بس گیا ہے۔

خلافت کے ذریعے تم اپنے دشمن کے قتال کے لئے نکلو گے۔ تمہارا خلیفہ لڑائی میں تمہاری قیادت کرے گا نہ کہ فرار میں۔وہ تمہاری حفاظت کرے گااورتم اس کی قیادت تلے قتال کرو گے اور وہ تمہیں ایک فتح سے دوسری فتح تک لے جائے گا نہ کہ ایک شکست سے دوسری شکست تک۔

اے مسلمانو! خلافت کو قائم کروتم عزت پاؤ گے۔اس کو زندہ کروگے تو کامیاب رہو گے۔ورنہ تم تہہ در تہہ ظلمت میں گرتے چلے جاؤ گے اور اس وقت پشیمان ہوگے جب بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ تب اللہ تعالیٰ ایسی قوم لے آئے گا جو تم سے بہتر ہوگی جوکہ اللہ کے وعدے کو پورا کرے گی۔‘‘

10۔ جناب واصف علی واصف یا الٰہی، یاالٰہی کے زیر عنوان اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’یا الٰہی ہمیں لیڈروں کی یلغار سے بچا ہمیں ایک قائد عطا فرما، ایسا قائد جو تیرے حبیب کے تابع فرمان ہو۔اس کی اطاعت کریں تو تیری اطاعت کے حقوق ادا ہوتے رہیں۔‘‘

(روزنامہ نوائے وقت لاہور 26نومبر 1991ء)

11۔ ماہنامہ ’’سبق پھر پڑھ‘‘ اچھرہ لاہور کے مدیر چوہدری رحمت علی صاحب لکھتے ہیں:
’’حیرت وتاسف تو اس بات پر ہے کہ آج کی دنیا میں صرف کفارومشرکین ہی طاغوتی نظاموں کی سرپرستی نہیں کر رہے مسلمان بھی خلافت سے منہ موڑ کر ایسی ہی من مرضی کی حکومتیں رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔اس میں کیا شک کہ قرآن وسنت کے مطابق پوری اسلامی دنیا کا صرف ایک ہی خلیفہ (سربراہ) ہوسکتا ہے۔

حل ایک ہی ہے کہ خلافت کی گاڑی جہاں سے پٹڑی سے اتری تھی وہیں سے اسے پھر پٹڑی پر ڈال دیاجائے۔واضح اور دوٹوک تشخیص کے بعد امت کے تمام دکھوں کے لئے ایک ہی شافی نسخہ ہے کہ خلافت کو اس دنیا میں پھر بحال کردیا جائے۔ وقت گزرتا جا رہا ہے۔ہمارے محترم بھائی جو آج کسی نہ کسی طور امت کی قیادت پر متمکن ہیں اور وہ جہالت کے سرداروں کی طرف باہم دگر رہتے ہیں،خلافت کو بحال کرنے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔پھر قائدانہ مناصب پر ہوتے ہوئے ان کے لئے بحالی خلافت کا کام قدرے آسان بھی ہے۔لہٰذا وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے سے پہلے اگر یہ کام کرجائیں توان شاءاللہ قیامت کے دن اپنے رب کے ہاں سرخروہوں گے۔‘‘

(ماہنامہ ’’سبق پھر پڑھ‘‘ جلد2 شمارہ 8اگست 1992ء صفحہ16)

12۔ فروری 1947ء میں مسلم سربراہان کی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس تاریخی موقعہ پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی ایڈیٹر صدق جدید نے ’’خلافت کے بغیر اندھیرا‘‘ کا عنوان دے کر ایک نہایت بصیرت افروز مضمون لکھا۔مولانا موصوف لکھتے ہیں:
’’اتنے تفرق وتشتت کے باوجود کبھی کسی کا ذہن اس طرف نہیں جاتاکہ عراق کا منہ کدھر اور شام کا رخ کس طرف ہے؟ مصر کدھر اور حجاز اور یمن کی منزل کونسی ہےاور لیبیا کی کونسی؟ ایک خلافت اسلامیہ آج ہوتی تو اتنی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں آج مملکت اسلامیہ کیوں تقسیم درتقسیم ہوتی؟ ایک اسرائیل کے مقابل پر سب کی الگ الگ فوجیں کیوں لانا پڑتیں۔ ترک اور دوسرے فرمانروا آج تک تنسیخ خلافت کی سزا بھگت رہے ہیں اور خلافت کوچھوڑ کر قومیتوں کا جو افسوس شیطان نے کان میں پھونک دیا وہ دماغوں سے نہیں نکالتے۔‘‘

(روزنامہ صدق جدید لکھنؤیکم مارچ 1947ء)

مگر ان بدنصیبوں کو کون بتائے کہ خلفاء کا تقرر خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے اور یہ نعمت عظمیٰ ان لوگوں کے لئے رکھی ہے جو آمَنُواوَعَمِلُوالصَالِحَاتِ کے مصداق ہیں۔ جنہوں نے آنحضرتﷺکے ایک غلام اور عاشق صادق اور آپ کی پیروی اور غلامی سے امتی نبوت کا درجہ پانے والے بانی سلسلہ احمدیت حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ السلام سے اپنے آپ کو منسوب کیا اور خداتعالیٰ نے ان کو نعمت خلافت سے نوازا۔

(ابو ہشام بن ولی)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2022