• 18 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک وشہور (قسط 7)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک وشہور
قسط7

ارشاد برائے بوٹر

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
چوتھى شرط امن ہے۔ ىہ امن کى شرط انسان کے اپنے اختىار مىں نہىں ہے۔ جب سے دنىا پىدا ہوئى ہے اس کا انحصار على الخصوص سلطنت پر رکھا گىا ہے۔ جس قدر سلطنت نىک نىت اور اس کا دل کھوٹ سے پاک ہوگا اسى قدر ىہ شرط زىادہ صفائى سے پورى ہوگى۔ اب اس زمانہ مىں امن کى شرط اعلىٰ درجہ پر پورى ہورہى ہے۔ مىں خوب ىقىن رکھتا ہوں کہ سکھوں کے زمانہ کے دن انگرىزوں کے زمانہ کى راتوں سے بھى بہت کم درجہ پر تھے۔ ىہاں سے قرىب ہى بوٹر اىک گاؤں ہے۔ وہاں اگر کوئى عورت جاىا کرتى تھى تو رو رو کر جاىا کرتى تھى کہ خدا جانے پھر واپس آنا ہوگاىا نہىں۔ اب ىہ حالت ہےکہ زمىن کى انتہا تک چلا جاوے، کسى قسم کا خطرہ نہىں۔ سفر کے وسائل اىسى آسان کر دىئے ہىں کہ ہر قسم کا آرام حاصل ہے۔ گوىا گھر کى طرح رىل مىں بىٹھا ہوا ىا سوىا ہوا جہاں چاہے چلا جاوے۔ مال و جان کى حفاظت کے لئے پولىس کا وسىع صىغہ موجود ہے۔ حقوق کى حفاظت کے لئے عدالتىں کھلى ہىں۔ جہاں تک چاہے چلا جاوے۔ ىہ کسى قدر احسان ہىں جو ہمارى عملى آزادى کا موجب ہوئے ہىں۔ پس اگر اىسى حالت مىں جب کہ جسم و روح پر بے انتہا احسان ہورہے ہوں۔ ہم مىں صلح کارى اور شکر گزارى کا مادہ پىدا نہىں ہوتا تو تعجب کى بات ہے؟ جومخلوق کا شکر نہىں کرتا وہ خدا تعالىٰ کا بھى شکر ادا نہىں کر سکتا۔ وجہ کىا ہے؟ اس لئے کہ وہ مخلوق بھى تو خدا ہى کا فرستادہ ہوتا ہے۔ اور خدا ہى کے ارادہ کے تحت مىں چلتا ہے۔ الغرض ىہ سب امور جو مىں نے بىان کئے ہىں اىک نىک دل انسان کو مجبور کر دىتے ہىں کہ وہ اىسى محسن کا شکر گزار ہو۔ ىہى وجہ ہے کہ ہم بار بار اپنى تصنىفات مىں اور اپنى تقرىروں مىں گورنمنٹ انگلشىہ کے احسانوں کا ذکر کرتے ہىں، کىونکہ ہمارا دل واقعى اس کے احسانات کى لذت سے بھرا ہوا ہے۔ احسان فراموش انسان نادان اپنى منافقانہ فطرتوں پر قىاس کر کے ہمارے اس طرىق عمل کو جوصدق اخلاق سے پىدا ہوتا ہے، جھوٹى خوشامد پر حمل کرتے ہىں۔

(ملفوظات جلداول صفحہ437 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے قسطنطنىہ

 حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
ىہ ہمارے دىکھنے کى باتىں ہىں کہ سکھوں کے زمانہ مىں مسلمانوں کو کس قدر تکلىف ہوئى تھى۔ صرف اىک گائے کے اتفاقاً ذبح کىے جانے پرسکھوں نے چھ سات ہزار آدمىوں کو تہ تىغ کر دىا تھا اور نىکى کى راہ اس طرح پر مسدود تھى کہ اىک شخص مسمى کمے شاہ اس آرزو مىں ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائىں مانگتا تھا کہ اىک دفعہ صحىح بخارى کى زىارت ہو جائے اور دعا کرتا کرتا رو پڑتا تھا اور زمانہ کے حالات کى وجہ سے نا امىد ہو جاتا تھا۔ آج گورنمنٹ کے قدم کى برکت سے وہى صحىح بخارى چار پانچ روپے مىں مل جاتى ہے۔ اور اس زمانہ مىں لوگ اس قدر دور جا پڑے تھے کہ اىک مسلمان نے جس کا نام خدا بخش تھا، اپنا نام خدا سنگھ رکھ لىا تھا۔ بلکہ اس گورنمنٹ کےہم پر اس قدر احسان ہىں کہ اگر ہم ىہاں سے نکل جائىں تو نہ ہمارا مکہ مىں گزارہ ہوسکتا ہے اور قسطنطنىہ مىں،تو پھر کس طرح سے ہوسکتا ہے کہ ہم اس کے بر خلاف کوئى خىال اپنے دل مىں رکھىں۔ اگر ہمارى قوم کو خىال ہے کہ ہم گورنمنٹ کے برخلاف ہىں ىا ہمارا مذہب غلط ہے تو ان کو چاہىے کہ وہ اىک مجلس قائم کرىں اور اس مىں ہمارى باتوں کو ٹھنڈے دل سے سنىں تا کہ ان کى تسلى ہو اور ان کى غلط فہمىاں دور ہوں۔

جھوٹے کے منہ سے بدبو آتى ہے اور فراست والا اس کو پہچان جاتا ہے۔ صادق کے کا م سادگى اور ىک رنگى سے ہوتے ہىں اور زمانہ کے حالات اس کے مؤىد ہوتے ہىں۔

(ملفوظات جلداول صفحہ285 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے گولڑہ

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
اگر ہمارے پاس کوئى دلىل بھى نہ ہوتى؛ تو پھر بھى مسلمانوں کو چاہىے تھا کہ دىوانہ وار پھرتے اور تلاش کرتے کہ مسىح اب تک کىوں نہىں آىا۔ ىہ کسر صلىب کے لئے آىا ہے۔ ان کو چا ہىے نہىں تھا کہ اس کو اپنے جھگڑوں کے لئے بلاتے۔ اس کا کام کسر صلىب ہے اور اسى کى زمانہ کو ضرورت ہے اور اسى واسطے اس کا نام مسىح موعود ہے۔ اگر ملا نوں کونوع انسان کى بہبودى مدِ نظر ہوتى تو وہ ہرگز اىسانہ کرتے۔ ان کو سوچنا چاہىے تھا کہ ہم نے فتوے لکھ کر کىا بنالىا ہے۔ جس کو خدا نے کہا کہ ہو جاوے اس کو کون کہہ سکتا ہے کہ نہ ہووے۔ ىہ ہمارے مخالف بھى ہمارے نوکر چاکر ہىں کہ مشرق و مغرب مىں ہمارى بات کو پہنچا دىتے ہىں۔ ابھى ہم نے سنا ہے کہ گولڑے والا پىراىک کتاب ہمارے برخلاف لکھنے والا ہے۔ سو ہم خوش ہوئے کہ اس کے مرىدوں مىں سے جس کو خبر نہ تھى، اس کو بھى خبر ہوجاوے گى اور ان کو ہمارى کتابوں کے دىکھنے کے لئے اىک تحرىک پىدا ہوگى۔

 (ملفوظات جلداول صفحہ359-360 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے برىلى

 چند روز ہوئے برىلى سے اىک شخص نے حضرت کى خدمت مىں لکھا۔ کىا آپ وہى مسىح موعود ہىں جس کى نسبت رسول خدا (صلى الله علىہ وسلم) نے احادىث مىں خبر دى ہے؟ خدا تعالىٰ کى قسم کھا کر آپ اس کا جواب لکھىں۔ مىں نے معمولاً رسالہ ’’ترىاق القلوب‘‘ سے دو اىک اىسے فقرے جو اس کا کافى جواب ہو سکتے تھے لکھ دئے۔ وہ شخص اس پر قانع نہ ہوا اور پھر مجھے مخاطب کر کے لکھا کہ مىں چاہتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؑ خود اپنے قلم سے قسمىہ لکھىں کہ آىا وہ وہى مسىح موعود ہىں جس کا ذکر احادىث اور قرآن شرىف مىں ہے؟ مىں نے شام کى نماز کے بعد دوات قلم اور کاغذ حضرت کے آگے رکھ دىا اور عرض کىا کہ اىک شخص اىسا لکھتا ہے۔ حضرت نے فوراً کاغذ ہاتھ مىں لىا اور ىہ چند سطرىں لکھ دىں۔

’’مىں نے پہلے بھى اس اقرار مفصل ذىل کو اپنى کتابوں مىں قسم کے ساتھ لوگوں پر ظاہر کىا ہے اور اب بھى اس پر چہ مىں اس خدا تعالىٰ کى قسم کھا کر کہتا ہوں، جس کے قبضہ مىں مىرى جان ہے کہ مىں وہى مسىح موعود ہوں، جس کى خبر رسول اللہ صلى الله علىہ وسلم نے ان احادىث صحىحہ مىں دى ہے جو صحىح بخارى اور صحىح مسلم اور دوسرى صحاح مىں درج ہىں۔ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَھِىْدًا۔‘‘

الرقم مرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ و اىدہ 17/اگست1899ء

(ملفوظات جلداول صفحہ298 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے بھو پال

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
ان لوگوں نے اپنى راؤں اور خىالوں کوداخل کر کےاصل امر کو بدنمابنانے کى کوشش کى ہے، ان کى وہى مثال ہے مَا دَلَّہُمۡ عَلٰى مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ (سبا: 15) ىعنى سلىمان کى موت پر دلالت کرنے والا کوئى امر نہ تھا۔ ىہ سارى شرارت گو ىا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ کى تھى کہ اس نے عصا کھالىا اور وہ گر پڑا۔ خدا تعالىٰ نے جو کچھ فرماىا ہے وہ سچ ہے۔ ىہ قصے اور داستا نىں نہىں ہىں۔ بلکہ ىہ حقائق اور معارف ہىں اسلام راستى کا عصا تھا۔ جو اپنے سہارے کھڑا تھا اور اس کے سامنے کوئى آرىہ، ہندو، عىسائى دم نہ مار سکتا تھا، لىکن جب سے ىہ دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ پىدا ہوئے اور انھوں نے قرآن کو چھوڑ کر موضوع رواىتوں پر اپنا انحصاررکھا۔ اس کا نتىجہ ىہ ہوا کہ ہر طرف سے اسلام پر حملے ہونے شروع ہو گئے۔ دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ کے معنے اصل مىں ىہ ہىں کہ اىک دىمک ہوتى ہے جس مىں کوئى خىر نہىں جولکڑى اور مٹى وغىرہ کو کھا جاتى ہے۔ اس مىں فنا کا مادہ ہے اور اچھى چىز کو فنا کر نا چاہتى ہے۔ اس مىں آتشى ماده ہے

ا ب اس کا مطلب ىہ ہے کہ دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ اس وقت کے علماء ہىں جو جھوٹے معنے کرتے ہىں اور اسلام پر جھوٹے الزام لگاتے ہىں۔ جىسا کہ حضرت عىسٰى علىہ السلام کى عظمت کو حد سے بڑھاتے ہىں اور ان کو خدا تعالىٰ کى صفات سے متصف قرار دىتے ہىں۔ جبکہ ان کو محى اور شافى، عالم الغىب، غىر متغىر وغىرہ مانتے ہىں اور اىسا ہى اسلام پر ىہ جھوٹا الزام لگاتے ہىں کہ وہ تلوار کے بد وں نہىں پھىلا۔ بھوپال کے اىک مُلا بشىر نے مجھے دجال کہا، حالانکہ ىہ لوگ خوددخال ہىں جو مجھے کہتے ہىں۔ کىونکہ وہ حق کو چھپاتے ہىں اور اسلام کو بدنام کرتے ہىں۔ غرض عصائے اسلام جس کے ساتھ اسلام کى شوکت اور رعب تھا اور جس کے ساتھ امن اور سلامتى تھى اس دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ نے گرادىا۔ پس جىسے وه دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تھا۔

ىہ اس سے بد تر ہىں۔ اس سے تو صرف ملک مىں فتنہ پڑا تھا مگر ان سے دىن مىں فساد پىدا ہوا اور اىک لاکھ سے زائد لوگ مرتد ہو گئے۔ اىک وہ وقت تھا کہ اگر اىک مرتد ہو جاتا، تو گوىا قىامت آ جاتى تھى ىا اب ىہ حال ہے کہ اىک لاکھ سے زىادہ مرتد ہو گىا اور کسى کو خىال بھى نہىں کئى کروڑ کتابىں اسلام کے خلاف نبى کرىم صلى اللہ علىہ وسلم کى توہىن اور ہجو مىں لکھى گئى ہىں۔ لىکن کسى کو خبر تک بھى نہىں کہ کىا ہورہا ہےاپنے عىش وعشرت مىں مشغول ہىں اور دىن کو اىک اىسى چىز قرار دے دىا ہے جس کا نام بھى مہذب سوسائٹى مىں لىا جانا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ىہى وجہ ہے کہ اسلام پر جو اعتراض طبعى فلسفہ کے رنگ مىں کىے جاتے ہىں ان کا جواب ىہ لوگ نہىں دے سکتے اور کچھ بھى بتا نہىں سکتے، حالانکہ اسلام پر جو اعتراض عىسائى کرتے ہىں۔ وہ خود ان کے اپنے مذہب پر ہوتے ہىں سب سے بڑا اعتراض جہاد پر کىا جاتا ہے۔ لىکن جب غور کىا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ىہ اعتراض خود عىسائىوں کے مسلمات پر پڑتے ہىں۔ اسلام نے جہاد کو اٹھاىا اسلام پر اعتراض نہىں۔ ہاں وہ اپنے گھر مىں موسىٰ علىہ السلام کى لڑائىوں کا کوئى جواب نہىں دے سکتے اور خود عىسائىوں مىں جو مذہبى لڑائىاں ہوئى ہىں اور اىک فرقہ نے دوسرے فرقہ کوقتل کىا۔ آگ مىں جلاىا اور دوسرى قوموں پر جو کچھ ظلم و ستم کىا جىسا کہ سپىن مىں ہوا۔ اس کا کوئى جواب ان عىسائىوں کے پاس نہىں ہے اور قىامت تک ىہ اس کا جواب نہىں دے سکتے۔

ىہ بات بہت درست ہے کہ اسلام اپنى ذات مىں کامل، بے عىب اور پاک مذہب ہے۔ لىکن نادان دوست اچھا نہىں ہوتا۔ اس دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ نے اسلام کو نادان دوست بن کر جو صدمہ اور نقصان پہنچاىا ہے۔ اس کى تلافى بہت ہى مشکل ہے،لىکن اب خدا تعالىٰ نے ارادہ فرماىا ہے کہ اسلام کا نور ظاہر ہوا اور دنىا کو معلوم ہو جاوے کہ سچا اور کامل مذہب جو انسان کى نجات کا متکفل ہے۔ وہ صرف اسلام ہے اس لىے خدا تعالىٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرماىا:۔

بخرام کہ وقت تو نزدىک رسىد و پائے محمد ىاں بَرمنار بلند تر محکم اُفتاد

لىکن ان ناعاقبت اندىش نادان دوستوں نے خدا تعالىٰ کے سلسلہ کى قدر نہىں کى۔ بلکہ ىہ کوشش کرتے ہىں کہ ىہ نور نہ چمکے ىہ اس کو چھپانے کى کوشش کرتے ہىں۔ مگر وہ ىاد رکھىں کہ خدا تعالىٰ وعدہ کر چکا ہے وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ (الصف: 9)۔

(ملفوظات جلددوم صفحہ508-510 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے ناگپور

 حضرت اقدس حسب معمول وقت مقررہ پر سىر کو نکلے۔ ابتدائے گفتگومىں فرماىا:۔

 ہزارہابد بخت لوگوں سے قبرىں بھرى پڑى ہىں۔ ہزاروں نامراد

 بادشاہ ان مىں ہىں۔ ہزاروں ہى بے نصىب ان مىں پڑے ہىں۔ انسان اگر اپنے ہى خاندان کى موت پر قىاس کرے تو عبرت حاصل کر سکتا ہے۔ عمر کا سلسلہ اپنے خاندان سے معلوم کر سکتا ہے۔ بعض خاندان اىسے ہوتے ہىں کہ ان کى عمرىں پچاس تک پہنچتى ہىں۔ ناگپور اور مما لک متوسطہ کى طرف عمرىں بہت ہى چھوٹى ہوتى ہىں۔ اس طرف بھى دىکھا گىا ہے کہ بعض خاندانوں کى عمرىں چھوٹى ہوتى ہىں۔ اصل ىہ ہے کہ ىہ بھىد کسى کو معلوم نہىں ہوا۔ انگرىز محقق ناحق ٹکرىں مارتے پھرتے ہىں کہ زمىنداروں کى عمرىں زىادہ ہوتى ہىں ىا دماغى محنت کرنے والوں کى۔ ىہ صرف خىالى باتىں ہىں۔

انسان کى عمر بہت چھوٹى ہوتى ہے۔ بعض حىوانات کى عمرىں بہت بڑى ہوتى ہىں۔ مثلا کچھوہ کى عمر پا نچ ہزار برس تک ہوتى ہے۔ اس لىے اس کو عربى مىں غىلم کہتے ہىں۔ کىونکہ ىہ گوىا ہمىشہ ہى جوان رہتا ہے۔ سانپ کى عمر بھى بڑى ہوتى ہے۔ ہزار ہزار برس تک۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ181جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے مردان

 ہمارے ناظر ىن منشى شاہدىن صاحب سٹىشن ماسٹر مردان سے خوب واقف ہىں وہ اس سلسلہ مىں قابل قدر شخص ہىں تبلىغ اور اشاعت کا سچا شوق رکھتے ہىں جہاں جاتے ہىں اىک جماعت ضرور بنا دىتے ہىں۔ الحکم خاص معاونىن مىں سے ہىں بہر حال ناظرىن ىہ بھى جانتے ہىں کہ مردان مىں بعض شرىر النفس لوگوں کى طرف سے ان کو سخت اىذائىں دى گئىں اور آخر ان کى شرارت سے ان کى تبدىلى ہوگئى۔ حضرت اقدس کے حضور جب ان کى تکالىف اور مصائب کا ذکر ہوا تھا تو آپ نے صبر اور استقامت کى تعلىم دى تھى جس کا نتىجہ ىہ ہوا کہ آخر خدا تعالىٰ نے اظہارحق کىا۔ افسران بالا دست نے بدوں کسى قسم کى تحرىک کے جو منشى صاحب کى طرف سے کى جاتى از خود اس مقدمہ کى تفتىش کى اور انجام کارمنشى شاہدىن صاحب ترقى پر گو جر خان اىک عمدہ سٹىشن پر تبدىل ہوئے اور ان کے متعلق بہت ہى اطمىنان بخش رائے افسروں نے قائم کى۔ غرض جب منشى صاحب کى اس کامىابى کا ذکر ہوا فرماىا۔

عاقبت متقى کے لئے ہے۔ برگردن او بماند و بر ما بگذشت والا معاملہ ہو گىا۔ خدا تعالىٰ نىک نىت حاکم کو اصلىت سمجھا دىتا ہے اگر اصلىت نہ سمجھىں تو پھر اند ھىر پىدا ہو۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ312 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے بہلول پور

 چوہدرى عبد اللہ خان صاحب نمبر دار بہلول پور نے سوال کىا کہ حکام اور برادرى سے کىا سلوک کرنا چاہىے۔

فرماىا : ہمارى تعلىم تو ىہ ہے کہ سب سے نىک سلوک کرو۔ حکام کى سچى اطاعت کرنى چاہىے کىونکہ وہ حفاظت کرتے ہىں۔ جان اور مال ان کے ذرىعہ امن مىں ہے اور برادرى کے ساتھ بھى نىک سلوک اور برتاؤ کرنا چاہىے کىونکہ برادرى کے بھى حقوق ہىں البتہ جومتقى نہىں اور بدعات و شرک مىں گرفتار ہىں اور ہمارے مخالف ہىں ان کے پىچھے نماز نہىں پڑھنى چاہىے تا ہم ان سے نىک سلوک کرنا ضرور چاہىے۔ ہمارا اصول تو ىہ ہے کہ ہر اىک سے نىکى کرو۔ جو دنىا مىں کسى سے نىکى نہىں کر سکتا وہ آخرت مىں کىا اجرلے گا۔ اس لىے سب کے لىے نىک اندىش ہونا چاہىے۔ ہاں مذہبى امور مىں اپنے آپ کو بچانا چاہىے۔ جس طرح پر طبىب ہر مرىض کى خواہ ہندو ہو ىا عىسائى ىا کوئى ہو غرض سب کى تشخىص اور علاج کرتا ہے۔ اسى طرح پر نىکى کرنے مىں عام اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہىے۔

اگر کوئى ىہ کہے کہ پىغمبر خدا صلى اللہ علىہ وسلم کے وقت مىں کفار کو قتل کىا گىا تو اس کا جواب ىہ ہے کہ وہ لوگ اپنى شرارتوں اور اىذارسانىوں سے بہ سبب بلاوجہ قتل کر نے مسلمانوں کے مجرم ہو چکے تھے۔ ان کو جو سزاملى وہ مجرم ہونے کى حىثىت سے تھى۔ محض انکار اگر سادگى سے ہو اور اس کے ساتھ شرارت اور اىذارسانى نہ ہو تو وہ اس دنىا مىں عذاب کا موجب نہىں ہوتا۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ118 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے قاضى کوٹ

 قاضى محمد عالم صاحب سکنہ قاضى کوٹ نے اپنى بىمارى کے اىام مىں قاضى ضىاء الدىن صاحب سکنہ قاضى کوٹ کو جو قادىان مىں تھے حضرت اقدس کى خدمت مىں دعا کے لئے عرض کرنے کو لکھا جس پر حضرت مسىح موعودؑ نے فرماىا:
’’مىں ضرور دعا کروں گا۔ آپ محمد عالم کوتسلى دىں۔ احمد شاہ کى طرف وہم کے طور پر بھى خىال نہ لے جاوىں۔ واقعى وہ کچھ بھى نہىں۔ ىہ وسوسہ شرک سمجھىں۔ عوام کابہکانا،طعن و تشىع جتنا اثر کرے گا اسى قدر اپنے راستہ کو خالى تصور کرىں۔ کامل ىقىن والوں کو شىطان چھو بھى نہىں سکتا۔ مىرا تو ىقىن ہے کہ حضرت آدم کى استعداد مىں کسى قدر تساہل تھا۔ تب ہى تو شىطان کو وسوسہ کا قابو مل گىا۔ وَاللّٰہِ! اگر اس جگہ حضرت محمد رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم جوہر قابل کھڑا کىا جاتا تو شىطان کا کچھ بھى پىش نہ جاتا۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ81-82 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے کوٹ کپورہ

 اىک ہندو فقىر کوٹ کپورہ سے آىا ہوا تھا جو آج صبح بھى ملا تھا۔ اس وقت پھر اس نے سلام کىا۔ حضرت اقدس نے نہاىت شفقت سے فرماىا کہ:۔
ىہ ہمارا مہمان ہے اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کردىنا چاہىے۔

چنانچہ اىک شخص کو حکم دىا گىا اور وہ اىک ہندو کے گھر اس کو کھانا کھلانے کے لئے لے گىا۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ204 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے دھرم کوٹ

 مولوى عبداللہ صاحب کشمىرى نے دھرم کوٹ مىں جو ان کا مباحثہ ہوا تھا اس کا مختصر سا تذکرہ کىا اور مہر نبى بخش صاحب بٹالوى کا بھى ذکر کىا کہ وہ وہاں آئے تھے اور انہوں نے اىک مختصر سى تقرىر کى تھى۔ مولوى عبداللہ صاحب نے کہا کہ وہ بار بار ىہ اعتراض کرتے تھے کہ مرزا صاحب کا نام قرآن سے نکال کر دکھاؤ اس پر حضرت اقد س نے فرماىا کہ:۔
وہ احمق نہىں جانتے کہ اگر خدا تعالىٰ اىسے صاف طور پر کہتا تو اختلاف کىوں ہوتا؟ ىہودى اسى طرح تو ہلاک ہو گئے۔ بات ىہ ہے کہ اگر خدا اس طرح پر پردہ بر انداز کلام کرے تو اىمان اىمان ہى نہ رہے۔ فراست سے دىکھنا چاہىے کہ حق کىا ہے؟ہمارى تائىد مىں تو اس قدر دلائل ہىں کہ فراست والا سىر ہوکر کہتا ہے کہ ىہ صحىح ہے۔

 (ملفوظات جلدسوم صفحہ205 جدىد اىڈىشن)

ارشاد برائے ٹانڈہ

 اىک مرتبہ اىک شخص مىرے پاس نور محمد نام ٹانڈہ سے آىا تھا۔ اس نے کہا کہ غلام محبوب سبحانى نے ولى ہونے کا سرٹىفکىٹ دے دىا ہے۔ اب ولاىت کا معىار ىہى رہ گىا ہے کہ غلام محبوب سبحانى ىا کسى نے سر ٹىفکىٹ دے دىا۔ حالانکہ ولاىت ملتى نہىں جب تک انسان خدا کے لئے موت اختىار کرنے کے لئے طىار نہ ہو جاوے۔ دنىا مىں بہت سے لوگ اس قسم کے ہىں جن کو کچھ بھى معلوم نہىں کہ وہ دنىا مىں کىوں آ ئے ہىں۔ حالانکہ ىہى پہلا سوال ہے جس کو اسے حل کرنا چاہىے۔ خود شناسى کے بعد خدا شناسى پىدا ہوتى ہے جب وہ اپنے فرائض کو سمجھتا ہے اور مقاصد زندگى پر غور کرتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ مىرى زندگى کى غرض خدا شناسى ہے اور اس پر اىمان لاتا اور اس کى عبادت کرتا ہے۔ تب وہ فرائض کو ادا کرتا اور نوافل کو شناخت کرتا ہے۔ و ہ روحانىت جو اىمان کے بعد پىدا ہوتى ہے اب اسے تلاش کرو کہ کہاں ہے؟ نہ مولوىوں مىں ہے نہ راگ سننے والے صوفىوں مىں۔ ىہ گوسالہ صورت ہىں روحانىت سے بے خبر ہو کر ہزار سال تک بھى اگر نعرے مارتے رہىں تو کچھ نہىں بنتا۔ ىہ لُحُوْم اور دِمَاء ہىں تقوىٰ نہىں، پھر لُحُوْم اور دِمَاء اللہ تعالىٰ کو کىسے پہنچ سکتا ہے۔

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ87-88 جدىد اىڈىشن)

ارشادات برائے على گڑھ

 اىک على گڑھى طالب العلم نے اپنى حالت کا ذکر کىا کہ نماز مىں سستى ہو جاتى ہے اور مىرے ہم مجلسوں نے اس پر اعتراض کىا اور ان کے اعتراض نے مجھے بہت کچھ متاثر کىا اس لىے حضور کوئى علاج اس سستى کا بتائىں۔

فرماىا:۔ جب تک خوفِ الہٰى دل پر طارى نہ ہوگناہ دور نہىں ہوسکتا اور پھر ىہ بھى ضرورى ہے کہ جہاں تک موقع ملے ملاقات کرتے رہوہم تو اپنى جماعت کو قبر کے سر پر رکھنا چاہتے ہىں کہ قبر ہر وقت مدنظر ہو لىکن جو اس وقت نہىں سمجھے گا وہ آخر خداتعالىٰ کے قہرى نشان سے سمجھے گا۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ251 جدىد اىڈىشن)

 حضرت اقدس حسب دستور سىر کے لئے تشرىف لائے اور روانہ ہوتے ہى عرب صاحب نے انگر ىز ى قطع وضع پر کچھ ذکر چھىڑا۔ حضرت اقدس نے فرماىا کہ:۔
انسان کو جىسے باطن مىں اسلام دکھلا نا چا ہىے وىسے ہى ظاہر مىں بھى دکھلا نا چاہىے۔ ان لوگوں کى طرح نہ ہونا چاہىے کہ جنہوں نے آجکل علىگڑھ مىں تعلىم پاکر کوٹ پتلون وغىرہ سب کچھ ہى انگرىزى لباس اختىار کر لىا ہے حتى کہ وہ پسند کرتے ہىں کہ ان کى عورتوں کى وضع بھى انگرىز ى عورتوں کى طرح ہو اور وىسے ہى لباس وغىرہ وہ پہنىں۔ جو شخص اىک قوم کے لباس کو پسند کرتا ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس قوم کو اور پھر ان کے دوسرے اوضاع و اطوار اور حتى کہ مذہب کو بھى پسند کرنے لگتا ہے۔ اسلام نے سادگى کو پسند کىا ہے اور تکلفات سے نفرت کى ہے۔

چھرى کانٹے سے کھانے پر فرماىا کہ :۔
شرىعت اسلام نے چھرى سے کاٹ کر کھانے سے تو منع نہىں کىا۔ ہاں تکلف سے اىک بات ىا فعل پر زور ڈالنے سے منع کىا ہے۔ اس خىال سے کہ اس قوم سے مشابہت نہ ہو جاوے ورنہ ىوں تو ثابت ہے کہ آنحضرتؐ نے چھرى سے گوشت کاٹ کر کھاىا۔ اور ىہ فعل اس لئے کىا کہ تا امت کو تکلىف نہ ہو۔ جائز ضرورتوں پر اس طرح کھانا جائز ہے۔ مگر بالکل اس کا پابند ہونا اور تکلف کرنا (اور کھانے کے دوسرے طرىقوں کو حقىر جاننا) منع ہے کىونکہ پھر آہستہ آہستہ انسان کى نوبت تتبع کى ىہاں تک پہنچ جاتى ہے۔ کہ وہ ان کى طرح طہارت کرنا بھى چھوڑ دىتا ہے۔

مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ سے مراد ىہى ہے کہ التزاماً ان باتوں کو نہ کرے ورنہ بعض وقت اىک جائز ضرورت کے لحاظ سے کر لىنا منع نہىں ہے جىسے کہ بعض دفعہ کام کى کثرت ہوتى ہے اور بىٹھے لکھتے ہوتے ہىں تو کہہ دىا کرتے ہىں کہ کھانا مىز پر لگا دو اور اس پر کھا لىتے ہىں اور صف پر بھى کھا لىتے ہىں۔ چار پائى پر بھى کھا لىتے ہىں تو اىسى باتوں مىں صرف گذارہ کو مدنظر رکھنا چاہىے۔

تشبىہ کے معنے اس حدىث مىں ىہى ہىں کہ اس لکىر کو لازم پکڑ لىنا۔ ورنہ ہمارے دىن کى سادگى تو اىسى شے ہے کہ جس پر دىگر اقوام نے رشک کھاىا ہے اور خواہش کى ہے کہ کاش ان کے مذہب مىں ىہ ہوتى اور انگرىزوں نے اس کى تعرىف کى ہے اور اکثر اصول ان لوگوں نے عرب سے لے کر اختىار کئے ہىں مگر اب رسم پرستى کى خاطر وہ مجبور ہىں۔ ترک نہىں کر سکتے۔

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ48-49 جدىد اىڈىشن)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

مدرسہ بزبان جولا فون برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 نومبر 2021