• 14 مئی, 2024

گھبراؤ نہیں، میں کوئی جابر بادشاہ نہیں۔ میں تو ایک عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی (حدیث)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر عملی اصلاح میں ہم سو فیصد کامیاب ہو جائیں تو ہماری لڑائیاں اور جھگڑے اور مقدمے بازیاں اور ایک دوسرے کو مالی نقصان پہنچانے کی کوششیں، مال کی ہوس، ٹی وی اور دوسرے ذرائع پر بیہودہ پروگراموں کو دیکھنا، ایک دوسرے کے احترام میں کمی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش، یہ سب برائیاں ختم ہو جائیں۔ محبت، پیار اور بھائی چارے کی ایسی فضا قائم ہو جو اس دنیا میں بھی جنت دکھا دے۔ یہ ایسی برائیاں ہیں جو عملاً ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ جماعت کے اندر بھی بعض معاملات ایسے آتے رہتے ہیں، اس لئے میں نے ان کا ذکر کیا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہم میں پیدا ہو جائے تو خدمت دین کے اعلیٰ مقصد کو ہم فضل الٰہی سمجھ کر کرنے والے ہوں گے۔ میری اس بات سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم خدمت دین کو تو فضل الٰہی سمجھ کر ہی کرتے ہیں لیکن سو فیصد عہدیداران اس پر پورا نہیں اترتے۔ میرے سامنے ایسے معاملات آتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عہدیداروں میں وسعت حوصلہ اور برداشت کی طاقت نہیں ہے۔ کسی نے اونچی آواز میں کچھ کہہ دیا تو اپنی انا اور عزت آڑے آ جاتی ہے۔ کبھی جھوٹی غیرت کے لبادے اوڑھ لئے جاتے ہیں۔ پس کسی کام کو فضل الٰہی سمجھ کر کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر بات برداشت کرتا ہے۔ اپنی عزت کے بجائے ’’اَلْعِزَّۃُ لِلّٰہِ‘‘ کے الفاظ اسے عاجزی اور انکساری پر مجبور کرتے ہیں۔ پس اگر باریکی سے جائزہ لیں تو پتہ چلے کہ ’’بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 18) پر عمل نہیں ہو رہا۔ کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی انانیت کی رگ پھڑک اٹھتی ہے۔ کسی نہ کسی رنگ میں تکبر آڑے آ جاتا ہے۔ ’’تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں‘‘ سے ہم ذوقی حظّ تو اٹھاتے ہیں۔ ہم یہ مثال تو دیتے ہیں کہ ہم اس شخص کی بیعت میں شامل ہیں جس کو خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں۔‘‘ (تذکرہ صفحہ595 ایڈیشن چہارم)۔ لیکن ہم آگے یہ نہیں دیکھتے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو بھی یہ تعلیم دی تھی کہ اگر تمہیں مجھ سے کوئی تعلق ہے تو تم بھی یہی رویہ اپناؤ۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ28 ایڈیشن 2003ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمایا کہ:میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے احیائے نو کے لئے آیا ہوں (ماخوز از ملفوظات جلد اول صفحہ 490 ایڈیشن 2003ء) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تو ہمارے سامنے یہ نمونہ رکھتا ہے کہ آپ کا غلام بھی کہتا ہے کہ مجھ سے کبھی آپ نے سخت الفاظ نہیں کہے، کبھی سخت بات نہیں کہی اور پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب سے ایک شخص پر کپکپی طاری ہو گئی تو فرمایا۔ ’’گھبراؤ نہیں، میں کوئی جابر بادشاہ نہیں۔ میں تو ایک عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘ (سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب القدید حدیث نمبر 3312)

پس یہ وہ عمل ہے جس کا عملی اظہار ہر عہدیدار کو اپنی عملی زندگیوں میں کرنے کی ضرورت ہے، ہر جماعتی کارکن کو اپنی عملی زندگی میں کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو اپنی عملی زندگیوں میں کرنے کی ضرورت ہے۔ پس اگر کوئی عہدہ ملتا ہے، کوئی خدمت ملتی ہے تو ہمیشہ مسیح محمدی کے اس فرمان کو سامنے رکھنا چاہئے کہ:

’’میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ20)

پس جب ہم اپنی عملی حالتوں میں بیکسی، غربت اور بے ہنری کے اظہار پیدا کریں گے تو پھر ہی خدمت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں گے اور ’’شاید کہ اس سے دخل ہو دارالوصال میں‘‘ کی امید رکھنے والے بھی ہوں گے۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ 18) اگر یہ نہیں تو ہم دعوے کی حد تک تو بے شک درست ہوں گے کہ زمانے کے امام کو مان لیا لیکن حقیقت میں زبان حال سے ہم دعوے کا مذاق اڑا رہے ہوں گے۔ کسی غیر کی دشمنی ہمیں نقصان نہیں پہنچا رہی ہو گی بلکہ خود ہمارے نفس کا دوغلا پن ہمیں رسوا کر رہا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر مستزاد ہے۔

(خطبہ جمعہ 6 دسمبر 2013ء بحوالہ خطبات مسرور جلد11 صفحہ276-278)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 نومبر 2022