• 30 اپریل, 2024

Another Allah Mian’s Garden

خاکسار یو۔کے میں احمدیہ قبرستان گوڈا لمنگ (Godalming) سے چند منٹوں کی واک پر رہائش پذیر ہے۔ اس سے قبل ایک اداریہ میں خاکسار لکھ آیا ہے کہ یہ عیسائیوں کاایک بہت بڑا قبرستان ہے جس کے ایک حصہ میں جماعت احمدیہ کے قبرستان کے دو حصے ہیں جن میں سے ایک قطعہ موصیان ہے۔ ہم میاں بیوی کبھی کبھار سیر کرتے اور کبھی نیت کے ساتھ اس قبرستان میں جاتے ہیں اور مرحومین اور ان کے لواحقین کے لئے دعا کرتے ہیں۔ کبھی کبھار ہمارے ساتھ ہمارا پیارا پوتا عزیزم زوحان احمد سلمہ اللہ بعمر چار سال بھی ہوتا ہے اور وہ بھی دعا میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کے ٹوٹے پھوٹے سوالات جو قبرستان کے حوالے سے اس کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں کے جوابات دینے کا بھی موقع ملتا رہتا ہے۔

گزشتہ دنوں ہم کار میں سوار کسی جگہ سے گزر رہے تھے کہ ہمارے بائیں جانب ایک اور قبرستان گزرا جسے عزیزم زوحان احمد سلمہ اللہ دیکھتے ہی اپنے ابا سے مخاطب ہو کر بولا Abu! Another Allah Mian’s Gardenکہ ابو! یہ ایک اور اللہ تعالیٰ کا باغ ہے۔

میں نے یہ الفاظ سنتےہی اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا کہ دیکھو !ایک چار سالہ بچہ ایک چھوٹے سے فقرہ میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق چھوڑ گیا ہے اور مجھے اداریہ کے لئے ایک عنوان بھی بہم پہنچاگیا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو’’ اللہ میاں کے گارڈن ‘‘کے الفاظ اپنے اندر بہت گہرے معانی رکھتے ہیں۔ اول تو اللہ کے ساتھ’’ میاں‘‘ کے الفاظ گارڈن سے پیار و محبت کو بڑھا رہے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں میں اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھانے کے لیے’’ اللہ میاں ‘‘ کا لفظ استعمال کرتی ہیں۔ جب یہ گارڈن اس پیار بھری ہستی کی طرف منسوب ہو رہا ہو تو اس کی عظمت، اس کی خوبصورتی اور اس کے مقام و مرتبہ کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گارڈن، اس باغیچہ اور باغ کو کہتے ہیں جو رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا ہو۔ گھنے درختوں کی چھاؤں لوگوں کو آرام و استراحت کی دعوت دے رہی ہو۔ پانی کے نلکے(Taps) جگہ جگہ لگے ہوں۔ جہاں لوگ چہل پہل بھی کر رہے ہو ں اور سیر بھی ہو رہی ہو اور یہ سارا ماحول انسان کو آرام و سکون پہنچا رہا ہوتا ہے۔

قبرستان کو اگر گارڈن سے تشبیہ دی جائے تو یہ وہ جگہ ہوتی ہے جس میں امت کے بڑے بڑے درخت نما بزرگوں کو مٹی میں چھپا دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ کسی نے ایک بزرگ کی وفات پر کہا کہ:

‘‘The Shadow of the tree is recognised when it is cut down.’’

درخت کے سایہ کی اہمیت اس وقت پتہ چلتی ہے جب وہ کاٹا جاتا ہے۔ پھر بہت پیارے اور خوبصورت پھولوں جیسے بچے اس میں دفن کر دیے جاتے ہیں جیسا کہ کسی بچے کی وفات پر شاعر شیخ ابراہیم ذوق نے کہا تھا اور یہ شعر بچوں کے مزاروں پر لکھا بھی ہوتا ہے۔

پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

حضرت مصلح موعودؓ نے اس شعر کو تو ان نو نہالوں پر بھی چسپاں کیا ہے جن کی مائیں تربیت نہیں کرتیں اور وہ بچے ضائع چلے جاتے ہیں۔

ویسے تو آج کل قبرستانوں میں ظاہری پھول بھی ہوتے ہیں، درخت بھی ہوتے ہیں، پانی کےTaps بھی ہوتے ہیں اور وہاں جا کر طبائع اس طرح طراوٹ اور تروتازگی محسوس کرتی ہیں جیسے کہ باغوں میں جا کر طبائع میں خوشگوار ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اللہ میاں کے گارڈن میں جانے کا ایک اضافہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر دلوں میں پیدا ہوتا اور اپنی زندگیوں کو سنوارنے اور مزید بہتر کرنے کے راستے استوار ہوتے ہیں، انسان کو اس کے انجام کی نشاندہی ہوتی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستانوں میں داخلے کے لئے جو دعا سکھلائی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے۔ وہ دعا یوں ہے۔

اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَنَا وَلَكُمْ أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْأَثَرِ وَإِنَّا إِنْ شَآءَ اللّٰهُ بِكُمْ لَلَاحِقُوْنَ

(جامع ترمذی)

اے قبر والو! تم پر سلامتی ہو اللہ ہماری اور آپ کی مغفرت کے سامان مہیا فرمائے۔ آپ ہم سے آگے گزر گئے اور ہم آپ کے پیچھے پیچھے چلے آنے والے ہیں اور ان شاء اللّٰہ جلد آپ سے ملاقات ہوگی۔

احادیث میں یہ دعا مختلف الفاظ میں ملتی ہے۔ اس مغفرت کی دعا میں اپنے لئے مغفرت کا ذکر پہلے ہے اور مرحومین کی مغفرت بعد میں مانگی گئی ہے۔ قبرستانوں میں جاتے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کا جو ورد بار بار کیا جاتا ہے اس میں بھی اپنے خالق کو یاد کر کے اس کی طرف رجوع کرنے کے سامان پیدا ہوتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تدفین کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر حاضرین کو مخاطب ہو کر فرمایا کرتے تھے کہ اپنے بھائی کے لئے بخشش مانگو اور اس کی ثابت قدمی کے لئے دعا کرو کیونکہ اب اس سے سوال و جواب شروع ہونے والے ہیں۔

(حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمان مرحوم صفحہ 577)

حضرت عوف بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔آپؐ نے جو دعا مانگی وہ میں نے یاد کر لی۔ آپؐ نے دعا کی:اے ہمارے خدا ! تو اس کو بخش دے، اس پر رحم کر، اس کو عافیت دے اور اس کو معاف کر، اس کی جگہ عمدہ اور قابل عزت بنا، اس کی قبر وسیع کر، اس کو پانی اور برف اور اولوں سے غسل دے یعنی اسے ٹھنڈک پہنچا، اس کو گناہوں اور غلطیوں سے ایسا پاک کر جیسے میلا کپڑا دھونے کے بعد میل کچیل سے تو پاک صاف کر دیتا ہے اس کو اس دنیاوی گھر کے بدلے زیادہ بہتر گھر دے۔ اس دنیا کے اہل سے زیادہ بہتر اہل عطا فرما اور دنیا کی بیوی سے بہتر بیوی بخش اور اس کو جنت میں داخل کر، اسے قبر اور دوزخ کے عذاب سےبچا۔ آ پؐ کی یہ دعا اتنی پر اثر تھی کہ میں نے آرزو کی۔ اے کاش! یہ میرا جنازہ ہوتا!

(حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمان مرحوم صفحہ 572۔573)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبر اور قبر میں جزاء سزا پر اپنی معرکہ آراء کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک انسان کے مٹی میں دب جانے کے بعد قبر کے دائیں اور بائیں اطراف کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔ اگر وہ نیک اور جنتی ہو تو دائیں طرف سے ٹھنڈی اور خوشبودار ہوائیں آ کر اس کو سکون و آرام پہنچاتی ہیں۔ اس کے لئے تو واقعتًا یہ باغ ہی ہو گا اور اگراس مردے کے بد اعمال کا پلڑا بھاری ہے تو پھر بائیں طرف کی کھڑکی سے گرم ہوا کے جھونکے آنے شروع ہوتے ہیں۔ ہمیں جنازہ کی دعا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائی ہے اس پر اگر غور کریں تو ایسی جامع و مانع دعا ہے جس کے ساتھ ہم اپنے مردے کو رخصت کر کے ایمان پر مرنے کی دعا کرتے ہیں اور جو زندہ ہیں ان کے لئے اسلام پر رہنے کی دعا ہو رہی ہوتی ہے اور یہی وہ باغ ہیں جن میں ایک مومن کو داخل ہو کر چرنے اور سیر ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
’’ جب انسان مر جاتا ہےتو اس کے عمل ختم ہوجاتے ہیں، مگر تین عمل ختم نہیں ہوتے۔ اول صدقہ جاریہ، دوسرے ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، تیسرے ایسی نیک اولاد جو اس مرحوم کے لئے دعا کرے۔‘‘

(حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمان مرحوم صفحہ 577)

ہمارے بعض نام نہاد علماء نے اس مضمون کو ایسے بھیانک اور ڈراؤنے رنگ میں پیش کر کے اور پھر ان مضامین پر مشتمل کتب کے نام ایسے ڈراؤنے رکھ کر جیسے قبر کے خوفناک مناظر، مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے وغیرہ وغیرہ، لوگوں میں خوف ہی خوف پیدا کیا ہے۔ جبکہ اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے اور جزاء و سزا کا جو فلسفہ بیان کیا گیا ہے وہ اتنا حکیمانہ ہے کہ جہنم کو ہسپتال قرار دیا ہے جہاں علاج ہو کر بالآخر اس کی جگہ اسی سر سبز و شاداب گارڈن (جنت) کی ہے جس کے اندر چشمے اور نہریں بہتی ہوں گی اور ہر قسم کے پھل پھول میسر ہوں گے۔

گوڈالمنگ قبرستان میں مجھے ایک ادھیڑ عمر کی انگریز خاتون نے بتایا کہ اس قبرستان میں ہر دوسرا visitor اپنے ساتھ کتا لایا کرتا تھا مگر جب سے احمدیہ قبرستان یہاں بنا ہے کتوں کو ساتھ لانے کی ممانعت کردی گئی ہے۔ اب کوئی visitor اپنے ساتھ کتا نہیں لاتا۔ تو گویا یوں بھی جنت کا نظارہ پیش کرتا ہے۔

پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو حسین اعمال سے آراستہ کر کے اسلام احمدیت کے ایسے سر سبز درخت بن جائیں، ایسے خوشبودار پھول بن جائیں کہ ہمیں جب میت کے طور پر اس گارڈن کی طرف لے جایا جا رہا ہو تو ہماری میتوں سے اس گارڈن کو رونق ملے، مزید سر سبزی ملے نہ کہ سڑنے کا احساس ہو۔ ایک عرب شاعر کے مطابق کہ ایسے کام کر جا کہ تمہارے مرنے کے بعد تو ہنس رہا ہو اور تیرے پسماندگان رو رہے ہوں۔ اسی طرح جب تو پیدا ہوا تھا تو تُو رو رہا تھا اور تیرے ارد گرد لوگ ہنس رہے تھے۔

( ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 نومبر 2022