• 9 مئی, 2024

حضرت شيخ عبدالغفورؓ 

حضرت شيخ عبدالغفورؓ 
صحابی حضرت مسیح موعود عليہ السلام

خاکسار آج جس صحابی حضرت مسیح موعود عليہ السلام کا ذکر خير کرنا چاہتا ہے وہ حضرت شيخ عبدالغفورؓ آف گجرات شہر کا ہے۔ حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب خاکسار کی نانی جان مرحومہ نصرت بيگم صاحبہ کے والد محترم تھے۔ آپؓ کے بارے ميں جو روايات خاکسار نے سن کر اکٹھی کی ہيں وہ زيادہ تر آپؓ کی بڑی بيٹی مرحومہ ناصرہ بيگم صاحبہ نے بيان کی ہيں۔ ميری دلچسپی لينے اور بار بار پوچھنے پر آپ نےاپنے اباجی حضرت شيخ عبدالغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سيرت کے مختلف واقعات ميرے ساتھ شيئر کيے۔ حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب کی زندگی کےبارے ميں کچھ معلومات پہلے سے جماعت کے لٹريچر ميں محفوظ ہيں۔ (روز نامہ الفضل 24 ستمبر 1970ء-مارچ مصباح 1971ء-روز نامہ الفضل آن لائن 21 جنوری 2021ء اور تاريخ احمديت جلد 26) خاکسار احباب جماعت کی خدمت ميں آپؓ کی شخصيت کے چند پہلو کچھ اضافے کے ساتھ دعا کی غرض سے پيش کررہا ہے۔ الحمدللّٰہ۔

آباؤ ا جداد

حضرت شيخ عبدالغفور صاحبؓ کے خاندان کا آبائی وطن قصبہ سيدپور تحصيل نکڑضلع سہارنپور (انڈيا) تھا۔ آپؓ کے آباؤ اجداد پہلے بھلوال اور پھر گجرات شہر (پنجاب) ميں آکر آباد ہوئے۔آپؓ کے والد ماجد کا نام حضرت شيخ رحيم بخشؓ اور دادا جان کا نام حضرت شيخ الٰہی بخشؓ تھا۔ پيشے کے لحاظ سے دونوں تاجر تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کاروبار ميں برکت تھی۔ 1899ء ميں دونوں نے ايک ہی وقت ميں حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے زمانہ ميں ہی احمديت قبول کر نے کی سعادت حاصل کی۔ حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب کے خاندان کے بارے ميں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ايک موقعے پر فرمايا:
’’يہ ايک پرانا مخلص خاندان ہے ذرا اوپر جا کر يہ خاندان حضرت خلیفہ اولؓ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد3 صفحہ633)

خاکسار عرض کرنا چاہتا ہے کہ يہاں يہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندان اوپر جا کر والد کی طرف سے حضرت امیر الموٴ منین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور والدہ کی طرف سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔

(بدر 28 مارچ 1912ء)

خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب کے بزرگوں کو يہ سعادت بھی حاصل ہے کہ ان کی کوششوں کے ذر يعے گجرات کے ايک گاؤں شيخ پور ميں احمديت کا پودا لگا۔الحمدللّٰہ۔

آپؓ کے والد صاحب کا نام شيخ رحيم بخشؓ تھا۔آپ کے والد کے حالات زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہو سکی ہیں البتہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بہت حلیم اور رحمدل انسان تھے۔ جس کی دو مثاليں احباب جماعت کی خدمت ميں پيش ہيں۔ طاعون کے زمانے ميں محلے کی ايک لڑکی کو بھی طاعون ہو گئی۔وہ باہر چارپائی پر ليٹی تھی اور خوف کی بناء پر کوئی اسے اٹھا کر گھر کے اندر نہيں لے کر جا رہا تھا۔ آپؓ کام سے واپس گھر لوٹ رہے تھے تو آپؓ کی نظر اس پر پڑی کہ کوئی اس کی مدد نہيں کر رہا۔آپؓ نے یہ جانے بغير کہ اسے طاعون ہے مدد کی نيت سے فوراً اسے اٹھا کر گھر کے اندر لے گئے۔ اس بات کا علم آپؓ کو بعد ميں ہوا کہ اسے طاعون کا مرض تھا۔

ايک بار آپؓ قصبہ جلالپورجٹاں کی طرف جا رہے تھے۔ آپؓ کے ہمراہ ايک تحریر لکھنے کا ماہر بھی تھا۔ سر راہ سڑک کنارے ایک بیمار کتا پڑا ديکھا۔ کاتب سے ايک تختی پر لکھوايا ’’ ميں بيمار کتا ہوں ‘‘ اور اس کے پاس نصب کروا ديا اور کتے کے پينے کے لئے دودھ منگوا کر رکھ ديا۔

حضرت شيخ رحيم بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 1914ء يا 1915ء ميں ہوئی۔ حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب کی والدہ صاحبہ کا نام غلام فاطمہ تھا جو ايک نيک فطرت نماز و روزہ کی پا پند خاتون تھيں۔ جماعتی اجلاسات ميں شرکت کرتيں اور نماز جمعہ کے لئے باقاعدہ مسجد جا يا کرتی تھيں۔ حضرت شيخ عبدالغفور صاحبؓ کے تين چھوٹے بھائی تھے اور بہن کوئی نہيں تھی۔

آپؓ کی پيدائش

آپؓ کی پيدائش يکم جون 1900ء ميں گجرات شہر ميں ہوئی۔ آپؓ خدا تعالیٰ کے فضل سے پيدائشی احمدی تھے۔ 1906ء يا 1907ء ميں آپؓ نے اپنے دادا جان حضرت شيخ الٰہی بخشؓ صاحب کے ہمراہ حضرت مسیح موعود عليہ السلام سے قاديان ميں ملاقات کا شرف حاصل کيا۔ آپؓ کو اپنی اس ملاقات کا احوال اچھی طرح ياد رہا۔اس واقعے کی بنا پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ازراہ شفقت آپؓ کو صحابہ کے زمرہ ميں شامل فرمايا۔ (مارچ مصباح 1971ء) اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔

حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب ايک متقی اور پرہيزگار انسان تھے۔ آپؓ عہد طفوليت سے ہی ديندار، بے نفس، غيور اور جوشيلے داعی الی اللہ تھے۔ آپؓ کی ان صفات کی گواہی نہ صرف زندگی ميں بلکہ وفات کے بعد بھی آپؓ کے دوستوں اور عزيز و اقارب نے دی۔ آپؓ درميانے قد کے دبلے پتلے جسم اور سانولے رنگ کے مالک تھے۔ شلوار قميض اور سر پر جناح کيپ پہنا کرتے تھے۔

تعليم اور پيشہ

حصول تعليم کی غرض سے تعليم لاسلام ہائی سکول قاديان کی چھٹی جماعت ميں داخل ہوئے اور وہاں سے ميٹرک تک تعليم حاصل کی۔ جب آپؓ کے والد محترم کی وفات ہوئی تو آپؓ اس وقت نويں يا دسويں جماعت ميں پڑھ رہےتھے۔ چونکہ آپؓ اپنے بھائيوں ميں سب سے بڑے تھے اس لئے آپؓ کو بے حد فکر ہوئی کہ بھائی ابھی چھوٹے ہيں، والد صاحب کا کاروبار کون سنبھالے گا۔ آپؓ فرماتے تھے کہ ميں نے خدا تعالیٰ سے بہت دعا کی۔ چنانچہ مجھے خواب ميں دکھايا گيا:

70 = 5 * 14

اس خواب کے مطابق آپؓ نے ستر برس کی عمر پائی۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپؓ کو اپنی عمر کے بارے ميں بتا کر تسلی دی۔ لہذا تعليم حاصل کرنے کے بعد آپؓ بھی اپنے آباؤ اجداد کے پيشے سے منسلک ہو گئے اور والد صاحب کا کاروبار سنبھال ليا۔ حضرت شيخ عبدالغفور صاحبؓ گجرات شہر کے ايک مشہور تاجر تھے۔ ضلع گجرات ميں آپؓ کی سب سے بڑی پريس اور کتابوں کی دوکان شيخ الٰہی بخشؓ و شيخ رحيم بخشؓ بک سيلرز اينڈ پبليشرزکے نام سے مشہور تھی۔

پنجگانہ نماز، تہجد اور تلاو ت قرآن کريم

آپؓ جوانی سے لے کر آخری عمر تک باقاعدگی سے پنجگانہ نماز اورتہجدکے پابند رہے۔ سجدوں ميں بہت گريہ و زاری کرتے۔اپنی اولاد کو بھی نماز کی تلقين کرتے رہے۔ آپؓ بہت خوش الحانی سے قرآن کريم کی تلاوت کيا کرتے تھے۔ وفات کے وقت آپؓ کے پڑوس کی ايک خاتون تعزيت کےلئے آئيں اور بتايا کہ ميں ان کی تلاوت کی آواز سن کر ديوار کے ساتھ بيٹھ جايا کرتی تھی اور سنتی رہتی تھی۔ چندوں ميں باقاعدہ تھے۔ فرمايا کرتے تھے کہ ميں نے کبھی خدا کی راہ ميں گن گن کر نہيں ديا۔ جيب ميں ہاتھ ڈالنے پر جو آيا دے ديا۔اپنے بچوں کو بھی چندوں کی ادائيگی کی طرف توجہ دلاتے تھے۔ صدقہ و خيرات بہت کرتے۔تحريک جديد کے پہلے پانچ ہزار مجاہدين ميں بھی آپؓ کا نام شامل ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے نظام وصيت کی بابرکت تحريک ميں بھی شامل تھے۔ آپؓ کبھی کسی کی برائی نہيں کرتے تھے اگر آپؓ کو کوئی برا بھی کہتا تو خاموش ہو جا يا کرتے۔

انتخاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ

خلافت ثا نيہ کے انتخاب کے وقت آپؓ مدرسہ تعليم الاسلام قاديان ميں نويں جماعت کے طالب علم تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی بيماری کے آخری ايام تھے۔ حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب فرماتے تھے کہ ان دنوں ميرا دل کہتا تھا کہ مياں صاحب (صاحبزادہ مرزا بشيرالدين محمود احمدؓ ) اگلے خلیفہ ہوں گے اور اس بات کا اظہار ميں نے سکول کے لڑکوں کے سامنے کر ديا۔ لڑکوں ميں بات پھيلتے پھيلتے ہيڈ ماسٹر صاحب تک پہنچ گئی جس پر مجھے طلب کيا گيا۔ لڑکوں نے مجھے ٹانگوں اور بازؤں سےپکڑ کر دفتر تک پہنچايا۔ محترم ہيڈ ماسٹر صاحب نے سوال کيا:تمہيں يہ بات کس نے کہی ہے؟ آپؓ نے جواب ديا:ميرا دل کہتا ہے۔ اس پر ہيڈ ماسٹرصاحب نے آپؓ کو يہ کہہ کر چھوڑ ديا کہ ديکھو آئندہ ايسی بات نہ کرنا۔

جماعت احمديہ سے محبت

آپؓ ميں جماعت کی خدمت کرنے کا بے حد جذبہ موجود تھا۔ جماعت احمديہ گجرات ميں بطور سيکريٹری تعليم خدمت بجا لانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ کئی ديہات ميں جلسے بھی کروائے۔آپؓ بتايا کرتے تھے کہ ايک دفعہ حضرت مولوی شير علیؓ صاحب اور حضرت سيد ولی اللہ شاہؓ صاحب گجرات تشريف لائے۔ميرے جوش و ولولہ اور خدمت کو ديکھ کر ميرے کندھے کو تھپک کر فرمايا:ہميں ايسے ہی جوانوں کی ضرورت ہے۔خلفاء احمديت سے پيار و وفا کا گہرا تعلق رکھتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت ميں ہر روز دعا کا خط لکھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ديگر بزرگان جماعت کی خدمت ميں بھی دعا کے لئے درخواست کيا کرتےجن ميں حضرت مولانا غلام رسول راجيکیؓ ، حضرت حافظ مختار احمد شاہ جہاں پوریؓ اور درويشان قاديان شامل تھے۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے آپؓ کی پانچ بيٹياں تھيں مگر يہ ہر گز گوارہ نہ تھا کہ ان کی شادی کسی غير احمدی شخص سے کی جائے۔ حضرت مسیح موعود عليہ السلام کا اور خلفاء کرام کا ذکر بہت پيار و عقيدت سے کيا کرتے تھے۔ خلافت سے محبت کا يہ عالم تھا کہ آپؓ بتايا کرتے تھے کے ہم چار بھائی تھے سستا دور تھا ہم ہر ہفتے سینما جايا کرتے تھےمگر جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے احباب جماعت کو سینما جانے سےمنع فرمايا تو پھر ہم نے کبھی سینما کا رخ نہيں کيا۔

پاک و ہند کی تقسيم کی وجہ سے کاروبار متاثر ہوا اور آپؓ کے مالی حالات کمزور ہو گئے۔ جوں جوں جلسہ سالانہ ربوہ کا وقت قريب آتا جاتا تو بے چينی شروع ہو جاتی کہ جلسہ سالانہ پر جانا ہے مگر پيسے پاس نہيں ہيں۔ ليکن اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے آپؓ کے جانے کا کوئی نہ کوئی انتظام کر ديتا اور يوں آپؓ جلسہ سالانہ ربوہ پر حاضر ہو جاتے۔

مطالعہ کے شوقين

آپؓ مطالعہ کتب کے بے حد شوقين تھے۔ گھر ميں روحانی خزائن، تاريخ احمديت اور اصحاب احمد کے علاوہ ديگر دوسری کتب بھی موجود تھيں جن کا آپؓ مطالعہ کيا کرتے تھے۔ حضورؑ کی کتب کو کئی کئی بار بڑے شوق سے پڑھتے۔اپنے پڑوسيوں اور دوسرے لو گوں کو بھی پڑھنے کے لئے ديتے۔ايک بار آپؓ نے حضرت چوہدری فتح محمد سيالؓ صاحب کے بيٹے محترم چوہدری ناصر محمد سيال صاحب سے تاريخ احمديت جلد نمبر دس منگوائی۔ جب وہ لائے تو آپؓ کتاب ہاتھ ميں آتے ہی سب کچھ بھول گئے اور پڑھنے ميں اتنے محو ہوئے کہ انھيں چائے پانی تک پوچھنا بھول گئے۔ بدر اور الفضل بھی شروع سے گھر ميں لگوائی ہوئی تھی اور الفضل کے سپيشل نمبر کو جلد کروا کر رکھتے۔ آپؓ اردو اور پنجابی کے علاوہ عربی، فارسی اور انگلش زبانيں بھی جانتے تھے۔

تبليغ، مہمان نوازی اور خدمت خلق

آپؓ کو تبليغ کا بے حد شوق تھا۔ گھر ميں اکثر غير احمدی احباب کے ساتھ بحث و مباحثے کی محفليں لگتی تھيں۔ جب کبھی مولانا سلطان محمود انور صاحب مرحوم اور بدو ملہی کے مولوی غلام علی پگھ والے گھر تشريف لاتے تو ان دنوں غير احمدی احباب کو بھی گھر مدعو کيا جاتا اور مہمانوں کے کھانے پينے اور حقہ پانی کا انتظام بھی کيا جاتا۔ مرکز سے آنے والے مہمان آپؓ کے ہاں قيام کيا کرتے تھے۔ آپؓ کے والد صاحب حضرت شيخ رحيم بخشؓ کی وفات کے بعد آپؓ نے الفضل ميں ايک اشتہار شائع کروايا کہ جس طرح ميرے دادا اور والد صاحب کی زندگی ميں مرکز سے آنے والے مہمان ضرورت کے تحت ہمارے ہاں قيام کيا کرتے تھے اب بھی اسی طرح بزرگ تشريف لائيں۔ (روز نامہ الفضل 20 جنوری 1921ء) خورد و نوش کا بھی انتظام کيا جاتا تھا۔ جلسہ سالانہ قاديان پر جانے کے لئےگجرات شہر کے اردگرد کے علاقہ سے کئی گھرانےصبح وقت پر ٹرين پکڑنے کے لئے آپؓ کے ہاں رات قيام کيا کرتے تھے۔

آپؓ ايک غريب پرور، اپنوں اور غيروں کے ہمدرد تھے۔آپؓ کی توجہ غريبوں کی مدد کرنے پر ہر وقت مائل رہتی تھی اور جہاں تک ممکن ہوتا ان کی مدد کرتے۔ کبھی کسی غريب بچے کو اپنے خرچ پر سکول ميں داخلہ دلوايا تو کبھی کسی کو علاج کے لئے ڈی۔ايچ۔او ڈسپنسری ميں۔ آپؓ کی شادی سے پہلے کا واقعہ ہے کہ ايک رات عشاء کی نماز کے بعد ليٹنے پر دل ميں تحريک پيدا ہوئی کہ اٹھو کسی کوتمہاری ضرورت ہے۔ آپؓ اٹھے، گھر سے باہر نکلے اور ڈھونڈنا شروع کيا کہ کہيں کوئی ضرورت مند تو نہيں۔ سرکلر روڈ، کچری روڈ ہر طرف ديکھتے جاتے ليکن کوئی ضرورت مند نظر نہ آيا۔پھر آپؓ محلہ خواجگان کی طرف آئے۔ يہاں ايک چھوٹا سا کنواں تھا اور ہندؤں اور مسلمانوں کی دودھ دہی کی دوکانيں بھی تھيں۔ چکر لگا نے پر آپؓ کو ايک آدمی نظر آيا جو بھوکا تھا۔ آپؓ نے اسے دودھ لے کر پلايا اور پھر واپس گھر آئے۔اسی طرح جب آپؓ نے اپنا گھر بنا يا تو گھر کے باہر سڑک پر راہ گير وں کی سہولت کے لئے روشنی کا بھی انتظام کيا تا کہ انہيں رات کے وقت گزرنے ميں تکليف نہ ہو۔کچھ عرصہ کے بعد جب حکومت کی طرف سے بجلی کے پول لگوائے گئے تو آپؓ کے گھر کے سامنے بھی روشنی کا پول لگوايا گيا جس پر آپؓ بہت خوش ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے گھر کے سامنے روشنی کا مستقل بندوبست ہو گيا ہے۔

ايک دفعہ قريب کے ايک گاؤں ميں ايک موصی احمدی کی وفات ہو گئی۔جب آپؓ اس کے جنازہ ميں شامل ہونے کے لئے گئے تو معلوم ہوا کہ وہاں بکس بنانے اور مرحوم کی ميت کو قاديان لے جانے کا انتظام نہيں ہو رہا۔ مرحوم نے اسی غرض سے کچھ رقم آپؓ کے بھائی مکرم شيخ عبدالشکور صاحب مرحوم کے پاس رکھوائی ہوئی تھی۔ آپؓ نے اپنے ہمراہ ايک آدمی کو ليا بکس تيار کروايا اور مرحوم کی ميت کو قاديان لے جانے ميں مدد کی۔ جيا لال آپؓ کا ايک ہندو دوست تھا۔ وہ پاک و ہند کی تقسيم کے بعد ہندوستان چلا گيا۔ آپؓ کے حسن سلوک کی وجہ سےاس نے آپؓ کی وفات تک آپؓ کے ساتھ خط و خطابت کے ذريعے تعلق رکھا۔

شادی اور اولاد

حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب کے پھوپھا جان کيپٹن محمد سعيد صاحب اور آپؓ کے ہونے والے سسر حضرت لفٹيننٹ ڈاکٹر عبدالحکيمؓ صاحب دونوں سيالکوٹ ميں فوج ميں ملازم تھے۔ دوران ملازمت دونوں کی دوستی ہو گئی۔ حضرت ڈاکٹرؓ صاحب کا تعلق مردان صوبہ سرحد سے تھا۔ انہی ايام ميں حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب کے رشتے کی بات کيپٹن سعيد صاحب نے حضرت ڈاکٹرؓ صاحب سے کی جس پر آپؓ اپنی بيٹی کا رشتہ دينے پر راضی ہو گئے۔ مگر جب حضرت ڈاکٹرؓ صاحب نے اپنی اہليہ صاحب سلطان صاحبہ سے بات کی تو وہ پنجاب ميں رشتہ دينے پر راضی نہ تھيں۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب دور ہے اور ميری بيٹی بياہ کر بہت دور چلی جائے گی۔ اس پر حضرت ڈاکٹرؓ صاحب نے حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب سے وعدہ ليا کہ ہر روز مجھے اپنی بيٹی کی خيريت کا ايک پوسٹ کارڈ ڈالنا جس پر آپؓ راضی ہو گئے اور يوں آپؓ کی شادی خانہ آبادی حضرت لفٹيننٹ ڈاکٹر عبدالحکيمؓ  صاحب آف مردان کی بيٹی حسن آراء بيگم صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔ آپؓ نےاپنا يہ وعدہ آخری دم تک نبھايا اور ہر روز ايک کارڈ اپنی اہليہ کی خيريت کا ان کے والدين کو بھيجتے رہے۔آپؓ کا اپنے سسرال کے ساتھ ہميشہ ايک عزت اور پيار کا تعلق رہا۔ شادی کے چار سال تک اہليہ کی بيماری کی وجہ سے آپؓ کے گھر اولاد نہ ہو سکی۔ ايک روز حضرت مولانا غلام رسول راجيکیؓ صاحب آپؓ کے گھر تشريف لائے تو آپؓ نے اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی کہ مولوی صاحب ميری بيوی بيمار رہتی ہے اولاد کے لئے دعا کريں۔ حضرت مولانا صاحبؓ نے وہاں بيٹھے بيٹھے ہی کہا چلو دعا کر ليتے ہيں۔ آپؓ نے ہاتھ اٹھائے اور سب آپؓ کے ساتھ دعا ميں شامل ہو گئے۔ دعا کےاختتام پر حضرت مولانا غلام رسول راجيکیؓ صاحب نے فرمايا: ميں نے تو اس گھر ميں بچے ہی بچے ديکھے ہيں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی اس بات کو شرف قبوليت بخشا اور آپؓ کو بارہ بچوں سے نوازا جن ميں سے دو چھوٹی عمر ميں وفات پا گئے۔ آپؓ کے پانچ بيٹے اور پانچ بيٹياں تھيں اور سب نے خدا تعالیٰ کے فضل سے لمبی عمر پائی۔

تربيت اولاد

آپؓ نے بچوں کی چھوٹی عمر سے ہی تربيت کا خيال رکھا۔گھر کا ماحول دينی تھا۔ نماز کی پابندی کرواتے تھے۔ نماز کی ادائيگی کے معاملے ميں آپؓ بچوں کو کہتے کہ صبح کی نماز کے لئے وقت پر اگر کوئی نہ اٹھا تو ميں چارپائی الٹ دوں گا اور بعض دفعہ بچوں کی طرف سے سستی ديکھانے کی صورت ميں چارپائی الٹا بھی ديتے تھے۔ ظہر کی نماز کے لئے شديد گرمی کے دنوں ميں جب سب لوگ گھر ميں آرام کر رہے ہوتے تو آپؓ نماز کے وقت کمرے کا دروازہ کھول ديتے تا کہ سب اٹھ کر نماز پڑھيں۔ بچوں کی تعليم و تربيت کے لئے تشحيذ الاذہان اور مصباح بھی گھر ميں لگوائے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا غلام رسول راجيکیؓ صاحب، حضرت حافظ مختار احمد شاہ جہاں پوریؓ صاحب اور جماعت کے ديگر بزرگ ہستيوں سے بچوں کو ملواتے۔ جلسہ سالانہ قاديان اور ربوہ کے موقعے پر بچوں کو ساتھ لے کر جاتےخصوصاً اپنی بڑی بيٹی ناصرہ بيگم صاحبہ کو۔ آپؓ بيٹوں سے زیادہ بيٹيوں سے پيار کرتے تھے۔

روٴيا و کشوف

آپؓ ايک صاحب روٴيا و کشوف بزرگ تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو اپنے والد محترم حضرت شيخ رحيم بخشؓ صاحب کی وفات کی خبر ايک خواب کے ذر يعے دی۔ آپؓ نے خواب ميں کہتے سنا:جب تک تيرا باپ سر پر تھا تيرے سر پر تاج تھا۔ صبح اٹھ کر ديکھا تو آپؓ کے والد صاحب کی وفات ہو چکی تھی۔

ايک روز آپ کے بڑے بيٹے محترم شيخ محمود احمد صاحب مرحوم جو فوج ميں سروس کرتے تھے نوکری چھوڑ کر گھر آ گئے۔ آپؓ نے رات کو خواب ميں ديکھا کہ ايک فقير گھر کے دروازے پر آيا ہے اور کہتا ہے کہ دو روپے دو کام ہو جائے گا۔آپؓ نے اسے دو روپے دے ديئے۔آپؓ کی يہ خواب اس طرح پوری ہوئی کہ جب صبح ہوئی تو ايک فقير دروازے پر آيا۔آپؓ نے خواب کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے دو روپے دے دئيے۔ چند دن کے بعد آپؓ کے بيٹے محترم شيخ محمود احمد صاحب کام کے سلسلے ميں منڈی بہاؤالدين گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے نوکری مل گئی۔

آپؓ نے ايک دفعہ خواب ميں ديکھا کہ آپؓ کے نام کا سائن بورڈ يورپ ميں لگا ہوا ہے۔ يہ خواب اللہ تعالیٰ کے فضل سےاس رنگ ميں پورا ہوا کہ آج آپؓ کی نسل نہ صرف يورپ کے کئی ممالک ميں بلکہ امريکہ اور کينيڈا ميں بھی پھيل گئی ہے جبکہ آپؓ کی زندگی ميں آپؓ کے بچوں ميں سے کوئی بھی ملک سے باہر نہيں گيا تھا۔

سچائی اور ايمانداری

آپؓ بات کے کھرے اور سچ بولنے والے تھے۔بعض مقدمات ميں وکيل کہتے کہ ذرا سی بات کو بدل کر بيان ديں مگر آپؓ ہميشہ کہتے کہ کيا جھوٹ کو کبھی پھل لگا ہے؟ اسے سہارا کوئی نہيں ديتا۔ آپؓ مقدمے ہار جاتے مگر ہميشہ سچ بولتے۔ گجرات شہر ميں آپؓ کی ايمانداری کی کافی شہرت تھی۔ شہر ميں غير از جماعت افراد جن کا تعلق کھوجے قوم سے تھا اپنے ذاتی کاروبار کا حساب کتاب آپؓ کے سپرد کيا ہوا تھا۔ ان کے کاروبار کے رجسٹر کھاتے سب کی نگرانی آپؓ کيا کرتے تھے۔آپؓ خود ان کے پاس نہيں جايا کرتے تھے بلکہ وہ خود آ کر آپؓ کے پاس اپنی فائليں چھوڑ جايا کرتے تھے۔ چونکہ آپؓ دل کے مريض تھے اور کچھ عرصے سے آپؓ کی بڑی بيٹی ناصرہ بيگم صاحبہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوابوں کے ذريعے آپؓ کی وفات کی مسلسل خبر يں مل رہی تھيں اس لئے انہوں نے آپؓ کو خوابوں کے بارے ميں بتائے بغير بڑے طريقے سے کاغذات کھوجے قوم کے افراد کو واپس کروائے اور يہ کام ختم کروايا۔

وفات

اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی بڑی بيٹی محترمہ ناصرہ بيگم صاحبہ کو تين خوابوں کے ذريعے آپؓ کی وفات کے متعلق خبر دی۔ پہلی بار آپ نے ديکھا کہ پانی کا نلکا ہے جو آپ چلا رہی ہيں کہ نلکے کا لمبا گز اوپر سے ٹوٹ گيا ہے اور آپ خواب ميں کہتی ہيں کہ والدہ صاحبہ (حسن آراء بيگم صاحبہ) کو اس کا بہت زیادہ غم ہو گا۔ پھر ديکھا کہ ايک جنازہ پڑا ہوا ہے اور اس کے اوپر سبز رنگ کا کپڑا پڑا ہوا ہے۔ مرحومہ دادی جان (غلام فاطمہ صاحبہ) جو وفات پا چکی تھيں اس جنازے کے پاس بيٹھی ہيں اور بہت خوش ہيں۔ايک عورت رحمت نامی پاس ہے اور پوچھتی ہيں کہ بہن تم اتنی خوش کيوں ہو؟ دادی جان کچھ بولتی نہيں مگر بہت خوش ہيں۔ پھر ديکھا کہ والدہ صاحبہ (حسن آراء بيگم صاحبہ) کے سر سے ڈوپٹہ اتر گيا ہے۔

حضرت شيخ عبدالغفورؓ صاحب کو دل کی تکليف کا عارضہ لاحق تھا اور آپؓ جانتے تھے کہ وفات کا وقت قريب ہے۔ مختصر سی علالت کے بعد آخر 12 جون 1970ء کو آپؓ اپنے مولا حقيقی سے جا ملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے از راہ شفقت آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپؓ کی وصيت تھی اس لئے قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ ربوہ ميں آپؓ کی تدفين ہوئی۔

آپؓ کی وفات پر مکرم سيد باغ علی شاہ صاحب سکنہ معين الدين پور ضلع گجرات تعزيت کے لئے تشريف لائے تو آپؓ کے متعلق فرمايا: وہ احمديت کا شير تھا۔ وہ اللہ سے دعائيں کرنے والا تھا اور جانتا تھا کہ کس طرح دعائيں قبول کروائے۔

آپؓ کی بيٹی محترمہ نصرت بيگم صاحبہ شادی کے بعد لاہور ميں رہائش پذير تھيں۔آپؓ کی وفات پر گھر سے ٹيلی گرام آيا کہ جلدی گھر پہنچو۔ آپؓ اپنی فیملی کے ساتھ گجرات پہنچيں اور جس ٹانگہ ميں سوار گھر کی جانب جا رہی تھيں جب وہ گھر والی سڑک کی طرف مڑا تو ٹانگے والے نے کہا کہ آج يہاں ايک بہت نيک انسان کی وفات ہوئی ہے اور اس طرح آپؓ کی بيٹی کو آپؓ کی وفات کا پتہ چل گيا۔ يوں شہر کے ايک غير از جماعت فرد نے بھی آپؓ کی نيکی کی تصديق کر دی۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؓ کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس ميں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپؓ کی نسلوں کو آپؓ کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے۔

(آمين ثم آمين)

(ڈاکٹر مبارز احمد ربانی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 نومبر 2022