• 26 اپریل, 2024

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی

تبرکات حضرت میر محمد اسحاق
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی۔
کفار کی طرف سے انتہا درجہ کی تکالیف
قسط نمبر 4

حضرت ابوبکرؓ رضی اللہ عنہ کا ذکر

گو وہ صحابہ جو حبشہ میں چلے گئے تھے مکہ کے کفارسے محفوظ ہو گئے تھے لیکن جو مکہ سے ہجرت کر کے نہ جا سکے یا نہ گئے وہ بدستور مکہ والوں کے ظلموں کا تختہ مشق بنے رہے۔ بخاری میں لکھا ہے کہ حبشہ کی ہجرت کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کے ارادہ سے مکہ سے نکل گئے۔ مگر راستہ میں قبیلہ قارہ کا رئیس ابن الدغنہ نام آپ سے ملا۔ اس نے کہا کہ ابوبکر کہاں جا رہے ہو۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا میری قوم مجھے میرے وطن میں خدا کی عبادت نہیں کرنے دیتی۔ اس لئے میں مکہ سے جاتا ہوں تاکہ دنیا میں گھوموں اور اپنے رب کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ اے ابوبکر! تیرے جیسے آدمی کو نہ تو خود اپنے وطن سے نکلنا چاہئے اور نہ لوگوں کو چاہئے کہ تجھے نکالیں۔ ابوبکر تُو تو بڑی خوبیوں والا آدمی ہے۔ میرے ساتھ واپس چل میں تجھے اپنے جوار یعنی پناہ میں رکھوں گا۔ اس پر وہ حضرت ابوبکرؓ کو لے کر واپس مکہ میں آیا اور لوگوں کو صحن کعبہ میں جمع کر کے کہا اِنَّ اَبَا بَکْرٍ لَا یَخْرُجُ مِثْلُہُ وَ لَایُخْرَجُ (صحیح بخاری کتاب الحوالات باب جوار ابی بکرٍ) یعنی اے میری قوم کے لوگو! ابوبکر تو اس شہر کی زینت اور فخر ہے۔ تم ایسے شخص کو اس کے اپنے وطن سے نکالتے ہو۔ اس پر لوگوں نے کہا اگر تو ابوبکر کو اپنی پناہ دیتا ہے تو ہم نے بھی تیری ذمہ داری پر ابوبکر کو پناہ دی۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر مکہ میں رہنے لگے۔ چند دنوں کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی زمین میں اپنے مکان کے ملحق ایک کوٹھری بنائی اور اس میں روز و شب نمازیں اور قرآن پڑھنے لگے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نہایت رقیق القلب تھے۔ جب قرآن پڑھتے تو زار زار رونے لگتے۔ چونکہ یہ کوٹھڑی برلب سڑک تھی اس لئے مشرکوں کے بچے اور عورتیں جمع ہو جاتے اور ان پر بقول مکہ کے کافروں کے نہایت بُرا اثر پڑنے لگا۔ وہ سب مل کر ابن الدغنہ کے پاس گئے اور اسے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ تو نے ابوبکر کو جو پناہ دی ہے اس میں رخنہ اندازی کریں اور ابوبکر کو تکلیف دے کر تجھے ذلیل کریں۔ اور نہ ہم ابوبکر کو یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ برلبِ سڑک قرآن پڑھے اور ہمارے بچوں اور عورتوں پر بد اثر ڈالے۔ ابن الدغنہ یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور کہا کہ ابوبکر مَیں نے تجھے پناہ دی تھی۔ اب نہ تو میں اپنی ذلت چاہتا ہوں کہ عرب میں یہ مشہور ہو کہ میں نے ایک شخص کو پناہ دی مگر میری قوم نے میری پناہ کو توڑ دیا اور اس شخص کو تکلیفیں دیں۔ اس لئے یا تو اپنے گھر کے اندرونی حصہ میں بیٹھ کر قرآن اور نمازیں ادا کر یا پھر میری ذمہ داری سے مجھے سبکدوش کر دے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے آج سے تجھے تیری ذمہ داری سے سبکدوش کیا اور میں نے اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری میں اپنے آپ کو داخل کیا۔ اس کے بعد پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کو تکلیفیں دی جانے لگیں۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام

ہجرت کے چھٹے سال حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضور علیہ السلام کے سگے چچا اور ایک فوجی طرز کے آزاد مزاج اور سارا دن شکار میں مشغول رہنے والے جوان تھے اسلام میں داخل ہوئے۔ اس طرح پر کہ ایک دن ان کی لونڈی نے کہا کہ آج تیرے بھتیجے محمد کو ابوجہل نے نہایت گندی گالیاں دی ہیں۔ حمزہ جوش میں آ گئے اور برسرِعام ابوجہل کے سر پر کمان ماری اور کہا کہ آج سے میں بھی محمد کے دین میں داخل ہوتا ہوں۔ اس طرح یہ فوجی مزاج بے پروا رئیس، دین برحق میں داخل ہوا اور جنگ اُحد میں اس کے رب نے اسے شہادت کی عزت دے کر اپنے مقربین میں داخل کیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام

حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے چند دنوں بعد مکہ کا ایک جبّار و قہار جوان جس کا غیظ و غضب مسلمانوں کے لئے وقف تھا اپنی کسی مخفی سعادت کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوا۔یہ جوان عمر بن خطاب تھا جو بعد میں اتنی ترقی کر گیا کہ آج ہر مسلمان کاسر اس کے احسانوں کے بوجھ سے جھکا ہوا ہے۔ بلکہ وہ نافرض شناس قوم جو اپنے آپ کو شیعہ کہتی ہے اور جس کا دن رات محبوب مشغلہ اُس کو گالیاں دینا ہے وہ بھی اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچے کہ وہ ایران جہاں شیعوں کی سلطنت ہے عمرؓ بن خطاب نے ہی فتح کیا تھا۔ جو آج ان کی سلطنت کا حصہ بنا ہوا ہے۔ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر حضور علیہ السلام کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلے کہ کسی نے کہا۔

خانہ اَتْ ویراں تو در فکر دگر

تیری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں۔ پہلے اپنے گھر کی خبر تو لے۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر آگ بگولا ہو گئے اور بہن کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ مکان پر پہنچے تو اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز سن لی۔ وہاں خبابؓ صحابی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ تو حضرت عمرؓ کی آواز سن کر اندر چھپ گئے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر داخل ہوئے تو کہا۔ میں نے سنا ہے کہ تم بھی اپنے دین سے پھر گئے ہو۔ یہ کہہ کر اپنے بہنوئی سعید بن زید کو مارنے لگے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ اپنے خاوند کو چھڑانے لگیں۔ تو ان کی انگلیاں زخمی ہو گئیں اور جب انگلیوں سے خون بہنے لگا تو وہ جو بظاہر جوشیلا مگر بباطن نہایت رقیق القلب تھا۔ نہایت متاثر ہوا اور لڑائی چھوڑ کر بہن سے کہنے لگا کہ مجھے وہ اوراق دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے۔ ان کی ہمشیرہ نے کہا پہلے نہا کر آؤ۔ پھر وہ اوراق میں تم کو دوں گی۔ حضرت عمرؓ اسی وقت نہائے۔ تب ان کی ہمشیرہ نے قرآن کے اوراق انہیں دیئے جو سورہ طٰہٰ پر مشتمل تھے۔ پڑھتے پڑھتے حضرت عمرؓ اس آیت پر پہنچے جس میں خداتعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت پر زور دیا گیا اور قیامت سے ڈرایا گیا ہے۔ تو وہ بے اختیار کہنے لگے کہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے۔ یہ سن کر حضرت خبابؓ جو اندر چھپے ہوئے تھے باہر نکل آئے اور کہا کہ تمہارا اسلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کا نتیجہ ہے۔ ابھی کل ہی حضور علیہ السلام یہ دعا مانگ رہے تھے کہ الٰہی عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام (یعنی ابوجہل) میں سے ایک تو مسلمان ہو جائے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی حالت میں تلوار پکڑ کر ارقم کی حویلی میں گئے۔ جہاں اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام معہ اور صحابہؓ کے کافروں کی شرارتوں کے خوف سے اندر سے کُنڈی لگا کر جمع تھے کہ حضرت عمرؓ نے دستک دی۔ صحابہؓ نے دروازہ کی دراز سے تلوار دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تامّل کیا۔ آخر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جرأت سے دروازہ کھولا گیا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر آ گئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کا کپڑا پکڑ کر کہا کہ عمرؓ! تو مجھے کب تک تکلیف دے گا؟

یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ حضور میں تو مسلمان ہونے کے لئے آیا ہوں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خوشی سے اللہ اکبر کہا۔ حضور کے ساتھ تمام مسلمانوں نے نعرئہ تکبیر بلند کیا اور مکہ کی تمام پہاڑیاں اس عظیم الشان شخص کے اسلام لانے کی خوشی میں گونج اُٹھیں۔

بخاری میں لکھا ہے کہ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں چار پانچ سال کا بچہ تھا کہ میں نے اپنے گھر کی چھت پر سے دیکھا کہ ہزاروں آدمیوں کا مجمع سیلاب کی طرح ہمارے گھر کے اردگرد جمع ہو رہا ہے اور سب کہہ رہے ہیں کہ صَبَا عُمَرُ صَبَا عُمَرُ۔ یعنی عمر صابی ہو گیا۔ عمر صابی ہو گیا۔ اتنے میں مکہ کا رئیس عاص بن وائل آیا اور کہا کہ کیا بات ہے؟ سب نے کہا۔ عمر صابی ہو گیا ہے۔ اس نے کہا۔ پھر تمہیں کیا؟ یہاں سے چلے جاؤ۔ میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ اس کے رعب سے سارا مجمع فوراً پراگندہ ہو گیا۔

حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہؓ کے اسلام لانے سے مخالفت اَور زیادہ بھڑک اُٹھی اور قریش کو اسلام کے متعلق سخت فکر دامنگیر ہوئی۔ اس پر انہوں نے عتبہ بن ربیعہ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بھیجا کہ کسی طرح وہ حضورؐ کو اشاعتِ اسلام سے روکے لیکن عتبہ ناکام ہوا بلکہ وہ خود حضور علیہ السلام کی باتوں سے متاثر ہو گیا۔

اکابرِ مکہ کی طرف سے پیشکش اور اُس کا انکار

آ خر قریش کے بڑے بڑے اکابر مثلاً ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، ابوجہل، امیہ بن خلف، عتبہ، شیبہ، ابو سفیان وغیرہ وغیرہ صحنِ کعبہ میں جمع ہوئے اور حضور علیہ السلام کو بُلوا بھیجا۔ جب حضورؐ تشریف لائے تو قریش نے سلسلۂ کلام یوں شروع کیا کہ اے محمد! اگر تیری ان تمام کوششوں کا یہ مقصد ہے کہ تو مالدار بن جائے تو ہم تجھے اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ تو سب سے زیادہ دولتمند ہو جائے گا اور اگر اس سے مقصد حصولِ جاہ و عزت ہے تو ہم تجھے اپنا رئیس اور بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہیں۔ اور اگر تو حسن و جمال کا بھوکا ہے تو ہم عرب کی سب سے حسین و جمیل عورت سے تیری شادی کرانے کےلئے تیار ہیں۔ لیکن اگر یہ تمام باتیں نہیں بلکہ تو کسی بیماری میں مبتلا ہے یا کوئی آسیب تجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے تو ہم اپنے پاس سے خرچ کر کے تیرا علاج کرا سکتے ہیں۔ حضورؐ نے کفار کی تمام تقریر خاموشی سے سنی اور فرمایا کہ اے قریش کے سردارو! مجھے نہ تو مال کی تمنا ہے اور نہ ہی اپنی عزت کی خواہش ہے۔ نہ ہی کسی کے حسن و جمال کا بھوکا ہوں اور نہ مجھے کوئی بیماری یا آسیب ہے بلکہ میں تو خدا کی طرف سے ایک رسول اور خدا کا پیغام لے کر تمہاری طرف آیا ہوں۔ اگر تم میری باتیں سنو گے اور ان پر عمل کرو گے تو تمہارا اپنا فائدہ ہے۔ اور اگر تم میری باتوں کو ردّ کرو گے تو میں خدا کے فیصلہ کا منتظر ہوں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کفار سے بحث

اس پر قریش کے رؤسا نے کہا کہ اچھا اگر تو خدا کا سچا نبی ہے تو ہمارے اس بے آب و گیاہ ملک کو دریاؤں، نہروں ، باغوں اور سرسبز کھیتوں سے بھر دے۔ حضورؐ نے فرمایا: میں خدا نہیں بلکہ خدا کا ایک بندہ ،ہاں اس کا رسول اور نبی ہوں۔ میرا کام تمہارے نفع اور نقصان پر تمہیں آگاہ کر دینا ہے۔

پھر قریش نے کہا کہ اگر تو نبی ہوتا تو سونے اور چاندی کے ڈھیر تیرے پاس ہوتے یا تیرے ہمراہ خدا کے فرشتوں کی فوجیں ہوتیں۔ مگر برخلاف اس کے تو اکیلا، تن تنہا بازاروں میں معمولی انسانوں کی طرح چلتا پھرتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: میں نے کب کہا تھا کہ میرے پاس سونے اور چاندی کے ڈھیر ہیں یا یہ کہ میرے ہمراہ فرشتوں کی فوجیں ہیں۔ میں تو محض خدا کا ایلچی اور قاصد ہوں۔ اگر تم میری باتوں پر ایمان لاؤ گے تو نفع پاؤ گے اور اگر انکار کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔ پھر قریش نے کہا کہ اگر تو خدا کا سچا نبی ہے تو ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ جا اور وہاں سے کوئی کتاب لا تاکہ ہمیں یقین ہو کہ تو واقع میں آسمان تک پہنچ گیا تھا۔ حضورؐ نے فرمایا: میں محض بشر رسول ہوں۔ یہ کام میرا نہیں۔

آخر تنگ آ کر کافروں نے کہا کہ اور کچھ نہیں تو عذاب ہی لا،جس کا تو نے ہم سے کئی دفعہ وعدہ کیا ہے۔ حضورؐنے فرمایا کہ عذاب کا لانا بھی میرے اختیار میں نہیں۔ یہ خدا کا کام ہے۔ اس پربحث ختم ہو گئی اور کافر غصہ اور حضور ؐمغموم دل سے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ حضورؐ کے واپس تشریف لانے کے بعد ابوجہل نے غصہ سے کہا کہ تم نے دیکھا کہ کس طرح محمد نے ہماری تمام تجاویز اور باتوں کو ٹھکرا دیا اور قبول نہ کیا۔ اب میں محمد کا سر کچلے بغیر نہ رہوں گا۔ دوسرے دن ابوجہل ایک بڑا سا پتھر لے کر کعبہ کے صحن میں کھڑا ہو کر حضورؐ کا ا نتظار کرنے لگا مگر جب حضور تشریف لائے تو اس پر ایسا رعب چھایا کہ حملہ نہ کر سکا۔ اس کے بعد کفار مخالفت میں زیادہ سے زیادہ تیزہوتے گئے۔

مقاطعہ کا معاہدہ

آخر نبوت کے ساتویں سال کے پہلے مہینہ یعنی محرم میں ایک باقاعدہ معاہدہ ہوا کہ کوئی شخص بنوہاشم اور بنومطلب سے نہ رشتہ کرے گا اور نہ ان سے خرید و فروخت کرے گا اور نہ ان سے کسی قسم کا کوئی تعلق رکھے گا۔ جب تک کہ وہ محمد کو ہمارے سپرد نہ کر دیں۔ اس معاہدہ میں علاوہ قریش کے، بنوکنانہ کے قبائل بھی شریک تھے اور سب رؤساء نے اس پر دستخط کئے اور یہ معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا۔

اس پر حضور علیہ السلام اور بنوہاشم یعنی آپ کے پڑدادا ہاشم کی اولاد اور بنومطلب یعنی آپ کے پڑداداہاشم کے بھائی مطلب کی اولاد، خواہ کافر ہوں خواہ مسلمان، سب کے سب شعب ابی طالب نام کے پہاڑیوں سے محصور ایک وادی میں محصور ہو گئے۔ سوائے حضورؐ کے سگے چچا ابولہب کے جو دشمنوں کے ساتھ مل گیا تھا،باقی سب یہاںمحصوررہے۔ یہ محاصرہ تین سال رہا۔ سوائے ایام حج اور حرام مہینوں کے حضورؐاور حضورؐ کے ساتھی باہر نہ نکل سکتے تھے اور کفار باہر سے کھانا پہنچنے نہ دیتے تھے۔ پس سوائے چھپ چھپا کے، باہر سے کچھ نہ پہنچ سکتا تھا۔ رات کو بنوہاشم کے بھوکے بچوں کے رونے کی آوازیں سن کر مکہ کے کفار خوش ہوتے تھے۔ حکیم بن حزام اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کے لئے خفیہ کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ جب ابوجہل کو پتہ لگا تو اس نے حکیم سے ہاتھا پائی تک نوبت پہنچائی۔

آخر اس سختی کو مکہ کے بعض شرفا گو کافر تھے، برداشت نہ کر سکے اور ابوجہل کی مخالفت کے باوجود مطعم بن عدی نے وہ عہدنامہ کعبہ سے اُتار کر پھاڑ دیا اور اس طرح اس محاصرہ کا خاتمہ ہو گیا۔

پے بہ پے صدمے

شعب ابی طالب کے محاصرہ کے بعد لگاتار ایک ہی سال میں یعنی نبوت کے دسویں سال، پہلے حضورؐ کے چچا ابو طالب نے وفات پائی اور چند دن بعد حضورؐ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا۔ افسوس ہےکہ ابوطالب اسلام لائے بغیر فوت ہوئے۔ ان دونوں کی زندگی میں خدا کی تائیدات کے علاوہ گھر کے اندر حضورؐ کی غم خوار خدیجہؓ تھیں اور گھر سے باہر حضورؐ کے چچا ابوطالب تھے۔ اس لئے ان دونوں غم خواروں کی جدائی کی وجہ سے حضور علیہ السلام نے اس سال کا نام عام الحُزن رکھا یعنی غموں کا سال۔

(روزنامہ الفضل قادیان 22جون 1939ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ